نیکلیس
مقبول جہانگیر
کالگن کمرے میں داخل ہوا، تو مسز گالری نے مسکراتے ہوئے اُس کا استقبال کیا۔
’’بیٹھے، مسٹر کالگن! یہ رہا سگار کا ڈبا۔ شوق فرمائیے۔ مَیں آپ کے لیے شیری کا گلاس تیار کرتی ہوں۔‘‘
کالگن نے سرسری نظروں سے مسز گالری کے سراپے کا جائزہ لیا۔ لمبا قد، مضبوط جسم، مسکراتی ہوئی نیلی آنکھیں اور خوبصورت بال۔
اپنی پُرکشش شخصیت کے باعث وہ اُن عورتوں میں سے تھی جو عمر کی پچاس منزلیں طے کر لینے کے بعد بھی جوان رہتی ہیں۔
شیری کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں ختم کرنے کے بعد کالگن نے سگار سلگایا اور کہنے لگا:
’’آپ نے سو پونڈ کا چیک مجھے پیشگی بھجوا دِیا۔ اُس کا بےحد شکریہ، اب وہ کام بتائیے۔
تفصیلات سننے کے بعد ہی کچھ کہہ سکوں گا کہ یہ کام میرے بس کا ہے یا نہیں۔‘‘
’’مَیں آپ کی شہرت سے آگاہ ہوں مسٹر کالگن! پہلے مَیں نے سوچا تھا کہ یہ معاملہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سپرد کر دوں، لیکن وہ معاملے کو اِتنا الجھا دیتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! پھر مَیں نے فیصلہ کیا کہ کوئی پرائیویٹ سراغ رساں ہی یہ نازک مسئلہ حل کر سکے گا۔
انگلستان بھر میں آپ کی ٹکّر کا کوئی سراغ رساں نہیں۔ اِسی لیے زحمت آپ کو دے رہی ہوں۔‘‘
’’اِس حوصلہ افزائی کا شکریہ۔‘‘
’’قصّہ یہ ہے مسٹر کالگن! مَیں ایک عجیب پریشانی میں مبتلا ہوں۔‘‘
مسز گالری نے اپنی کرسی قریب گھسیٹتے ہوئے کہا۔
’’چند سال پہلے میری ایک عزیز ترین سہیلی کا انتقال ہو گیا۔ اُس کی ایک ہی جوان لڑکی ہے ڈیانا میرٹ۔
ڈیانا کی ماں نے اپنی وصیت میں لڑکی کا مجھے سرپرست بنایا ۔
لکھا کہ جب تک لڑکی پچیس سال کی نہیں ہو جاتی، وہ بینک سے رقم تو نکلوا سکتی ہے، لیکن زیور نہیں نکلوا سکتی۔
تین ماہ پہلے تک ڈیانا کے تقریباً تین ہزار پونڈ بینک میں جمع تھے، لیکن اِس دوران میں وہ یہ سب رقم خرچ کر چکی ہے۔
چھوٹے موٹے زیوروں کے علاوہ سات ہزار پونڈ کی مالیت کا ہیروں کا نیکلیس بھی اُس کی ملکیت ہے جو چند دن پہلے تک بینک میں موجود تھا۔
ڈیانا اب چوبیس برس کی ہو چکی ہے۔ اُس نے مجھ سے لڑجھگڑ کر وہ قیمتی نیکلیس بھی بینک سے نکلوا کر اَپنے پاس رکھ لیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے وہ اُس سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’دراصل مَیں خود کو قصوروار سمجھتی ہوں۔ مَیں نے اپنے ایک فرانسیسی دوست ڈی ساوت کا تعارف ڈیانا سے کرایا تھا۔ وہ شخص فرانسیسی فوج میں لیفٹیننٹ ہے۔
خاصا خوبصورت اور پُرکشش آدمی سمجھا جاتا ہے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اُس شخص کا چال چلن مشکوک ہے۔
وہ ڈیانا سے شادی کر لینے کا جھانسا دے کر اُس کی رقم ہضم کرتا رہا. اَب کسی نہ کسی بہانے نیکلیس پر قبضہ کرنے کی فکر میں ہے۔
یہ شخص پہلے بھی کئی نوجوان لڑکیوں کو اِس طرح فریب دے کر اُن سے رقمیں کھاتا رہا ہے۔
مَیں نے ڈیانا کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، لیکن ڈی ساوت کا جادو اُس پر ایسا چلا کہ وہ مجھے اپنا دشمن سمجھنے لگی ہے۔
جب اُس نے بینک سے نیکلیس نکلوانے کا تقاضا کیا، تو مَیں نے اُسے نرمی سے سمجھایا کہ ڈی ساوت دھوکےباز آدمی ہے۔
وُہ نیکلیس قبضے میں کرنے کے بعد تمہیں چھوڑ کر کسی اور لڑکی کے پیچھے لگ جائے گا۔
ڈیانا یہ سن کر غصّے سے لال پیلی ہو گئی۔ اُس نے مجھے سینکڑوں باتیں سنائیں اور ڈی ساوت کو فرشتہ ثابت کیا۔
بہرحال مَیں رو دَھو کر چپ ہو رہی اور نیکلیس بینک سے نکلوا کر اُس کے حوالے کر دیا۔
مجھے ڈیانا سے محبت ہے، وہ میری سہیلی کی نشانی ہے۔ مَیں نہیں چاہتی کہ وہ غلط راہ پر چلے۔‘‘ مسز گالری کی آنکھیں بھر آئیں اور فرطِ جذبات سے چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’مسٹر کالگن! آپ اُس بدمعاش ڈی ساوت کی نگرانی کیجیے اور اُس کے کرتوتوں کا ٹھوس ثبوت فراہم کر کے لائیے۔ ڈیانا کو بچانے کی یہی صورت ہے اور کچھ ایسا چکر چلائیے کہ وہ ڈیانا سے نیکلیس حاصل نہ کرنے پائے۔‘‘
کالگن نے سگار اَیش ٹرے میں بجھایا اور کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا:
’’بہت اچھا مسز گالری! مَیں پوری کوشش کرتا ہوں۔ ڈی ساوت سے ملنے کے بعد مس ڈیانا سے بھی ملاقات کروں گا۔ ممکن ہے مَیں ڈی ساوت کے بارے میں اُس کے خیالات کی اصلاح کر سکوں۔‘‘
وہ اُسے دروازے تک رخصت کرنے آئی۔
راہ داری میں آ کر کالگن نے سگریٹ سلگایا۔ کسی انجانے خیال کے تحت وہ آپ ہی آپ مسکرایا اور جب لائٹر جیب میں رکھ کر وہ آگے بڑھا، تو اُس نے فرش پر ایک چھوٹا سا لفافہ پڑا دیکھا۔
لفافہ بند نہیں تھا۔ کالگن نے لفافہ اٹھا لیا۔ اُس میں کاغذ کے ایک پرزے پر یہ سطریں ٹائپ میں تھیں:
’’ڈئیر میڈم! آپ ہی کی فرمائش پر ہم نے آپ کے پسندیدہ کپڑے اور ڈیزائن کے مطابق چار سُوٹ تیار کر کے بھیجے تھے، لیکن تعجب ہے کہ آپ نے وہ سُوٹ واپس کر دیے۔
اب آپ اُن کے بدلے فراک سلوانا چاہتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات ہمارے اصول و ضوابط کے خلاف ہے، لیکن ہم آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُن سُوٹوں کے عوض آپ کو فراک تیار کر دیں گے، لیکن اُس میں کچھ وقت لگے گا۔
تاہم اتنے عمدہ اور صحیح تراش خراش کے سوٹ واپس بھیج کر فراک تیار کرانا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکتی ہیں؟
پوسل اینڈ سائی
خواتین کے لیے اعلیٰ لباس تیار کرنے والے‘‘
کالگن نے یہ خط دوبارہ پڑھا۔ اُس کی پیشانی پر غور و فکر کی لکیریں نمودار ہوئیں، پھر وہ ہنس پڑا۔ کاغذ کا پرزہ لفافے میں رکھا اور وَاپس جا کر مسز گالری کے دروازے پر لگے ہوئے لیٹر بکس میں ڈال دیا۔
یہ عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔
پہلے سوٹ کا آرڈر دَیتی ہیں اور جب وہ سِل جاتے ہیں، تو اُنھیں فراکوں میں تبدیل کرانا چاہتی ہیں، لیکن اب مجھے ڈی ساوت سے ملنے سے پہلے مس ڈیانا کے پاس جانا چاہیے۔ اُس نے دل میں سوچا۔
پندرہ منٹ بعد وہ مس ڈیانا کے فیشن ایبل فلیٹ کے دروازے پر کھڑا گھنٹی کا بٹن دبا رہا تھا۔ یہ فلیٹ مسز گالری کی قیام گاہ سے تین میل دور تھا۔ ایک منٹ بعد دروازہ کھلا۔
کالگن نے اپنے سامنے نوجوان لڑکی کو کھڑے پایا جس کا چہرہ افسردہ تھا اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ دَیر تک روتی رہی ہے اور اَبھی ابھی آنسو پونچھ کر آئی ہے۔
’’مس ڈیانا؟‘‘ کالگن نے سر سے ہیٹ اتارتے ہوئے پوچھا۔
’’جی فرمائیے!‘‘
’’میرا نام کالگن ہے اور مَیں بدقسمتی سے پرائیویٹ سراغ رساں ہوں۔ ابھی پندرہ منٹ پہلے مسز گالری سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ نیکلیس آپ کے سپرد کر دیا گیا ہے، لیکن اُنھیں خدشہ ہے کہ فرانسیسی فوجی ڈی ساوت آپ سے یہ قیمتی نیکلیس ہتھیانے کی فکر میں ہے۔
مسز گالری آپ کو بےحد چاہتی ہیں، وہ آپ کے نفع و نقصان کی ذمےدار ہیں۔ اگر آپ برباد ہو گئیں، تو لوگ مسز گالری کو قصوروار ٹھہرائیں گے؟‘‘
’’جہنم میں جائیں مسز گالری۔‘‘ لڑکی نے منہ بسور کر کہا۔
’’اُس بےوقوف بڑھیا کی نحوست آخر رنگ لے آئی۔ جس نیکلیس پر یہ جھگڑا اُس نے اٹھایا، وہ کل رات چوری ہو گیا ہے۔
پانچ منٹ پہلے مَیں نے فون پر مسز گالری کو یہ خبر سنا دی ہے۔ اُس کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو گی اور اَب تم آئے ہو کہ بےچارے ڈی ساوت پر چوری کا الزام تھوپ کر اُسے جیل خانے کی سیر کرا سکو۔
مسز گالری نے تمہیں سکھا پڑھا کر بھیجا ہو گا۔‘‘
’’مس ڈیانا! کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم کمرے میں بیٹھ کر اطمینان سے باتیں کریں؟‘‘ کالگن نے نرمی سے کہا۔
’’یقین کیجیے، مَیں آپ کا دشمن ہوں نہ ڈی ساوت کا ….. مَیں اُس پر خواہ مخواہ چوری کا الزام کیوں تھوپوں گا۔ آپ کہتی ہیں کہ نیکلیس گزشتہ رات چوری ہو گیا، تفصیلاً بتائیے کہ یہ کیسے ہوا، آپ کو کب پتا چلا؟‘‘
لڑکی نے اُسے کمرے میں آنے کا اشارہ کیا اور کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی:
’’مسٹر کالگن! آپ اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتی۔ آپ کو معلوم ہے، جنگ کا زمانہ ہے۔ جرمن طیارے روزانہ رات کے وقت ہمارے شہروں پر بمباری کر رہے ہیں۔
بلیک آؤٹ کی وجہ سے ہر طرف تاریکی چھائی رہتی ہے۔ سائرن بجتے ہی سب لوگ پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ مَیں نے نیکلیس اِس تصویر کے پیچھے لگے ہوئے خفیہ سیف میں رکھ دیا تھا۔
گزشتہ رات سائرن بجا، تو اِس عمارت کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مَیں بھی پناہ گاہ میں چلی گئی۔ دس منٹ بعد جب خطرہ ٹلنے کا اعلان ہوا، تو مَیں اپنے کمرے میں آئی۔ دیکھا کہ سیف کھلا ہوا ہے اور نیکلیس غائب ہے۔‘‘
’’کیا آپ اپنا کمرا اَور سیف مقفل کر کے پناہ گاہ میں نہیں گئی تھیں؟‘‘
وہ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بولی:
’’مسٹر کالگن! مجھے اپنی بےپروائی کا اعتراف ہے۔ سائرن دن رات میں کئی دفعہ بجتا ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے فلیٹ میں قفل لگا کر نہیں جاتا۔ کیونکہ خطرہ ٹلنے کا اعلان کرنے میں چند منٹ سے زیادہ نہیں لگتے۔
گزشتہ رات بھی مَیں اپنا کمرا کھلا ہی چھوڑ گئی تھی۔ سیف کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ وہ کھلا تھا یا بند۔ ممکن ہے سائرن بجنے سے بہت پہلے مَیں نے کھولا ہو اَور بند کرنا بھول گئی ہوں۔
بہرحال مَیں آپ کو پھر خبردار کیے دیتی ہوں کہ اِس معاملے میں ڈی ساوت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
وہ اَیسا آدمی نہیں کہ نیکلیس چرانے رات کے وقت جب کہ ہوائی حملہ ہو رہا ہو، میرے فلیٹ میں آئے گا۔ آپ اُسے پھنسانے کی کوشش نہ کیجیے۔‘‘
’’مس ڈیانا! آپ کے دوست ڈی ساوت کو کوئی شخص الزام نہیں دے سکتا۔ یہ تو آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ نیکلیس آپ کی ملکیت تھا۔ وہ چوری ہو گیا۔
آپ خود کسی پر الزام عائد کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ یہ میرا اَور مسز گالری کا حق نہیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ گزشتہ رات موسیو ڈی ساوت آپ کے فلیٹ میں آئے تھے؟‘‘
’’مجھے علم نہیں، البتہ چوکیدار کا بیان ہے کہ اُس نے اُسے دیکھا تھا، لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شخص ڈی ساوت ہی تھا یا کوئی اور …..‘‘
’’بہرحال مجھے افسوس ہے کہ آپ کا اتنا بیش قیمت نیکلیس چوری ہو گیا …..
سات ہزار پونڈ خاصی بڑی رقم ہے۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ موسیو ڈی ساوت نے یہ نیکلیس نہیں چرایا، تو آپ اِس معاملے کو پولیس کے حوالے کیوں نہیں کرتیں؟‘‘
لڑکی نے گھور کر کالگن کی طرف دیکھا اور بولی:
’’مجھے پولیس کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’بہت اچھا، پھر مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ مجھے اب موسیو ڈی ساوت سے ملنا پڑے گا۔ مسز گالری نے مجھے اُس کا پتا دے دیا ہے، مجھے اُس شخص سے مل کر خوشی ہو گی۔
وہ اَپنی جگہ سے اٹھا اور لڑکی کو حیران پریشان چھوڑ کر دروازے سے باہر نکل گیا۔
کالگن کو امید نہیں تھی کہ لیفٹیننٹ پاول ڈی ساوت اتنا خوش رُو اَور خوش اخلاق جوان ہو گا۔ خوبصورت اور چمک دار فوجی وردی میں وہ اَور بھی باوقار نظر آتا تھا۔
فرانسیسی ہونے کے باوجود اُسے انگریزی زبان پر عبور تھا۔ کالگن کی زبانی پورا قصّہ نہایت سکون سے سننے کے بعد بولا:
’’موسیو کالگن! مَیں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مس ڈیانا کا نیکلیس مَیں نے نہیں چرایا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ مسز گالری نے رقابت کی بنا پر مجھے اِس چکر میں پھنسانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’رقابت؟‘‘ کالگن کے چہرے پر حیرت جھلکنے لگی۔
’’جی ہاں! وہ پچاس برس کی بڑھیا مجھے اپنے ساتھ شادی پر آمادہ کرنا چاہتی تھی اور ممکن ہے مَیں بھی رضامند ہو جاتا، اگر مس ڈیانا سے میری ملاقات نہ ہوتی ۔
مجھے مس ڈیانا کی دولت اور نیکلیس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مَیں اب بھی اُس سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’کیا آپ کل رات مس ڈیانا کے فلیٹ پر گئے تھے؟‘‘
’’جی نہیں! مَیں نہیں گیا۔‘‘
’’لیکن چوکیدار کا بیان ہے کہ اُس نے آپ کو سیڑھیاں اترتے دیکھا ہے۔‘‘ کالگن نے کہا۔
’’مَیں نے خود اُس سے پُوچھ گچھ کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ہوائی حملے کا سائرن بجا اور وُہ بھی اُس عمارت میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ خندقوں میں پناہ لینے گیا۔
یکایک اُسے خیال آیا کہ وہ لفٹ سسٹم کا کرنٹ بند کرنا بھول گیا ہے۔ کرنٹ بند کرنے کے ارادے سے وہ اُسی وقت واپس آیا، تو اُس نے فوجی وردی پہنے ہوئے ایک شخص کو مس ڈیانا کے فلیٹ سے باہر راہ داری میں تیزی سے گزرتے ہوئے دیکھا۔
اندھیرے کے باعث وہ شکل تو نہ دیکھ سکا، لیکن وردی ضرور نظر آ گئی۔ اُس نے سوچا موسیو ڈی ساوت ہیں جو اکثر یہاں آت جاتے رہتے ہیں اور جن کے پاس فلیٹ کی دوسری چابی بھی ہے۔‘‘
ڈی ساوت مسکرایا:
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسز گالری نے میرے خلاف خوب زہر اُگلا ہے اور اَب وہ جوشِ انتقام میں اندھی ہو کر مجھے بدنام کرنا چاہتی ہے۔
مسٹر کالگن! مَیں آپ کے انگلستان میں اجنبی ہوں۔ جب یہاں آیا، تو سب سے پہلے مسز گالری سے واقفیت پیدا ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مَیں اُنھیں پسند کرنے لگا، لیکن وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئیں۔
اُنھوں نے خود ہی مس ڈیانا سے میرا تعارف کرایا ۔ جب ہم نے ایک دوسرے کی زندگی کا ساتھی بننے کا فیصلہ کیا، تو مسز گالری کے آگ لگ گئی اور تب یک لخت مسز گالری پر انکشاف ہوا کہ مَیں تو بہت بدچلن اور آوارہ آدمی ہوں۔‘‘
وہ اَپنی جگہ سے اٹھا اور ٹہلنے لگا۔ پھر بولا:
’’میری قسمت اچھی ہے کہ گزشتہ رات مَیں مس ڈیانا کے فلیٹ پر نہیں گیا، ورنہ چوری کے الزام میں ضرور پکڑا جاتا۔
موسیو کالگن! آپ چاہیں، تو تصدیق کر سکتے ہیں کہ کل رات جب ہوائی حملے کا سائرن بجا، اُس وقت سے لے کر ایک گھنٹے تک مَیں فرانسیسی فوج کے ہیڈکوارٹر میں موجود تھا۔
میری رجمنٹ کے تیس چالیس جوان اِس بات کی حلفیہ گواہی دے سکتے ہیں کہ مَیں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’آپ کے بیان پر اِن حالات میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘ کالگن نے منہ لٹکا کر کہا۔
’’اچھا اجازت دیجیے، آپ کا مزید وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘
کالگن، برکلے سکوائر میں ٹیکسی سے اترا۔ کچھ دور پیدل چلنے کے بعد وہ ایک عمارت میں داخل ہو کر لفٹ میں سوار ہوا اَور چوتھی منزل پر اپنے دفتر میں پہنچ گیا۔
آرام کرسی پر لیٹ کر اُس نے سگریٹ سلگایا، آنکھیں بند کیں اور اِس پُراسرار ڈرامے کے کرداروں پر باری باری غور کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اُس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی جو پھیلتے پھیلتے ہنسی میں تبدیل ہو گئی۔
وہ آپ ہی آپ ہنستا رہا، پھر اُس نے مسز گالری کا دیا ہوا سو پونڈ کا چیک جیب سے نکالا اور تپائی پر رکھ کر سوچنے لگا مسز گالری واقعی فیاض خاتون ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی موکل نے پیشگی سو پونڈ دیے ہوں۔ یکایک اُس نے دائیں ہاتھ رکھا ہوا ٹیلی فون اٹھایا، نمبر ڈائل کیے۔ چند ثانیے بعد اُس کے کانوں میں مسز گالری کی شیریں آواز آئی۔ کالگن نے کہا:
’’مسز گالری! مَیں ہوں، آپ کا خادم کالگن …..
مس ڈیانا نے آپ کو فون پر بتا دیا ہو گا کہ گزشتہ رات اُن کا نیکلیس چوری ہو گیا ہے۔
میرا خیال تھا کہ یہ حرکت ڈی ساوت کی ہے، لیکن تحقیق کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ جس وقت نیکلیس چرایا جا رہا تھا، ڈی ساوت اپنے ہیڈکوارٹر میں حاضر تھا …..‘‘
’’اچھا؟‘‘ مسز گالری نے انتہائی حیرت کا اظہار کیا۔
’’تعجب ہے ….. اب آپ کا اگلا قدم کیا ہو گا مسٹر کالگن؟ وہ شخص بہت چالاک ہے۔‘‘
’’مَیں سمجھتا ہوں مادام!‘‘ کالگن نے ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا۔
’’لیکن وہ وَاقعی سچ بول رہا ہے۔ مَیں نے اُس کی رجمنٹ کے تقریباً تیس جوانوں اور اَفسروں سے الگ الگ پوچھا۔
سب نے اقرار کیا کہ وہ کل رات ہوائی حملے کے وقت ہیڈکوارٹر میں موجود تھا۔‘‘
’’پھر نیکلیس کون لے گیا؟ مسز گالری نے کہا۔
’’مسٹر کالگن! آپ چور کا پتا لگائیے اور اَخراجات کی پروا نہ کیجیے۔‘‘
’’مَیں پوری کوشش کر رہا ہوں مادام! گھبرائیے نہیں۔ اچھا مَیں کسی وقت آپ سے ملوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے فون بند کر دیا۔ پھر اُس نے انگڑائی لی، کرسی سے اٹھا۔ لفٹ میں سوار ہو کر نیچے اترا۔ ٹیکسی پکڑی اور ڈی ساوت کی قیام گاہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
خوش رو لیفٹیننٹ اپنی چمکیلی وردی پہنے مسکرا رَہا تھا۔
’’آئیے موسیو کالگن! خیر تو ہے؟‘‘
’’ارے صاحب! مَیں سخت نادم ہوں کہ آپ کے متعلق خواہ مخواہ دِل میں شبہ کرتا رہا۔
مَیں نے آپ کی رجمنٹ سے پوچھ گچھ کی اور سب نے آپ کے حق میں گواہی دی۔ سچ جانیے، مَیں بہت شرمندہ ہوں۔
مَیں نے تھوڑی دیر ہوئی مسز گالری سے بھی فون پر کہا کہ موسیو ڈی ساوت بےقصور ہیں۔‘‘
’’آہ، آپ کا بےحد شکریہ۔ موسیو کالگن! آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا۔ آپ نے مجھے بڑی رسوائی سے بچا لیا۔‘‘
’’مَیں مسز گالری سے ملنے جا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے، وہ خود بھی آپ سے ندامت کا اظہار کریں گی۔ کیا مَیں آپ کا نمبر نوٹ کر سکتا ہوں؟‘‘
’’ضرور، ضرور!‘‘ اُس نے اپنا فون نمبر بتایا۔ کالگن نوٹ بُک پر لکھنے لگا۔ لیکن پین میں غالباً روشنائی نہ تھی۔
اُس نے بےخیالی میں اُسے زور سے جھٹکا۔
روشنائی کے قطرے لیفٹیننٹ کی دھلی ہوئی وردی کو داغ دار کر گئے۔
’’اوہ معاف کیجیے گا، مجھ سے کیا حماقت ہو گئی۔‘‘
کالگن کے چہرے پر ندامت کے باعث کرب کے آثار پیدا ہوئے۔
’’آپ کی وردی خراب ہو گئی۔‘‘
ڈی ساوت نے بےنیازی سے کندھے اچکائے۔
’’کوئی بات نہیں، خوش قسمتی سے میرے پاس ایک اور وَردی موجود ہے، وہ پہن لوں گا۔‘‘
کالگن نے مؤدبانہ انداز میں سر جھکایا اور دَروازے کی طرف مڑا۔
ٹھیک ساڑھے سات بجے کالگن، مسز گالری کے فلیٹ پر کھڑا تھا۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوا، تو اُس نے ڈی ساوت کو ایک کوچ پر چپ چاپ بیٹھے پایا۔ مسز گالری آتش دان کے پاس کھڑی سگریٹ پی رہی تھی۔
کالگن کو دیکھتے ہی اُس کی بھوئیں تن گئیں اور اُس نے کہا:
’’مسٹر کالگن! آپ نے ڈی ساوت سے فون پر کہا ہے کہ وہ میرے گھر آئے، مَیں اُس سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔
آخر آپ نے یہ جھوٹ کیوں بولا۔‘‘
کالگن مسکرایا: ’’مادام! اِس بحث کو اب جانے دیجیے اور سات ہزار پونڈ مالیت کا وہ نیکلیس چپکے سے میرے حوالے کر دیجیے جو آپ دونوں میں سے کسی ایک کے پاس ہے۔‘‘
مسز گالری کے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ نکل کر فرش پر گر پڑا۔
اُس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ڈی ساوت اچھل کر کھڑا ہو گیا اور کالگن کو گھورنے لگا۔ اُس نے ابھی تک وہی وردی پہن رکھی تھی جس پر روشنائی کے دھبے پڑے ہوئے تھے۔
’’بیٹھ جائیے موسیو!‘‘ کالگن نے سکون سے کہا۔ ’’مزید اداکاری کرنے کی ضرورت نہیں۔
اِس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو چکا ہے۔ مجھے آپ لوگوں کے شاندار پلاٹ کی داد دَینی پڑتی ہے۔ غالباً یہ مسز گالری کے زرخیز دماغ کا شاہکار ہو گا۔‘‘
وہ سگریٹ سلگانے کے لیے رکا۔ مسز گالری اور ڈی ساوت پتھر کے بت بنے اپنی جگہ کھڑے تھے۔
’’مسز گالری! آج صبح جب مَیں آپ سے مل کر واپس جا رہا تھا، تو راہ داری میں ایک کھلا لفافہ پڑا ہوا ملا۔ مَیں نے اُس کے اندر رَکھا ہوا خط نکال کر پڑھا۔ اُس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔
یہ خط آپ کے درزیوں نے آپ کے نام لکھا تھا جس میں اِس بات پر حیرت ظاہر کی گئی تھی کہ آپ نے پہلے چار سُوٹ سلوائے اور پھر اُن کے بدلے فراک سلوانے کا فیصلہ کر لیا۔
مَیں خود یہ پڑھ کر بڑا حیران ہوا۔ پھر جب مَیں مس ڈیانا سے ملا، تو اُس نے بتایا کہ رات کو نیکلیس چوری ہو گیا ہے اور چوری بھی اُس وقت ہوا جب ہر طرف اندھیرا تھا اور جرمنوں کے جہاز آسمان پر گرج رہے تھے۔
اُس وقت چوکیدار ایک شخص کو دیکھتا ہے جو فوجی وردی پہنے مس ڈیانا کے کمرے سے باہر آ رہا ہے۔
وہ حسبِ معمول یہ سمجھتا ہے کہ یہ موسیو ڈی ساوت ہیں جو اکثر یہاں آتے رہتے ہیں اور جن کے پاس فلیٹ کی چابی بھی موجود ہے۔‘‘
’’یہ بےہودہ بکواس کرنے سے آخر مقصد کیا ہے تمہارا؟‘‘ مسز گالری چلّا اٹھی۔
’’صبر کیجیے مادام! ابھی سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔‘‘ کالگن نے ہنس کر کہا۔
’’آپ نے دراصل گزشتہ رات ڈی ساوت کی دی ہوئی دوسری وردی پہنی اور بلیک آؤٹ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس کے فلیٹ تک جا پہنچیں۔
ڈی ساوت نے مجھے بتایا تھا کہ اُس کے پاس دو وَردیاں ہیں، لیکن وہ اَبھی تک وہی وردی پہنے ہوئے ہے جس پر مَیں نے جان بوجھ کر روشنائی چھڑک دی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ دوسری وردی کہاں ہے؟ وہ اِس فلیٹ میں ہے مادام۔ ابھی تلاشی لوں، تو برآمد ہو جائے گی۔
’’بہرحال آپ کی خوش قسمتی سے تھوڑی دیر بعد ہی ہوائی حملے کے سائرن بول اٹھے۔ اُس عمارت کے سب لوگ نچلی منزل پر پناہ گاہوں میں اتر گئے۔ آپ اطمینان سے مس ڈیانا کے فلیٹ میں داخل ہو گئیں۔
سیف کھولا جس کی دوسری چابی یقیناً آپ نے پہلے سے بنوا رَکھی تھی۔
نیکلیس نکال کر قبضے میں کیا اور جب باہر نکلیں، تو چوکیدار نے آپ کو دیکھ کر یہی خیال کیا کہ موسیو ڈی ساوت ہیں۔ اِس دوران میں اصلی ڈی ساوت نے اپنے بچاؤ کا پورا اِنتظام کر لیا تھا۔
وہ اُس وقت اپنی رجمنٹ کے جوانوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا تھا کہ پولیس تک نیکلیس کی چوری کا معاملہ پہنچے، تو وہ موقعۂ واردات سے اپنی غیرحاضری کا واضح ثبوت پیش کر سکے۔‘‘
ڈی ساوت کا چہرہ سفید پڑ گیا، وہ نڈھال ہو کر کرسی پر گر پڑا۔ مسز گالری کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
’’مجھے درزیوں کی طرف سے آپ کے نام آیا ہوا خط پڑھتے ہی شک ہو گیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
مسز گالری! آپ دراصل مدت سے اپنی آنجہانی سہیلی کی نوجوان، لیکن مالدار لڑکی کی دولت پر دانت رکھے ہوئے ہیں۔
آپ نے براہِ راست رقم ہضم کرنے کے بجائے مختلف اوقات میں مختلف ہتھکنڈوں سے کام لیا ہے۔ یہ مَیں سب تحقیق کر چکا ہوں۔ جب آپ نے دیکھا کہ بینک میں رقم ختم ہو چکی اور سات ہزار پونڈ کی مالیت کا ہیروں کا نیکلیس باقی ہے، تو آپ نے اُسے ہتھیانے کی انوکھی تدبیر سوچی۔
اِس سازش میں اپنے دوست ڈی ساوت کو شریک کیا۔ اِس امید پر کہ ہار آپ کے قبضے میں آ جائے گا۔
آپ نے نہایت قیمتی اور اَعلی کپڑے کے چار سوٹ سلوانے کا آرڈر بھی دے دیا تھا، لیکن ڈی ساوت مقررہ وَقت پر نیکلیس حاصل کرنے میں ناکام رہا اور دَرزیوں نے سوٹ تیار ہو جانے کے بعد رقم کا مطالبہ شروع کر دیا۔
آپ قلاش تھیں۔
مزید وقت حاصل کرنے کے لیے یہی سوچا کہ اُن سوٹوں کے بدلے فراک سلوائے جائیں تاکہ ایک دو مہینے مزید گزر جائیں اور نیکلیس قبضے میں کر کے اُسے فروخت کرنے کا انتظام بھی ہو جائے۔
آپ جانتی تھیں، مس ڈیانا، ڈی ساوت سے محبت کرتی ہے ۔
اَوّل تو یہ معاملہ وہ کبھی پولیس تک نہیں لے جائے گی اور اَگر لے بھی گئی، تو ڈی ساوت اپنی بےگناہی کا ثبوت دے کر صاف بچ جائے گا۔
آپ بھی بری الذمّہ رہیں گی۔ لوگ مس ڈیانا پر الزام دھریں گے کہ اُس نے اپنی سرپرست سے لڑ جھگڑ کر نیکلیس حاصل کیا اور اُسے گنوا دِیا۔
اِسے کہتے ہیں ایک پنتھ دو کاج۔ لائیے اب وہ نیکلیس میرے حوالے کیجیے تاکہ جس کا مال ہے اُسے پہنچا دوں، ورنہ …..‘‘
اُس کا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی مسز گالری نے میز کی دراز کھولی، جگ مگ کرتا ہیروں کا نیکلیس نکالا اور کالگن کی طرف اچھال دیا۔
’’شکریہ مادام! بہت بہت شکریہ۔‘‘ کالگن نے کہا۔
’’اور یہ لیجیے سو پونڈ کا اپنا چیک جو کیش نہیں ہو سکا۔‘‘
اُس نے چیک ایک طرف پھینکا اور سیٹی بجاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