24 C
Lahore
Tuesday, October 8, 2024

Book Store

ٹیکسی

ٹیکسی

مقبول جہانگیر

کالگن نے چائے کی پیالی میز پر رکھی اور جیب سے سگریٹ نکال کر سُلگایا ہی تھا کہ اُس کے نائب، میک آلیور نے منہ بنا کر کہا:

’’لیجیے آئی مصیبت!‘‘

کالگن نے گھوم کر دیکھا۔ دروازے میں ایک دراز قد عورت کھڑی تھی۔ اُس کے قیمتی لباس اور اَنداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اَچھے گھرانے کی تعلیم یافتہ عورت ہے، تاہم قدرے پریشان نظر آ رہی تھی۔
اُن دونوں کو وَہاں بیٹھے دیکھ کر اُس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نمودار ہوئی اور وُہ نپے تُلے قدم اٹھاتی میز کے قریب آ گئی۔

’’مسٹر کالگن! مَیں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں ….. مجھے آپ کے دفتر جانا چاہیے تھا، لیکن اِس خوف سے کہ میرا تعاقب کیا جا رہا ہے، مَیں وہاں نہیں گئی ….. مجھے معلوم تھا آپ یہاں موجود ہوں گے …..‘‘

کالگن نے اُس کی کانپتی ہوئی آواز سے اندازہ کیا وہ بہت دہشت زدہ ہے اور مشکل سے اپنے آپ پر قابو پائے ہوئے ہے۔

’’بیٹھ جائیے مادام!‘‘ کالگن نے تیسری کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

میک آلیور گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’مَیں چلتا ہوں، دفتر میں بیٹھوں گا۔‘‘ اُس نے عورت کو گھور کر دیکھا اور پیر پٹختا ہوا باہر چلا گیا۔

کالگن نے مسکراتے ہوئے کہا:

’’یہ میرا شریکِ کار ہے۔ اپنی شادی کے مسئلے پر بات کرنا چاہتا تھا کہ آپ نے تشریف لا کر اُس کا سارا مزا کِرکرا کر دیا۔‘‘

’’مسٹر کالگن! میرا کام انتہائی اہم ہے اور چونکہ آپ کی شہرت سے آگاہ ہوں، اِس لیے اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے سیدھی آپ کے پاس چلی آئی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کام صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔‘‘

کالگن نے نیا سگریٹ سلگایا۔ ’’تفصیل بتائیے مادام! آپ کا کام کیا ہے اور آپ اتنی خوف زدہ کس لیے ہیں؟‘‘

عورت نے چند لمحے سوچنے کے بعد سرد آہ بھری اور رُندھے ہوئے لہجے میں بولی:

’’میرا نام مسز زیروس ہے۔ گزشتہ سال سیّاحت کے دوران میں میری ملاقات ایک غیرملکی شخص سے ہوئی، تعلقات بڑھے اور مَیں نے اُس سے شادی کر لی۔ بڑی محبت ہے مجھے اُس سے …..‘‘

’’معلوم ہوتا ہے اُس نے آپ سے بےوفائی کی اور اب کسی اور عورت کے تعاقب میں ہے۔‘‘ کالگن نے لقمہ دیا۔

’’کاش ایسا ہوتا مسٹر کالگن! مَیں اپنے شوہر کی بےوفائی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن یہ معاملہ تو بےوفائی سے زیادہ اَلم ناک ہے۔
مجھے معلوم ہوا ہے میرا شوہر جاسوس ہے اور ہمارے ملک کے فوجی راز حاصل کر کے جرمنوں کے ہاتھ فروخت کر رہا ہے۔‘‘

کالگن نے ہاتھ سے پیالی رکھ دی۔ اُس کی بھوئیں تن گئیں۔ ’’معاملہ دلچسپ ہے۔‘‘ اُس نے دل میں سوچا اور کرسی پر سیدھا بیٹھ گیا۔

’’یقین کیجیے، میرا آرام اور چَین برباد ہو گیا ہے۔‘‘ عورت نے روتے ہوئے کہا۔ ’’
میری سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں، کہاں جاؤں، کس سے ذکر کروں۔ چند ماہ پیشتر میری ایک سہیلی نے آپ کے چند کارنامے سنائے تھے، اِس لیے چلی آئی۔
مَیں آپ کو منہ مانگی فیس ادا کروں گی۔ اللہ کے لیے مجھے اِس عذاب سے نجات دلائیے۔‘‘ اُس کی خوبصورت نیلی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے۔ کالگن کو متاثر ہونے میں دیر نہ لگی۔

’’مادام! اگر چاہتی ہیں کہ مفید نتائج برآمد ہوں، تو سب کچھ سچ سچ بتا دیجیے۔‘‘

’’مَیں کچھ بھی نہیں چھپاؤں گی۔‘‘ مسز زیروس نے رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
’’مجھے چھے ماہ پیشتر احساس ہوا کہ میرے شوہر کا رویّہ پُراسرار اَور ناقابلِ فہم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ چپ چاپ رہتا ہے جیسے کسی ذہنی اذیت یا غم میں مبتلا ہے۔
مَیں نے کئی بار اُس سے اِس کا سبب دریافت کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ہر بار ٹال جاتا۔ صبح ناشتا کرتے ہی گھر سے نکلتا اور رات گئے لَوٹتا۔ کبھی کبھی آدھی رات کو بستر سے اٹھ کر چپکے سے باہر چلا جاتا۔

’’ہٹلر کے اعلانِ جنگ سے چند ہفتے پہلے ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ مجھے سویا ہوا سمجھ کر گھر سے نکلا، لیکن کھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔
مَیں نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میرا شوہر کہاں جاتا ہے، اُس کا تعاقب شروع کر دیا۔ وہ اِدھر اُدھر یا پیچھے دیکھے بغیر جا رہا تھا۔
آخرکار ویسٹ اینڈ کے ایک چھوٹے سے کلب میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر بعد مَیں نے دروازے سے لگ کر دیکھا، وہ ایک اور شخص سے رازدارانہ باتیں کر رہا تھا۔
مَیں دوسرے آدمی کو پہچانتی تھی، وہ ایک غیرملکی سفارت خانے کا ملازم تھا۔ اُن دونوں کو یوں ملتے دیکھ کر فوراً یہ خیال آیا کہ میرا شوہر جاسوس ہے۔
نہ جانے وہ کب تک وہاں رہا۔ مَیں الٹے پاؤں گھر آ گئی، لیکن مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔ میرے دل و دماغ پر دہشت طاری تھی اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کیا کروں۔

’’مَیں نے اپنے شوہر سے کچھ نہ کہا، مگر چپکے چپکے اُس کی پُراسرار حرکتوں اور آمد و رفت پر نگاہ رَکھنے لگی۔ اِس دوران میں مجھے بہت سی باتیں معلوم ہوئیں۔
اگر پولیس کو جا کر بتا دیتی، تو میرا شوہر یقیناً جیل میں ہوتا، لیکن اُس محبت کے باعث جو مجھے اپنے شوہر سے ہے، مَیں نے پولیس کی مدد حاصل نہیں کی، مگر اب معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔‘‘

مسز زیروس ویران نظروں سے چھت کی طرف تکنے لگی۔ کالگن خاموشی سے سگریٹ کے کش لگاتا رہا۔

’’آپ کو یاد ہو گا مسٹر کالگن! گزشتہ ہفتے اخباروں میں یہ سنسنی خیز خبر شائع ہوئی تھی کہ ریجنٹ پارک میں کھڑی ہوئی ایک کار میں سے چند اہم ترین سرکاری کاغذات چرا لیے گئے یں۔
اُن کا تعلق برطانیہ کی خفیہ سروس سے تھا۔ چوری کا سراغ لگانے میں پولیس ناکام رہی ہے، لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ پرسوں رات مَیں نے وہ تمام کاغذات اپنے گھر میں دیکھے۔
میرے شوہر نے اپنے کمرے میں کتابوں کی الماری کے پیچھے چرمی تھیلے میں اُنھیں بند کر رکھا تھا۔‘‘

’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘ کالگن نے پوچھا۔

’’کاغذات کو دیکھتے ہی میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ شام کو جب میرا شوہر گھر آیا، تو مَیں نے اُسے الگ لے جا کر پوچھا کہ یہ کاغذات کہاں سے آئے اور ویسٹ اینڈ کلب میں آدھی رات کو وہ کس سے ملنے جاتا ہے؟
میری باتیں سن کر اُس کا رنگ اڑ گیا اور اُس نے حسبِ معمول مجھے بہکانے کی کوشش کی، مگر مَیں نے سختی سے کہا:
دیکھو، تم مجھے بےوقوف نہ بناؤ۔ بےشک مجھے تم سے محبت ہے، لیکن وطن تم سے بھی پیارا ہے۔ اگر تم سچ سچ نہ بتاؤ گے، تو بخدا اَبھی سکاٹ لینڈ یارڈ کو فون کر دوں گی۔

’’وہ خوف سے تھرتھر کانپنے لگا اور میرے پاؤں پکڑ کر التجا کہ ذرا صبر کرو، مَیں سب کچھ بتا دوں گا۔ تم نہیں جانتیں مَیں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔
بس اتنا کہہ کر وہ زار و قطار رَونے لگا اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اُس نے مجھے کاغذات اور اَپنے کلب والے دوست کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ بتایا۔ اُس کی حالت سے مَیں نے اندازہ کیا کہ اُسے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دے کر اپنے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
میری حماقت دیکھیے کہ کاغذات کا تھیلا اُس کے کمرے میں ہی رہنے دیا۔ صبح بیدار ہوئی، تو وہ گھر میں نہ تھا۔ مَیں نے فوراً کمرے کی تلاشی لی، تھیلا غائب تھا۔
وہ اُس روز گھر نہ آیا، البتہ شام کی ڈاک میں اُس کے قلم سے لکھا ہوا ایک خط ملا۔‘‘

مسز زیروس نے اپنا پرس کھول کر کاغذ کا ایک چھوٹا سا پرزہ نکالا اور کالگن کے سامنے رکھ دیا۔ اُس پر لکھا تھا:

’’تم نے دھمکی دی ہے کہ پولیس کو سب کچھ بتا دوں گی۔

مَیں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ اگر تم نے پولیس کو مطلع کیا، تو مَیں وہی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاؤں گا جس سے تم آگاہ ہو…..  فرانز زیروس۔‘‘

کالگن نے پرزہ تہ کر کے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا اور کہا:

’’اِس میں لکھا ہے مَیں وہی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاؤں گا جس سے تم آگاہ ہو۔ اِس جملے کا کیا مطلب ہے؟‘‘

’’اُس کی مراد خودکشی ہے۔‘‘ مسز زیروس نے آنسو بہاتے ہوئے جواب دیا۔
’’مجھے یقین ہے وہ اَپنے آپ کو ختم کر لے گا۔ آج صبح گھر سے نکلی، تو محسوس ہوا کہ وہ میرا تعاقب کر رہا ہے۔ شاید وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا مَیں پولیس اسٹیشن جاتی ہوں یا نہیں۔
یکایک خیال آیا کہ مجھے کسی نہ کسی طرح اُس کا پیچھا کر کے پتا کرنا چاہیے کہ وہ رہتا کہاں ہے؟ چنانچہ موقع پا کر مَیں ایک دکان میں گھسی اور پچھلے دروازے سے نکل کر ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔
بعد میں یہ ٹیکسی اُس دکان کے صدر دَروازے کے سامنے دوسری طرف فٹ پاتھ پر رکوا لی۔ میرا شوہر کچھ فاصلے پر ایک کھمبے کے ساتھ کھڑا میرے باہر آنے کا منتظر تھا۔
پندرہ منٹ بعد وہ دُکان کے اندر دَاخل ہوا، لیکن فوراً باہر آ گیا۔ اُس کے مضطرب چہرے سے مَیں نے اندازہ کیا کہ مجھے وہاں نہ پا کر ہراساں ہے۔ اُس نے ٹیکسی پکڑی۔
مَیں اپنی ٹیکسی میں اُس کے پیچھے پیچھے گئی۔ سینٹ جان وُڈ کے علاقے میں ایک خالی اور اَلگ تھلگ مکان کے پاس اُس نے ٹیکسی رکوائی اور دَروازے پر لگا ہوا قفل کھول کر اندر چلا گیا۔‘‘

’’خوب! بہت خوب!‘‘ کالگن نے مسکرا کر کہا۔ ’’داستان نہایت دلچسپ ہے مسز زیروس! لیکن یہ تو بتائیے مَیں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘

’’مَیں چاہتی ہوں آپ سینٹ جان وُڈ کے اُس مکان میں جائیں۔ مجھے امید ہے وہ اَہم سرکاری کاغذات اُسی مکان میں کہیں چھپائے گئے ہیں۔
آپ اُنھیں وہاں سے حاصل کر کے حکومت کے حوالے کر دیں۔ اُس کے بعد آپ میرے شوہر سے تمام حالات دریافت کر کے اُسے غیرملکی جاسوسوں کے پنجے سے آزاد کرانے کی کوشش کریں۔‘‘

