مُنڈا فُل شریف اَے
شکیل احمد چوہان
’’مُنڈا فُل شریف اَے آپا جی کبرانے(گھبرانے) کی گل کوئی نی۔۔۔‘‘
حلیمہ نے بڑی حلیمی سے اپنے بیٹے محبوب عرف مٹھّو کی تعریف میں لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا۔ بھاشن کیوں نہ دیتی مٹھّو کی ہونے والے سسرال میں عزت کا سوال تھا۔
بہن بُرا نہ منانا. میں نے سُنا ہے تمھارے بیٹے کے لچھن ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘ بشیراں، لڑکی کی ماں نے مٹھّو کے بارے میں ایک اور بشارت سُنا دی۔ رانی نے ترچھی نظر سے بشیراں کو دیکھا۔ غصہ تو اُسے بہت آیا تھا پر بھائی کے رشتے کی خاطر پی گئی۔ وہ جبری تبسم ہونٹوں پے سجا کے بولی۔
ماسی بشیراں! بھائی میرے کی منگیتر مینا منگنی سے اگلے دن کرنٹ لگنے سے مر گئی۔ اُس کی لکھی ہی ایسے تھی۔ اِس میں بھائی کے لچھن کیسے خراب ہو گئے۔ ماں میری چِٹے چاٹّے (سفید بالوں) کے ساتھ جھوٹ تھوڑی بولے گی۔ اُس نے تم لوگوں کو یقین تو دلایا ہے کہ ’’مُنڈا فُل شریف اَے۔‘‘ تم لوگوں کو ماں میری کی بات پر یقین کرنا چاہیے۔
یقین ہے تو ہم شگن ڈالنے کے لیے آ گئے ہیں نا۔۔۔
لڑکی کی ماسی نظیراں نے اپنی بطخ سی آواز میں خوشی کی خبر سُنائی ۔ یہ سُنتے ہی مٹھّو کی ماں اور بہنوں کی باچھیں کھل گئیں۔
جلدی بلائیں جی اپنے بیٹے کو۔ ہم نے کامونکی واپس بھی جانا ہے۔۔۔ نیرا (اندھیرا) پڑ رہا ہے۔ لڑکی کا باپ مشتاق موٹا پکوڑے کھاتے ہوئے بولا۔ حلیمہ نے اپنی بیٹیوں کو اکھیوں ہی اکھیوں میں پوچھا۔ جب خالی آنکھوں میں کوئی جواب نہ پڑھ سکی تو خود ہی بتیسی نکال کر طوطا کہانی سنانے لگی
’’مٹھّو دربار پر سلام کرنے گیا ہے۔ میں نے فون کر دیا ہے۔ بس آتا ہی ہو گا۔‘‘
دھماکے سے دروازہ کھلا، ایک لڑکا پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بیٹھے ہوئے مہمانوں سے بے نیاز آ کر ریڈیو کے آر جے کی طرح نان سٹاپ بولنا شروع کر دیتا ہے
چاچی! مٹھّو ، بلّو کے گھر سے ٹُن ہو کر سنوکر پر آیا اور آتے ہی میچ پر جواً لگا دیا۔ پولیس کی ریڈ پڑی وہ مٹھّو کو اُٹھا کر لے گئی ہے۔۔۔ چاچی کچھ کر لے۔ دودھ مکھن، لسی ، جو بھی بھیجنا ہے جلدی جلدی بھیج دے۔۔۔ سُنا ہے یہ تھانیدار بڑا ہی ڈاہڈہ ہے۔ اگر تو نے دیر کی تو اُس نے مٹھّو کی چھترول کر دینی ہے۔‘‘ چھادو نے سانس لی تو نظیراں نے فٹ سے پوچھا
’’یہ بلّو کون ہے۔‘‘
بلّو۔۔۔ مٹھّو بھائی کی معشوق ۔ چھادو نے بغیر تاخیر کے اگلی خبر بھی سنا دی ۔
لکھ دی لعنت چھادو تیری منحوس شکل تے۔ مٹھّو کی بڑی بہن رانی نے کسی اتھری عورت کی طرح چھادو کو ڈانٹا۔ چھادو رانی کو اچھی طرح سے جانتا تھا اگر وہ چند لمحے وہاں رُک جاتا ،مٹھّو تو تھانیدار کی چھترول سے بچ ہی جاتا مگر چھادو کی رانی کے ہاتھوں دھلائی 100 % کنفرم تھی۔
بشیراں نے اپنے شوہر کو اُٹھنے کے لیے کہنی ماری۔ مشتاق موٹے نے اُٹھتے اُٹھتے بھی پلیٹ میں بچے ہوئے دو پکوڑوں کو ختم کرنا اپنا فرض سمجھا۔ لڑکی والے بیٹھے ہوئے تھے ، جو سب اُٹھ گئے۔
’’ہم چلتے ہیں۔۔۔ بشیراں تلخ لہجے میں بولی۔
رانی نے بشیراں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔ نظیراں مٹھّو کی بہنوں رانی اور دانی کے تیور بھانپ گئی تھی۔ مشتاق موٹے کی نظریں اپنی ہی دنیا میں مست تھیں۔ بسکٹ اور پکوڑوں کی پلیٹیں خالی ہو چکی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا۔ پلیٹ میں پڑی ہوئی اِس تھوڑی سی نمکو کا کیا قصور ہے۔ اِسے بھی محفوظ مقام پر پہنچا دوں ورنہ یہ باہر پڑی پڑی سلّی ہو جائے گی۔
ہم یہ رشتہ پکا ہی سمجھیں نا۔۔۔ دانی نے بشیراں اور نظیراں پر جانچتی نگاہ ڈالی وہ بھی مشتاق موٹے کو اپنے قبیلے ہی سے سمجھ بیٹھی تھی۔
پکا۔۔۔؟بشیراں پھٹ پڑی۔
نظیراں نے اپنی نظروں کا سہارا لے کر بشیراں کو چُپ رہنے کا ایسے سگنل دیا، جیسے موبائل تک موبائل کمپنی کے سگنل بغیر نظر آئے پہنچ جاتے ہیں۔
پکا جی پکا۔۔۔ جیسے ہی مٹھّو پُتر تھانے سے چھوٹتا ہے۔ آپ ہمیں خبر بجھوا دیں ہم شگن ڈالنے پہنچ جائیں گے۔
نظیراں کی خرخراہٹ سے بھرپور آواز میں نہ جانے کہاں سے نصیبو لال جیسے سُر فٹ سے آ گئے تھے۔ اِس گفت و شنید کے دُوران مشتاق موٹے نے اپنا ادھورا مشن پورا کر دیا تھا۔ پلیٹ میں بچی ہوئی نمکو اپنے ساتھیوں تک پہنچ چکی تھی۔ لڑکی کے گھر والوں نے پتلی گلی پکڑی۔
بڑے ہی چنگے (اچھے) لوگ ہیں۔ حلیمہ نے لڑکی کے گھر والوں کے جانے کے بعد اُن کی شان میں تعریفی کلمات ادا کیے۔
ماںتیری تو ماری گئی ہے مت۔۔۔ رانی نے خفگی سے کہا۔ دانی نے یک لخت پوچھا
’’کیوں کیا ہوا۔۔۔رشتہ تو ہو گیا ہے۔‘‘
دانی لسّی کم پیا کر۔۔۔ڈرم ہی بنتی جا رہی ہے۔۔۔مٹھّو کا ہو نہیں رہا۔۔۔تیرا رشتہ کہاں سے ڈھونڈوں گی۔
رانی یہ بول کر وہاں سے چلی گئی ۔
اب کھانا پینا بھی چھوڑ دوں۔ دانی معصومیت سے بولی۔
٭
شاہدرہ جو کبھی شاہوں کا در ہوا کرتا تھا، اب گوالوں کا گڑ ہے۔ چوہدری مکھن اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ چھوٹی عمر میں حلیمہ سے شادی ہو گئی اور جلد ہی گھر کی آبادی بھی بڑھ گئی۔ چند سال میں تین بچے بھی ہو گئے ۔
چوہدری مکھن اپنے نام کی مناسبت سے مکھن کا بہت شوقین تھا۔ ڈاکٹروں کے کہنے کے باوجود مکھن نے مکھن نہیں چھوڑا، اس لئے دنیا ہی چھوڑ گیا۔
حلیمہ نے مکھن کے اگلے جہان سُدھارنے کے بعد اپنے میکے نارنگ منڈی میں رانی کی شادی کر دی۔ رانی کی شادی کو چند روز ہی گزرے تھے۔ اُس کے خاوند اکمل نے رانی کو کسی بات پر ڈانٹا۔ اُدھر اکمل نے ڈانٹا اور اِدھر رانی نے اُٹھایا شانٹا اور مار مار کر اکمل کو بنا ڈالا کھٹمل۔ اکمل ہو گیا چقندر کی طرح لال۔۔ اکمل کہنے لگا
رانی بی بی تو ڈاہڈی میں ماڑا۔۔۔میں نارنگ کا ملنگ اور تو شاہدرہ کی رانی۔۔۔تیری میری کہانی آگے نہیں چل سکتی رانی ۔۔۔ تیری بڑی مہربانی۔۔۔ یہ پکڑ اپنا حق مہر اور میرے گھر سے اُٹھا اپنا قہر۔۔۔رہا لخط (طلاق) کا سوال، وہ کرتا ہوں ایک دو دن میں ارسال۔ تو رکھ اپنے گھر والوں کا خیال اور اپنے ابّے کی سو بھینسیں سنبھال۔
یہ تھی رانی کی کہانی۔۔۔ اب باری آتی ہے دانی کی ۔۔۔ نام ہی سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا۔۔۔ چوہدری مکھن کی سب سے چھوٹی نشانی جسے لوگ کہتے ہیں دانی۔۔۔دانی کا اردو میں مطلب ہے سیانی۔۔۔پر ایسی دانی میں کوئی بات نہیں تھی۔۔۔ دانی کی عمر تو تھی صرف سولہ پر اُسے دیکھ کر پڑ جاتا تھا رولہ۔۔۔ عورتیں اُسے دیکھ کر کہتیں ہائے ہائے یہ لڑکی ہے یا ٹرالی۔۔۔دانی کے سامنے دوسری لڑکیاں لگتی تھیں ہلکی پھلکی بس خالی خالی ۔۔۔
اب آتے ہیں اِس کے گھر کے منجھلے سلطان یعنی مٹھّو پہلوان کی طرف۔۔۔آپ سوچ رہے ہوں گے یہ مٹھّو کے ساتھ پہلوان کون ہے۔۔۔؟ یہ ایک ہی مابدولت ہیں ، گھر والے پیار سے مٹھّو کہتے ہیں اور یار دوست احترام میں پہلوان۔۔۔لنگوٹ اور کھاڑے کو زندگی میں نہیں دیکھا پھر بھی پہلوان ہی ہیں۔
اگر لاہوری ایکسنٹ میں کہا جائے تو پہلے آپ کو اپنے ہونٹ ڈھیلے کرنے پڑیں گے پھر تھوڑا سا گڑ کھانا پڑے گا۔ گڑ نہیں ہے تو چینی بھی چلے گی۔ زبان میٹھی ہو گی۔ اب ڈھیلے ہونٹوں کے ساتھ بولیں ’’شزادہ پلوان‘‘ اب آپ نے کوریکٹ لاہوری ایکسنٹ پکڑا ہے۔
ایکسنٹ کو ماریں جی گولی ہم واپس آتے ہیں اپنی اسٹوری کی طرف۔۔۔ مٹھّو سے دانی چار سال چھوٹی تھی اور رانی اُس سے تین سال بڑی۔
سو بھینسوں کی دیکھ بھال تو کامے ہی کرتے ہیں، پر اُن سب کی نگرانی رانی میڈم ہی کی ذمہ داری ہے۔
اِس گھر میں مردوں کا ہے کال ۔۔۔اِس لیے مٹھّو اِس گھر کا ہے لعل ۔ آپ کو پتا ہی ہے رانی نے لے لی تھی طلاق۔۔۔ اب وہ ہے مشتاق۔۔۔
مشتاق کس چیز کی۔۔۔؟ آپ کے ذہن میں سوال اُٹھا ہو گا۔ بتاتا ہوں۔۔۔ وہ دیکھنا چاہتی ہے مٹھّو کے چہرے پر لڑیاں۔۔۔ مگر وہ آ نہیں رہی ہیں گھڑیاں، اب سوال اُٹھتا ہے کیوں۔۔۔؟
رانی جہاں بھی مٹھّو کے رشتے کی بات چلاتی ہے۔ مٹھّو کے رشتے سے پہلے اُس کی شہرت وہاں پہنچ جاتی ہے۔ شہرت۔۔۔ کیسی شہرت۔۔۔ چھادو نے آپ کو شروع میں مٹھّو کی شخصیت کا تھوڑا سا تعارف کروایا تو تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے، سب کا تھوڑا تھوڑا تعارف ہو گیا، یہ بلّو کون ہے۔۔۔؟
بلّو مٹھّو کی محبوبہ گڑوی والی ہے۔ خاوند مر گیا تھا ۔ مٹھّو نے مکان کرائے پر لے کر وہاں بلّو کو رکھا ہوا ہے۔ بلّو کا اُس کے قبیلے نے کر دیا ہے بائیکاٹ، کیونکہ بلّو نے قبیلے کے رولز کی وایلیشن کی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں مٹھّو نے بلّو کے ساتھ نکاح کر لیا ہے اور کچھ کہتے ہیں ایسے ہی افواہ ہے۔ کہانی تو گُپت ہے جی۔ اُس کا مجھے بھی نہیں پتا۔
اب حلیمہ اور رانی مٹھّو کی کرنا چاہتی ہیں شادی جس پر مٹھّو نہیں ہو تا راضی۔
’’شادی کیسے ہو گی۔۔۔؟ مٹھّو تو اندر ہے۔‘‘ آپ نے یہی سوچا ہو گا ۔۔۔نا۔
رانی کی حویلی کے پیچھے ہی پولیس کی چوکی ، چوکی کے اندر پانچ کلو مکھن اور دس کلو دودھ جاتا ہے اور مٹھّو باہر آ جاتا ہے۔ پولیس والے بھی ہیں بڑے سیانے۔ وہ مٹھّو کو اندر کرنے کے ڈھونڈتے رہتے ہیں بہانے۔ اگر کسی پولیس والے کی بیوی کو پڑنا ہو چھِلہ تو اُن کا مٹھّو سے بڑ جاتا ہے گلہ۔ پولیس والے مٹھّو پر بناتے ہیں کیس بہترین تو ساتھ ہی چوکی میں آجاتا ہے دیسی گھی کا ٹین ، خیر پولیس والوں کو بھی دفع کریں جی۔ اب تو اُن کا بھی بدل گیا ہے یونیفارم، شاید اِس سے ہی بن جائے عوام کا کام ۔مٹھّو آ گیا جی باہر ۔رانی کی نیت ہے آپ سب پر ظاہر۔ وہ ہر حال میں کرنا چاہتی ہے مٹھّو کی شادی ۔چاہے ہو جائے اُس سے کسی کی بیٹی کی بربادی۔
اب ذہن میں آتا ہے یہ خیال کس طرح کسی کی بیٹی کے گلے پڑے گا مکھن کا لعل۔ لعل اپنا مٹھّو جی۔
رانی ایک دن اُڑا رہی تھی پتنگ۔ اُسے کسی نے بتایا ایک رشتہ ہے جھنگ۔
رانی نے حلیمہ کو لیا سنگ اور رشتہ کرنے پہنچی جھنگ۔
٭
’’مُنڈا فُل شریف اَے۔۔۔‘‘ حلیمہ نے مٹھّو کی تعریفوں والا فولڈر کھولا ہی تھا کہ فٹ سے لڑکی کی ماں عطیہ بول پڑی
حلیمہ باجی! تمھارا بیٹا شریف ہے تو میری بیٹی شریفاں۔۔۔جوڑی نمبر ون ہے جی۔ میں تو پروین کا دین نہیں دے سکتی جو آپ لوگوں کو یہاں لے آئی ہے۔ عطیہ نے اپنی نند پروین کا گھٹنا دباتے ہوئے اُس کا شکریہ ادا کیا۔ سمجھ یہ نہیں آ رہا عطیہ پروین کے اتنے گُن کیوں گا رہی ہے۔ مٹھّو کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں، جو پروین ہی کو نظر آئے ہیں۔ شاید پروین بھی مٹھّو کو ماں کی ہی آنکھ سے دیکھ رہی تھی اسی لیے اُس کے نزدیک بھی مُنڈا فُل شریف اَے۔
ہمیں تو فری پسند ہے آپ بھی آ کر مٹھّو کو دیکھ لیں۔ رانی نے فری پر نظریں ٹکاتے ہوئے کہا ۔
’’لڑکی کی پھوپھی نے لڑکے کو دیکھا ہوا ہے۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں واٹس اپ۔‘‘
واٹس ایپ۔ فری نے لاج شرم کو وقتی طور پر رکھا سائیڈ پر اور اپنی ماں کو صحیح لفظ بتا کر پھر سے شرمانے لگی۔
’’ہاں وہی وٹس ایپ آپ بھیج دیں۔ اُسی سے مٹھّو کی تصویریں ہم بھی دیکھ لیں گے اور فری بھی۔‘‘
