ہمارے ہاں لوگوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ وہ صحت کی طرف تب تک توجہ نہیں دیتے
جب تک بیماری انھیں چاروں طرف سے گھیر نہ لے۔ یا ان کے معمولاتِ زندگی بری طرح سے متاثر نہ کر دے۔
کچھ لوگ اسے مسلسل نظرانداز کرتے ہیں جبکہ بعض اس کا خیال تو رکھتے ہیں مگر ٹھیک طریقوں سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے من پسند نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔
صحت بخش خوراک صرف تب ہی فائدہ مند ہے جب وہ صاف ستھرے راستے سے گزر کر جسم تک پہنچے۔
مثال کے طور پر اگر دودھ، دہی، پھل، سبزیاں اور دالوں جیسی صحت بخش غذائیں استعمال کی جا رہی ہوں
مگر دانت میلے کچیلے اور جراثیم سے بھرپور ہوں تو یہ خوراک مفید ہونے کے باوجود جراثیم کے ساتھ
معدے تک پہنچے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ منہ کی صحت کو اوۤلین ترجیح دی جائے۔
ذیل میں اسی امر پر ضروری ہدایات فراہم کی جا رہی ہیں۔
پانی زیادہ پئیں:
گرمیوں میں منہ کی صحت بحال رکھنے کے لیے پانی زیادہ پینا چاہئیے کیونکہ خشک منہ بیکٹیریا کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ منہ میں تھوک بننے کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔
تھوک کا ایک اہم کام دانتوں کی بیرونی سطح کی مرمت کرنا اور ان کے اندر معدنی نمکیات محفوظ رکھنا ہے۔
مزید براں سانسوں کو تازہ اور دانتوں کو صحتمند رکھنے کے لیے بھی گرمی میں منہ کو خشک نہ ہونے دیں۔
برف کھانے سے پرہیز کریں:
گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی اور مشروبات پینا تو عام ہے لیکن اس موسم میں کئی لوگ
گرمی کا اثر بھگانے کے لیے برف بھی چبا جاتے ہیں۔
ایسے میں وقتی طور پر تو منہ ٹھنڈا ہو جاتا ہےلیکن دانتوں کی بیرونی سطح حساس ہو جاتی ہے
اور ٹھنڈا گرم زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
اس کے علاوہ دانتوں کا کوئی ٹکڑا ٹوٹ بھی جاتا ہے جو اس وقت تو پتا نہیں چلتا
لیکن بعد میں جب متاثرہ دانت پر زبان لگتی ہے تو اس کی سطح نوکیلی محسوس ہوتی ہے۔
ایک ہی وقت میں زیادہ ٹھنڈا(آئس کریم،مشروبات) اور گرم(چائے یا کافی) کا استعمال
نہ صرف دانتوں کو حساس بنا دیتا ہے
بلکہ منہ کے درجہ حرارت میں یک دم کمی یا زیادتی کے باعث دانتوں پر دراڑیں نظر آنے لگتی ہیں۔
یہ نہ صرف دیکھنے میں بدنما لگتیں بلکہ دانتوں کی کمزوری کا بھی باعث بنتی ہیں۔
ایسے میں ماہر دندان سے رابطہ کرنا چاہئیے تاکہ بروقت علاج ہو سکے۔
ڈبا بند مشروبات سے پرہیز:
گرمی کی شدت اور بدن کی حرارت کم کرنے کے لیےڈبا بند جوسز، کولا مشروبات اور
دیسی مشروبات کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔
اس سے وقتی طور پر تو گرمی کے اثر سے نجات مل جاتی ہے مگر ان میں موجود شکر
زیادہ دیر تک دانتوں پر جمی رہتی ہے۔
یہ بیکٹیریا کی افزائش میں بنیادی کردار ادا کرتی اور دانتوں میں کیڑا لگنے کے امکانات بھی بڑھا دیتی ہے۔
اس کے علاوہ ڈبا بند مصنوعات کو تادیر محفوظ رکھنے کے لیے ان میں کچھ خاص کیمیائی مادے ڈالے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان جوسز میں کھانے کے مصنوعی رنگ بھی ڈالے جاتے ہیں۔
یہ دانتوں پر نہ صرف داغ کی شکل میں رہ جاتے بلکہ ان کا قدرتی رنگ خراب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان مسائل سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پھلوں کا رس پینے کے بجائے پھل کھائیں۔
اگر جوس پینے کو دل چاہے تو تازہ جوس کو ترجیح دیں اور اس کے بعد کلی ضرور کریں۔
کھیلیں مگر احتیاط کے ساتھ:
گرمیوں میں دن بڑے ہونے کے باعث شام کے وقت آؤٹ ڈور گیمز مثلاً کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، والی بال وغیرہ کھیلے جاتے ہیں۔
اگر کھیلنے سے پہلے حفاظتی اقدامات نہ کیے جائیں تو دیگر حادثات کے علاوہ دانتوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان میں دانتوں کے فریکچر، دانتوں میں دراڑ آنا، دانت ازخود یا اس کا کوئی حصہ ٹوٹ جانا وغیرہ شامل ہیں۔
اس لیے بہتر ہے کہ ہیلمٹ اور دانتوں کی حفاظت کے لیے ماؤتھ گارڈز وغیرہ لگائے جائیں۔
کھیلیں ضرور مگر ان حادثات سے بچاؤ کے لیے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ جسم کی
صحت کے ساتھ دانت بھی محفوظ رہیں۔
دانتوں کی صفائی:
گرمیوں میں کئی لوگ مسوڑھوں میں درد ، سوجن اور ان سے خون آنے کی شکایت کرتے ہیں۔
انھیں منہ کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئیے۔مناسب برشنگ دانتوں اور مسوڑھوں پر
لگے کھانے کے ذرات ہٹا کر انھیں پلاک ( plaque) بننے سے بچاتی ہے۔
امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن کے مطابق نرم ریشوں والے برش سے دن میں دومرتبہ دانتوں کی صفائی بےحد ضروری ہے۔ برش اپنے سائز اور لچک کے حساب سے موزوں ہونا چاہئیے
تاکہ وہ بآسانی منہ کے تمام حصوں تک پہنچ سکے۔
اکثر لوگ صبح اُٹھ کر دانت صاف کرتے ہیں جبکہ دانت برش کرنے کا بہترین وقت رات کا ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب منہ میں تھوک کم ہوتی ہے اور رات کا کھانا بھی دانتوں سو جاتے ہیںمیں لگا ہوتا ہے۔
جب ہم برش کیے بغیر سو جاتے ہیں تو جراثیم کو اپنا کام دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔
صبح کے وقت محض کلی کر کے ناشتا کرنا کافی ہے جس کے بعد دانت صاف کیے جائیں تاکہ دن بھر ہمارا منہ صاف ستھرا اور جراثیم سے پاک رہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صرف دانتوں کو برش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور منہ کے باقی حصوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ہمارے مسوڑھوں اور زبان پر کئی طرح کے جراثیم ہوتے ہیں جن کی صفائی کے بغیر منہ کی صفائی کو مکمل نہیں کہا جا سکتا۔
زبان کی بالائی سطح پر باریک دانے ہوتے ہیں جو اسے کھردری ساخت دینے کلے علاوہ چکھنے کی حس بھی رکھتے ہیں۔ کھانوں کے ذرات اس تہہ کو ڈھانپ دیتے ہیں۔
اس کی وجہ سے منی سے بدبو آنے، ذائقے کی حس متاثر ہونے اور منہ میں جراثیم رہ جانے جیسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے ہرت بار جب بھی دانت صاف کیے جائیں تو زبان کی بھی اچھی طرح سے صفائی کی جائے۔
برش کو ہر تین سے چار ماہ بعد تبدیل کرنا چاہئیے۔اس لیے کہ زیادہ رگڑے جانے کی صورت میں
جب اس کے ریشے خراب ہو جائیں تو منہ کی صفائی ٹھیک سے نہیں ہو پاتی۔
برش کے بعد اپنے مسوڑھوں کا ایک منٹ تک انگلی سے مساج کریں۔
اس سے مسوڑھوں میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے اور انفیکشن کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
دانت اور وٹامن سی:
دانتوں کی صحت اور قوت مدافعت بڑھانے کے لیے وٹامن سی سے بھرپور غذا کھائیں۔
گرمیوں کے پھل مثلاً آم، اسٹرابیری، خربوزہ اور لیموں وغیرہ میں اس کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔
ایسے پھل کھانے سے مسوڑھوں سے خون آنا بند ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ سرخ اور صحتمند نظر آتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ منہ کی صفائی محض دمکتے دانتوں اور دلکش مسکراہٹ کے لیے ہی ضروری نہیں
بلکہ یہ ہمیں دیگر بہت سے مسائل سے بھی بچاتی ہے۔