23 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

بیلیوں کی ادبی محفل|Denmark

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

گیارہواں حصہ

بیلیوں کی ادبی محفل

طارق محمود مرزا، سڈنی

تھوڑی دیر بعد یہ کال آ گئی۔ دو دوست ظفر اعوان اور عدیل آسی لینے آ ئے تھے۔ دونوں صاحبِ کتاب شاعر ہیں۔ ظفر اعوان اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ عدیل آسی بھی خاصے پختہ شاعر ہیں۔ یہ دونوں حضرات ادبی تنظیم بیلی کے ذمہّ داران میں سے ہیں۔
یہی تنظیم آج کی تقریب کا انعقاد کر رہی تھی۔ ہم فلیمز میں پہنچے تو حاضرین کی خاصی تعداد موجود تھی۔ جس میں کوپن ہیگن کی معروف علمی، ادبی، صحافتی اور سماجی شخصیات شامل تھیں۔ کہنہ مشق شعرا اور ادبا کے ساتھ نوجوان بھی شامل تھے۔
نوجوانوں کا ذوق دیکھ کر مجھے بے پناہ مسرت ہوئی۔ کیونکہ دیارِ غیر کی ادبی تقاریب میں اکثریت ہماری عُمر کے افرد کی ہوتی ہے، نوجوان کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے ان ملکوں میں اُردو شعر و ادب کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔
خاص طور پر وہ نوجوان نسل جو بیرونِ ملک پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کا اسلام سے تعلق تو پختہ ہے، اردو سے نہیں۔ تاہم پاکستان سے نووارد نوجوان تازہ ہوا کا جھونکا بن کر اس ادبی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔
اُنہیں دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ جس طرح محبت کبھی مر نہیں سکتی اس طرح اُردو ادب میں بھی اتنی جاذبیّت موجود ہے کہ یہ ہمیشہ زندہ جاوید رہے گی۔ یہ زندہ رہے گی تو ہم جیسے قلم گھسیٹنے والوں کو بھی شاید کوئی یاد کر  لے۔ اسی آس میں اتنے رت جگے کاٹ لیے ہیں۔
آج کی تقریب کی صدارت بین الاقوامی شہرت کے حامل شاعر، ادیب، صحافی، محقق، مترجم اور براڈ کاسڑ نصر ملک  نے کی۔ ملک صاحب ادب و صحافت کے دبستان ہیں۔
شعر و ادب سے تعلق رکھنے والی اہم بین الاقوامی شخصیات کے ساتھ ان کا تعلقِ خاص رہا ہے۔ وہ کئی عشروں تک ڈینش براڈ کاسٹنگ میں اُردو پروگرام کے سربراہ رہے۔ اندرا گاندھی، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق سمیت درجنوں سربراہان مملکت اور وزرا ئے اعظم کے انٹرویو کر چکے ہیں۔
اُردو اور انگریزی کے علاوہ ڈینش ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ کئی ڈینش ادبی شہ پاروں کا ترجمہ کر چکے ہیں۔ گفتگو کرتے ہیں تو جیسے دانش کے موتی بکھیرتے جاتے ہیں۔ ان کی دانش، تجربے اور مشاہدے کے رنگ اور ادب کی چاشنی سامعین کو مسحور کر دیتی ہے۔
نصر ملک صاحب ایک ادبی جریدے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ میرا ان سے تعلق دو دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ میری تخلیقات کو اپنے جریدے میں جگہ عنایت فرماتے ہیں۔ اس دیرینہ آشنائی ‘میری کتب کے مطالعے اور تحقیق سے فائدہ اٹھا کر میری ادبی کاوشوں پہ وہ انتہائی مربوط، جامع اور دلچسپ مضمون لکھ کر لا ئے تھے۔
عمدہ شعروں اور مرصع و مسجع اُردو سے مزین یہ مضمون حاضرین  نے نہایت دلچسپی اور محویت سے سُنا اور بہت متاثر ہوئے۔ میری ادبی کاوشوں سے اُن کی آگاہی، عمیق نظری، نکتہ آفرینی اور توصیفی کلمات پر میں حیران بھی تھا اور خوش بھی۔
میدان ادب میں نصر ملک صاحب کی عُمر کے ایسے افراد بہت خال خال ملیں گے جو ’میں ‘ کے دائرے سے باہر نکل کر اپنے سے کم عُمر اور کم تجربہ کے حامل اہل قلم کی کاوشوں کا یوں توجہ سے مطالعہ بھی کریں اور انہیں سراہیں بھی۔ ہما رے درمیان سات سمندر حائل ہو نے کے باوجود نصر ملک صاحب میری تخلیقی کاوشوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ یہ اُن کی عظمتِ کردار تھی ورنہ میں اس قابل کہاں تھا۔ میدانِ ادب میں جہاں نصر ملک جیسے لوگ ہیں جو چھتر چھاؤں کیے رہتے ہیں وہاں بدقسمتی سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے ٹیلنٹ کی اس طرح حوصلہ افزائی نہیں کرتے جو ان کا حق بنتا ہے۔
حالانکہ اس سے نہ تو کسی کا ادبی قد بڑھتا ہے اور نہ زبان و ادب کی خدمت ہوتی ہے۔ بہرحال ہر شخص کی فطرت جُدا ہوتی ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔
کتاب کی تقریبِ رُونمائی کے بعد شعری نشست تھی۔ اس میں متعدد شعرا  نے اپنا کلام سُنایا۔ کئی شاعروں  نے اپنی عُمدہ شاعری سے چونکا دیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ میں دنیا کے مختلف ملکوں میں جا چکا ہوں۔ ان ممالک میں اکثر شعر و ادب کے کسی نہ کسی ہیرے سے سامنا ہو جاتا ہے جن پر ابھی تک کسی جوہری کی نظر نہیں پڑی ہے ۔
رات گیارہ بجے ہوٹل پہنچا تو دو دن کی مسلسل بیداری اور تکان کے باوجود میں مطمئن و شاداں تھا۔ ایک دن میں اتنے اہم مقامات کی سیر کے علاوہ، پُروقار اور دلچسپ تقریب اور اتنے اچھے دوستوں سے ملاقات  نے یہ دن یادگار بنا دیا تھا۔
عام سیاح اتنے کم وقت میں اپنے ہوٹل کے گرد و نواح سے بھی آشنا نہیں ہو پاتا ۔
کمرے میں پہنچتے ہی میں  نے کوٹ اُتار کر پھینکا، ٹائی کی گرہ ڈھیلی کی اور دو دن بعد نصیب ہو نے وا لے بستر پر جا گرا۔ ارادہ یہی تھا کہ چند منٹ سستا نے کے بعد اُٹھ جاؤں گا لیکن دو تین منٹوں میں ہی دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔
جب آنکھ کُھلی اس وقت رات کے تین بجے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ میں اتنا جلد اور بے خبر سویا ہوں۔ ورنہ بستر پر جا کر بھی سوتے سوتے ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ کبھی یہ وقت کسی دلچسپ کتاب کی نذر ہوتا تھا۔ آج کل موبائل فون پر ضائع ہو جاتا ہے۔ جس کا مجھے قلق ہوتا ہے مگر عادت بدلنا مشکل ہے۔ دو دن کے سفر کی تھکاوٹ نے آ ج دونوں سے محروم رکھا تھا۔ رات گیارہ بجے تک میں  نے خود کو ذہنی طور پر مستعد رکھا تھا مگر میرا جسم اندر سے صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا۔ جونہی اسے آرام دہ بستر ملا وہ من مانی کر تے ہو ئے نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا۔
حالانکہ کمرے کی روشنی بھی جلی ہوئی تھی۔ شاید میری آنکھ نہ کھلتی۔ یہ کمرے میں بڑھتی ٹھنڈ تھی جس  نے بیدار کر دیا تھا۔ اُٹھ کر دیکھا تو کھڑکی تھوڑی سی کھلی تھی۔ ہیٹر سہ پہر میں  نے خود بند کیا تھا اور پھر آن نہیں کر سکا تھا۔ رات کے تین بجے میں نے ہوٹل کی انتظامیہ کو بُلانے سے احتراز کیا۔ کھڑکی مکمل بند کی، رضائی کے اوپر کمبل ڈالا اور دوبارہ سونے کے لیے لیٹ گیا۔
مگر اب نیند کی دیوی رُوٹھ چکی تھی۔ شاید رات کے اس سمے دخل اندازی پر وہ ناخوش تھی۔ اُدھر میں اس کو گلے لگانے کے لیے بے تاب تھا ۔اُسے منانے کی ہر سعی کی مگر وہ ہرجائی ایسی رُوٹھی کہ پھر لوٹ کر نہ آئی۔
میں شب بھر اُس کے انتظار میں خیالی اختر شماری کرتا رہا مگر اُس کی گھٹا زلفیں مجھ پر مہربان نہ ہوئیں۔
رات کے پہلے حصے میں جس  نے مجھے اپنی نرم اور گرم آ غوش میں سمیٹ کر رکھا دوسرے حصّے میں تنہا کر گئی تھی۔ میں اُس کے خیالوں میں، اس کی طلب میں کروٹیں بدلتا رہا مگر اس ظالم  نے پوری رات اپنی شکل نہ دکھائی۔ بھلا کوئی اپنوں سے ایسے رُوٹھتا ہے ۔
اس مضمون کو انگریزی میں پڑھیں
https://shanurdu.com/friends-literary-festival/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles