15 C
Lahore
Tuesday, March 19, 2024

Book Store

ہیلمٹ

ہیلمٹ

شکیل احمد چوہان

ندیم عرف ’’دیم‘‘ چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی، وہ پورے گاؤں میں سب سے دراز قد تھا۔ دیم جتنا لمبا تھا اُتنا ہی بھولا اور من موجی بھی …دیم ایک کسان کا بیٹا تھا، اس لیے وہ بھی کسان ہی بن گیا۔
اُس کی کل دنیا اپنا ڈیرہ اور حویلی تھی۔ وہ سارا دن اپنے ڈیرے کے اردگرد کھیتوں میں اپنے کاموں میں مصروف رہتا ، شام کو اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال کرتا اُن کا دودھ نکالتا۔
اُسے اپنی بھینسوں کے ساتھ ساتھ اپنے کتے اور گدھے سے بھی بڑا پیار تھا۔ ایسے ہی اُس کی زندگی گزر رہی تھی۔ وہ اپنی دنیا میں خوش تھا۔ دیم کے شوق بھی نرالے ہی تھے۔ وہ شان کی پنجابی فلمیں بڑے شوق سے دیکھتا۔
اس کے علاوہ اُسے موٹر سائیکل چلانے کا بھی بڑا شوق تھا۔ دیم کی دوستی اپنے چچا اور تایا کے بیٹوں کے ساتھ ساتھ عرفان عرف ’’مانی‘‘ سے بھی تھی۔
مانی پورے گاؤں میں سب کا جانی اور ہر دلعزیز تھا۔ مانی کو کام کرنے کا بڑا شوق تھا۔ مانی کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ وہ اپنے کام کے علاوہ گاؤں کے دوسرے زمینداروں کا کام بھی پکڑ لیتا۔ وہ محنت سے اپنے حالات بدلنا چاہتا تھا۔
پھرتیلا اتنا کہ مہینوں کا کام ہفتوں اور ہفتوں کا دنوں میں کر لیتا۔ پوہ، ماگھ کی ٹھنڈ اور جیٹھ، ھاڑ کی گرمی بھی اُسے کام سے نہ روک پاتی… اُس کا چہرہ قندھاری انار کے دانوں کی طرح سرخ تھا۔ متوسط قد کاٹھ مضبوط اور چُست جسامت اُس کی دوسری خصوصیات تھیں۔
٭
میں دسمبر کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں گیا۔ گھر کے اندر داخل ہونے لگا تو ایک محبت میں ڈوبی آواز میرے کانوں میں پڑی
بھاء جی! کی حال اے‘‘ میں نے پلٹ کر دیکھا تو حمزہ ہاتھ میں دودھ سے بھری بالٹی اُٹھائے میرے پیچھے تھا۔ حمزہ اور دیم چچا زاد تھے اور اُن دونوں کے گھر بھی ساتھ ساتھ ہی تھے۔
تمھارا کیا حال ہے حمزہ!‘‘ میں نے حمزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ حمزہ نے جواب دینے کی بجائے مسکراتے ہوئے اپنے سولہ سالہ معصوم سے رخسار کو پیپل کے پتے کی طرح ہلایا اور اپنے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔
حمزہ کا گھر ہمارے گھر کے سامنے ہی ہے۔ میں اپنے گھر کے اندر آیا تو صحن میں چاچی صابرہ میری والدہ کے پاس بیٹھی میرے چھوٹے بھائی کی شادی کے متعلق بات کر رہی تھی۔
چاچی آپ بھی اب ندیم کی شادی کر دو۔‘‘ میں نے صابرہ چاچی کی بات کاٹتے ہوئے اُنھیں دیم کی شادی کا مشورہ دے ڈالا۔
’’ابھی تو وہ تیئیس سال کا بھی نہیں ہوا …بچہ ہے وہ بچہ!‘‘ صابرہ چاچی یہ بولتے ہوئے وہاں سے اُٹھی اور اپنے گھر چلی گئی۔
صابرہ کی ابھی تین بیٹیا ں رہتی ہیں…ایک دیم سے بڑی اور دو چھوٹی۔‘‘ میری والدہ نے ہلکی سی ڈانٹ کے ساتھ مجھے وہ بات بتائی جو میں پہلے ہی سے جانتا تھا۔
اپنے بھائی کی شادی کی فکر کرو۔ جو دیم سے تین ساڑھے تین سال بڑا ہے۔میری والدہ نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
٭
چاچا دیکھ لے …میں تیرے کتنے کام کرتا ہوں…تو اپنی موٹرسائیکل پر جھولا بھی نہیں لینے دیتا۔
دیم نے بڑی عاجزی کے ساتھ مقبول رحمانی سے درخواست کی۔ مقبول نے چند لمحے سوچا پھر اپنی موٹر سائیکل سے اُتر گیا۔ مقبول کہیں سے لوٹا ہی تھا کہ اپنی حویلی کے سامنے اُس کا دیم سے ٹاکرا ہو گیا۔
دیم موٹر سائیکل پر بیٹھا اور مانی کے گھر پہنچا۔
مانی دودھ والی بالٹیاں پکڑے اپنے گھر سے نکل رہا تھا۔
مانی !چل لوبن پلی جلیبیاں کھانے چلتے ہیں۔ مغرب سے کچھ دیر پہلے دیم نے مانی سے کہا۔
میں نے تو ابھی بھینسوں کا دودھ بھی دھونا ہے۔
مانی نے دیم کے پیچھے بیٹھتے ہوئے بتایا۔ دیم نے موٹر سائیکل چلا دی۔ آگے انہیں حمزہ کھڑا ہوا مل گیا۔ حمزہ نے جلدی سے پوچھا
’’کہاں جا رہے ہو تم دونوں…؟‘‘
اڈے پر جلیبیاں کھانے۔ مانی نے کھائے بغیر ہی جلیبیوں کا مزہ لیتے ہوئے بتایا ۔
میں نے بھی جانا ہے۔
حمزہ جلدی سے لپکتے ہوئے اُن دونوں کے درمیان گھس کر بیٹھ گیا۔
اوئے حمزہ اُتر جا! چاچے مقبول کے بڑے ترلے ڈال کر موٹر سائیکل لی ہے۔ دیم نے حمزہ کو ٹالنے کی پوری کوشش کی ۔
مجھے نہیں پتا۔ میں نے بھی تمھارے ساتھ ہی جانا ہے۔ حمزہ نے ضدی بچے کی طرح کہا اور ساتھ ہی ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں مانی کو دیم سے اپنی سفارش کرنے کے لیے کہا۔
چل دیم اِسے بھی لے ہی چلتے ہیں۔ کیا یاد کرے گا حمزہ ! چل نا دیر ہو رہی ہے… حویلی میں بالٹیاں بھی رکھنی ہیں۔ مانی نے دیم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔وہ تینوں لوبن پلی پہنچ گئے۔

سواد آ گیا… دیم نے اپنے اوپر اُوڑھی ہوئی اپنی گرم چادر سے میٹھے والے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا ۔
دیم یار جلدی کر…حویلی میں میرا بڈھا باپ میری راہ دیکھ رہا ہو گا۔ مانی یکایک بولا۔ دیم نے موٹر سائیکل کو کک ماری تو وہ اسٹارٹ ہو گئی ۔
دیم بھائی مجھے آدھا کلو جلیبیاں اورلینی ہیں۔ حمزہ نے اگلی خواہش کا اظہار کر دیا ۔
تجھے اِسی لیے ساتھ نہیں لا رہا تھا۔ دیم نے گھوری ڈالتے ہوئے کہا۔
امی ابو کے لیے …گھر جا کر پیسے دے دوں گا۔ حمزہ نے بھولی صورت بناتے ہوئے التجائیہ لہجے میں درخواست کی۔ دیم نے موٹر سائیکل کا سوئچ آف کر دیا اور مانی کی طرف دیکھ کر آنکھوں کے اشارے سے پوچھا۔
میں نے بڈھے کو نہیں بتانا کہ میں اڈے سے جلیبیاں کھا کر آ رہا ہوں…نہیں تو وہ ڈانگ لے کر میرے پیچھے چڑھ دوڑے گا۔ مانی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
یار بھولے…کلو وکھری تے آدھ کلو وکھری اور تول دے۔ دیم نے اپنی قمیض کی سائیڈ والی جیب سے پیسے نکالتے ہوئے جلیبی والے بھولے سے کہا۔
یار بھولے ! گرم گرم ڈالیں۔ حمزہ  نے شاپر میں جلیبیاں ڈالتے ہوئے بھولے کو دیکھ کر کہا ۔
ٹھنڈے ٹھنڈے کینو بھی کھا لو۔ امجد میواتی کینوئوں سے بھرا شاپر بیگ اُٹھائے اُن کے پاس آیا۔ اُس کی موٹر سائیکل بھولے مٹھائی والے کے پاس کھڑی تھی۔
یا ر امجد میرا سوٹ سلا کہ نہیں…؟ مانی نے امجد کو دیکھتے ہی پوچھا ۔
فکر نہ کر تو نیا سوٹ پہن کر ہی شادی میں جائے گا۔ امجد نے تسلی دیتے ہوئے جواب دیا۔ دیم نے موٹر سائیکل کو کک ماری اور ریس دینے لگا۔ بھولے  نے جلیبیوں والا شاپر حمزہ کو پکڑا دیا۔
مانی تو میرے ساتھ آ جا۔ میں اکیلا ہی ہوں۔ امجد نے اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
یار امجد ٹائم نہیں ہے …ابھی میرے بڑے کام ہیں کرنے والے۔
مانی نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے امجد کے ساتھ بیٹھنے سے معذرت کر لی ۔
حمزہ تو آ جا… امجد نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ دیم نے اپنی موٹر سائیکل چلا دی۔
’’جن کے ساتھ آیا ہوں اُن کے ساتھ ہی جائوں گا۔‘‘ حمزہ نے چلتی ہوئی موٹر سائیکل سے گردن موڑ کر امجد کو بائے بائے کیا۔
٭
یہ ٹریکٹر کیوں بند ہوگیا ۔ ٹریکٹر کے مڈگارڈ پر بیٹھے ہوئے لڑکے نے ڈرائیور سے پوچھا۔
پتا نہیں دیکھتا ہوں۔ ڈرائیو کرنے والے لڑکے نے ٹریکٹر سے نیچے اُترتے ہوئے جواب دیا۔
ایک تو یہ گاڑیوں والے شامو شام ہی فُل لائٹیں جلا دیتے ہیں۔ مڈ گارڈ پر بیٹھے ہوئے لڑکے کی آنکھوں میں سامنے سے آتے ہوئے ٹرک کی لائٹس پڑی تھیں۔ وہ بھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ٹریکٹر سے نیچے اُتر آیا۔ جیسے ہی اُس ٹرک نے ٹریکٹر ٹرالی کو کراس کیا، ایک زور دار دھماکا ہوا۔
بند ٹریکٹر اور ٹرالی کے پہیوں نے گردش کی ، وہ کئی فٹ آگے کو ہو گئے تھے۔ ٹریکٹر والے دونوں لڑکے گھبرا گئے۔ اُسی گھبراہٹ میں وہ سڑک کے کنارے چھوٹی نہر میں داخل ہو گئے۔ نہر میں پانی نہیں تھا۔
امجد نے ٹرالی سے کچھ پیچھے ہی اپنی موٹر سائیکل کھڑی کی۔ کانپتے ہاتھوں سے اپنے موبائل کی لائٹ جلائی اور بوجھل قدموں سے ٹرالی کی طرف بڑھا۔ اُس نے جھک کر ٹرالی کے نیچے دیکھا۔ امجد کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس کی سانس اُس کی حلق میں اٹک گئی۔ اُس نے اپنی آنکھوں پر اپنا بائیاں ہاتھ رکھ لیا۔ فوراً ہی اُسے خیال آیا اُسے کچھ کرنا چاہیے۔ اُس نے اِرد گرد دیکھا، نہر میں سے اُسے کھسر پھسر سنائی دی۔
’’اوئے اِدھر آؤ اور میری مدد کرو
امجد نے اُن ٹریکٹر والے لڑکوں کو مخاطب کیا۔ وہ ڈرتے ڈرتے امجد کی طرف آ گئے۔ اُن تینوں نے ٹریکٹر ٹرالی کو دھکے سے آگے کی طرف کیا۔ تارکول کی ٹھنڈی سڑک پر گرما گرم جلیبیاں بکھری پڑی تھیں اور سرخ خون سرمئی سڑک پر بہہ رہا تھا۔
تین نوجوانوں کے جسم زخموں سے چُور چُور ایک دوسرے کے اوپر پڑے تھے۔ موٹر سائیکل کباڑ بن چُکی تھی ۔ ٹرالی کے سخت لوہے پر ڈینٹ پڑ چکا تھا۔ امجد نے مانی کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ڈرائیور بول پڑا
ہاتھ مت لگاؤ…پولیس کیس ہے۔
شاید زندہ ہوں… امجد نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا ۔
جی جی لوبن پلّی سے آپ گریڈ اسٹیشن کی طرف آئیں گے تو ڈھے والی پلی سے تھوڑا پہلے ہی …
دوسرا لڑکا موبائل پر کسی کو وقوعہ کی جگہ بتا رہا تھا۔ امجد نے حیرانی سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا۔
ریسکیو والے آ رہے ہیں۔ لڑکے نے امجد کو بتایا۔
یہ میرے ہی گاؤں ’’کلخانہ‘‘ کے لڑکے ہیں…تم لوگ یہیں رہنا میں گاؤں والوں کو  لے کر آتا ہوں۔
امجد نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے فون کرنے کی بجائے گائوں جانا بہتر سمجھا۔ اُن تینوں لڑکوں میں سے دو کی موت سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی تھی اور ایک کا پیٹ کٹنے سے۔ کسی بھی ایکسیڈنٹ میں سر کی چوٹ سب سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوتی ہے …اور ایسا ہی اِن کے ساتھ بھی ہوا تھا …اُس رات شاید ہی میرے گاؤں میں کوئی سویا ہو۔
اگلے دن ظہر کے بعد ہمارے گاؤں سے تین جنازے اکٹھے اُٹھے تھے۔ اُس دن میں نے اپنے گاؤں کے ہر انسان کی آنکھیں نم دیکھی تھیں۔ اتنا بڑا جنازہ بھی ہمارے گاؤں کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا ۔
زندگی اور موت اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے باوجود زندگی کی ناقدری کرنا حرام اور حفاظت کرنا اُسی مالک کے ہاں فرض ہے۔
کیا ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کی حفاظت کرتے ہیں…؟ کیا ہم رات کے وقت اپنی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس نیچی  رکھتے ہیں…تاکہ سامنے سے آنے والوں کو بھی دکھائی دے …؟گاڑی آہستہ چلاتے ہیں؟ یہ سوچ کر کہیں کوئی میری گاڑی کی زد میں نا آ جائے …؟
اپنی حفاظت کے لیے سیٹ بیلٹ لگاتے ہیں…؟ پچاس ہزار کی موٹر سائیکل تو خرید لیتے ہیں مگر اپنے سر کو چوٹ سے بچانے کے لیے پانچ سو کا ہیلمٹ نہیں خریدتے …کیوں…؟ سوچنے والی بات ہے نا…؟
دیر سے پہنچنا …نہ پہنچنے سے بہتر ہے۔
آپ نے بھی کسی نہ کسی شاہراہ پر لگے ہوئے سائن بورڈ پر پڑھا ہو گا۔ مگر ہمیں تو ہر جگہ پہنچنے کی جلدی ہے ۔
وہ تینوں لڑکے بھی جلدی گھر پہنچنا چاہتے تھے مگر آج تک وہ لوبن پلی سے کلخانہ گاؤں تک پانچ کلو میٹر کی مسافت طے نہیں کر سکے۔ میں آج تک اُلجھن کا شکار ہوں …کیا دیم ، مانی اور حمزہ کی جان تیز رفتاری نے لی …؟یا پھر سامنے سے آنے والے ٹرک کی تیز روشنی اُن کی موت کی وجہ بنی…؟کبھی کبھی تو مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ  کاش اُن تینوں نے ہیلمٹ پہنے ہوتے تو شاید وہ بچ جاتے
جی ہاں …ہیلمٹ۔
…٭…

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles