Home اردو ادب سبز کپڑا

سبز کپڑا

اس شاپر میں کیا ہے۔ سائب نے شاپر کھول کر دکھایا۔ سویرا کی نظر پڑتے ہی اُس کے ہونٹوں سے نکلا سبز کپڑا…؟ یہ کہاں سے آیا…‘‘ سویرا کی بدلتی ہوئی رنگت کو دیکھتے ہوئے سائب نے معصومیت سے صفائی پیش کی ’’قرض نہیں لیا ماما!سلو کے ساتھ کاغذ چُنے تھے۔ کاغذ بیچ کر جو پیسے ملے اُن سے خریدا ہے یہ سبز کپڑا۔‘‘

1
895

سبز کپڑا

شکیل احمد چوہان 

آٹھ سالہ بھولا بھالا سا سائب فرطِ محبت سے اپنے ہم عمر بچوں کو گلی کی دوسری طرف چھت پر جھنڈیاں لگاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اُس کے عقب میں برآمدے کے اندر اُس کی ماں کی سلائی مشین کی سوئی اپنی مفلسی کو خوشحالی میں بدلنے کے لیے لوگوں کے کپڑوں پر محوِ رقص تھی۔
سویرا بھابھی السلام علیکم !‘‘ سائب نے پلٹ کر دیکھا۔ اُس کے باپ کا شاگرد سلیم اُس کی ماں کے سامنے ٹوٹی کرسی پر بیٹھتے ہوئے دوبارہ بولا
کیا فائدہ ایسی فریج کا جو بڑی عید پر بھی کام نہ آئے…بھابھی! اس پر دس لگانے سے بہتر ہے، دس مجھ ہی سے لے لو۔
جتنی بڑی سعید صاحب قربانی کیا کرتے تھے اُس سے کہیں بڑا اُن کا دل بھی تھا ، تم ہی تو سارے علاقے میں گوشت بانٹتے تھے۔ اب قربانی چھوٹی ہی سہی دل تو بڑا ہی ہے۔
’’قربانی تو ہو چکی…فریج کی بات کر و… دینی ہے یا نہیں؟‘‘ سلیم نے سویرا کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ سویرا نے ایک نظرکمرے کے اندر دروازے کے سامنے پڑی ہوئی اپنی خراب فریج پر ڈالی پھر سائب کو دیکھا۔ آخر میں سلیم کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی
سلیم! تم بھی یتیم ہی تھے۔ سعید صاحب نے ترس کھا کر تمھیں اپنے پاس رکھا تھا۔ تم کم از کم شرم ہی کھالو۔ سلیم نے اس عزت افزائی کے بعد وہاں سے اُٹھنا ہی بہتر سمجھا۔ اس کے باوجود اُس نے جاتے جاتے کہہ دیا
’’سویرا بھابھی صرف تمھارے لیے پندرہ…تم اُستاد سعید کی بیوہ جو ہو۔‘‘
سائب اب لمبی گلی کے ایک کونے کی طرف سے آتی ہوئی سائیکل کو دیکھ رہا تھا جس کے بڑے سے کیریئر پر دو بڑے بڑے پلاسٹک کے تھیلے لٹک رہے تھے اور کیریئر کے پیچھے ایک بانس بندھا ہوا تھا، جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ سلیم پہلی منزل کی سیڑھیاں اُترنے کے بعد گھر کی ڈیوڑھی سے گلی میں نکلا ہی تھا کہ کاغذ چننے والے 12سالہ سلطان عرف سلو کی کھٹارا سائیکل اُس سے ٹکرائی۔ سلیم نے سویرا کا غصہ سلو کے کان کے نیچے دو لگاتے ہوئے نکال لیا۔ جب سلیم گلی کی نکڑ مڑنے لگا تو سلو غصے سے چلایا
اوئے چور مکینک…اِس کا بدلا تیرے بھائی سے لوں گا۔‘‘ سلیم نے پلٹ کر گھورا۔ سلو نے بھی اپنی زبان دانتوں تلے دباتے ہوئے اپنے تیور دکھائے ۔
سلو !اگر تونے میرے بھائی کو مارا تو تیری ٹانگ توڑ دوں گا۔‘‘ سلیم نے سلو کو انگلی دکھاتے ہوئے آگاہ کیا۔
سائیکل کا ہینڈل لگنے سے تیرا کون سا بازو ٹوٹ گیا تھا؟‘‘ سلو کو جواب دینے کی بجائے سلیم گلی کی نکڑ مڑ گیا۔
سائب منڈیر کے ساتھ لگا ہوا سلو اور سلیم کے غل غپاڑے سے بے نیاز پاکستانی پرچم پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
٭
دو ماہ کا کرایہ بھی دینا ہے، اگر اس بار مالک مکان کو کرایہ نہ ملا تو وہ ہمارا سامان گلی میں پھینک دے گا۔ قربانی کرنی بھی ضروری تھی …شادی والے کپڑے تو اگلے ہفتے جائیں گے …پرس خالی ہے …کروں تو کیا کروں…؟ سویرا اپنی پریشانیوں میں اُلجھی ہوئی تھی۔
ماما! مجھے بھی چھت پر جھنڈا لگانا ہے۔‘‘ سائب کی فرمائش پر سویرا مزید پریشان ہوگئی۔
’’جھنڈا…؟‘‘
’’ہاں جھنڈا‘‘ سلائی مشین کے سامنے بیٹھی ہوئی سویرا سے سائب لپٹتے ہوئے بولا۔ سویرا نے پاس پڑے کپڑوں کی طرف دیکھا۔ پھر سائب کو گود میں لٹاتے ہوئے اُس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہنے لگی:
’’سفید تو ہے …اگر سبز کپڑا ہوتا تو میں جھنڈا خود ہی تیار کر لیتی۔ ‘‘
’’عید پر میرے سب دوستوں نے بازار سے کپڑے خریدے تھے اور آپ نے خود ہی سلائی کرکے دے دیئے۔‘‘ سائب نے معصومیت سے شکوہ کیا۔ سویرا کو اُس پر پیار آگیا اُس نے سائب کی پیشانی چوم لی۔
’’مجھے بازار سے ہی جھنڈا لینا ہے۔‘‘ سائب نے زور دے کر کہا۔
’’تم تو مجھے بتا رہے تھے کہ تمھارے سب دوستوں نے تمھارے کپڑوں کی تعریف کی تھی۔ ‘‘ سویرا کے یاد کرانے پر سائب سوچ میں پڑ گیا۔
جس طرح تمھارے کپڑے سب سے اچھے تھے اِسی طرح ہمارا جھنڈا بھی سب سے اچھا ہوگا۔ میں اُسے عمدہ کپڑا لگا کے اچھے سے سلائی کروں گی جس سے وہ پھٹے گا بھی نہیں۔ بازار والے جھنڈے تو فوراً پھٹ جاتے ہیں۔  سویرا نے سائب کو قائل کرنے کی کوشش کی ۔
’’ٹھیک ہے تو پھر آپ مجھے ابھی جھنڈا بنا کے دیں…کل چودہ اگست ہے ۔‘‘
ابھی بیٹا میرے پاس سبز کپڑا نہیں ہے۔ سویرا نے افسردگی سے بتایا۔
تو لے آئیں نا بازار سے…‘‘ سائب نے ضد کی۔ سویرا بڑی شائستگی سے بتانے لگی
سائب میرے پاس جتنے پیسے تھے وہ سب تو عید پر خرچ ہو گئے…تمھارے پاپا نے ساری زندگی کسی سے قرض نہیں لیا تھا۔
ماما آپ کو پاپا کی سب باتیں یاد ہیں مجھے کیوں نہیں…؟ سائب نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
جب تمھارے پاپا کی ڈیتھ ہوئی تو تم سال بھر کے تھے۔ اُن کے علاج کے لیے میں نے اپنا زیور گھر سب کچھ بیچ دیا مگر کسی سے قرض نہیں لیا۔ سات سال ہوگئے انہیں فوت ہوئے۔ آج تک میرے مولا نے مجھے کسی کا مقروض نہیں ہونے دیا۔ ‘‘ یہ سب بتاتے ہوئے سویرا آبدیدہ ہوگئی۔ سائب نے سویرا کے آنسو صاف کیے اور بغیر کچھ کہے سویرا کی گود سے اُٹھ کر چل دیا پھر وہ پہلی منزل کی سیڑھیاں اُترنے لگا۔
’’کہاں جا رہے ہو۔‘‘
’’گلی میں کھیلنے۔‘‘
دور مت جانا۔ سویرا نے کھڑے ہوتے ہوئے تاکید کی۔
٭
سلو کچرے والے ڈرم سے کاغذ نکال نکال کر پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال رہا تھا۔
یہ سبز کپڑا مجھے دے دو۔‘‘ سائب کے سوال پر سلو نے اُسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
’’سبز تجھے دے دوں تو میرے پاس سفید اور ڈنڈا ہی بچے گا۔ ‘‘
یہ تمھارے پاپا نے لے کر دیا ہے …؟‘‘ سائب نے پرچم کو چھوتے ہوئے پوچھا۔
خود لیا ہے …ابّا بڑا آیا لے کر دینے والا… سلو نے کچرے کے ڈرم سے باہر نکلتے ہوئے بتایا۔
’’پیسے کہاں سے لیے…؟‘‘
ساری دیہاڑی کاغذ اور گتا چنتا ہوں… شام کو پیسے ہی پیسے۔ سلو نے بڑے فخر سے اپنے انگوٹھے کو انگلی سے مسلتے ہوئے بتایا۔
میں بھی چنوں تمھارے ساتھ کاغذ…؟‘‘ سائب نے تھوڑی جھجھک سے پوچھا۔
کیوں…؟‘‘ سلو نے سوال کیا۔
’’مجھے سبز کپڑا لینا ہے۔‘‘
’’سبز کپڑے کا کیا کرو گے…؟‘‘
’’مجھے اپنی ماما سے جھنڈا بنوانا ہے۔‘‘
بنوانا کیوں ہے…؟ بازار سے ہی لے لو۔‘‘ سلو کا مشورہ سنتے ہی سائب کو چپ لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد سائب ہولے سے کہنے لگا
ماما کہتی ہیں بازار کا جھنڈا جلدی پھٹ جاتا ہے۔‘‘ سلو نے تھوڑی دیر سوچا پھر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا جس میں صرف 72 روپے نکلے اُس نے وہ سائب کی طرف بڑھا دیئے۔
میرے پاپا اور میری ماما نے کبھی قرض نہیں لیا ،اس لیے میں بھی نہیں لوں گا۔‘‘ سلو نے لمحہ بھر سوچا پھر خوشی سے بولا
’’اُدھار نہیں لینا تو پھر چلو میرے ساتھ۔‘‘
٭
سویرا نے گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی چادر اُتارنے کے بعد ارد گرد دیکھا۔ دروازے پر اُسی طرح تالا پڑا ہوا تھا۔ وہ پریشان ہو گئی۔ اُس نے جلدی سے گملا ہٹا کر دیکھا کمرے کی چابی وہیں پڑی تھی۔
سویرا نے اپنا تھیلا وہیں رکھا اور نیچے والے کرائے داروں سے سائب کے متعلق پوچھنے چلی گئی۔ اڑوس پڑوس گلی میں سب سے پوچھا۔ قریب قریب کے تمام رشتے داروں کو کال بھی کرلی۔ سائب کی کسی کو خبر نہ تھی۔
سورج غروب ہونے والا تھا۔ سویرا کے دل نے اُس کے سینے میں اُتھل پتھل مچا رکھی تھی۔ اُسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے نزع کا عالم ہو۔ اُسے اچانک پولیس اسٹیشن جانے کا خیال آیا۔ اُسی لمحے اُس  نے دیکھا کہ سائب ہاتھ میں ایک کالا شاپر پکڑے گندے کپڑوں اور تھکے جسم کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔
سویرا نے بڑھ کر اُسے سینے سے لگا لیا۔ جب ممتا کو قرار ملا تو سویرا نے پوچھا
کہاں چلے گئے تھے…؟
’’وہ میں…‘‘
دیکھو میں تمھارے لیے کیا لائی ہوں۔‘‘ سویرا نے سائب کو گود میں اٹھاتے ہوئے اُس کی بات کاٹ دی ۔
’’یہ رہا تمھارا جھنڈا اور یہ بیج…‘‘ سائب نے حیرانی سے سویرا کی طرف دیکھا۔
باجی! فریج لینے آئے ہیں۔ اُستاد سلیم  نے بھیجا ہے۔ ‘‘ دو لڑکوں میں سے ایک بولا۔ سویرا  نے ایک طرف ہوتے ہوئے کہا
گملے کے نیچے چابی ہے تالا کھول کر فریج کمرے سے اُٹھا لو ۔‘‘ ماں بیٹے کی نظریں ملیں۔ سویرا نے نظریں چراتے ہوئے بات بدلی
اس شاپر میں کیا ہے۔ سائب نے شاپر کھول کر دکھایا۔ سویرا کی نظر پڑتے ہی اُس کے ہونٹوں سے نکلا
سبز کپڑا…؟ یہ کہاں سے آیا…‘‘ سویرا کی بدلتی ہوئی رنگت کو دیکھتے ہوئے سائب نے معصومیت سے صفائی پیش کی
’’قرض نہیں لیا ماما!سلو کے ساتھ کاغذ چُنے تھے۔ کاغذ بیچ کر جو پیسے ملے اُن سے خریدا ہے یہ سبز کپڑا۔‘‘

1 COMMENT