30 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

ٹرین کا آخری ڈبہ

احساس کے انداز

ٹرین کا آخری ڈبہ اور  ہماری ریٹائرمنٹ

تحریر:۔ جاوید ایاز خان

بڑی پرانی بات ہے جب ریل گاڑی ہندوستان میں چلنا شروع ہوئی تو ایک تیز رفتار ٹرین “طوفان میل” کے نام سے چلا کرتی تھی۔ یہ امرتسر سےروانہ ہوتی اور نہایت تیز رفتاری سے دہلی تک پہنچاتی تھی ۔
امرتسر میں ایک سردار جی  نے پہلے کبھی ریل کا سفر نہیں کیا تھا، اس لیے ٹرین کے سفر کا بے حد شوق تھا۔ ان کے دوستوں نے انھیں دہلی آنے کی دعوت دی کہ اس طرح وہ ریل کا سفر بھی کر لیں گے اور دہلی کی سیر بھی ہو جائے گی ۔
سردار جی نے اپنی سیٹ بک کروائی اور دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ اتفاق سے انھیں ریل کے آخری ڈبے میں سیٹ ملی اور وہ امرتسر سے دہلی روانہ ہوئے۔
اس زمانے میں اکثر ریلوے پلیٹ فارم کی لمبائی کم ہوتی تھی اور جب کسی اسٹیشن پر ٹرین رکتی تو اس کا  آخری ڈبا پلیٹ فارم سے باہر ہی رکتا تھا۔
جبکہ ریلوے کے چائے پانی کے اسٹال پلیٹ فارم کے درمیان میں ہوتے اب سردار جی جونہی کوئی اسٹیشن آتا، اُتر کر پلیٹ فارم کے درمیان اسٹال تک پہنچنے کی کوشش کرتے مگر طوفان میل کا اسٹاپ بہت کم ہوتا تھا۔ؔ
وہ ابھی چند قدم ہی چلتے کہ انجن روانگی کے  لیے وسل دے دیتا اور وہ الٹے پیر بھاگ کر واپس اپنے ڈبے میں  دوڑ کر سوار ہو جاتے۔
کھانے پینے کی کوئی شے خرید نہ پاتے۔ امرتسر سے دہلی تک وہ  بھوکے پیاسے سفر کرتے پہنچے۔ جہاں ان کے دوست استقبال کے لیے موجود تھے ۔
انھوں نے پوچھا، سردار جی ٹرین کا سفر کیسا لگا؟ ٹرین کیسی لگی؟ سردار جی کا بھوک پیاس سے برا حال تھا  اصل بات کیا بتاتے؟
بولے ٹرین کا سفر بہت اچھا تھا اور ٹرین بھی بہت اچھی اور تیز رفتار ہے، مگر اس میں آخری ڈبا نہیں ہونا چاہیے۔دوستوں نے حیرانی سے پوچھا:
کیوں سردار جی؟ہر ٹرین کا آخری ڈبا تو ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ٹرین مکمل نہیں ہوتی۔ یہ ڈبا تو لگانا ہی پڑتا ہے ۔سردار جی چند  نے لمحے سوچا اور بولے اگر یہ آخری ڈبا لگانا اتنا ہی ضروری ہے، تو اسے درمیان میں کیوں نہیں لگا دیتے؟ کاش اسے کوئی بتا سکتا یہی آخری ڈبا ہی تو  ہے جو پوری ٹرین کو مکمل کرتا ہے ۔