اپنے مٹھّو کو ساتھ ہی لے آتے۔۔۔ فری اُسے دیکھ تو لیتی ۔ فری نے ہولے سے منہ میں کہا۔ رانی نے فری کی اِس بات کو نوٹس کیا ۔ رانی فری کو جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی اُس لمحے فری نے بھی رانی کو مسکراتے ہوئے اِک نظر دیکھا اور مسکرا کر پھر سے گردن جھکا لی۔ رانی بھی اپنی شادی کے وقت ایسے ہی مسکرائی تھی۔
’’منہ میٹھا کرائیں جی۔۔۔
رانی نے رشتے پر رضا مندی کی مہر لگا دی۔ رانی سے بھی زیادہ عطیہ کو فری کی شادی کی جلدی تھی۔ منگنی کی بجائے اُنہوں نے دو ہفتے بعد کی شادی کی تاریخ ہی رکھ لی ۔
ماں میں یہ شادی نہیں کروں گا۔ مٹھّو نے اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ حلیمہ نے رانی کی طرف دیکھا جیسے رانی کو مٹھّو سے جرح کرنے کا حکم دیا ہو۔
’’ٹھیک ہے تو پھر میں ماں اور دانی راوی کے پُل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دیتے ہیں۔‘‘
میں راوی کے پُل سے چھلانگ نہیں لگاؤں گی۔‘‘دانی نے کھیر کا اگلا چمچ کھانے سے پہلے ہی اپنی سٹیٹ منٹ دے دی۔ رانی کا دل چاہا وہ دانی کو خود ہی راوی کے پُل سے دھکا دے دے، پر کیا کرتی۔ اُس وقت مٹھّو سے نگوشی ایشن جو چل رہی تھی۔
اب ماں بہن سے زیادہ تجھے وہ گڑوی والی پیاری ہے۔‘‘ رانی نے اٹیک کی بجائے ایموشنل بلیک میلنگ کا راستہ اختیار کیا ۔
تم لوگوں کو میری محبت سے زیادہ اپنی عزت پیاری ہے۔‘‘ مٹھّو نے جذباتی انداز میں ڈائیلاگ مارا، اُتنی ہی شدت سے رانی نے بھی اپنی لائنیں بولی تھی
’’مٹھّو پلوان!! تجھے اُس گڑوی والی کی محبت تو یاد رہی جس نے صرف ایک بار تجھے اپنے گھڑے سے ٹھنڈا پانی پلایا تھا۔ افسوس اُس ماں کی عزت بھول گئے جس کا دودھ پی کر تم جوان ہوئے ہو اور اُس کا دودھ خون بن کر تمھاری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔
’’بس کردے رانی۔۔۔بس کر دے۔۔۔‘‘ مٹھّو کے اندر سے سویا ہوا سلطان جاگ اُٹھا ۔
’’سلطان کون۔۔۔؟‘‘ آپ کے دماغ کی گھنٹی بجی نا ۔۔۔یہ وہ سلطان نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔یہ سلطان راہی کی بات ہو رہی ہے جس کی فلمیں دیکھ دیکھ کر مٹھّو جوان ہوا ہے۔
’’ماں مینو معاف کردے تو جتھے (جہاں )کہے گی میں اوتھے (وہیں ) ہی شادی کرلوں گا۔‘‘ لوجی مُنڈا فل شریف ہوگیا ہے اب بلّو کو کون سمجھائے کہ وہ واپس چلی جائے۔ یہ بیڑہ اُٹھایا چھادو نے اِس سے پہلے کے چھادو بلّو سے بات کرتا بلّو خود ہی بول پڑی:
’’وے چھادو ایہہ پھڑ چابی۔۔۔مٹھّو کو بتا دینا میں اِس گھر میں قید نہیں رہ سکتی۔۔۔تم لوگ پتہ نہیں ایک ہی تھاں (جگہ) ایک ہی گھر میں کیسے ساری زندگی گزار لیتے ہو۔۔۔ہم تو بنجارے ہیں بنجارے۔۔۔ ساری دھرتی کے نظارے کرتے ہیں تمھاری طرح پنجروں جیسے گھروں میں نہیں رہ سکتے۔۔۔خود گڑوی وجاہ (بجا)کے کماتے کھاتے ہیں تیرے مٹھّوکی طرح نہیں ۔۔۔بہن کماتی ہے اور وہ شودا بس کھاتا ہے۔ ہمارے کھسم جُورو کی کمائی کھاتے ہیں یہ کمینہ بہن کی کمائی پر بیٹھا ہوا ہے۔‘‘بلّو نے گھر کی چابی چھادو کی ہتھیلی پر رکھی اپنی پوٹلی اُٹھائی اور بڑی شان سے اپنے لال پراندے کو گھماتے ہوئے گھر سے نکل گئی۔۔۔ بلّو نے گھر سے باہر نکل کر ایک لمبی سانس بھری جیسے بلبل کو صیاد کے پنجرے سے رہائی ملی ہو۔
٭
چند دن کے بعد رانی اپنے بھائی کی بارات لے کر بڑی شان سے پہنچی جھنگ
مٹھّو نے بھی بلّو کے جانے کے بعد رانی کو بالکل بھی نہیں کیا تھا تنگ
مٹھو اپنی شادی کے موقع پر خوش تھا بہت۔اُس کے ہاتھ آنے والی تھی حسن کی دولت
حلیمہ نے اپنے بیٹے کو فری کی خوبصورتی کے اتنے قصے تھے سنائے
مٹھّو نے فری کے ساتھ خوابوں میں سوئزرلینڈ میں بہت سے گیت تھے گائے
مٹھّو کی سج دھج تھی سب سے نرالی
رانی نے بڑی دھوم سے بارات تھی نکالی
آخر کار آن پہنچی نکاح کی گھڑی
ساتھ ہی ایک آواز کانوں میں پڑی
’’کُڑی نس گئی جے۔(لڑکی بھاگ گئی ہے)‘‘
’’جس کا مجھے شک تھا وہی ہوا ۔۔۔کڑی وی فل شریف ہی نکلی۔۔۔‘‘رانی نے افسردگی سے منہ میں کہا ۔
یہ بات سُن کر سارے کے سارے ہجوم پر یک دم چھا گیا تھا سناٹا
فری نے جو جوتا ، اپنے والدین کی عزت پر مارا اُس کا نام تھا باٹا
اب تو لکھنے کو بھی من نہیں چاہ رہا ، قصہ کروں مختصر
فری کی اِس بے ہودہ حرکت سے جھُک گئے سب کے سر
جھنگ سے خالی ہاتھ ہی بارات شاہدرہ تھی لوٹی
مٹھّو کی ووہٹی بن گئی کسی اور کی ووہٹی
حلیمہ بیچاری تھی غم سے نڈھال
مٹھّو کا بھی تھا بُرا حال
رانی نے ایک بار پھر سے سارے گھر کو سنبھالا
اُس نے ہی اِس مشکل سے اپنی فیملی کو نکالا
٭
چند مہینوں بعد سب کچھ نارمل ہو گیا تھا۔ سوائے مٹھّو کے۔ہائے بیچارہ مٹھو ۔ مٹھو پر بڑا ترس آتا ہے۔ اُس کی پہلی منگیتر مینا اگلے جہاں پرواز کر گئی۔ دوسری کے ساتھ رشتہ ہی نہیں جُڑا۔
اُس کا نام ہی بتادو۔۔۔؟ سوری جی میں بشیراں اور مشتاق موٹے کی بیٹی کا نام نہیں بتا سکتا۔۔۔کیونکہ اب وہ کسی اور کی منگیتر ہے ۔۔۔فری نے بھی مٹھو کے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔۔۔اُس کے گھر والوں کی فری پر کڑی نظر ہونے کے باوجود فری تو چڑی بن کر فُر سے اُڑ گئی ۔ اب مٹھّو کو اُس کے دوست اکثر طعنے دیتے رہتے ہیں کہ اُس کی ہونے والی بیوی کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ۔ ایک بات کی مجھے بھی آج تک سمجھ نہیں آئی بھاگتا کوئی ہے اور ہم لفظوں سے گھائل کسی اور کو کرتے رہتے ہیں۔۔۔
مٹھّو پہلے آوارہ تھا ۔۔۔اب ہے دیوداس ۔
مسٹر دیوداس والے سارے شوق مٹھّو نے اڈاپٹ کر لیے ہیں۔
آخر کار رانی نے مٹھّو کے لیے ایک اور لڑکی ڈھونڈ ہی نکالی ۔ لڑکی کی بڑی بہن نے جیسے ہی پوچھا
’’لڑکا کیسا ہے۔۔۔؟‘‘
حلیمہ نے بڑی ممتا بھری آواز میں جواب دیا
’’مُنڈا فُل شریف اَے۔۔۔‘‘
…٭…