مسز زیروس نے پرس کھول کر ایک لفافہ نکالا اور کہنے لگی:

’’اِس میں ڈھائی سو پونڈ کے کرنسی نوٹ ہیں۔ یہ آپ کی پیشگی فیس ہے، اور یہ ہے وہ کاغذ جس پر سینٹ جان وُڈ کے مکان کا پتا لکھا ہوا ہے۔‘‘
کالگن کی طرف چند لمحے خاموشی سے دیکھنے کے بعد اُس نے خوشامدانہ لہجے میں کہا:
’’اللہ کے لیے مجھے مایوس نہ کیجیے، یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔‘‘
اُس کا رومال ایک بار پھر آنکھوں تک پہنچ گیا۔

کالگن نے لفافہ جیب میں رکھا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’فکر نہ کیجیے مادام! میری خدمات حاضر ہیں۔‘‘

شام کے سات بجے کالگن اپنے دفتر میں داخل ہوا۔ بلیک آؤٹ اور کُہر کے باعث اِس قدر تاریکی تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دیتا تھا۔
اُس نے کوٹ اتار کر ایک طرف پھینکا، ہیٹ کھونٹی پر لٹکایا اور عادت کے مطابق دونوں ٹانگیں میز پر پھیلا کر بیٹھا ہی تھا کہ اُس کی سیکرٹری کمرے میں داخل ہوئی:

’’ایک شخص آپ سے ملنے آیا ہے۔ اپنا نام زیروس بتاتا ہے اور بضد ہے کہ اِسی وقت ملنا ہے۔‘‘

کالگن نے میز سے ٹانگیں ہٹا لیں اور سنبھل کر بیٹھ گیا۔ ’’اُسے آنے دو۔‘‘

چند منٹ بعد زیروس داخل ہوا اَور کالگن کی میز کے قریب آ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔
وہ پستہ قد آدمی تھا۔ پھولے ہوئے چہرے پر موٹے شیشوں کی عینک لگی تھی۔
جسم کے مقابلے میں اُس کا سر خاصا بڑا اَور وَزنی تھا۔ کالگن اُسے ایک نظر دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا:

’’فرمائیے مسٹر زیروس! مَیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘

زیروس نے دانت پیس کر کہا:
’’مسٹر کالگن! آج میری بیوی آپ سے ملنے آئی تھی۔ اُس نے آپ سے کیا کہا؟ کیا آپ کا تعلق پولیس سے ہے؟‘‘

’’مَیں پرائیویٹ سراغ رساں ہوں۔‘‘

’’مَیں صرف یہ کہنےآیا ہوں کہ آپ میری بیوی کو اِتنا سمجھا دیں کہ وہ اَپنی سرگرمیوں سے باز آ جائے، ورنہ جو کہہ چکا ہوں، اُس پر عمل کروں گا۔ سمجھے؟‘‘

’’سمجھ گیا۔‘‘ کالگن نے جواب دیا۔ ’’اور کچھ؟‘‘

’’بس!‘‘ زیروس نے کہا ’’اور یہ کہ تم سراغ رساں کے بجائے نرے اُلو نظر آتے ہو۔‘‘

وہ جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ کالگن بولا:
’’تم نے ٹھیک کہا مسٹر زیروس! مَیں احمق ہوں، لیکن تم مجھ سے بھی بڑے احمق ہو۔‘‘ اُس نے قہقہہ لگا کر گھنٹی بجائی۔

سیکرٹری کمرے میں داخل ہوئی۔

’’ایفی! اِس شریف آدمی کو باہر جانے کا راستہ دکھاؤ۔ بےچارہ اِتنے موٹے شیشوں کی عینک لگائے ہوئے ہے کہ اِس بلیک آؤٹ میں کہیں لڑھک گیا، تو ہڈی پسلی برابر ہو جائے گی. بلکہ بہتر یہ ہے کہ فون کر کے کوئی ٹیکسی منگوا لو۔‘‘

’’شکریہ!‘‘ زیروس نے جھلّا کر کہا۔ ’’باہر ٹیکسی میرا اِنتظار کر رہی ہے۔‘‘

اُس کے جاتے ہی کالگن نے ڈیسک ٹیلی فون پر اپنے نائب میک آلیور سے کہا ’’میک! ایک شخص ابھی ابھی میرے کمرے سے باہر گیا ہے، اُس نے اوورکوٹ پہن رکھا ہے۔
گلے میں سرخ رومال اور آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک ہے۔ باہر ایک ٹیکسی اُس کے انتظار میں ہے۔ ذرا دَوڑ کر اُس کا نمبر تو نوٹ کر لو۔‘‘

تین منٹ بعد میک آلیور کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کا سانس پھولا ہوا تھا۔

’’جناب! باہر کوئی ٹیکسی نہ تھی۔ وہ شخص یہاں سے نکل کر سڑک پر پیدل ہی جا رہا تھا کہ میرے دیکھتے دیکھتے مخالف جانب سے ایک ٹیکسی آ کر رکی . وُہ اُس میں بیٹھ کر چلا گیا۔
ٹیکسی مجھ سے بیس تیس گز کے فاصلے پر تھی۔ بلیک آؤٹ ہونے کے باعث مَیں اُس کا نمبر نوٹ نہ کر سکا۔‘‘

کالگن نے سر ہلایا۔ ’’اچھا، تو وہاں ٹیکسی موجود نہ تھی اور دُوسری سمت سے بعد میں ٹیکسی پہنچی۔ خوب، لیکن تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ ٹیکسی ہی تھی؟‘‘

میک آلیور، صاحب کی بےوقوفی پر ہنسا۔
’’جناب! اُس کے اوپر لفظ ’ٹیکسی‘ روشن حروف میں چمک رہا تھا اور جب وہ شخص گاڑی میں بیٹھ گیا، تو ٹیکسی ڈرائیور نے لفظ ٹیکسی کے روشن حروف بجھا دیے۔‘‘

’’اچھا تم دفعان ہو جاؤ۔‘‘ اُس نے سگریٹ سلگا کر پیر دوبارہ میز پر رکھ لیے اور دُھوئیں کے چھلّے بنانے لگا۔
یکایک اُس نے اپنی نوٹ بک جیب سے نکالی، مسز زیروس کا فون نمبر تلاش کیا اور ڈائل گھمانے لگا۔
دوسری جانب گھنٹی بج رہی تھی، لیکن کسی نے ریسیور نہیں اٹھایا۔ اُس نے بار بار ڈائل کیا اور پندرہ منٹ بعد جا کر کہیں کامیابی نصیب ہوئی۔

’’مسز زیروس! آپ کا خاوند تھوڑی دیر پہلے میرے پاس آیا تھا۔
اُس نے مجھے اور آپ کو مشورہ دِیا ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں اور اُس کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
آپ کا خیال صحیح ہے کہ جب آپ میرے پاس آئیں، وہ آپ کا تعاقب کر رہا تھا۔‘‘

’’پھر کیا سوچا آپ نے؟ مَیں تو صبح سے سخت پریشان ہوں اور مارے خوف کے گھر سے بھی نہیں نکلی۔‘‘ مسز زیروس نے گھبرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

’’آپ کی پریشانی بجا ہے۔ ویسے مَیں سوچ رہا ہوں اب ہمیں حرکت میں آ جانا چاہیے۔ آپ کا شوہر ’سخت‘ آدمی معلوم ہوتا ہے۔
وہ یقیناً فرار ہونے کا منصوبہ بنا رہا ہے، بہرحال مَیں چند منٹ کے اندر اَندر آپ کے پاس پہنچ رہا ہوں۔
پھر ہم دونوں سینٹ جان وُڈ کے پُراسرار مکان میں چلیں گے۔ شاید وہاں سے کچھ سراغ مل سکے۔ آپ اتنی دیر میں تیار ہو جائیے۔‘‘

’’بہت بہتر! مَیں آپ کی منتظر ہوں۔‘‘

کالگن نے فون بند کر کے میک آلیور کو بلایا۔ اُسے چند ہدایات دیں اور سیٹی بجاتا ہوا دَفتر سے باہر چلا گیا۔

آٹھ بجے کالگن نے اپنی کار سینٹ جان وُڈ کے علاقے میں لے جا کر روک دی۔
ہر طرف وحشت ناک سناٹا اور گھپ اندھیرا تھا۔ چند لمحے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے بعد اُس نے چپکے سے کہا:

’’مسز زیروس! میرا خیال ہے وہ سامنے والا مکان ہے جس کی سفید سفید چھت نظر آ رہی ہے۔ جاسوسوں کے لیے ایسا ماحول اور موسم بڑا مفید ہوتا ہے۔‘‘

’’آہ مسٹر کالگن! ایسا نہ کہیے۔ میرا دِل دھڑک رہا ہے۔‘‘ مسز زیروس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
اُس نے کار سے نکل کر کالگن کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ مکان کے گرد ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔
کالگن اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا اور دَرختوں کو ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اُس نے چھوٹی سی ٹارچ روشن کی اور جیب سے چند اوزار نکال کر قفل کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔
مسز زیروس سہمی ہوئی نظروں سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ دو منٹ بعد قفل جھٹکے سے کھل گیا۔

’’آئیے مسز زیروس!‘‘ کالگن نے مدہم آواز میں کہا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو ایک ہال کمرے میں پایا۔ سجے ہوئے فرنیچر پر گرد کی موٹی تہ جمی ہوئی تھی۔
ہال کے دوسرے سرے پر ایک اَدھ کھلا دروازہ ٹارچ کی روشنی میں نظر آیا۔ کالگن دبے پاؤں اُس طرف بڑھا اور دَروازے میں سے جھانکا۔ پھر اندر دَاخل ہو کر جلدی سے کھڑکیوں پر پردے کھینچ دیے اور بجلی کا بٹن دبا دیا۔ اُس کے لبوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’مسز زیروس! یہاں آئیے۔‘‘ اُس نے آہستہ سے آواز دی۔ عورت ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوئی، لیکن دوسرے ہی لمحے اُس کے حلق سے گُھٹی گھٹی سی چیخ نکلی اور ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بےاختیار رَونے لگی۔

آتش دان کے سامنے قالین پر خون میں نہائی ہوئی زیروس کی لاش پڑی تھی۔ اُس کی بائیں کنپٹی میں خاصا بڑا سوراخ تھا۔
گولی دوسری جانب سے نکل گئی تھی۔ زیروس کے دائیں ہاتھ میں پستول ابھی تک موجود تھا۔ کالگن نے مسز زیروس کی طرف دیکھا اور اَفسوس کے کلمات کہے۔

’’اُف خدایا! آخر اُس نے خودکشی کر ہی لی۔‘‘ عورت نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’’اب کیا ہو گا؟‘‘

’’آپ فکر نہ کیجیے مسز زیروس! نہایت سکون سے اِس کرسی پر بیٹھ جائیے۔ مجھے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ وہ کاغذات یہیں کہیں تو نہیں۔‘‘
وہ تیزی سے کمرے کا سامان الٹنے پلٹنے لگا۔ ایک گوشے میں پڑے ہوئے پلنگ کا گدّا اُٹھاتے ہی چرمی تھیلا نظر آیا۔ اُس میں کاغذات موجود تھے۔

’’کاغذات تو مل گئے۔‘‘ کالگن نے کہا۔ ’’سوال یہ ہے کہ اِن کا کیا کیا جائے؟‘‘

’’آپ یہ کاغذات حکومت کے حوالے کر کے اُسے تمام واقعات سے آگاہ کر دیجیے۔‘‘ مسز زیروس نے مشورہ دِیا۔

کالگن نے آتش دان کے قریب کھڑے ہو کر سگریٹ سلگایا اور پُرمعنی انداز میں لاش کی طرف تکنے لگا۔
چند لمحے بعد بیرونی ہال کی طرف سے قدموں کی آواز آئی۔ میک آلیور کمرے میں داخل ہوا۔ کالگن نے پوچھا:

’’اُسے پکڑ لیا گیا؟‘‘

’’جی ہاں! پولیس والے اُسے سکاٹ لینڈ یارڈ  لے گئے ہیں۔‘‘

مسز زیروس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اُس نے کہا:
’’مَیں سمجھی نہیں مسٹر کالگن! کون پکڑا گیا؟ مجھے تفصیل بتائیے۔‘‘

کالگن نے ہنستے ہوئے کہا:
’’مسز زیروس! تم خوب جانتی ہو، کون پکڑا گیا ہو گا۔ مَیں تمہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور تمہاری ذہانت کی داد دَیتا ہوں۔
آج تک تم جیسی باکمال اداکارہ میری نظروں سے نہیں گزری۔ تم نے نہایت چالاکی سے اصل واقعات کو اُلٹ کر اَپنا دامن بچانے کی کوشش کی، مگر مات کھا گئیں۔

’’یہ تمہارا بدنصیب خاوند جو مرا پڑا ہے، جاسوس نہیں ہے، بلکہ جاسوس تم اور تمہارا وُہ غیرملکی دوست ہے جسے پولیس پکڑ کر لے جا چکی ہے۔
تم دونوں نے کاغذات چرائے اور اِتفاق سے تمہارے شوہر کو اُن کا پتا چل گیا۔ اُس نے تمہیں سمجھایا کہ یہ کاغذات فوراً حکومت کو واپس کر دو، ورنہ وہ پولیس کو اطلاع دے دے گا۔
خاوند کے اِس رویّے پر تم عجب مشکل میں پھنس گئیں۔ اُس سے نمٹنے کے لیے تم نے بہت اچھا منصوبہ تیار کیا۔ تم جانتی تھیں کہ تمہارا شوہر تم سے محبت کرتا ہے اور وُہ کبھی پولیس کو اطلاع نہیں دے گا۔
تم نے اُسے دھمکایا کہ اگر وہ پولیس کے پاس گیا، تو تم کہہ دو گی یہ کاغذات خود اِسی شخص نے چرائے ہیں، کیونکہ یہ غیرملکی ہے۔
پولیس والے تمہارے مقابلے میں غیرملکی شخص کی بات نہ مانتے۔ تم نے اپنے شوہر کو یہاں تک ڈرایا کہ تم مجھ سے مل کر مشورہ طلب کرو گی، چنانچہ تم میرے دفتر آئیں اور تمہارے شوہر نے تعاقب کیا۔

’’تم یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ بھی میرے دفتر میں آ کر مجھ سے مل سکتا ہے۔ اِس لیے کہ اگر وہ وَاقعی جاسوس ہوتا، تو اِتنی احمقانہ حرکت کبھی نہ کرتا۔
تم نے مجھے اپنے شوہر کے ہاتھ کا لکھا ہوا وہ پُرزہ بھی دکھایا جس میں بقول تمہارے ’خودکشی‘ کی دھمکی دی گئی تھی،
حالانکہ اُس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ ثابت کر سکتا ہے کاغذات تم نے چرائے ہیں۔
تم اپنے شوہر کی اِس کمزوری سے آگاہ ہو کہ اُس کی نظر بےحد کمزور ہے اور اِس بلیک آؤٹ میں جب وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے گا، تو ٹیکسی کو باہر رکنے کے لیے ضرور کہے گا۔

’’تم میرے دفتر کے آس پاس گھومتی رہیں اور جب وہ ٹیکسی سے اتر کر میرے دفتر میں آیا، تو تم نے وہ ٹیکسی کرایہ دے کر رخصت کر دی۔ وہ مجھ سے مل کر باہر نکلا، تو ٹیکسی غائب تھی۔
وہ کسی اور ٹیکسی کی تلاش میں پیدل چل کھڑا ہوا۔
یکایک سامنے سے ایک ٹیکسی آ کر اُس کے قریب رک گئی۔ اُس کی کمزور نظر کا خیال کرتے ہوئے بلیک آؤٹ کے باوجود ٹیکسی کا نشان روشن کر دیا گیا۔
چنانچہ وہ بےجھجک اُس ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔

’’اُس کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے TAXI کے حروف بجھا دیے۔ بےچارے زیروس کا وقت پورا ہو چکا تھا۔
تم ٹیکسی کے اندر پستول لیے بیٹھی تھیں اور تمہارا غیرملکی دوست گاڑی چلا رہا تھا۔
تم نے اپنے شوہر کی کنپٹی میں گولی مار دِی اور پھر فوراً گھر چلی گئیں۔
تمہارا دوست لاش کو ’خودکشی‘ کی صورت دے کر اِس مکان میں چھوڑ گیا۔
البتہ اُس نے ایک بات پر غور نہ کیا کہ کوئی شخص خودکشی کرنے کے لیے اتنا تردد نہیں کرتا کہ دائیں ہاتھ میں پستول لے کر اپنی بائیں کنپٹی کو نشانہ بنائے۔

’’تم نے سوچا مَیں اِس مکان میں ضرور آؤں گا اور تمہارے شوہر کی لاش دیکھتے ہی فوراً سمجھ جاؤں گا کہ اُس نے ’خودکشی‘ کر لی ہے۔
پھر یہیں سے مجھے وہ کاغذات بھی مل جائیں گے جنہیں لے کر مَیں سکاٹ لینڈ یارڈ جاؤں گا اور زیروس پر جاسوسی کا الزام دھرتے ہوئے اُنھیں اطلاع دوں گا کہ اُس نے اپنے آپ کو گولی ماری ہے۔
کیونکہ اُس کی بیوی نے اپنے ملک سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک پرائیویٹ سراغ رساں کو کاغذات حاصل کرنے کے کام پر لگا دیا تھا، چنانچہ حکومت تمہاری بےحد شکرگزار ہو گی۔
تم اور تمہارا دوست بعدازاں اطمینان سے دشمنوں کے لیے جاسوسی کے فرائض انجام دیتے رہتے اور کسی کو تم جیسی محبِ وطن خاتون پر شک نہ گزرتا۔

’’اور ہاں، ایک بات اور ہے، تم نے فون پر بتایا تھا کہ مارے خوف کے آج دن بھر گھر سے نہ نکلیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ مَیں ٹیلی فون کرتا رہا اور پندرہ منٹ تک کسی نے ریسیور نہ اٹھایا۔
غالباً یہ وہی وقت تھا جب تم اپنے بےگناہ شوہر کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فرض ادا کر رہی تھیں۔‘‘

مسز زیروس مسکرائی۔ اب وہ بالکل پُرسکون تھی۔

’’مسٹر کالگن! آپ نے جو تھیوری بیان کی، وہ بڑی دلچسپ ہے، لیکن کاغذات چرانے کے بعد اُنھیں دوبارہ یہیں چھوڑ کر اصل مالکوں کے حوالے کر دینے والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

کالگن نے قہقہہ لگایا۔

’’مسز زیروس! مَیں اتنا بےوقوف نہیں جتنا صورت شکل سے نظر آتا ہوں۔‘‘ وہ میک آلیور سے مخاطب ہوا۔

’’میرا خیال ہے پولیس نے اِن کاغذات کی فوٹو کاپیاں اُس شخص سے برآمد کر لی ہوں گی؟‘‘

میک نے اثبات میں سر ہلایا۔ مسز زیروس اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’تم جیت گئے مسٹر کالگن! اور اَب مَیں صرف اتنی درخواست کروں گی کہ مجھے میرے دوست سے ملنے کی اجازت دی جائے۔‘‘

کالگن نے دوسرا قہقہہ لگایا۔

’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اُسے ابھی تک پولیس نے نہیں پکڑا۔ میک آلیور  نے جو کچھ بیان کیا، وہ تو ایک چال تھی۔ البتہ اب ہم اُس کے گھر جا رہے ہیں۔
میرا خیال ہے وہ مجھے، آپ کو اور پولیس والوں کو دیکھ کر خاصا خوش ہو گا۔ فوٹو کاپیاں اُس کے گھر سے یقیناً دستیاب ہو جائیں گی۔

رات کے نو بجے میک آلیور اَور کالگن آمنے سامنے بیٹھے اِس کارنامے پر تبصرہ کر رہے تھے کہ دفعتاً نائب نے کہا:

’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ تم کہتے ہو اِس مسئلے کا سارا حل لفظ ٹیکسی کے روشن حروف میں پوشیدہ تھا، آخر کیسے؟‘‘

’’تم نرے گاؤدی ہو۔‘‘ کالگن نے کہا۔
’’ارے احمق! تم نے ٹریفک پولیس کے قواعد نہیں پڑھے۔ بلیک آؤٹ کی راتوں میں ٹیکسیوں پر لفظ ’ٹیکسی‘ روشن کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
تم نے خود ہی تو مجھے بتایا تھا کہ زیروس کے سامنے ایک ٹیکسی آ کر رُکی اور جب وہ اُس میں بیٹھا، تو ڈرائیور نے فوراً یہ لفظ بجھا دیا۔ آخر کیوں؟
محض اِس لیے کہ وہ زیروس کو اِس نشان سے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا۔
اگر وہ بدنصیب آدمی ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے دیکھ لیتا کہ اُس کی بیوی پستول لیے پچھلی نشست پر براجمان ہے، تو اُس کی جان بچ جاتی، مگر افسوس!

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles