احساس کے انداز
نفاق یا اتفاق
تحریر ؛۔ جاوید ایاز خان
میرے بہت ہی پیارے دوست اور بھائی سابق ڈی ایس پی جناب عزیز اللہ خان صاحب نے ایک بہت عمدہ بلاگ تحریر کیا ہے جو ہمارے دلوں کو چھو گیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں آ ج میں نے بازار میں پھل بیچنے والے سےپوچھا:
“اس انگوركےگچھےکی قیمت؟
بولاصاحب: 400 روپے کلو
پاس ہی الگ سے کچھ مختلف ٹوٹے ہوئے انگوروں کے دانےبھی پڑے ہوئے تھے.
اس کا بھاؤ؟
وہ کہنےلگا: 100 روپے کلوؔ
میں نے پوچھا: “اتنا کم دام کیوں”؟
وہ بولا: ہیں تو یہ بھی بہت عمدہ .. !! لیکن …یہ گچھے سے ٹوٹ گئے ہیں.
اسی وقت میرےذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ اپنے معاشرے اور خاندان اور قوم سے الگ ہونے پر ہماری قیمت …. آدهی سے بھی کم رہ جاتی ہے.
واقعتاً اتفاق و اتحاد میں طاقت ہے
اتحاد جب مٹی نے کیا تو اینٹ بن گئی،
اینٹوں نے کیا تو دیوار بن گئی،
دیوار نے کیا تو گھر بنا،
یہ بےجان چیزیں ہے،
یہ جب ایک ہو سکتے ہیں تو، ہم تو انسان ہیں
ذرا سوچیئے گا…..!!!!!
اپنے ملک سے پیار کیجیے۔
نفاق نہیں اتفاق کیجیے
آج ہم اور ہماری قوم سیاسی ،سماجی ،طور اپنے اپنے ذاتی مفادات اور برتری و سبقت کی دوڑ میں نفاق کا شکار ہو چکے۔ دن بدن اتفاق کی نعمت سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔بڑھتی ہوئی نفرتیں، غصہ، عدم برداشت،ہمیں تباہی کے گڑھے کی جانب کھنچ رہا ہے ۔
ہم نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے۔ گروہوں، جماعتوں، جتھوں، گروپوں، برادریوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔
یاد رکھیں، تقسیم، نفاق اور نفرت سے عدم برداشت، غربت، جرائم اور کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے عام آدمی کے ساتھ پورا معاشرہ بھی بےحد متاثر ہوتا ہے۔
ہمارا ملک پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی ایک نہایت نازک اور افسوس ناک صورتحال سے گزر رہا ہے ۔
وقت اور اپنے ملک و قوم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بطور قوم اپنی ذاتی اناؤں کو بھول کر ملک کی سلامتی کے بارے میں سوچیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس مقصد کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ خدارا مثبت اور اچھی سوچ کو معاشرے میں فروغ دینے کے لیے کردار ادا کریں۔
عزیز اللہ خان صاحب کی بات بالکل درست ہے، کیونکہ تسبیح ٹوٹ جائے تو اس کے دانے بکھر جاتے ہیں۔ انھیں پھر سے ایک لڑی میں پرونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔قومیں، خاندان اور گھر تسبیح کے مانند محبت کی مقدس لڑیاں ہوتی ہیں۔
اگر ٹوٹ جائیں تو بکھر کر پھیل جاتی ہیں۔ انھیں دوبارہ اکٹھا کر کے پرونا ایک بہت ہی مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں:
“اتحاد ،اتفاق اور نفاق بظاہر معمولی الفاظ نظر آتے ہیں لیکن ان کی طاقت وقت آنے پر ہی محسوس ہوتی ہے۔
زبان، سوسائٹی اور قوم میں اس کی اہمیت اور افادیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔
مثلا” اتحاد میں طاقت ہے۔ مل کر ہم ا یک دوسرے کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں اور تنہا ہو کر گرتے ہیں۔
https://shanurdu.com/zindagi-ko-rasta-do/
“اللہ نے اس بارے میں ہدایت فرمائی ہے:
” اور(مومنو) سب مل کر اللہ کی رسی (یعنی اللہ کے دین )کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا۔ “
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوے تاروں سے کیا کام بنے
ہمارے قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بے حد علم وعقل اور بصیرت سے نوازا تھا۔ آپ کے سنہری اصول آج ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
آپ کا یہ نعرہ “اتحاد ،ایمان اور نظم” اسلام کے سنہری اصولوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
مجھے چوتھی جماعت میں پڑھی بوڑھے کسان کی وہ کہانی یاد آ رہی ہے جسے آج بھی جتنی مرتبہ پڑھ لیں وہ نئی ہوتی ہے ۔
ایک کسان کے چار بیٹے تھے جو آپس میں نااتفاقی کی وجہ سے جھگڑتے رہتے۔ کسان جب بستر مرگ پر پہنچا تو اس نے چاروں کو بلایا۔ انھیں لکڑیوں کا ایک گٹھا لانےکو کہا۔ بیٹوں سے کہا کہ تم میں سے ہر ایک اس گٹھے کو توڑنے کی کوشش کرے۔
چاروں نے ایک ایک کر کے کوشش کی مگر ناکام رہے۔ پھر کسان نے کہا اب گٹھا کھول کر اس کی ایک ایک لکڑی کو توڑو۔ ان چاروں نے ساری لکڑیاں آرام سے توڑ دیں۔
کسان نے کہا: اس میں تمہارے لیے سبق ہے کہ اگر تم گٹھے کے مانند مل کر جڑے رہو گے تو مضبوط اور طاقتور رہو گے۔ نااتفاقی اور الگ الگ رہنے میں کمزوری اور بربادی ہے۔ ایک ایک کر کے تمہیں توڑ دیا جائے گا۔
آپس کا اتفاق کچے گھروں کو قلعوں سے زیادہ مضبوط بنا دیتا ہے۔ بزرگ کہتے تھے کہ اتفاق کی جڑ “تواضع” ہے۔ اگر ہر شخص دوسرے کو اپنے سے افضل اور اچھا سمجھے تو پھر نااتفاقی کی نوبت ہی نہیں آتی، کیونکہ نااتفاقی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اپنے آپ کو دوسروں افضل اور بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
“اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو ،آپس میں نہ جھگڑا نہ کرو ،ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی ،اور صبر سے کام لو۔ یقین رکھو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال :۴۶ )
ربط قائم فرد ملت سے ہے تنہا کچھ نہہیں
موج جو دریا میں ہے بیرون دریا کچھ نہیں
واقعی یہ سوچ کا مقام ہے ہمارے ملک، معاشرے، خاندان، گھر بلکہ پوری قوم کو اتحاد و یگانیت کی جو ضرورت آج ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
ملک اور قوم کے استحکام کے ساتھ ساتھ آج ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثالی اتفاق و اتحاد و یکجہتی کی بےحد ضرورت ہے۔
آئیں دوسروں سے خیرخواہی کرنے والے جذبے کو بیدار کریں۔ دوسروں کے دکھوں کو بانٹیں۔ نفرت اور بےحسی کی روش چھوڑ کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ان کے معاون اور مدد گار بن جائیں ۔
اس نفسانفسی اور خلفشار کے دور میں بھی اختلاف ضرور رکھیں مگر نفرت نہیں۔ تنقید ضرور کریں لیکن بدتمیزی نہیں۔ سیاست ضرور کریں لیکن دشمنی اور انتقام نہیں۔
یاد رکھیں، احترام کرنا انسانیت ہے، آپ کی کمزوری نہیں۔ ہمارے انفرادی اور اجتماعی رویے ہماری قومی پہچان ہوتے ہیں۔
مسلمان ہوتے ہوئے اپنی مذہبی اور قومی پہچان اور شناخت کو دنیا کے لیے مثال بنائیں۔
آپس میں محبت اور رواداری کے رشتے قائم رکھیں، کیونکہ ہم جس عظیم نبیﷺ کی اُمت ہیں، وہ امن کا پیغام اور درس دیتے ہیں۔ وہﷺ محسن انسانیت اور رحمت اللعالمین بن کر دنیا میں تشریف لائے ۔انھوں نے دلوں کی کدروتوں کو دُور کر کے بکھرے ہوؤں کو یکجا کیا۔
دشمنوں کو معاف کر کے دنیا کو ہمدردی اور محبت ایسا سبق دیا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یاد رہے اب دنیا میں جنگی حکمت عملی بدل چکی۔ ہمارے دشمن ہمیں ہتھیاروں کے بجائے اب نفرتوں اور بدامنی کو پھیلا کر ہمیں آپس میں لڑا کر تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ہم نے یکجا اور متحد ہو کر محبت اور امن سے انھیں ناکام بنانا ہے۔ یہی آج وقت کا تقاضا ہے!!!