Home تعلیم و تربیت بچے اُردو قواعد، ہجا

اُردو قواعد، ہجا

سادہ آوازوں کو تحریری علامات میں لانے کا نام حرف ہے۔ ہجا میں حروف کی آواز اور ان کی حرکات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے۔ حروف کے مجموعہ کو ’ابجد‘ کہتے ہیں۔ (ابجد کا لفظ ابتدائی حروف ا، ب، ج ، د، سے بنا ہے)

0
2502

فصل اوّل
ہجّا

مرتبہ:ڈاکٹر مولوی عبد الحق

سادہ آوازوں کو تحریری علامات میں لانے کا نام حرف ہے۔
ہجا میں حروف کی آواز اوران کی حرکات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے۔ حروف کے مجموعہ کو ’ابجد‘ کہتے ہیں۔
(ابجد کا لفظ ابتدائی حروف ا، ب، ج ، د، سے بنا ہے)
چوں کہ اُردو زبان ہندی، فارسی اور عربی سے مل کر بنی ہے لہٰذا اس میں ان سب زبانوں کے حروف موجود ہیں۔
خاص عربی حروف یہ ہیں

ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، ق۔
یہ حروف قدیم فارسی اور ہندی یا سنسکرت میں نہیں پائے جاتے لیکن ’ذ‘ قدیم فارسی میں بھی پائی جاتی ہے اور اب بھی بعض الفاظ ’ذ‘ سے لکھتے جاتے ہیں۔
ٹ، ڈ، ڑ، خالص ہندی ہیں۔ عربی یا فارسی میں نہیں آتے۔
ز، ف، خ، غ، کی آوازیں ہندی میں نہیں مگر عربی اور فارسی دونوں میں ہیں۔
ژ خاص فارسی حرف ہے۔ ہندی یاعربی میں نہیں آتا۔

علاوہ ان تین حروف(ٹ،ڈ،ڑ) کے چند اور حروف بھی ہیں جو خاص ہندی ہیں اورعربی، فارسی میں نہیں آتے، اب تک اُردو میں یہ سادہ حروف نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان میں ہر حرف دوحرفوں کے میل سے ایک مرکب آواز خیال کی جاتی تھی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدا میں ہم نے اپنی بول چال فارسی حروف میں لکھنی شروع کی، فارسی، عربی میں یہ آوازیں نہیں اور نہ ان کے لیے حروف ہیں۔ ضرورت کے لیے ان آوازوں کو دو دو حرفوں کے ذریعے سے ظاہر کرنا پڑا ۔ یوں تو یہ دو سادہ آوازیں ہیں مگر مِل کر ایک ہو گئی ہیں۔ وہ حروف یہ ہیں

بھ، پھ، تھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ، کھ، گھ

ان کے علاوہ اُردو میں رھ، لھ، مھ، نھ کی آوازیں بھی ہیں۔ ہندی میں ان آوازوں کے لیے کوئی حروف نہیں۔ مثالیں ان کی یہ ہیں تیرھواں، کولھو، ملھو، تمھارا، ننھا۔ چوں کہ ان حروف میں پہلی سادہ آواز (ہ) کی آواز کے ساتھ مِل کر آتی ہے اس لیے معمولی ’ہ‘ سے امتیاز کرنے کے لیے دو چشمی ھ سے لکھتے ہیں۔
مثلاً کھا اور کہا، دو علیحدہ لفظ ہیں۔ تلفظ میں بھی اور معنوں میں بھی، لہٰذا اِملا میں بھی فرق کرنا چاہیے۔ یہ امتناز بہت ضروری ہے۔ اس حساب سے اُردو میں کُل حروفِ تہجی پچاس ہوتے ہیں۔
یہ حرف جوہر ملک کے ساتھ مخصوص کیے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آوازیں آب و ہوا وغیرہ کے اثر سے اس ملک والوں کے گلوں سے بہ آسانی نکلتی ہیں مگر دوسرے ممالک کے لوگ اسی وجہ سے ان کو ادا نہیں کر سکتے، یا بدوقت ادا کرتے ہیں۔

انسان کا گلا آلۂ موسیقی کے اصول پر بنا ہوا ہے اور اسی طور پر اس میں تار بھی بندھے ہوئے ہیں۔ سانس کے ہوا میں مِلنے سے زبان، تالو، ہونٹ اور خلائے دہن کی مدد سے آواز میں مختلف قسم کی تبدیلیاں ہوجاتی ہیں۔
اُردو ، فارسی ، عربی حروف پر اگر نظر ڈالی جائے تو گو وہ دیکھنے میں مختلف آوازوں کی علامتیں ہیں لیکن ان حروف کے ناموں سے کوئی سادہ آواز پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ خاسے الفاظ ہیں۔ مثلاً الف ، عین، جیم وغیرہ، حروف نہیں بلکہ پورے لفظ ہیں۔ ان سے سادہ آوازوں کا کچھ بھی خیال پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایک حرف کئی کئی آوازوں سے مرکب ہے۔
اس کی وجہ بلا شبہ یہ ہے کہ یہ اس زمانے کی یاد گارہیں جبکہ اس قسم کی تحریر ایجاد نہیں ہوئی تھی جو ہم آج کل استعمال کرتے ہیں بلکہ لوگ اپنے خیالات تصویریں بنا بنا کر ظاہر کرتے تھے۔

اوّل، اوّل تو جس شے کا بیان کرنا مقصود ہوتا تھا اس کی پوری تصویر بنا دیتے تھے مثلاً گائے یا عورت کا بتانا مقصود ہے تو وہ گائے یا عورت کی تصویر کھینچ دیتے تھے۔
دوسرے دور میں یہ اصلاح ہوئی کہ شے سے اس کا فعل ظاہر کرنے لگے۔ آنکھ سے نظر یا دو ٹانگوں سے رفتار مراد لینے لگے۔
تیسرے دور میں یہ ہوا کہ شے سے اس کی ممتاز خصائص یا ظاہری علامت سے اصل شے مراد لی جانے لگی مثلاً لومڑی کی تصویر
سے مکّاری یا تخت سے سلطنت مقصود ہوتی تھی۔
چوتھے دور میں ایک شے کے اظہار میں یہ ترکیب کرنے لگے کہ اس شے کے بولنے میں جو آوازیں پیدا ہوتی تھیں ان میں سے ہر ایک سے جو مفہوم پیدا ہوتا، اس کی ایک ایک تصویر بنا دیتے تھے۔

مثال کے لیے فرض کیجئے کہ تحریر میں کرنال ظاہر کرنا مقصود ہے تو پہلے ہاتھ کی تصویر بنائیں گے کیوں کہ ’کر‘ کے معنی ہاتھ کے ہیں ، اس کے بعد’نال‘ کی۔بعد ازاں یہ ہوا کہ یہی تصویر مختلف اصوات کی قائم مقام ہو گئیں اور انھیں تصویروں کی یاد گار یہ حرف ہیں جو اب بھی کسی قدر ان سے مشابہ ہیں۔
مثلاً الف کے معنی بیل کے سَر کے ہیں ۔ چوں کہ ’’ ا ‘‘ کی آواز اس لفظ کے آغاز میں تھی تو اس آواز کے ظاہر کرنے کے لیے گائے کا سَر بنا دیتے تھے(عربی الف کی تحریر میں اب بھی اصل سے خفیف سی مشابہت باقی ہے ) بعد ازاں خود یہ لفظ بجائے الف کی پہلی آواز کے تحریر میں ایک حرف قرار پایا۔

یہی وجہ ہے کہ فارسی، عربی، عبرانی زبانوں کے حروف در حقیقت الفاظ ہیں، یا ہر حرف کئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی دو اصلاحیں عمل میں آئیں۔ تصویر رفتہ رفتہ مختصر سی صورت میں رہ گئی۔ نام اس کا اگرچہ قریب قریب وہی رہا مگر وہ مختصر صورت اب نام کی بجائے نہیں بلکہ اس نام میں جو آواز پہلے نکلتی ہے، اس کی بجائے ہے۔ مثلاً الف کو لیجئے اس کی صورت(گائے کا سَر) مختصر ہو کر ’ ا ‘ رہ گئی ہے اور الف کے بولنے میں جو سب سے پہلے سادہ آواز نکلتی ہے، اس جگہ استعمال ہوتی ہے۔
اسی طرح ’ب‘ در حقیقت بیت ہے جس کی ابتدائی شکل ایک مستطیل مکان کی سی تھی اور اس کے نیچے نقطہ ایک شخص تھا جو مکان کے دروازے کے سامنے بیٹھا تھا۔ اب رفتہ رفتہ اس کی شکل ایک پڑی لکیر ہو گئی اور وہ آدمی نقطہ رہ گیا۔
’ج‘ جمل یعنی اونٹ ہے۔ اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہوا اور اس کی نکیل زور سے کھینچے تو اس کے سَر اور گردن کی شکل بعینہٖ ’ج‘ کی سی ہو جائے گی۔
پ (ف) عبرانی میں منھ کے معنی میں ہے۔
د (عبرانی دالت) دروازہ۔
ہ دریچہ۔
ع (عین) کے معنی آنکھ کے ہیں چناں چہ (ع) کا سِرا بالکل آنکھ کے مشابہ ہے۔
ن (نون) مچھلی، مشابہت ظاہر کرتا ہے۔
ک (کف ہتیلی) اگر ہتھیلی پھیلائی جائے تو انگلیاں انگوٹھے کے ساتھ مِل کر بالکل ’ک‘ کی صورت بن جاتی ہیں۔
م (میم پانی کی لہر)صورت سے ظاہر ہے۔
س عبرانی میں دانت کو کہتے ہیں(س) کا دندانہ بالکل دانت کے مشابہ ہے۔
و (وائو) کے معنی آنکڑے کے ہیں جس کی صورت ’و‘ سے مِلتی ہے۔

غرض اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا حروف دراصل الفاظ ہیں جو دو یا دو سے زائد آوازوں سے مرکب ہیںاور ہر ایک بہ لحاظ اپنی اوّل سادہ آواز کے ایک علامت مقرر کر لیا گیا ہے۔ مثلاً الف میں تین آوازیں ا ل ف کی ہیں مگر اب اس کے بولنے میں جو آواز پہلے نکلتی ہے اس کی بجائے مقرر کر لیا گیا ہے۔
اسی طرح دوسرے حروف کے متعلق قیاس کر لیا جائے ۔ ابتدا میں اس سادہ آواز کے لیے اس شے کی تصویر کھینچ دی جاتی تھی مگر اب ایک چھوٹی سی علامت جو کسی قدر اصل کے مشابہ ہے، بجائے اس آواز کے مستعمل ہے اور نام ان کے قریب قریب وہی ہیں جو اصل شے کے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے حروف تہجی بولنے میں در حقیقت الفاظ ہیں۔

اُردو حروف(تہجی) کُل مِلا کر پچاس ہیں اور ان میں ہر قسم کی آواز کے ادا کرنے کی گنجائش ہے اور اس خیال سے اُردو ابجد کو دُنیا کی بہت سی زبانوں پر ایک طرح کا تفوق حاصل ہے مگر دُنیا کی کوئی ابجد کامل نہیں ہے۔ ایک نہ ایک نقص ضرور رہ جاتا ہے ، یا تو کُل سادہ آوازوں کے ادا کرنے کے لیے کافی حروف نہیں ہوتے یا ایک ہی آواز کے لیے کئی کئی حروف ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ اُردو زبان بھی اس سے خالی نہیں۔ چناں چہ یہ آخری نقص اُردو زبان میں بھی پایا جاتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ اُردو کو علاوہ فارسی ، ہندی کے عربی سے بھی تعلق ہے، اس لیے کثرت سے اس کے الفاظ زبان میں موجود ہیں اور اس وجہ سے لا محالہ اس کے تمام حروف بھی اُردو ابجد میں آ گئے، ورنہ عربی الفاظ کی صحت تحریر قائم نہ رہتی۔ چناں چہ ز، ذ، ض، ظ، چار الگ الگ حرف ہیں جن کی آواز قریب قریب یکساں معلوم ہوتی ہے۔
اسی طرح س، ث، اور ت ، ط اور ح، ہ، گو عرب کا باشندہ یا وہ شخص جو تلفظ کی صحت کا خاص طور پر خیال رکھتا ہے ان حروف کے تلفظ میں فرق کر سکے مگر ہر ایک کے لیے اس کا امتیاز دشوار ہے اور بول چال میں عام طور پر ان حروف کے تلفظ میں کچھ زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔

NO COMMENTS