یہ لطیفہ تب یاد آیا جب ایک ریٹائرڈ آفیسر دوست سے ملاقات ہوئی۔ وہ ابھی تازہ تازہ ہی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔
میرا تجربہ ہے کہ جب آدمی  خاص طور پر بڑا آفیسر ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آتی ہے۔ ملازمت کے دوران اسے ریٹائرڈ زندگی دُور سے بڑی خوبصورت نظر آتی ہے۔
وہ سالہاسال کی پابندیوں سے آزاد ہونے کی خواہش رکھتا ہے، مگر ریٹائرمنٹ کے بعد جب عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے، تو وہ پہلے چند ماہ کے دوران لوگوں کے بدلتے رویے اور سلوک برداشت نہیں کر پاتا اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک حکمران سے ایک عام رعایا بن چکا ہے۔ میرے یہ دوست بھی شاید اسی بحران اور پریشانی سے دوچار تھے؟ کہنے لگے یار یہ ریٹائرمنٹ نہیں ہونی چاہیے۔
میں نے کہا: بھائی کب تک آخر؟ ایک نہ ایک دن ریٹائر تو ہونا ہی ہوتا ہے۔  یہ تو زندگی کا ضروری حصہ ہے۔
انسانی حسن اور حکومت کی عمر کتنی بھی کیوں نہ ہو، اس نے ختم ہونا ہوتا ہے۔
کہنے لگے: اگر ریٹائر کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو ذرا جلدی کر دیا کریں۔ ساٹھ سال کے بعد ہی کیوں؟ انسان کچھ اور کرنے کے قابل تو ہو سکے۔
ایک تو ساٹھ سال کے بعد صحت جواب دے جاتی ہے۔
دوسرے مالی اور ذہنی مشکلات گھیر لیتی ہیں۔
تیسرے گھر والوں اور لوگوں کا ریٹائرڈ آدمی سے سلوک اور رویہ پریشان کر دیتا ہے۔
وہ خود کو بےکار اور دوسروں پر بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔
میں نے اپنے ساتھ کے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ پہلے پہل تو وہ اپنی اکڑفوں اور ٹپ ٹاپ قائم رکھتے ہیں، پھر چند دن بعد وہ فوری ڈاڑھی رکھ کر عبادت کے لیے مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔
خیرات و زکوۃ میں دلچسپی ،سماجی خدمت اور لوگوں اور ان کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر سمجھانا اور روک ٹوک کرنا معمول بنا لیتے ہیں۔
شاید یہ رویہ اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں اور کرسی کے تکبر کی تلافی ہو سکے۔ کچھ لوگ تبلیغی جماعت میں شامل ہو کر نیکی کا درس دینے لگتے ہیں۔
اسی میں بھلائی اور مصروفیت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پہلے جیسی توجہ اور اہمیت سے محرومی انھیں ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتی ہے۔
بیشتر بزرگ نہایت غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک بن جاتے ہیں ۔
حدیث مبارک ہے “پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ۔
بیماری سے پہلے صحت کو ،مشغولیت سے پہلے فرصت کو ،
تنگدستی سے پہلے فراخی کو ،
بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ،
اور موت سے پہلے زندگی کو۔ ”
اسلام ایک ایسا مذہبی نظام ہے جو دنیا اور آخرت اور جسمانی و رُوحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں۔
یہاں ہماری زندگی میں ریٹائرمنٹ ہماری ملازمت کا اختتام تو ہے، مگر زندگی کی سرگرمیوں کا اختتام نہیں، بلکہ ایک نئی زندگی کی شروعات اور آغاز ہوتا ہے ۔
شاید یہ بات اہم نہیں کہ آپ نے کتنی عمر پائی بلکہ یہ ہے آپ نے اس عمر اور زندگی کو کہاں اور کیسے گزارا ہے؟
بنی کریم ؐ نے فرمایا کہ:
” قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ ربالعزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے کہ،
اس نےعمر کس چیز میں صرف کی؟ جوانی کہاں خرچ کی؟ مال کہاں سے کمایا اور خرچ کیا؟جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟ ( ترمذی )
اس لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے اور اگر شروع زندگی میں عبادات اور معاملات کے کچھ حق ادا نہیں ہوسکے تو ریٹائرمنٹ کے بعد اب جو فرصت اور مہلت عطا ہوئی ہے، اسے غنیمت سمجھ کر وہ سب حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں ۔
ریٹائرمنٹ آپ کی عملی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئے اور خوشگوار سفر کا آغاز ہے۔ ایسا سفر جس سے آپ بہت سی فکروں سے آزاد ہو کر دوسرے لوگوں کے ساتھ لطف انداوز ہو سکتے ہیں ۔
ان کاموں کو کرنے کے بارے میں سوچیں جو آپ ساری عمر کرنا چاہتے تھے پر کر نہیں پائے ۔ اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ صحت کا خیال رکھیں۔
اپنے دینی اور دنیاوی علوم میں اضافہ کریں۔
اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات پر توجہ دیں کیونکہ یہ عبادات سے بھی اہم ہیں۔ چونکہ معاملات کی درستگی کے بغیر عبادات نامکمل ہیں۔
گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں۔ بچوں سے گھل مل جائیں۔ رشتے داروں، عزیزوں اور دوستوں کے حقوق ادا کریں۔
رفاہ عامہ کے کام کریں۔ بول کر ،لکھ، پڑھ اور پڑھا کر، اپنے عمل سے اچھائی پھیلائیں۔ برائی سے روکیں۔
اپنی اولاد کی اصلاح پر توجہ دیں۔ یہ ہماری زندگی کا آخری حصہ ٹرین کے آخری ڈبے کی طرح ہے، جس کے بغیر ہماری زندگی مکمل نہیں ہوتی۔ یہی اس وقت کی بڑی اہمیت اور افادیت ہوتی ہے۔
یہ وہ وقت ہے جو  خوش قسمتی سے ہمیں اپنی سابقہ کمی اور کوتاہی دُور کرنے لیے خدا ایک بڑی نعمت کے طور پر عطا فرماتے ہیں ۔
قدرت کے اس انعام کا ہر وقت شکر ادا کریں شاید یہ وقت اور موقع سب کو نہیں ملتا ۔
جب انسان اس دنیا سے جاتا ہے تو اس کا ہر عمل موقوف ہو جاتا ہے، مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔
ایک صدقہ جاریہ کا،
دوسرے اس کے علم کا جس سے لوگوں فائدہ اُٹھائیں۔
تیسرے نیک اولاد کا جو اس کے لیے دعاکرے (مسلم :۴۲۲۳)
آئیں اپنی زندگی کے ان آخری ایام کو اپنے لیے اور معاشرے کے لیے کارآمد اور یادگار بنائیں۔
عبادت کے ساتھ ساتھ صدقہ جاریہ اور لوگوں کی بھلائی کے کام کریں۔
دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی سعی کریں۔
یاد رکھیں کہ رضا الہی بذریعہ خدمت انسانیت وہ راستہ ہے ،
جو آپ کی منزل کا حصول آسان اور نزدیک تر کر سکتا ہے۔
آپ کو اخلاق و کردار کے ایسے  بڑے عہدے پر فائز کر دیتا ہے ،
جن پر فائز لوگ کبھی بھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے۔ دنیا انھیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے!!

یہی   ہے  عبادت   یہی  دین  و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles