26 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

سیلانی پاکستانی

سیلانی پاکستانی

شکیل احمد چوہان

ارے وہ دیکھو ’’سیلانی پاکستانی‘‘ آج پھر آ گیا۔‘‘ پاپڑ بیچنے والے قیصر  نے چپس، بسکٹ والے حمید سے کہا۔
سالار احمد عرف سیلانی پاکستانی اپنی ہی دُھن میں خود کلامی کرتا ہوا اُن کے پاس سے گزرا تھا۔ سیلانی پاکستانی سوشل میڈیا کا اسٹار ہے جس کے لاکھوں فالوورز ہیں۔ اُس کی دھواں دھار تقریر کسی نے موبائل پر ریکاڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی تھی۔ وہ ویڈیو وائرل ہو گئی تب سے سیلانی پاکستانی مشہور ہو گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مشہور ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔
یہ مشہوری بھی اُسے انصاف نہیں دلا سکی۔ وہ آج بھی انصاف کے لیے اِدھر سے اُدھر خوار ہو رہا ہے ۔ سیلانی پاکستانی کو آج کی جنریشن بہت پسند کرتی ہے ۔ اُس پسندیدگی کی وجہ سیلانی پاکستانی نفیس اور مدھر آواز کے ساتھ ساتھ عمدہ طرزتکلم کا بھی مالک ہے۔ وہ موٹے شیشوں والا چشمہ لگاتا اُوپر سے درویشانہ حلیہ۔ یہی حلیہ اُس کا اسٹائل بن گیا ہے ۔ جس کی اُسے خبر ہی نہیں۔
جیسے ہی حمید کی اُس پر نظر پڑی اُس نے فوراً قیصر سے بول دیا
’’چل اُٹھا اپنے پاپڑ….. آج بہت ممی ڈیڈی بچے آنے والے ہیں ۔ خوب کمائی ہو گی‘‘
تماشا تو شروع ہونے دو۔‘‘ قیصر کے جملے میں خوشی کے ساتھ ساتھ طنز بھی تھا۔ حمید نے چپس، بسکٹ، چیونگم والا تھال اپنے سر پر رکھا اور سیلانی پاکستانی کی طرف لپکا۔ قیصر نے بھی اپنا پاپڑوں والا سفید بڑا سا پلاسٹک بیگ اُٹھا یا اور سیلانی پاکستانی کی طرف چل پڑا۔ اُن دونوں کی دیکھا دیکھی دو اور چھابڑی فروشوں نے بھی اُن کی تقلید کی۔ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی طرف جانے والے رستے پر گوردوارہ ڈیہرا صاحب کے سامنے بہت سارے چھابڑی فروش ہوتے ہیں۔ یہ سب بھی وہیں کھڑئے تھے ۔
سیلانی پاکستانی ایک چبوترے پر کھڑا ہو گیا اُس کے سامنے سینکڑوں کا مجمع تھا۔ کوئی سال پہلے سیلانی پاکستانی صرف سالا ر احمد تھا۔ اُس کے آباؤاجداد تقسیم کے وقت لکھنو سے ہجرت کر کے لاہور پہنچے تھے۔اندرون لاہور میں ایک گھر الاٹ ہو گیا ۔ سا لار کے والد طیب احمد نے لکھنوی رکھ رکھاؤ لاہور میں بھی قائم رکھا۔ طیب نے اپنے بچوں کی رزق حلال سے اعلیٰ تربیت کی۔ سالار پڑھنے میں لائق تھا۔ وہ سی ایس ایس کرنے کے بعد ترقی کرتا ہوا فنانس ڈپارٹمنٹ  تک جا پہنچا۔
سالار احمد کو اُس کے دادا  نے ایمانداری کے گھٹی چٹائی تھی۔ نا وہ اُس کے وجود سے نکلتی نا ہی اُس کے اختلافات کم ہو تے۔ کبھی سیاست دانوں سے اختلاف اور کبھی اپنے ہی سیکرٹری سے۔ سیکرٹری صاحب نے ایک سیاست دان کی ایما پر سالار احمد پر کرپشن کا الزام لگا کر انکوائری کمیٹی کی مدد سے اُسے برطرف کروا دیا۔
انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہو ہو کر سالار احمد شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اکثر و بیشتر دیوانہ وار بولے چلا جاتا۔ وہ چلتے چلتے صرف پاکستان کی باتیں کرتا۔ اسلام آباد کے کسی دانشور  نے ایک  سی ایس ایس آفیسر کو اس حال میں دیکھا تو اُسے مذاق میں سیلانی پاکستانی کہہ کر مخاطب کیا ۔ تب سے سالار احمد سیلانی پاکستانی کے نام سے مشہور ہو گیا۔
سالار احمد کا بچپن منٹو پارک میں کھیلتے گزرا۔ وہ جب بھی ذہنی تناؤ محسوس کرتا تو اسلام آباد سے لاہور آ جاتا۔ پہلے اپنے آبائی گھر جاتا، پھر منٹو پارک کا رخ کرتا۔ اُسے دیکھتے ہی نوجوانوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔ وہ ہجوم کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا جسے لوگ تقریر سمجھتے۔
ہمارے ملک میں قیادت کا فقدان ہے…. ہم اچھی تقریر کرنے والے کو ہی لیڈر سمجھ لیتے ہیں…. جو زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا وہ موٹیویشنل اسپیکر بن جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر بندہ رائٹر اور فوٹو گرافر بنا ہوا ہے…. ہماری قوم کو اپنے مقصد ہی کی خبر نہیں
سیلانی پاکستانی نے سانس لی اور مینار پاکستان کی طرف شہادت والی انگلی کرتے ہوئے کہا
’’منٹو پارک میں اِس جگہ یہ عمارت بنانے کا بھی ایک مقصد تھا۔ ‘‘
منٹو نہیں اقبال پارک سر!۔ ہجوم میں سے ایک نو جوان  نے بات کاٹتے ہوئے بتایا۔
تم بھی غلط بتا رہے ہو جنٹلمین !وہ سامنے تختی تو گریٹر اقبال پارک کی لگی ہوئی ہے۔منٹو پارک کو اقبال کے نام سے منسوب نا بھی کیا جاتا پھر بھی اقبال گریٹ تھا، گریٹ ہے اور گریٹ ہی رہے گا۔ اقبال سے بہت بلند اقبال کا اقبال ہے….. ہم پتہ نہیں کیوں کسی ایک کے کام پر کسی دوسرے کا اقبال بلند کرنے لگتے ہیں۔
وہ کیسے سر….. ؟‘‘ ہجوم میں سے ایک لڑکی نے ہاتھ اُٹھا تے ہوئے پوچھا۔
نے لائل پور بنایا اور ہم نے شاہ فیصل کے نام کے ساتھ اُسے منسوب کر دیا۔ وہ لائل پور سے فیصل آباد بن گیا۔ اِسی طرح لارنس گارڈن …. باِغ جناح ہو گیا۔ جن سے محبت ہو اُن کے نام پر نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں ….پرانی چیزوں پر اُن کے نام کی نئی تختی نہیں لگائی جاتی …. اگر محبت ہو تو…. محبت …. ؟‘‘ لفظ محبت بولنے کے بعد سیلانی پاکستانی سوچ میں پڑگیا اور اپنی بڑھی ہوئی شیو کو کُھجاتے ہوئے ہجوم سے پوچھنے لگا
’’کیا ہمیں پاکستان سے محبت ہے …. ؟‘‘
ہجوم سے کوئی جواب نہیں ملا تو سیلانی پاکستانی خود ہی گو یا ہوا
’’انقلاب خون مانگتا ہے اور محبت قربانی…. قربانیاں دے کر ہی تو ہمارے بزرگوں نے یہ پاکستان بنایا تھا ۔ پاکستان سے محبت اُن کو تھی جو اِس کے لیے قربان ہوئے …. ہم تو اِس کے لیے پریشان تک نہیں ہوتے…. میرے خیال میں پاکستان ابھی بنا نہیں یہ تو زیر تعمیر ہے …. جو انجینئر اِس کی تعمیر میں اچھا مٹیریل لگا تا ہے۔ ہمارا نظام اُسے ہی باہر نکال پھینکتا ہے …. جیسے مجھے نکال دیا…. ؟‘‘
’’جناب آپ پر کرپشن کا الزام ہے۔‘‘ ایک آدمی نے تیز دھاری لہجے میں بتا یا۔ سیلانی پاکستانی کی آنکھوں میں اشکوں کی نمی اُمڈ آئی۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا
’’کرپشن…. ؟میرے اوپر کرپشن کے جو الزامات ہیں وہ ایک سال سے صرف الزامات ہی ہیں۔ حکومتیں بد لتی ہیں تو ساتھ ہی چہرے بھی بدل جاتے ہیں ، پر نظام وہی رہتا ہے…. جو نظام بدلنا چاہے …. ہم اُسے ہی بد ل دیتے ہیں۔‘‘
’’سر ! آپ نے مینار پاکستان بنانے کا مقصد تو بتا یا ہی نہیں۔‘‘ ایک طالب علم نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’ہم تو پاکستان بنانے کا مقصد ہی بھول گئے ہیں۔‘‘ ایک لڑکے نے جلدی سے سیلانی پاکستانی کے ہونٹوں سے اُدھوری بات اُچک لی:
’’کیا تھا پاکستان بنانے کا مقصد…. ؟‘‘
ہندوستان میں دو قومیں تھیں ۔ ہندو اور مسلمان …. اسی جگہ 23 مارچ 1940 میں ہمارے بزر گوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔ ہندوئوں اور انگریزوں سے تو ہم نے آزادی حاصل کر لی۔۔۔مگر ہم جا گیر داروں ، وڈیروں، صنعت کاروں اور افسر شاہی کے اب بھی غلام ہیں ۔ اِن سے آزادی پتہ نہیں کب نصیب ہو گی…. ؟ جس اسلام کے نام پر ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا ہم اُسی کے اصولوں کو نہیں مانتے…. ہر بندہ اپنے مطلب کی بات قرآن سے نکال لیتا ہے ۔ جس بات سے اُس کا نقصان ہو تا ہو وہ اُسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ پتا نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں…. ؟ یہاں پیش کیا تھا ہم نے دو قومی نظریہ…. ہم مسلمان دو سے الگ ہو کر بھی ایک نا بن سکے ….
وہ کیسے سر!…. ؟‘‘ ایک لڑکی نے عجلت میں پوچھا۔
ہم مسلمان تو ہیں۔۔۔ متحد نہیں۔۔۔ ہم پاکستانی تو ہیں مگر صوبائی تعصب کے ساتھ۔۔۔ صوبوں تک بات نہیں رُکی۔ اِس کے بعد ہم برادریوں اور گرو ہوں میں بٹتے چلے جا رہے ہیں۔ میں تو اکثر سوچتا ہوں نا جانے کہاں جا کر ہماری یہ تقسیم ختم ہو گی…. ہم صرف ایک ہجوم ہیں قوم نہیں …. جب تک ہم ایک قوم نہیں بنیں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے ۔
قوم کیسے بنتی ہے۔۔۔ ؟ ایک لڑکے نے بڑے ولولے سے پوچھا۔
مال بنانے سے نہیں۔۔۔ مال خرچ کرنے سے۔۔۔ حق مانگنے سے نہیں حق دینے سے بنتی ہے قوم….قوم سے ہجوم ہے…. ہجوم سے قوم نہیں۔۔۔ اپنے حق کے لیے تو سب کھڑے ہوتے ہیں کسی کے ساتھ کھڑا ہونا یہ قوم کی علامت ہے۔
’’کھڑا ہونے سے سر! کیا ہوتا ہے…. ؟ ‘‘ ایک لڑکا مایوسی سے بولا۔
حالات کے سامنے ڈٹے رہنا اُمید کی نشانی ہے…. میدان سے بھرپور مقابلے کے بعدہار کر لوٹنا یہ ہار نہیں ہے…. میدان میں مقابلے کے لیے اُتر نا ہی نہیں، یہ ہار ہے…. ہم جب تک ظلم کے خلاف آواز نہیں اُٹھا ئیں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے ۔ جا گو میرے پاکستانیو جاگو‘‘ سیلانی پاکستانی نے ایک نعرہ لگایا ۔ سارے ہجوم میں ایک جوش بھر گیا۔
سیلانی پاکستانی زندہ باد … سیلانی پاکستانی زندہ باد۔‘‘ بلند شگاف نعروں سے فضا گونج اُٹھی۔ سب جوش میں ہوش کھو بیٹھے۔ چند ایک کے علاوہ پولیس کی گاڑی دوسروں کو دکھائی ہی نہ دی۔
وڈا انقلابی ! چل اگے لگ…. ‘‘ ایک پولیس والے نے سیلانی پاکستانی کو گردن سے دبوچتے ہوئے کہا ۔ پولیس کو پی ایچ اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بلا یا تھا۔ سیلانی پاکستانی کے سامنے کھڑا ہوا ہجوم لمحوں میںہی تتر بتر ہو گیا۔ پولیس والوں نے دھکا مارتے ہوئے سیلانی پاکستانی کو پولیس کی گاڑی میں پھینکا۔سیلانی پاکستانی پولیس کی گاڑی میں بیٹھا ہواپھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ اپنے ہجوم کو بکھرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

…٭…

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles