31 C
Lahore
Friday, April 19, 2024

Book Store

زندگی کو راستہ دو| zindagi ko rasta do

احساس کے انداز    

زندگی کو راستہ دو

تحریر؛۔ جاویدایازخان

راستے اور گزرگاہیں انسان کو اس کی منزل مقصود تک لے جانے کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ہماری زندگی میں راستوں کی غیرمعمولی اہمیت اور ضرورت ہے۔
راستہ چاہے زمینی ہو ،سمندری یا فضائی سب کے اصول اور قوانین مقرر ہوتے ہیں۔ ذرا سی بے احتیاطی یا خلاف ورزی ہمیں حادثات سے دوچار کر دیتی ہے۔
موجودہ دور میں راستوں کے متعلق مستقل نظام اور قانون تشکیل پا چکا ہے، جس سے معمولی سا بھی خلل ہماری زندگی کے ڈھانچے کو تہ و بالا کر دیتا ہے ۔
ہماری دن بدن سکڑتی ہوئی سڑکیں، گلیاں ،بازار اور راستے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان اصولوں اور قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔ سڑکوں بازاروں میں ناجائز تجاوزات، ٹھیلوں اور ریڑیوں کی بھرمار، محلے کی گلیوں اور گزرگاہوں میں ریمپ ،تھڑے ،گیراج ،احاطے، بڑھے ہوے شیڈ بتاتے ہیں کہ معاشرے میں اپنی حدود سے تجاوز کو برا نہیں سمجھا جاتا۔
۳۰ فٹ کی  چوڑی سڑک سکڑ کر دس فٹ رہ جاتی ہے۔ راستوں کے ان حقوق کی پامالی اور اپنی حدود سے تجاوز کا نقصان ہمیں خود کو ہی ہوتا ہے ۔
سڑک ،گلیاں اور راستے عوام الناس کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ان پر سب کا حق مساوی ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی ملکیت سے زیادہ ایک انچ بھی تجاوز کرتے ہی تو گویا ہم دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا گناہ اور قانون و اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ جس کا نقصان ہم خود ہی اُٹھاتے ہیں ۔
سڑکوں ،گلیوں اور راستے پر گندگی ،کوڑا کرکٹ پھینکنا،  بلاوجہ سپیڈ بریکر بنا دینا، اپنی تجاوزات کی حفاظت کے لیے باونڈری اور اینٹیں رکھنا، ٹینٹ یا قنات لگا کر اپنی تقریب کے لیے راستہ بند کرنا، یا سڑک پر تعمیراتی سامان رکھ کر راستے تنگ کر دینا، سڑک یا گلی کو کھود کر پھر اُسے ہموار نہ کرنا ،گھر کا پانی سڑک پر چھوڑنا، اپنے گھر کا پرنالہ باہر سڑک پر گرانا، یہ دراصل لوگوں کا راستہ روکنے کے مترادف ہے، جو نہ صرف اخلاقی ،قانونی اور سماجی جرم بلکہ ہمارا  مذہب اسلام  بھی اس کی سختی سے ممانعت کرتا ہے ۔

کہتے ہیں ایمبولینس کے سائرن کی آواز دراصل تڑپتے انسان کی پکار اور اوندھے منہ پڑے ہوے زخمی کی چیخ  اور  درد سے تڑپتی کسی حاملہ کی فریاد ہوتی ہے۔
ایمبولینس کو راستہ دینا کسی کی زندگی کو راستہ دینے کے مترادف ہے ۔یہ ہمارا اخلاقی، مذہبی اور قانونی فرض ہے کہ لوگوں اور ایمبولینس  کے راستے بند نہ کئے جائیں۔
راستے اور شاہراہیں خواہ کتنی ہموار اور کشادہ اور شاندار کیوں نہ ہوں مگر ان  پر رواں دواں گاڑیوں میں سوار لوگوں کے دلوں میں دوسروں کی مصیبت کا  احساس پیدا کرنا ایک مشکل کام ہے ۔
آئے دن ٹریفک ہجوم ، وی آئی پی موومنٹ، مظاہرے، احتجاج اور جلسہ جلوس کی وجہ سے راستوں کی بندش ایک معمول بن چکا ۔
معمولی نوعیت کے جھگڑے یا توتکار پر ٹریفک بلاک کرنا عام سی بات ہے ۔ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے بے شمار مریض اور زخمی ہسپتال کے  راستے میں دم توڑ جاتے ہیں۔
حاملہ خواتین سڑکوں پر بچے پیدا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، مگر  بےحسی اتنی ہے کہ ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی شاید ہمیں اس برائی اور زیادتی کا احساس نہیں ہوتا۔
غلط پارکنگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا رواج بےحد عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سڑک پر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا استعمال ،پریشر ہارن ،اونچی آواز میں موسیقی چلانا ،جارحانہ انداز میں ڈرائیونگ جس سے ہمارا پورا معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔
ذرا سوچیے کہ  آپ کی غلط پارکنگ کسی کی جان بھی لے سکتی ہے؟ شور وغل کسی کو ذہنی اذیت سے دوچار  بھی کر سکتا ہے؟ اللہ کی خوشنودی  کے لیے عبادات کے ساتھ ساتھ ان انسانی معاملات کا خیال رکھنا  بےحد ضروری ہے ۔

انسانی راستوں اور گزرگاہوں کو صاف ستھرا، کھلا اور محفوظ رکھنے کے اصول اور قانون ساری دنیا میں تقریباً یکساں ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی ان اصولوں اور قوانین پر ہی عملداری کا دوسرا نام  ہے ۔
تمام راستوں اور گزرگاہوں پر سب انسانوں کا مساوی حق دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارا دین اسلام اس سلسلے آج سے پندرہ سو سال قبل ہی واضح ہدایات دے چکا ہے ۔اسلام  نے حقوق و واجبات کی فہرست میں راستے کے حق کا اضافہ کیا، اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا کہ راستہ مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے مامون و محفوظ ہونا چاہیے۔
انھیں گزرنے کے دوران کسی تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی عبادت قرار دیا ہے۔ راستے سے تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی معمولی صدقہ نہیں، بلکہ یہ اتنا بڑا عمل خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لیے کافی ہے ۔
حدیث مبارکہ ہے” راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی۔ اس نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی”( بخاری و مسلم )
راستے کے اسلامی حقوق میں ایک بات مشترک ہے کہ راستہ تمام لوگوں کی گزرگاہ ہو۔ اس پر کسی کی خاص ملکیت و قبضہ نہ ہو ۔ٓ
آج ناجائز تجاوزات نے بازاروں میں چلنا مشکل کر دیا ہے۔ کیفے اور ہوٹلوں کی کرسیاں سڑکوں پر لگا دی جاتی ہیں ۔ہماری سڑکیں دن بدن سکڑتی جارہی ہیں ۔کوئی نہیں جو روک سکے۔ انتظامیہ اور حکومت بےبس نظر آتے ہیں ۔

اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔
ان کا تعلق عقائد سے ہو،
عبادات سے یا معاملات،
اخلاقیات اور معاشرت سے،
اسلام کا اپنے ماننے والوں سے تقاضہ ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔  چاہے وہ چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق کیوں نہ ہوں ۔
دین اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے، وہیں راستوں کے تقدس اور حقوق کے متعلق بھی درس دیا ہے۔ کیونکہ یہ کوئی چھوٹا نہیں بلکہ بہت بڑا مسٔلہ ہوتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’راستوں پر بیٹھنے سے احتراز کرو ۔‘‘
لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ! ہمیں تو اس سے چارہ نہیں ہے۔  ہم  نے آپس میں بات چیت کرنی ہوتی ہے۔
“رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ اگر اس سے انکار کرتے ہو تو پھر راستے کے حق کا خیال رکھو ۔‘‘
انھوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسولﷺ ! راستے کا کیا حق ہے ؟
آپ نے فرمایا :’’ نظر نیچی رکھنا،
تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا،
سلام کا جواب دینا،
بھلی بات کہنا اور برائی سے روکنا ۔
راستے کی زمین عوام الناس کی ملکیت تصور کی جاتی ہے۔ اس لیےاس پر قبضہ ناجائز ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ ہمارے حضور پاکﷺ نے فرمایا:
“جو شخص کسی کی بالشت برابر زمین  بھی ظلم و زیادتی سے  لے گا تو (قیامت کے دن )سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا (صیح بخاری شریف)

 راستے دھرنوں یا کنٹینرز سے بند ہوں
یا ناجائز تجاوزات،
جلسے، جلوس اور تقریبات،
ناجائز قبضوں سے انھیں کھلوانا انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن۔
ے ساتھ ساتھ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے۔
ذرا سوچیں اور لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے بجائے ان کی تکلیفوں کو کم کریں۔ دیگر عبادات اور معاملات میں بہتری کے ساتھ راستوں کے حوالے سے بھی اپنی عادت کو بہتر کریں ۔
تاکہ ان غیرقانونی رکاوٹوں سے کوئی زخمی یا مریض ایمبولنس میں دم نہ توڑے۔ کسی خاتون کی زچگی سڑکوں پر نہ ہو۔ کسی بچی یا بچے کو گھر جانے کی پریشانی پیش نہ آئے ۔
یاد رکھیں کہ راستے بند ہونے سے زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس لیے خدارا!  لوگوں کے راستے تنگ نہ کریں اور زندگی کو راستہ دیں!
کسی کی موت کے ذمہ دار مت  بنیں! کیونکہ راستوں کی بندش اور تنگی قانوناً ہی جرم ہی  نہیں بلکہ اخلاقی برائی اور مذہبی طور پر بھی گناہ ہے۔
حضورﷺ نے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کر صدقہ قرار دیا ہے۔ ایسے شخص کو جنت کی بشارت دی ہے  ۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں اخلاقی اقدار اور حقوق العباد کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے انحراف اور نافرمانی بدترین گناہ اور عذاب کا سبب ہے ۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles