32 C
Lahore
Friday, November 1, 2024

Book Store

وقت

وقت

شکیل احمد چوہان

میں نے اپنی زندگی کا ایک اور سال اِس ملک میں برباد کر دیا… یہاں کچھ بھی کر لو کوئی فائدہ نہیں…اِدھر کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں کرتا…کام کیا کریں گے…؟ یہ تو فیصلہ کرنے میں مہینوں لگا دیتے ہیں۔ وقت کی اہمیت سے کوئی واقف نہیں یہاں
’’تمھیں غصہ کس چیز پر ہے…؟ تمھاری قدر نہ ہونے پر یا پھر وقت ضائع کرنے پر۔۔۔ ؟‘‘
’’دونوں باتوں پر‘‘
جو کام تم کرتی ہو اُس کے تو تمھیں پیسے ملتے ہیں…اب وقت تو سب کا اپنا اپنا ہے کوئی ضائع کرے یا اُس کا صحیح استعمال کرے تمھیں اُس سے کیا…؟ویسے بھی تم نے کون سی کوشش کی ہے وقت کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے…؟
بس بہت ہوگیا. میں یہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ بے یقینی  نے حتمی انداز میں بتایا۔
کیوں…؟ یقین نے عجلت میں پوچھا۔
اب بھی پوچھ رہے ہو…کیوں…؟ عورتیں، بوڑھے ہوں یا بچے…کون محفوظ ہے اِس ملک میں…بتاؤ مجھے… کبھی بچوں کو اسکولوں میں شہید کیا جاتا ہے اور کبھی پارکوں میں …
اب تو ماؤں کے جگر کے ٹکڑوں کو کاٹ کر بیچنا شروع کر دیا ہے۔ اِس ملک کے باسیوں نے…انسانی اعضاء بکتے ہیں یہاں۔۔۔
دودھ سے لے کر دوائی تک ہر چیز میں ملاوٹ… یہاں ایماندار وہ ہے جو بے ایمانی نہیں کر سکتا…یقین ! تم بھی چلو میرے ساتھ…
اس ملک کو چھوڑ دو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے …اس ملک میں برائی اور اندھیروں کے علاوہ کچھ نہیں…میرے ساتھ چلو۔ اجالوں کی دنیا میں… بے یقینی نے یقین کو قائل کرنے کے لیے مضبوط دلائل دیے۔
اُجالوں کی دنیا…؟ سورج ، چاند اور ستارے تو یہاں بھی ہیں، تم کن اُجالوں کی بات کر رہی ہو…؟
ناداں! تم مصنوعی روشنیوں کو اجالے سمجھ بیٹھی ہو!ویسے تم اپنے موضوع سے ہٹ گئی ہو ہم وقت پر بات کر رہے تھے۔ یقین نے بڑے اطمینان سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
اِس کے باوجود بے یقینی ترش لہجے میں بولی
’’تم نے بھی تو قتل وغارت، ملاوٹ اور بے ایمانی کا جواب نہیںدیا …‘‘ یقین سوچ میں پڑ گیا۔ تھوڑی دیر بعد انتہائی کرب سے بولا
یہ ساری برائیاں تو ہم میں ہیں…اِن برائیوں نے ہمارے معاشرے کو زخمی کر دیا ہے۔ زخم اور درد کا گہرا تعلق ہے۔ تخلیق درد ہی کی پیداوار ہے۔‘‘ بے یقینی نے تمسخرانہ قہقہہ لگایا پھر طنزیہ لہجے میں گویا ہوئی
’’کیوں خود کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہو…؟ بولو جواب دو…آخر کیوں…؟‘‘
اللہ ’’کیوں‘‘ کہنے والوں کے لیے ’’کُن‘‘ نہیں کہتا…ہاں کوشش کرنے والوں کے لیے ’’کُن‘‘ضرور بول دیتا ہے اور ہم اِس ملک کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یقین کا مدلّل جواب سننے کے بعد بے یقینی سٹپٹا اُٹھی وہ غصے میں چلائی
اندھیروں اور برائیوں کا گڑھ ہے یہ ملک!
نور اور ظلمت…اچھائی اور برائی…ایک دوسرے کے آس پاس ہی ہوتے ہیں…برائی کو ہمیشہ اچھائی نے ہی فتح کیا ہے اور روشنی سارے اندھیروں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ یقین نے بڑی شائستگی سے بتایا۔
’’روشنی۔۔۔کہاں ہے روشنی۔۔۔؟ مجھے تو نظر نہیں آرہی۔‘‘ بے یقینی نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
مجھے دیکھو…روشنی خود بخود نظر آجائے گی…! تم مایوسی کی جڑواں بہن ہو اور اُمید میری ساتھی ہے
یقین نے تحمل سے جواب دیا۔
جو چیزیں اس ملک میں ہیں ہی نہیں اُن کا ذکر کیوں کرتے ہو…روشنی، اچھائی، اُمید…سب کتابی الفاظ ہیں۔بے یقینی نے اپنے ردھم کو برقرار رکھتے ہوئے کہا۔
بے یقینی! تم بڑی بری چیز ہو…تم صدیوں سے میرے ساتھ ہو…بالکل اُسی طرح جیسے روشنی اور اندھیرا، اچھائی اور برائی، مایوسی اور اُمید ساتھ ساتھ ہیں…یہ ایک دوسرے پر حاوی تو ہو سکتے ہیں لیکن جُدا نہیں ہو سکتے… تم اگر اِس ملک کے لوگوں کی جان چھوڑ دو تو وہ کہیں نہیں جائیں گے۔
یقین نے بے یقینی کو کھری کھری سنادیں۔
’’یہ ملک کھنڈر مکان کی طرح ہے جس کی بنیادیں کرپشن نے کھوکھلی کر دی ہیں۔ اس ملک کی دیواریں اتنی کمزور اور خستہ حال ہیں کہ اکثر جنگلی جانور اس مکان میں گھس کر اس مکان کے مکینوں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں…جنگل کا قانون ہے اس ملک میں…‘‘ بے یقینی نے گھن گرج کے ساتھ بتایا۔
گھر کو مکان کہنا بے ادبی ہے یہ ملک ہمارا گھر ہے …ہم تنظیم کے سیمنٹ سے اس کی بنیادیں مضبوط کریں گے، اتحاد کی اینٹوں سے اس کی خستہ حال دیواروں کو پختہ اور بلند بنائیں گے، اُس کے بعد ایمان کی عالی شان چھت ڈالیں گے…‘‘ یقین نے یقین کامل سے جواب دیا۔
ہا…ہا…ہا…دیوانے کا خواب…وہی گھسے پٹے جملے…پچھلے74سال سے سُن سُن کر کان پک گئے ہیں…یقین تمہیں خود اپنی باتوں پر یقین ہے کیا…؟‘‘
’’ایمان کا دوسرا نام یقین ہے…جس کا یقین نہیں وہ ایمان کی دولت سے محروم رہتا ہے…تم اور تمہاری بہن مایوسی دونوں کفر کی دہلیز تک لے جاتی ہو اور مجھے اس بے یقینی اور مایوسی سے اس ملک کے نوجوانوں کو نکالنا ہے۔‘‘ یقین نے اپنے ارادے ظاہر کیے۔بے یقینی متکبرانہ انداز میں بولی:
’’یہ منہ اور مسور کی دال …تم میرے سامنے اتنے کمزور اور بے بس ہو کیسے کرو گے یہ سب…؟ ‘‘
مجھے صرف دو کام کرنے ہیں۔ پہلا اس ملک کے باسیوں کو مایوسی اور بے یقینی سے بچانا ہے اور دوسرا وقت کی قدر و منزلت سمجھانی ہے …یہ مہینوں کو سال سمجھیں اور دنوں کو مہینے…اِس طرح اِن کی زندگیاں بھی سنور جائیں گی اور ملک بھی ترقی کرے گا۔
یقین کی بات کاٹتے ہوئے بے یقینی نے ترش لہجے میں کہا
اُف تمھاری خوش فہمیاں۔‘‘ بے یقینی کی بات سنتے ہی یقین کو جوش آ گیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر بے یقینی کا گلا دبوچ لیا اور اپنی پوری طاقت لگا دی۔
کرن ہڑبڑاہٹ میں بیڈ سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنا گلا پکڑا ہوا تھا۔ اُسے اب بھی اپنی گردن پر دباؤ محسوس ہو رہا تھا۔ اُس نے سائیڈ ٹیبل سے ایک گلاس پانی لیا اور غٹا غٹ پی گئی۔ اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا۔ موبائل پر وقت دیکھا 12 بجنے والے تھے وہ ٹیرس پر چلی گئی۔ 12 بجتے ہی ایک شور سا اُٹھا۔ کئی آوازیں ایک ساتھ گونجیں۔
وہ اپنے اپارٹمنٹ کے ٹیرس سے سڑکوں پر کھڑے ہوئے منچلوں کو ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک بادیں دیتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ کرن نے زیر لب مسکراتے ہوئے خود کلامی کی
پرانے سال کو ضائع کرنے کا دکھ نہیں اور نئے سال کی خوشی منا رہے ہیں…ہمارے ملک والے کتنا وقت برباد کرتے ہیں۔ یہ سارے رات بھر ہلہ گلہ کریں گے اور صبح لمبی تان کر سوئے رہیں گے۔
ہمیں تماشہ دیکھنے اور کرنے کا بڑا شوق ہے۔ اِسی لیے ہم دنیا میں تماشہ بن کے رہ گئے ہیں۔
تم نے پھر سے تنقید شروع کر دی ہے ڈاکٹر کرن! بے یقینی سے نکلو اور سمجھائو انہیں یقین کے ساتھ …تاکہ یہ بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا شروع کر دیں۔
کرن کے دل نے اُسے حکم دیا ۔
میں بھلا کیا کر سکتی ہوں…؟میں کیسے اپنی بات ان تک پہنچا سکتی ہوں…؟
کرن نے اپنے دل کو جواز پیش کیا۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ڈاکٹر کرن ! گھر بیٹھے ہی برٹش ایمبیسی نے تمھیں انٹرویو کے لیے بلا لیا تھا۔ یہ کام بھی تو گھر میں بیٹھ کر ہو سکتا ہے۔
کرن کے دل نے اُسے جھنجوڑا۔ کرن نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان پر کالے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ جنھوں نے تاروں کو چھپایا ہوا تھا۔اِس کے باوجود کرن کو روشنی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈ روم میں لوٹی اور ایزی چیئر پر بیٹھ کر سوچ کے سمندر میں اُتر گئی
کن باتوں میں اُلجھی ہوئی ہو کرن! کبھی اِس ملک کے ایشوز ٹھیک کرنے کے متعلق سوچتی ہو اور کبھی اِس ملک سے فرار ہونا چاہتی ہو…کبھی سب کچھ کرنا چاہتی ہو اور کبھی کچھ بھی نہیں …اگر تم چاہتی ہو کہ لوگ تمھاری قدر اور عزت کریں تو تم اچھے سے صرف ایک کام کر جاؤ۔
وہ کیا…؟ کرن نے اپنے دل سے پوچھا۔
تمھارے نزدیک سب سے اچھا رشتہ کون سا ہے…؟‘‘ دل نے سوال کیا ۔
’’والدین کا ۔‘‘
پھر وہ تمھیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے…؟دل کا اگلا سوال تھا۔
ایک نا ایک دن سب نے جانا ہی ہوتا ہے۔ کرن نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا۔
وقت ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا …یہ ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا…سب سے ناز ک اور سب سے مضبوط رشتہ ایک انسان کا وقت کے ساتھ ہی ہوتا ہے…دوسرے رشتے ہمیں استعمال کرتے ہیں لیکن وقت کو ہم استعمال کرتے ہیں…رشتوں کی ہم سے کچھ توقعات بھی ہوتی ہیں…وقت ہم سے کوئی اُمید نہیں رکھتا… یہ تو صرف اتنا چاہتا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جائے۔
جو وقت کی قدر کرتے ہیں اُنھیں یہ امر کر دیتا ہے اور جو نا قدری اُنھیں برباد۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا، سال، زندگی یہ سب وقت سے ہیں، وقت اِن سے نہیں…سالوں کا کیا ہے وہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ وقت وہیں کھڑا ہے…
ہمارے سارے مسائل اس لیے ہیں کہ ہم نے انہیں وقت نہیں دیا …تم اگر اِس قوم کو وقت کا صحیح استعمال کرنا سکھا دو تو یہ سارے مسائل آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گے۔
دل کی باتوں نے کرن کے اندر ایک جوش بھر دیا۔ وہ مصمم ارادے سے اپنی ایزی چیئر سے اُٹھی۔ اُس نے یو کے جانے کا پروگرام منسوخ کر دیا۔ وہ اپنی رائیٹنگ ٹیبل پر بیٹھی اور اپنا لیپ ٹاپ کھول کر کام کرنے لگی۔ کام کرتے کرتے اُسے پتا ہی نہیں چلا کب صبح ہو گئی۔
نئے سال کی پہلی صبح…کرن نے سوشل میڈیا پر ایک کمپین شروع کر دی تھی۔   چند گھنٹوں میں ہی اُس کے ساتھ ہزاروں لوگ جڑ چکے تھے۔کرن نے اپنے کمرے کے پردے پیچھے ہٹا ئے۔ نئے سال کی کرنوں نے کرن کے رخساروں کا بوسہ لیا…تو کرن کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے :
’’Time Loves You, Don’t Let it Go.‘‘
…٭…

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles