30 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

اناڑی

اناڑی

مقبول جہانگیر

کارڈن نے غالیچے کو ایک بار پھر دیکھا۔

اُس کی آنکھوں میں چمک تیز ہو گئی۔ اُس نے سوچا مَیں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور بھارت کی اِس چھوٹی سی دکان میں کھڑا ہوں. میرا مقدر مجھے زندگی کا سب سے بڑا اِنعام دینے پر آمادہ ہے۔

وہ بیس برس سے چوری اور نقب زنی کے پیشے کو اَپنائے ہوئے تھا اور اَگرچہ کارڈن اپنے فن میں یکتائے روزگار نہ تھا، مگر یہ کہنا پڑے گا کہ وہ باکمال ضرور تھا۔
بیس برس کے تجربے نے اُس میں اتنا اعتماد پیدا کر دیا تھا کہ وہ سارے امریکا میں چوری اور نقب زنی میں کسی کو اَپنا ثانی نہ سمجھتا تھا، مگر پچھلے دنوں شکاگو کے ایک بینک میں نقب لگاتے وقت وہ گرفتار ہوتے ہوتے بچا۔ اخبارات میں اُس کے فوٹو اور حلیہ شائع ہو چکا تھا۔
شکاگو پولیس کتوں کی طرح اس کی بُو سونگھتی پھرتی تھی، تب کارڈن ایک دن مشرق کے سفر پر نکل پڑا۔ اُس کا ارادہ مشرق کی سیاحت میں ایک دو سال گزارنے کا تھا۔
اِس وقفے میں معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا، تو وہ وَاپس امریکا چلا جاتا اور معمولی سا حلیہ اور نام تبدیل کر کے پھر معزز شہری بن کر ٹھاٹھ سے رہنے لگتا۔

وہ دِیوار پر لٹکا ہوا غالیچہ غور سے دیکھتا رہا جس پر لگا ہوا شیشے کا فریم غالیچے کی حفاظت کر رہا تھا۔
اُس نے دوسرے سیّاحوں کی طرح کچھ زیادہ حیرت کا اظہار نہ کیا! البتہ اُس کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

غالیچہ جسے ’’فخرِ ہندوستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ طرح طرح کے ہیروں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔
سیّاح حیرت سے غالیچے اور اُس پر جڑے ہوئے نایاب اور نادر ہیروں کو دیکھ رہے تھے۔
یکایک دکان کے مالک گنیش لال کی آواز نے سیّاحوں کو چونکا دیا۔ وہ نہایت شستہ انگریزی میں کہہ رہا تھا:

’’اِس غالیچے میں اٹھارہ ہزار ہیرے جڑے ہوئے ہیں اور اُن میں سے کچھ بھارت کے نایاب ترین ہیرے ہیں۔ غالیچہ ہماری فرم نے بنایا ہے اور ہیرے بھی ہمارے کاریگروں نے جڑے ہیں۔
اِس پر پچاس ہزار گھنٹے کام کیا گیا ہے اور یہ شاہکار گنیش لال اینڈ سنز کی اعلیٰ کاریگری کا ایک نمونہ ہے۔‘‘

’’واقعی!‘‘ کارڈن نے سر ہلایا اور پوچھا۔

’’اِس کی قیمت کیا ہو گی؟‘‘

’’دس لاکھ ڈالر میں تو اِس کا بیمہ کرایا گیا ہے اور جب عالمی نمائش میں یہ رکھا گیا تو ……‘‘

’’اور آپ نے اِسے یوں ہی دیوار پر لٹکا رکھا ہے۔ صرف شیشے کے ایک فریم میں؟‘‘ کارڈن نے حیرت سے گنیش لال کی بات کاٹ کر پوچھا۔

’’جی ہاں!‘‘ گنیش لال نے جواب دیا۔ ’’یہ غالیچہ سیّاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے، مگر یہ بالکل محفوظ ہے جناب۔ چوری سے بچنے کے لیے ایک مضبوط امریکن الارم اِس میں لگا ہوا ہے اور اِس طرح یہ ہمیشہ محفوظ ہے۔‘‘

کارڈن یہ بات پہلے ہی جانتا تھا۔ وہ فریم کے کونوں سے گزرتے ہوئے سنہری تار کو پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔
غالیچے کے مالک کی زبان سے اتنی جلدی اِس کا اقرار کروا کر وہ خوش ہوا اَور سر کو جنبش دے کر اُس نے وہ جگہ بھی دیکھ لی جہاں سے تار اَندر آ رہے تھے۔

اب غالیچے کے سامنے اُس کے ساتھ کئی اور سیّاح آن کھڑے ہوئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ پھر اُنھوں نے غالیچے کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ گنیش لال اُن سوالات کے جواب دینے لگا۔
کارڈن اپنی جیکٹ کی جیب میں سگریٹ تلاش کرتا ہوا بےپروائی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ اب وہ غالیچے سے پانچ گز دور مہاتما بدھ کی مورتی کے پاس کھڑا تھا۔
اچانک اُس کی انگلیوں میں دبا ہوا سگریٹ زمین پر گر پڑا۔ وہ سگریٹ اٹھانے کے لیے جھکا اور نہایت چابک دستی اور مہارت سے ایک چھوٹا سا آلہ جیب سے نکال کر الارم کے تار کاٹ ڈالے۔ چند ثانیوں کے اندر اَندر وُہ اِس کام سے فارغ ہو کر اِطمینان سے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔
اِس کارنامے کی ابتدا پچھلی سہ پہر لاریز ہوٹل کے برآمدے میں ہوئی تھی۔ وہ ممبئی سے تیس دوسرے امریکی سیّاحوں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ذریعے آگرہ پہنچا تھا۔
اُس نے ہوٹل کے رجسٹر میں نام درج کرا کر کمرا لیا اور سامان رکھوا کر کچھ کھانے کی نیت سے برآمدے میں آ کھڑا ہوا۔
یہاں آتے ہی اُس کی چھٹی حِس نے اُسے بتا دیا کہ کوئی اُس کی نگرانی کر رہا ہے۔
اُس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں، لیکن برآمدے میں سوائے چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچنے والوں اور اُس کے ساتھی سیّاحوں کے جن میں عورتوں کی اکثریت تھی، کوئی نہ تھا۔
ہر شخص مصروف تھا اور کوئی شخص ایسا دکھائی نہ دیا جو کارڈن میں دلچسپی لے رہا ہو۔
اُس نے یکایک سیڑھیوں کے نیچے کھڑے ہوئے ایک لمبے چوڑے مضبوط، ہٹّے کٹّے ہندو کو دیکھا جو اُس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔
ہندو نے کارڈن کو اَپنی طرف متوجہ پا کر دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور اُس کے پاس آ کھڑا ہوا۔
سفید دھوتی اور سفید کرتے میں وہ جاذبِ نظر لگ رہا تھا، لیکن اُس کے لباس اور شکل و شباہت سے زیادہ کارڈن کو یہ بات کھٹک رہی تھی کہ یہ ہندو ایک اجنبی اور نووارد اَمریکن سیّاح میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے جو صرف تاج محل دیکھنے یہاں آیا تھا۔

ہندو نے کارڈن کے قریب پہنچ کر مؤدبانہ لہجے میں کہا:

’’مسٹر کارڈن!‘‘

کارڈن چونک گیا۔ یہ شخص تو اُس کا نام بھی جانتا ہے، مگر کیسے؟ ممکن ہے اُس نے کارڈن کو اَپنا نام درج کراتے ہوئے دیکھا ہو اور اُس کا نام رجسٹر سے پڑھ لیا ہو۔

’’ہاں! کیا بات ہے؟‘‘ کارڈن نے بےزاری سے پوچھا۔

’’جناب! میرا نام داس ہے۔‘‘ اُس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ’’
مَیں مقامی گائیڈ ہوں اور میرے پاس اعلیٰ امریکن کار بھی ہے۔ مَیں آپ کو تاج محل اور دُوسرے مقامات کی سیر کرا سکتا ہوں۔‘‘

کارڈن کو دَاس کی گہری اور سیاہ آنکھیں کچھ اور بھی کہتی ہوئی محسوس ہوئیں، مگر اُس نے سرد لہجے میں جواب دیا:

’’شکریہ! مجھے تمہاری خدمات کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’مَیں پیشہ ور گائیڈ نہیں جناب!‘‘ داس نے نہایت ادب سے جھکتے ہوئے کہا۔ ’’
مَیں آپ کو سیر بھی زیادہ تسلی بخش کروا سکتا ہوں۔‘‘

’’نہیں بھئی شکریہ، ہمارے پاس گائیڈ بھی ہے اور ہم سب لوگ بس میں جائیں گے، لہٰذا تمہارا ایک بار پھر شکریہ۔‘‘ کارڈن نے اپنی طرف سے بات ختم کر کے منہ دوسری طرف کر لیا۔

’’مَیں ہمیشہ آپ کے کام کا معترف رہا ہوں۔‘‘ داس نے آہستہ سے کہا۔

’’کیا؟‘‘ کارڈن حیرت سے اچھل پڑا، مگر فوراً ہی اُس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا اور کہنے لگا:

’’اگر تمہارے پاس کوئی اہم بات کرنے کے لیے ہے، تو کھانے کے بعد میرے کمرے میں آ جانا۔ اب میری جان چھوڑو۔‘‘

’’بہتر جناب!‘‘ داس نے ادب سے کہا اور اُس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

’’کھانے کے بعد!‘‘ اُس نے زیرِلب دہرایا اور نپے تُلے قدم اٹھاتا ایک طرف چلا گیا۔

کیا وہ میرے کمرے کا نمبر جانتا ہے؟ اگر جانتا ہے، تو کیسے؟ اگر نہیں جانتا، تو اُس نے پوچھا کیوں نہیں؟ اِس قسم کے سوالات کارڈن کو پریشان کر رہے تھے۔
بہرحال اُس نے سگریٹ جلا کر سوچا، مَیں آگرے کی سیر سے زیادہ لطف اندوز ہوں گا۔

ہال میں کھانا کھا کر وہ جلدی سے اٹھا اور کمرے کی طرف چل دیا۔ برآمدے کی مدہم روشنی میں بیرونی دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے سگریٹ سلگایا اور کمرا کھول کر اندر دَاخل ہوا ہی تھا کہ دروازے کے ساتھ ہی لمبے تڑنگے آدمی کا ہیولا نظر آیا۔
اُس نے گھبرا کر بتی جلائی اور دیکھا کہ دروازے میں داس کھڑا مسکرا رَہا ہے اور اُس کے سفید دانت موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں۔

کارڈن نے کسی تمہید کے بغیر پوچھا۔

’’تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’جناب! میرا ایک کالج کا دوست گزشتہ ہفتے ممبئی میں آپ کا گائیڈ تھا۔ اُسی نے مجھے آپ کے بارے میں ٹیلی فون کیا تھا۔‘‘ داس نے ادب سے جواب دیا۔

کارڈن کالج کا نام سنتے ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا، کیونکہ وہ خود کبھی آٹھویں درجے سے آگے نہیں بڑھا۔ تو کیا یہ شخص کسی کالج میں پڑھ چکا ہے؟
اُس نے دل میں کہا، لیکن فوراً ہی یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ مَیں زیادہ پڑھا لکھا نہیں، تو کیا ہوا؟
اپنے فن میں تو کامل ہوں، تاہم وہ فکرمند تھا کہ داس کے دوست نے میری اطلاع یہاں کیوں دی؟
اُس نے آخر داس سے پوچھ ہی لیا۔

’’میرے یہاں آنے کی اطلاع دینے سے تمہارے دوست کا اصل مقصد کیا تھا؟‘‘

’’جناب! اُس کا خیال ہے کہ آپ ہمارے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کچھ مدد کر سکیں گے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ کارڈن کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

’’مطلب یہ کہ اُس نے آپ کو پہچان لیا ہے۔‘‘

’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’چند برس قبل وہ اَمریکا میں حصولِ تعلیم کے لیے مقیم تھا کہ اُس نے اخباروں میں آپ کی تصویریں دیکھی تھیں۔‘‘

’’میری تصویریں؟‘‘ کارڈن نے مصنوعی حیرت سے کہا۔ ’’اُسے ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘

’’نہیں جناب!‘‘ داس نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔
’’جب آپ شکاگو کے ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کے مقدمے میں ملوث تھے ۔ پولیس تگ و دَو کے باوجود کچھ ثابت نہ کر سکی تھی، تو میرا دوست اُن دنوں وہیں تھا۔
اُس نے مقدمے کی تمام کارروائی پڑھی تھی اور وُہ اُسی دن سے آپ کی عظمت کا معترف ہو گیا تھا۔ ہر آدمی آپ کو مجرم سمجھ رہا تھا، لیکن حد ہے کہ آپ کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔‘‘

’’ہاں!‘‘ کارڈن اکڑ کر کہنے لگا۔ ’’مَیں احمق نہیں ہوں، ہر چند کہ مَیں کالج میں کبھی نہیں پڑھا۔‘‘

’’جی ہاں! آپ بہت صاحبِ فن اور باکمال چور ہیں۔ اِسی لیے میرے دوست نے ٹیلی فون پر مجھے آپ کے آنے کی خبر دی تھی۔‘‘

’’لیکن مَیں نے بھارت میں تو کچھ نہیں کیا۔‘‘ کارڈن نے اپنی صفائی پیش کی۔

’’جبھی تو مَیں آپ کو کمائی کا ایک نادر موقع مہیا کر رہا ہوں۔‘‘

کارڈن نے سگریٹ سلگایا۔ دو تین کش لیے اور اِطمینان سے کہا ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘

اُس نے محسوس کر لیا تھا کہ اِس شخص نے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے۔ یہ لوگ اُس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ بہرحال اب اِنھیں مرعوب کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا، مگر کیا کیا جائے۔

’’تمہارے ذہن میں کوئی اسکیم ہے؟‘‘ اُس نے داس سے پوچھا۔

داس جلدی سے کہنے لگا:

’’’فخرِ ہندوستان‘ جناب! اِس وقت یہ آگرے میں ہے اور آپ جیسے کسی شخص کا اُس تک پہنچنا مشکل کام نہیں۔‘‘

’’فخرِ ہندوستان کیا؟‘‘ کارڈن نے حیرت سے پوچھا۔

’’ایک غالیچہ جناب جس کا ساز ۶ × ۴ فٹ ہے۔‘‘

’’تم پاگل تو نہیں ہو؟‘‘ کارڈن نے غصّے سے داس کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’آخر ایسی سستی شے کے لیے اتنا خطرہ کون مول لے؟‘‘

’’جناب اُس غالیچے میں لاکھوں ڈالر مالیت کے ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘
داس نے آہستہ سے کہا اور حیرت سے کارڈن کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

’’ہیرے!‘‘ وہ چلّایا ’’غالیچے میں!‘‘

’’جی ہاں!‘‘ داس نے سکون سے جواب دیا۔

’’لیکن ہم قالین کو چرا کر شہر سے باہر کیسے لے جا سکتے ہیں؟‘‘ کارڈن نے پوچھا۔

’’قالین لے جانے کی ضرورت نہیں، ہم اُس میں سے ہیرے اکھاڑ لیں گے۔‘‘

’’ہاں! یہ ممکن ہے۔‘‘ کارڈن نے کہا۔

’’آپ ہیروں کو اَپنے سامان کے ساتھ بھارت سے سمگل کر لیں۔
امریکا میں کئی جوہری آپ کے واقف ہوں گے جو ہیرے خرید سکیں گے۔‘‘

’’ہاں!‘‘ کارڈن کی آواز میں اشتیاق تھا۔ ’’لیکن اُن ہیروں کی اصل مالیت کیا ہو گی؟‘‘

’’بارہ لاکھ ڈالر مارکیٹ میں یقیناً مل جائیں گے۔ اگر ہم ہیروں کو اکھاڑ کر کوڑیوں کے مول بھی بیچیں، تب بھی اتنی دولت ہمیں مل جائے گی کہ زندگی بھر عیش کرتے رہیں گے۔‘‘ داس نے کارڈن کو تفصیل سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’تین حصّوں میں تقسیم کر کے بھی کافی رقم بنے گی۔‘‘ کارڈن نے پوچھا۔

’’حصّے تین نہیں، دو ہوں گے جناب، آدھا آپ کا اور آدھا میرا اَور میرے ممبئی والے دوست کا۔ آخر بہت سا کام تو آپ ہی کریں گے۔‘‘ داس نے جلدی سے کہا۔

’’یہ درست ہے۔‘‘

’’یہ غالیچہ گنیش لال اینڈ سنز کی دکان میں شیشے کے ایک فریم کے نیچے لٹکا ہوا ہے۔ دکان مہاتما گاندھی روڈ پر ہے اور آگرے میں آنے والا تقریباً ہر سیّاح اُسے دیکھنے ضرور جاتا ہے۔‘‘

’’لیکن یہ کام کتنا مشکل ہو گا؟‘‘ کارڈن نے پوچھا۔

’’آپ جیسے آدمی کے لیے آسان ہے۔ نہ وہاں کوئی پہرےدار ہوتا ہے نہ کوئی چوکیدار۔
تالے آپ جیسے آدمی کے لیے معمولی چیز ہیں، البتہ ایک بات ہے کہ اُس میں امریکن الارم لگا ہے۔
اِس لیے ہمیں آپ کی ضرورت پیش آئی۔ آپ کو الارم ناکارہ کرنے کا تو کافی تجربہ ہو گا؟‘‘

’’ہاں کافی ….. تالے توڑنا بھی میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ امریکن الارم تو کچھ چیز ہی نہیں۔‘‘
کارڈن نے فخر سے کہا۔ ’’لیکن پہلے اُسے ایک بار دَیکھ لینا ضروری ہے۔‘‘

’’ضرور دَیکھیے جناب۔ کل آپ کے ساتھ والے سبھی سیّاح غالیچہ دیکھنے جائیں گے۔ آپ سارے نظام کا بغور مطالعہ کریں۔
مَیں آپ کو بطور ڈرائیور اَور گائیڈ کی حیثیت میں اُس وقت وہاں لے چلوں گا جب خاصا ہجوم ہو۔ آپ کسی شک و شبہے کے بغیر تالوں اور اَلارم کو دیکھ سکتے ہیں اور پھر اُسی رات یہ کام ہو سکتا ہے۔‘‘

’’شاباش!‘‘ کارڈن نے خوش ہو کر کہا۔ ’’آج سے تم میرے گائیڈ اور ڈرائیور ہو۔‘‘

’’جناب! مَیں آپ کو شکایت کا موقع نہ دوں گا۔‘‘

’’لیکن سوال یہ ہے کہ مَیں جواہرات امریکا لے جاؤں گا، وہاں اُنھیں بیچوں گا۔ پھر تمہیں تمہارا حصّہ بھیج دوں گا۔ کیا تم اِس پر رضامند ہو؟‘‘

’’جی ہاں! مَیں رضامند ہوں۔‘‘ داس نے کہا۔

’’اگر مَیں سب رقم ہضم کر جاؤں اور تمہیں ٹرخا دوں پھر؟‘‘

’’کیا چوروں میں اخلاق کا ایک ضابطہ نہیں ہوتا جناب؟‘‘ اُس نے بہت سنجیدگی سے کہا۔

’’بےشک ہوتا ہے۔‘‘ کارڈن نے تسلیم کیا۔ وہ دَاس کی اِس بات سے بہت متاثر ہوا تھا۔
’’داس! آخر بات کیا ہے۔ تم دونوں ایم اے پاس ہو۔ اتنا پڑھ لکھ کر بھی ایسے کام کرتے ہو؟‘‘

’’بھارت میں اچھی نوکریاں کہاں ہیں جناب، پھر یہ گائیڈ کا کام جو ہم کر رہے ہیں، ہمیں کیا دیتا ہے؟ کسی سیّاح نے خوش ہو کر کبھی کچھ دے دیا، تو لے لیا، ورنہ یوں ہی پھرتے رہے۔
پھر ہم کیوں نہ اپنی تعلیم اور اَپنی ذہانت سے فائدہ اُٹھائیں۔
ہماری آمدنی کا بڑا ذریعہ امریکن سیّاح ہیں اور معاف کیجیے آپ لوگ اتنے سخی بھی نہیں۔ ہمیں عزت چاہیے اور وُہ ہمیں صرف پیسے سے مل سکتی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ کارڈن نے کہا ’’لو سگریٹ پیو اور مجھے الارم کے متعلق کچھ بتاؤ۔‘‘

اگلے روز سہ پہر کو اُس پروگرام کے تحت کارڈن گنیش لال اینڈ سنز کی دکان میں دوسرے سیّاحوں کے ساتھ غالیچے کے سامنے کھڑا تھا۔
باہر نکلنے سے پیشتر اُس نے الارم کو بالکل بےاثر کر دیا۔
جب وہ دَاس کی کار میں بیٹھا، تو دل میں بےحد خوش تھا۔ داس کی آنکھوں میں سوالیہ نشان دیکھ کر کارڈن کہنے لگا:

’’داس! یہ ایک منٹ کا کام تھا۔ ہم آج ہی رات انتہائی آسانی سے غالیچہ اٹھا لیں گے۔‘‘

داس نے کار گیئر میں ڈال دی اور گائیڈ کے سے لہجے میں کہا:

’’اب ہم اکبرِ اعظم کا مقبرہ دَیکھیں گے۔‘‘ پھر چپکے سے پوچھنے لگا ’’آپ کو غالیچہ پسند آیا۔‘‘

’’بہت پسند آیا۔‘‘

’’غالیچے کو دکان سے نکال کر لانے میں آپ کو کتنی دیر لگے گی؟‘‘

’’دو منٹ دکان کے اندر دَاخل ہونے کے، دو منٹ غالیچے کو فریم سے نکالنے کے اور ایک منٹ واپسی کا۔ کُل پانچ منٹ  بہت سا کام تو مَیں کر چکا ہوں۔‘‘

’’میرا ممبئی والا دوست دُرست کہتا تھا۔‘‘ داس نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔
’’آپ واقعی استاد ہیں۔ مَیں آپ کا بےحد احترام کرنے لگا ہوں مسٹر کارڈن!‘‘

’’اناڑی لوگوں کے ساتھ کام کرنا فضول ہے، بلکہ اکثر نقصان ہی ہوتا ہے۔‘‘
کارڈن نے داس کی تعریف نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔

’’پانچ منٹ!‘‘ داس نے دہرایا۔ ’’تب ہم یہ کام آج رات تاج محل جاتے ہوئے کر سکتے ہیں۔
آپ کے سارے ساتھی بس میں جائیں گے۔ آج چودھویں کا چاند ہے، لہٰذا رُومانی سیّاح جوق در جوق وہاں جا رہے ہوں گے۔
ہم بس کو یہاں سے روانہ کر کے چلیں گے اور پانچ منٹ راستے میں ٹھہرنے کے بعد مالِ غنیمت لے کر اُن کے ساتھ ہی تاج محل پہنچ جائیں گے۔ اِس طرح کوئی ہم پر شک بھی نہ کرے گا ۔
ہم وہاں اطمینان سے ہیرے الگ کر سکیں گے۔‘‘

’’تاج محل میں؟ کیا تم پاگل ہو گئے ہو داس؟ تاج محل میں اتنے لوگ ہوں گے کہ وہاں ہم یہ کام نہ کر سکیں گے۔‘‘

’’مسٹر کارڈن! آپ بےفکر رہیں۔ میرے پاس تاج محل کے ایک مینار میں لگے ہوئے قفل کی چابی موجود ہے جو مَیں نے عرصۂ دراز سے اِسی وقت کے لیے رکھی ہوئی ہے۔
خودکشی کی وارداتوں کے پیشِ نظر کئی برسوں سے میناروں پر لوگوں کا چڑھنا بند ہے۔
شاہ جہاں اور ممتاز کی مثالی محبت سے متاثر ہو کر اکثر لوگ میناروں سے کود کر اَپنی جانیں ضائع کر دیا کرتے تھے، لہٰذا اَب یہ مینار عوام پر بالکل بند ہیں۔
ہم بغیر کسی خلل کے بہت آرام کے ساتھ اوپر بیٹھ کر یہ کام کر سکیں گی۔‘‘

’’مگر روشنی؟‘‘

’’پورے چاند کی روشنی کافی ہو گی۔‘‘

’’مگر ہیرے سمگل کرنے کا انتظام کیا ہے؟‘‘

’’ہیرے وزن میں کافی ہوں گے جناب!‘‘ داس نے کہا۔ ’’اور کافی جگہ گھیریں گے، اِس کام کے لیے مَیں نے لکڑی کی تین مورتیاں بنائی ہیں جو آپ بھارت سے بطور تحفہ ساتھ لے جائیں گے جیسا کہ سیّاح عموماً لے جاتے رہتے ہیں۔
یہ مورتیاں کھوکھلی ہیں اور ہم جواہرات روئی میں لپیٹ کر اُن کے اندر رَکھ دیں گے۔ مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی کسٹم والا اُسے پہچان نہ سکے گا۔‘‘

’’مورتیاں کہاں ہیں؟‘‘

’’آپ کی سیٹ کے ساتھ ایک کپڑا پڑا ہے، اُس کے نیچے ہیں۔‘‘

کارڈن نے مورتیاں غور سے دیکھیں۔ وہ بہت خوش ہوا۔

’’بہت خوب!‘‘ اُس کے لبوں سے بےساختہ نکل گیا۔ ’’مگر ہم غالیچے کا کیا کریں گے؟‘‘ کارڈن نے پوچھا۔

’’ہم اُسے مینار ہی پر چھوڑ آئیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ کارڈن نے اطمینان کا سانس لیا اور نشست پر دراز ہو گیا۔

اُس رات سب کچھ سوچی سمجھی ہوئی اسکیم کے مطابق ہوا۔ وہ ہوٹل سے دوسرے سیّاحوں کے ساتھ نکلے اور ساڑھے نو بجے تاج محل کے دروازے پر پہنچ گئے۔
کسی کو شبہ تک نہ ہوا کہ وہ گنیش لال اینڈ سنز کے سامنے پانچ منٹ کے لیے رکے تھے۔ داس نے کار ایک اندھیری جگہ کھڑی کی اور جب وہ دونوں باہر نکلے، تو کسی کو شک تک نہ ہوا کہ داس کے کندھوں پر جو کپڑا پڑا ہے، اُس کے نیچے ’فخرِ ہندوستان‘ جیسی لاجواب چیز چھپی ہوئی ہے۔
ایسے کپڑے اکثر گائیڈ اٹھائے پھرتے ہیں تاکہ سیّاح کو کہیں گھاس پر بیٹھنا پڑے، تو اُس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
وہ آہستہ آہستہ چلتے، اُونچی آواز میں باتیں کرتے اور لوگوں کے درمیان سے گزرتے خاموش فواروں کے پاس سے ہوتے ہوئے آگے کھسک گئے، تو بھی کسی نے اُدھر دھیان تک نہ دیا۔

داس کے پاس جنوبی مینار کی چابی تھی۔ اُنھوں نے چپکے چپکے نہایت احتیاط سے کام لیتے ہوئے لوہے کے چھوٹے دروازے کا تالا کھولا اور آہستہ آہستہ اُوپرچڑھنے لگے۔
مینار کے اوپر نہایت خوبصورت گیلری بنی ہوئی تھی۔ وہاں بیٹھ کر داس نے اطمینان کا سانس لیا ہے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد کارڈن کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کارڈن نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا:

’’یہ تنہائی بڑی خوبصورت ہے۔ اِس کام کے لیے اِس سے اچھی جگہ ملنا ممکن نہ تھا۔‘‘

’’شکریہ جناب!‘‘ داس نے کہا۔ ’’جگہ واقعی اچھی ہے۔‘‘

ایک سو چونسٹھ سیڑھیاں چڑھنے سے کارڈن کا سانس پھول گیا تھا۔
وہ ہانپتے ہوئے دریائے جمنا کی طرف دیکھنے لگا جس کا پانی چاند کی روشنی میں چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔ مغرب میں قلعہ اور دَرختوں میں گِھرے ہوئے آگرے کے مکان تھے، لیکن اُس نے دل فریب نظارے کو ایک ہی نظر ہی دیکھا اور پھر داس سے کہنے لگا:

’’غالیچہ نیچے بچھا دو تاکہ فوراً کام شروع کیا جا سکے۔
میری جیب میں ایک چھوٹی سی قینچی ہے۔ ہیرے کاٹنے میں اُس سے بڑی مدد ملے گی۔‘‘

داس نے کپڑا کھولے بغیر جس میں غالیچہ چھپا ہوا تھا، آرام سے نیچے رکھ دیا۔

’’اب کار کی چابی بھی دے دو۔‘‘

’’کار کی چابی کیوں؟‘‘ داس نے حیرت سے کارڈن کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں، چابی …..  اِس لیے کہ اب تمہیں اُس کی ضرورت نہ پڑے گی۔‘‘ کارڈن نے مسکراتے ہوئے کہا۔

داس نے ایک لمبا سانس لیا۔ اُس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔ کارڈن کے ہاتھ میں قینچی کے بجائے پستول تھا جس کی نال پر سائلنسر لگا ہوا تھا۔

’’مسٹر کارڈن! آپ بھول گئے کہ ہم حصّےدار ہیں۔‘‘
داس اتنا ہی کہہ سکا۔ شاید اُس کے پاس الفاظ ختم ہو گئے تھے۔
اُس کی بڑی بڑی آنکھیں خوف سے پھیل کر اور بڑی ہو گئی تھیں۔ وہ مایوسی سے تاریک سیڑھیوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’’یہ درست ہے کہ ہم حصّےدار تھے، مگر اب تمہاری ضرورت نہیں۔ جانتے ہو کیوں؟‘‘

’’ہاں! اِس لیے کہ آپ تمام ہیرے خود رَکھیں اور ہمیں کچھ نہ دیں، لیکن آپ مجھے قتل کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘‘

’’اِس لیے مسٹر داس کہ اب مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں اور ایک سمجھ دار چور ہونے کی حیثیت سے مَیں چشم دید گواہ کا کوئی نشان پیچھے نہیں چھوڑنا چاہتا۔‘‘

’’درست، لیکن آپ تو کہتے تھے کہ اناڑی لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں ہمیشہ گھاٹا رہتا ہے۔‘‘

’’اب تمہیں پتا چلا کہ تم اناڑی ہو۔‘‘ کارڈن نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’
مَیں آسانی سے ہیرے مورتیوں میں بند کر کے لے جاؤں گا۔‘‘

’’لیکن مورتیاں کار میں ہیں۔‘‘ داس نے اُسے یاد دِلایا۔

’’یہاں سے فارغ ہو کر مَیں کار ہی میں جاؤں گا۔ اِسی لیے تو کہہ رہا ہوں چابی نکالو۔‘‘
کارڈن نے پستول ہلاتے ہوئے کہا۔

داس نے کپکپاتے ہاتھوں سے چابی اُسے دے دی اور کہا:

’’اگر آپ مجھے گولی ماریں گے، تو کوئی سن لے گا اور آپ مینار ہی میں پھنس جائیں گے۔‘‘

’’مَیں نے اوپر چڑھتے وقت مینار کا دروازہ بند کر دیا تھا اور خصوصاً اِس کے ساتھ آواز بھی نہ ہو گی۔‘‘
کارڈن نے پستول پر لگے ہوئے سائلنسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’میرے ممبئی والے دوست کو پتا چل جائے گا کہ آپ نے مجھے قتل کر دیا ہے۔‘‘
داس نے یوں کہا جیسے وہ خود سے باتیں کر رہا ہو۔

’’نہیں!‘‘ کارڈن بڑے اعتماد سے ہنسا۔ ’’اِس سے پیشتر کہ اُسے معلوم ہو، مَیں پیرس پہنچ چکا ہوں گا۔‘‘

’’پیرس؟‘‘

’’تو اور کیا یہ لُوٹ کا مال لے کر مَیں گھر جاؤں گا؟ سنو داس! مَیں یہاں ہیرے کاٹوں گا، پھر غالیچہ یہیں پھینک کر تمہاری کار میں بیٹھوں گا۔
ہیروں کو مورتیوں میں بند کر کے کل صبح پہلے ہوائی جہاز سے نکل جاؤں گا۔
تمہاری کار ہوٹل کے باہر کھڑی ملے گی۔ فخرِ ہندوستان غائب ہو گا اور تمہاری لاش یہاں سڑ رہی ہو گی۔‘‘

’’بس؟‘‘ داس نے کہا۔

’’ہاں! کیا تمہارے پاس کوئی اچھی تجویز ہے؟‘‘

’’یہ کہ آپ مجھے غالیچے سے جواہرات کاٹنے کا موقع دیں، کیونکہ وقت کم ہے۔
دس بجے تاج محل سیّاحوں کے لیے بند ہو جاتا ہے۔ آپ اکیلے یہ کام نہ کر سکیں گے۔‘‘ داس نے تجویز پیش کی۔

’’نہیں! یہ کام مَیں خود ہی کروں گا۔‘‘
کارڈن نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم فکر نہ کرو۔‘‘ پستول کے گھوڑے پر اُس کی انگلی کا دباؤ بڑھ گیا۔ داس پتھر کی طرح ساکت تھا۔
’’اچھا دوست! اب تم اِس دنیا سے رخصت ہونے والے ہو۔‘‘
یہ کہتے ہی کارڈن نے پستول کا گھوڑا دَبا دیا۔ داس جھکا، اُس نے زمین پر پڑا ہوا کپڑا اُٹھایا اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔

’’تم نے حماقت کی ہے کارڈن! غالیچہ یہاں نہیں ہے۔‘‘ داس نے نفرت سے کہا۔

کارڈن نے اُس کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ وہ حیرت سے پستول کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’میرے خدا! یہ کیا؟‘‘ اُس نے پے در پے پستول کا چھے دفعہ گھوڑا دبا دیا۔

داس اطمینان سے بیٹھا مسکرا رَہا تھا۔ پھر وہ بولا:
’’جب آپ لوگ ایئرپورٹ سے ہوٹل آئے، تو مَیں بھی آپ کو لانے والوں میں تھا۔
آپ کا سامان (جب آپ دفتر میں نام درج کروا رَہے تھے) مَیں خود کمرے میں لے گیا تھا۔
آپ کے بیگ کے اوپر سے مَیں نے آپ کا نام پڑھا تھا اور آپ کے پستول سے مَیں نے ہی گولیاں نکالی تھیں، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ آپ میرے ساتھ مل کر کام کریں گے اور آخر میں اِس طرح کی بددیانتی کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ یہ ہیں آپ کی گولیاں۔‘‘
داس نے جیب سے گولیاں نکال کر کارڈن کو دکھائیں اور جیب میں ڈال لیں۔

’’جب تم مجھے برآمدے میں ملے تھے، کیا یہ اُس سے پہلے کی بات ہے؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’تب تم اناڑی نہیں ہو دَاس!‘‘

’’عزت افزائی کا شکریہ۔‘‘ داس نے جھک کر کہا۔

’’کیا غالیچہ واقعی کار میں ہے؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘ داس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’جب ہم کار سے نکلے تھے، تو مَیں نے اُسے اِس کپڑے سے نیچے کھسکا دیا تھا۔‘‘

’’داس! تم بہت تیز ہو۔ مَیں مانتا ہوں۔ تم نے یہ بازی جیت لی۔ آؤ اب کام شروع کریں۔‘‘

’’نہیں جناب! جیسا کہ آپ نے کہا تھا اب آپ کی ضرورت کسے ہے۔
برقی الارم کا نظام معطل کر کے آپ نے بہت استادی سے غالیچہ چرا کر مجھے دے دیا۔
کھیل ختم ہو چکا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ مَیں الارم کے برقی نظام کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
اِس لیے مجبوراً آپ کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔‘‘

’’مَیں جانتا ہوں، تم اناڑی ہو۔‘‘

’’جی ہاں! اب جب کہ فخرِ ہندوستان میرے ہاتھوں میں ہے، آپ کی قابلیت میرے کسی کام کی نہیں۔‘‘

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تم کہہ رہے تھے کہ ہیرے بھارت میں نہیں بک سکیں گے۔‘‘

’’درست ہے۔‘‘

’’ہیرے بیچنے کے لیے تمہیں میری ضرورت تو پڑے گی۔‘‘

’’نہیں جناب! مَیں ہیروں کو غالیچے سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘ داس نے ہنس کر کہا۔

کارڈن کو اَچانک احساس ہوا کہ اُسے جال میں پھنسایا گیا ہے۔
ہر بات اُس کے لیے حیران کن تھی۔ داس کے سامنے وہ اَپنے آپ کو طفلِ مکتب سمجھ رہا تھا۔

’’پھر یہ سارا چکر کیا تھا؟‘‘ وہ غراّیا۔

’’مَیں عرض کرتا ہوں جناب!‘‘
داس نے ادب سے کہا۔
’’ممبئی والا دوست اصل میں میرا چچازاد بھائی ہے۔ اُس کا والد اُس انشورنس کمپنی میں ملازم ہے، جس نے فخرِ ہندوستان کا بیمہ کیا ہے۔
جب کمپنی کو فخرِ ہندوستان کی چوری کی اطلاع ملے گی، کمپنی آسانی سے واپسی کے لیے دس فی صد اِنعام دے دے گی۔ کمپنی ایک بار پہلے بھی پانچ لاکھ روپے انعام دے چکی ہے۔‘‘

’’فخرِ ہندوستان کی واپسی پر پانچ لاکھ روپے انعام! کیا یہ پہلے بھی چوری ہو چکا ہے؟‘‘
کارڈن نے حیرت سے پوچھا۔

’’جی ہاں! ایک بار پہلے بھی اور یہ دوسری بار ہے۔
کسی فخر کا اظہار کیے بغیر مَیں عرض کروں گا کہ ہر مرتبہ چوری کا بندوبست مَیں نے کیا۔
طریقۂ کار کا لائحہ عمل بھی مَیں نے بنایا۔‘‘

’’کیا تم پہلے بھی انعام لے چکے ہو؟‘‘

’’جنابِ والا!‘‘ داس جھکا۔

’’اور ایک بار پھر یہ خطیر رقم لو گے؟‘‘

’’اکیلے نہیں، مَیں اور میرا چچازاد بھائی آدھا آدھا لیں گے، کیونکہ فنّی مدد کے لیے آدمی وہ منتخب کرتا ہے۔‘‘

’’معاف کرنا۔‘‘ کارڈن نے حیرت سے کہا۔ ’’مَیں نے تمہیں کئی بار اَناڑی کہا ہے۔‘‘

’’یہ واقعی ناگوار بات تھی جناب کہ آپ نے مجھے اناڑی کہا۔
اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ اِعتماد خوش فہمی ہوتی ہے۔
بہرحال اب آپ اطمینان رکھیں کہ آپ کی موت دنیا کی خوبصورت ترین جگہ پر واقع ہو گی۔‘‘

’’موت؟‘‘ کارڈن نے اچانک اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر محسوس کی۔
’’موت!‘‘ وہ بُڑبُڑایا۔ ’’لیکن تم مجھے کیوں مارو گے؟‘‘

’’آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ موقع واردات پر عینی شہادت چھوڑ دینا حماقت ہے۔‘‘

کارڈن کا لہو خشک ہو گیا۔ چند لمحے تک دونوں ایک دوسرے کی طرف خونیں نظروں سے تکتے رہے۔
دفعتاً کارڈن نے داس کے سر پر پستول دے مارا۔ داس نے وار خالی دے کر اُس کے ہاتھ جکڑ لیے۔
ایک زوردار جھٹکا دے کر کارڈن کو بےبس کر دیا۔ پستول اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
کارڈن نے داس کی گرفت سے نکلنے کی پوری کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوا۔
داس نے کارڈن کو دھکیل کر گیلری کے کنارے پر کھڑا کر دیا۔
اَپنا مضبوط ہاتھ اُس کے منہ پر رکھ کر اُس کی آخری چیخ بھی دبا دی۔ کارڈن نے سنا، داس کہہ رہا تھا:

’’یہ خودکشی کی واردات ہو گی جناب! مَیں اِس خبر کی تصدیق کروں گا کہ آپ امریکا سے عشق میں ناکام ہو کر چلے تھے اور مینار کے دروازے کا تالا آپ جیسے مشہور چور کے لیے توڑنا کون سا مشکل کام تھا۔
آپ مجھے نیچے چھوڑ کر اُوپر کھسک آئے اور جذباتی ہو کر مینار سے چھلانگ لگا دی۔
اچھا مسٹر کارڈن، خدا حافظ، مَیں نیچے جا کر آپ کی خودکشی کی اطلاع دیتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر داس نے کارڈن کو اُٹھا کر ہوا میں اچھال دیا اور کہا:

’’بطور پرائیویٹ گائیڈ، مَیں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہاں سے فرش تک کا فاصلہ پورے ایک سو سوا باسٹھ فٹ ہے۔‘‘

کارڈن تیزی سے فرش کی طرف جا رہا تھا۔ آخری بار اُس نے سوچا کہ اُسے شکست دینے والا کوئی اَن پڑھ اور اَناڑی نہ تھا، بلکہ بہت پڑھا لکھا اور ماہرِ فن آدمی تھا۔

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles