26 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

خدیجہ خاتون

خدیجہ خاتون

شکیل احمد چوہان 

خاتون! آپ کی ضد کی وجہ سے میرا گھر ٹوٹ جائے گا۔ اب آپ میری خاطر اتنا بھی نہیں کر سکتیں۔
حمیرا  نے ترش لہجے میں خدیجہ خاتون کو مخاطب کیا۔ خدیجہ خاتون کا اصل نام خدیجہ خاور ہوا کرتا تھا۔ اب چھوٹوں کے لیے وہ خاتون اور خود سے بڑوں کی خدیجہ خاتون ہیں۔
خدیجہ خاتون نے وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی شمع کی طرف مشاورتی نظر ڈالی۔ شمع نے گردن کو نفی میں ہلا دیا۔ خدیجہ خاتون نے صوفے سے اٹھتے ہوئے بتایا۔
کالج کی چھٹی کا وقت ہو گیا ہے۔ خدیجہ خاتون کمرے سے چلی گئیں۔ حمیرا  نے غصے سے شمع کی طرف دیکھا پھر وہ بھی پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
تقریباً ڈیڑھ سال پہلے خدیجہ خاتون  نے حمیرا کی پسند سے اس کی شادی کروائی۔ حمیرا کے سسرالیوں  نے منہ کھول کر جہیز مانگا۔ خدیجہ خاتون نے حمیرا کی خوشی کی خاطر اس کے سسرالیوں کی ہر فرمائش پوری کی۔ شادی کے چھے ماہ بعد حمیرا کے شوہر واجد  نے موٹرسائیکل کی فرمائش کر دی۔
شمع کی مخالفت کے باوجود خدیجہ خاتون نے واجد کو موٹرسائیکل بھی خرید کر دے دی۔ اب واجد گاڑی مانگ رہا ہے۔ دو دن پہلے اس بات کو لے کر واجد اور خدیجہ خاتون میں بحث ہوئی، بحث نے شدت اختیار کی تو واجد  نے حمیرا کو طلاق دینے کی دھمکی دے ڈالی۔
واجد کے منہ سے طلاق کا لفظ سنتے ہی خدیجہ خاتون نے واجد کے گال پر تھپڑ دے مارا۔ اب واجد یہ کہتا ہے کہ جب تک خدیجہ خاتون اسے گاڑی دینے کے ساتھ ساتھ اس سے ہاتھ جوڑ کر معافی نہیں مانگتی، وہ حمیرا اور اپنی ڈیڑھ ماہ کی بیٹی کو اپنے ساتھ اپنے گھر نہیں لے جائے گا۔
سالوں پہلے خدیجہ خاتون اور شمع کے شوہروں کا انتقال ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہوا۔ شمع کی دونوں ٹانگیں اسی حادثے میں کٹ گئیں۔ شمع وئیل چیئر پر جا بیٹھی اور خدیجہ خاتون کالج وین کی ڈرائیونگ سیٹ پر… خدیجہ خاتون کا شوہر کالج کی لڑکیوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت مہیا کرتا تھا۔ خدیجہ خاتون ابھی عدت میں ہی تھی کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی۔
خدیجہ خاتون نے دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اللہ سے معافی مانگی اور اپنی عدت پوری ہونے سے پہلے ہی اپنے شوہر کی کالج وین چلانے لگی۔
شروع شروع میں لوگوں نے ان کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ان پر شدید تنقید بھی کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنقید نے تعریف کی شکل اختیار کر لی۔ خدیجہ خاتون نے اپنی دن رات کی محنت سے پہلے اپنے شوہر کی پرانی گاڑی کو نئی میں بدلا، پھر ایک گاڑی سے تین اور گاڑیاں خریدیں اور ان گاڑیوں میں خواتین کو ہی ڈرائیور رکھا۔
اب عالم یہ ہے کہ سارے علاقے کے لوگ مرد ڈرائیور حضرات کی جگہ اپنی بیٹیوں کو خدیجہ خاتون کی گاڑیوں میں ہی اسکول، کالج بھیجتے ہیں۔
پورے علاقے میں خدیجہ خاتون کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خدیجہ خاتون نے حمیرا، سائرہ اور شاداب کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ سائرہ ایک سافٹ ویئر ہائوس میں نوکری کر رہی ہے، جب کہ شاداب یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔
٭
خدیجہ خاتون کالج کی لڑکیوں کو ڈراپ کرنے کے بعد جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئی، شمع نے بلبلاتے ہوئے اسے بتایا
’’خاتون! حمیرا  نے خودکشی کر لی ہے۔ شاداب اسے ہسپتال لے کر گیا ہے۔‘‘
خدیجہ خاتون نے چشمِ حیرت سے شمع کی طرف دیکھا، یکایک خدیجہ خاتون کی آنکھوں میں تاریکیاں اتر آئیں، اس نے کپکپاتی آواز میں پوچھا
کس ہاسپٹل میں؟‘‘ اس سے پہلے کہ شمع جواب دیتی حمیرا کی ڈیڑھ ماہ کی بچی نے رونا شروع کر دیا۔
خدیجہ خاتون نے جھولے میں سے بچی کو اٹھا کر وئیل چیئر پر بیٹھی ہوئی شمع کی گود میں ڈالتے ہوئے تسلی بخش انداز میں کہا
تم اس کا خیال رکھو۔ انشا اللہ حمیرا کو کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
خدیجہ خاتون شاداب کو فون ملاتے ہوئے اپنی وین کی طرف بھاگی۔
باپ مر جائے تو ماں خود رو دھو لیتی ہے، مگر اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیتی اور اگر ماں مر جائے تو باپ سے بچوں کے آنسو خشک ہی نہیں ہوتے۔‘‘ خدیجہ خاتون وین چلاتے ہوئے خودکلامی کر رہی تھی۔
حمیرا! میرے مولا نے چاہا تو میں تمہیں مرنے نہیں دوں گی۔ ہسپتال کی پارکنگ میں وین کھڑی کرتے ہوئے خدیجہ نے اپنے ارادے ظاہر کیے۔
٭
’’تمہارا تو بلڈ گروپ ہی نہیں مل رہا تھا اگر خاتون تمہیں خون نہ دیتیں تو پتا نہیں کیا ہوتا؟‘‘
حمیرا کو سائرہ بتا رہی تھی، اسی وقت شاداب اور خدیجہ خاتون روم میں داخل ہوئے۔ شاداب نے آتے ہی تیکھے لہجے میں پوچھا
’’اپنی کلائی کیوں کاٹی؟‘‘
’’خاتون کی وجہ سے مجھے طلاق ہو رہی ہے۔‘‘ حمیرا نے خدیجہ خاتون کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔
سائرہ نے کشیدہ صورتحال دیکھتے ہوئے جلدی سے بات بدلی
’’حمیرا! کیا کھاؤ گی؟‘‘
زہر۔ حمیرا نے سیخ پا ہوتے ہوئے بتایا۔ شاداب نے سرد آہ اندر کو کھینچتے ہوئے کہا
’’اب بھی؟‘‘
تو کیا کروں؟ اس کی وجہ سے میرا گھر ٹوٹ رہا ہے۔‘‘ آبدیدہ ہوتے ہوئے حمیرا نے بڑے تضحیک آمیز لہجے میں خدیجہ خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
آناً فاناً سائرہ اور شاداب کے چہروں کی رنگت بدل گئی۔ سائرہ  نے لمحہ بھر شاداب کی طرف دیکھا پھر بڑی درشتی سے کہنے لگی
’’حمیرا! تمیز سے یہ ماں ہیں ہماری!‘‘
بانجھ عورت بھی کبھی ماں بن سکتی ہے کیا؟‘‘ حمیرہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
’’تمہیں کس نے کہہ دیا صرف جنم دینے والی ہی ماں ہوتی ہے۔‘‘
شاداب نے بڑی بہن کا ادب آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے حمیرا کو مخاطب کیا۔ اس کی بات کاٹتے ہوئے گرجتی آواز میں سائرہ بھی بول پڑی
یہ بانجھ ہو کر بھی ماں ہیں اور تم ماں ہو کر بھی ماں نہیں۔ جانتی بھی ہو۔ ماں کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ماں کا مطلب ہے خدیجہ اور خدیجہ کا مطلب ہے ماں۔ سراپا محبت ہیں یہ۔ تم کیا ہو؟
اس سے پہلے کہ سائرہ کچھ اور کہتی خدیجہ خاتون نے جلدی سے آگے بڑھ کر سائرہ کے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی رکھ دی۔ سائرہ جلدی سے ان سے لپٹ گئی۔ شاداب نے تحسین آمیز نظروں سے خدیجہ خاتون کی طرف دیکھا۔
تم دونوں گھر جاؤ۔ خدیجہ خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں حکم دیا۔
سائرہ اور شاداب نے پرائی نظروں سے حمیرہ کی طرف دیکھا اور روم سے نکل گئے۔
ان کے جانے کے بعد خدیجہ خاتون نے محبت بھری نگاہ حمیرا کے مکھڑے پر ڈالی اور اس کے پاس بیٹھ گئیں پھر شفقت سے حمیرا کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور گویا ہوئیں
حمیرا بیٹی! تمہارے تایا اور ابا کے گزر جانے کے بعد مجھے ان کی جگہ لینی پڑی۔ میں تم لوگوں کی کفالت تو کرتی رہی مگر تربیت نا کر سکی۔ تربیت کرنا مشکل ہے کفالت کرنے سے۔ شاید اسی لیے ماں کے ذمے تربیت ہے اور باپ کے کفالت… وقت پڑنے پر اچھی مائیں بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ کفالت بھی کر لیتی ہیں مگر میں تو ماں ہی نہیں ہوں۔
خدیجہ خاتون کی آواز حلق میں ہی گم ہو گی۔ چند منٹ روم میں سناٹا گونجتا رہا۔ حمیرا گردن جھکائے بیٹھی ہوئی تھی پھر اس نے خدیجہ خاتون کے رخسار پر نظر ڈالی جہاں پر اشک رقص کر رہے تھے۔ حمیرا  نے ہمت کر کے خدیجہ خاتون کے گالوں سے آنسو صاف کیے اور ندامت میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہنے لگی
خاتون مجھے معاف کر دیں۔ خدیجہ خاتون نے حمیرا کو سینے سے لگا لیا۔ حمیرا سینے سے لگے لگے ہی گیلی آواز میں کہنے لگی
’’لگتا ہے آپ نے مجھے معاف نہیں کیا؟‘‘
میں تم سے ناراض ہی کب تھی؟ خدیجہ خاتون نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ اور کہتے کہتے رک گئیں۔ حمیرا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ خدیجہ خاتون اور بھی کچھ کہنا چاہتی ہیں۔
’’آپ کیا کہنے لگی تھیں؟‘‘
ایک بیٹی کی ماں ہو۔ کل کو اگر تمہارا داماد تمہاری بیٹی کے ذریعے تم سے اپنی فرمائش پوری کروانے لگے تو کیسا لگے گا تمہیں؟‘‘ خدیجہ خاتون کی بات سنتے ہی حمیرا سوچ میں ڈوب گئی۔
واجد کے ہاتھ پھیلانے سے تمہاری عزت کم ہوتی ہے۔ مرد ہاتھ پھیلا دے تو وہ مرد نہیں رہتا اور عورت عزت گنوا دے تو وہ عورت نہیں رہتی۔‘‘ خدیجہ خاتون کی یہ بات سننے کے بعد حمیرا کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ وہ فخریہ لہجے میں بولی
’’آپ سے اچھی تربیت کون سی ماں کر سکتی ہے ؟ خدیجہ خاتون۔‘‘

…٭…

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles