30 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

Mujrim|مجرم|Maqbool Jahangir

مجرم

مقبول جہانگیر

ہرکیول پوئرو جب اپنے خوبصورت اور سجے ہوئے دفتر میں داخل ہوا، تو مس لیمن نے حسبِ معمول مسکرا کر اُس کا استقبال کیا۔

’’کہیے مس لیمن! کوئی خاص بات؟‘‘

’’فی الحال تو خاص بات نہیں۔‘‘ مس لیمن نے اپنے حسین دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’البتہ آج کی ڈاک میں ایک خط ایسا ضرور آیا ہے جس سے شاید آپ کو کچھ دلچسپی ہو۔ وہ خط مَیں نے آپ کی میز پر کاغذوں کے اوپر رکھ دیا ہے۔‘‘

’’بہت خوب۔ بھلا اُس خط کا مضمون کیا ہے؟‘‘

’’کوئی صاحب سر جوزف ہوگن ہیں۔ اُن کی بیوی کا پالتو کتا کھو گیا ہے ۔ وُہ اُسے تلاش کرنے کے لیے آپ کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ہرکیول پوئرو نے حیرت سے اپنی سیکرٹری مس لیمن کی طرف دیکھا۔ وہ بےنیازی سے سر جھکائے مسلسل ٹائپ کر رہی تھی۔
اُس نے ایک بار بھی پوئرو کی طرف نہ دیکھا کہ اُس ایک معمولی سے جملے سے اُس پر کیا بِیت گئی ہے۔ وہ زیرِلب بار بار کہہ رہا تھا:

’’پالتو کتا کھو گیا ہے ….. پالتو کتا کھو گیا ہے …..‘‘

پھر وہ اَپنی لمبی چوڑی میز کے قریب گیا۔ دائیں ہاتھ پر کاغذوں اور خطوں کا ایک ڈھیر ترتیب سے رکھا تھا۔ پوئرو نے ہاتھ بڑھا کر سب سے اوپر رکھا ہوا خط اٹھا لیا۔
سرسری نظر ڈالتے ہی معلوم ہو گیا کہ مس لیمن نے جو کچھ کہا تھا، اُس میں مطلق مبالغہ نہ تھا۔ سر جوزف ہوگن نے لکھا تھا:

’’مسٹر ہرکیول پوئرو! امید ہے آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔ مَیں نے کسی سے سنا ہے کہ آپ اچھے اور ماہرِ فن سراغ رساں ہیں۔ میری بیوی کا چھوٹا سا پالتو کتا گم ہو گیا ہے۔
براہِ کرم اُسے تلاش کر دیجیے۔ آپ کی فیس ادا کر دی جائے گی۔ آپ درجِ ذیل پتے پر مجھ سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ تشریف لانے سے پیشتر فون پر مطلع کر دیجیے گا۔

آپ کا صادق

سر جوزف ہوگن‘‘

خط پڑھتے ہوئے پوئرو کے چہرے پر ناگواری اور غصّے کے ملے جلے آثار نمودار ہوئے۔
اُس نے کئی بار ہونٹ بھینچے اور مس لیمن کی طرف دیکھا جو اَپنے باس کی حالت سے بےخبر مسلسل ٹائپ کیے جا رہی تھی۔

لوگ اب اپنے گم شدہ کتے بھی مجھ سے تلاش کروانے لگے ہیں۔ لعنت ہے ایسے کام پر ….. ہرکیول پوئرو ….. اپنے دور کا عظیم سراغ رساں ….. بین الاقوامی شہرت کا مالک ….. جس نے قتل، ڈاکے، راہزنی اور چوری کی بےشمار وَارداتوں کا سراغ لگایا۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اِنٹرپول والے جس کے ہمیشہ ممنونِ احسان رہے ہیں۔ افسوس ….. صد افسوس کہ اب وہ معمولی نسل کے کتے ڈھونڈنے کا کام کرے گا۔

خیالات کی ایک تیز رو اُس کے ذہن میں در آئی۔ وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اُس خط کو گھورتا رہا جس پر چند سطریں لکھی ہوئی تھیں۔ بےکار ….. فضول ….. بےہودہ ….. وقت ضائع کرنے کے سوا اَور اِس میں کیا دھرا ہے ….. مجھے انکار کر دینا چاہیے ….. یہ کام میری شان کے شایاں نہیں …..

ایک مرتبہ پھر اُس نے نہایت احتیاط اور غور سے خط پڑھا۔ اب اُس کی چھٹی حِس بیدار ہو رَہی تھی۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ معاملہ دلچسپ ثابت ہو ….. آخر اُس شخص جوزف ہوگن سے ایک بار مل لینے میں کیا ہرج ہے۔

’’مس لیمن! مہربانی فرما کر مسٹر جوزف کو فون کر کے ملاقات کا وقت لے لیجیے۔‘‘ پوئرو نے بلند آواز سے کہا۔

(۲)

اگلے روز ہرکیول پوئرو مقررہ وَقت پر سر جوزف ہوگن کے دفتر میں داخل ہو رہا تھا۔
سر جوزف ادھیڑ عمر کا ایک صحت مند آدمی تھا۔ پھولا ہوا سرخ چہرہ، گول گول گھومتی ہوئی آنکھیں، بھدّی ناک اور پتلے پتلے ہونٹ یوں بھنچے ہوئے تھے جیسے وہ ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اُس کی شکل دیکھتے ہوئے پوئرو ایک لمحے کے لیے چونک پڑا۔ کوئی بھولی بسری یاد اُس کے ذہن میں انگڑائیاں لینے لگی۔ مَیں نے اِس شخص کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے ….. مگر کہاں ….. کس جگہ ….. شاید اپنے وطن بیلجئیم میں …..

’’تشریف رکھیے جناب!‘‘ سر جوزف نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پوئرو خاموشی سے بیٹھ گیا۔ سر جوزف نے سگار کا ڈبا آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

’’شوق فرمائیے مسٹر پوئرو …..‘‘ پھر اُس نے خود ایک سگار نکال کر سلگایا اور کہنے لگا:

’’معاف کیجیے، مَیں نے ایک معمولی بات کے باعث آپ کو زحمت دی ہے۔ مَیں آپ کی شہرت سے خوب واقف ہوں اور ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ یہ بےہودہ کام آپ سے لوں ….. مگر حالات نے مجبور کر دیا ہے۔
بہرحال مَیں روپے پیسے والا آدمی ہوں۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ معمولی کام کا معاوضہ بھی معمولی ہو گا۔‘‘

’’مَیں آپ کی اِس مہربانی اور عنایت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘ پوئرو نے مسکرا کر کہا۔
’’بہتر ہو گا کہ آپ معاملے کی تفصیلات مجھے بتائیں، پھر مَیں عرض کر سکوں گا کہ مَیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ جب آپ کا خط مجھے ملا، تو مَیں نے محسوس کیا کہ یہ نہایت غیراہم کیس ہے۔‘‘

’’جی کیا فرمایا آپ نے؟ نہایت اہم کیس ہے؟‘‘ سر جوزف نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔

ہرکیول پوئرو نے نہایت بےزاری سے سر جوزف کی جانب دیکھا۔
پھر اُس نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسا کہ کس غبی آدمی سے پالا پڑا ہے۔ خدا غارت کرے۔ کم بخت خواہ مخواہ وَقت ضائع کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

’’مَیں نے عرض کیا کہ نہایت غیراہم کیس ہے۔‘‘ پوئرو نے ایک ایک لفظ پر زور دَیتے ہوئے کہا۔
’’میری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے مجھ سے گم شدہ پالتو کتے کو ڈھونڈنے کی درخواست کی ہو۔‘‘

’’بلاشبہ آپ کا ارشاد صحیح ہے۔‘‘ سر جوزف نے کہا۔ ’’مگر آپ اِن عورتوں کو نہیں جانتے یہ اپنے پالتو کتوں کو اولاد سے زیادہ چاہتی ہیں۔‘‘

’’جی ہاں! لیکن تعجب اِس امر پر ہے کتا تو کھویا گیا آپ کی بیوی کا ….. اور مجھے طلب کیا ہے آپ نے ….. حالانکہ اصولاً آپ کی بیوی کو مجھے خط لکھنا چاہیے تھا۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں؟‘‘

سر جوزف نے چند لمحوں تک حیران نظروں سے پوئرو کی طرف دیکھا۔ پھر دھیمے لہجے میں کہا:

’’اب مجھے صحیح اندازہ ہوا ہے کہ آپ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔‘‘

’’خیر خیر ….. اب فرمائیے کہ آپ کی بیوی کا پالتو کتا کب کھویا گیا؟‘‘

’’آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے!‘‘

’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیوی کتے کی جدائی میں سخت ہلکان ہو رَہی ہوں گی۔‘‘

’’جی نہیں ….. کتا واپس آ چکا ہے۔‘‘ سر جوزف نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’واپس آ چکا ہے۔‘‘ پوئرو کی بھنوئیں تن گئیں۔ اُس نے دانت بھینچ کر سخت لہجے میں کہا ’’تب مَیں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ مجھے کیوں پریشان کیا گیا؟‘‘

پوئرو کے اِس لہجے پر سر جوزف کا رنگ تپے ہوئے تانبے کی طرح سرخ ہو گیا۔ اُس نے سگار چباتے ہوئے کہا:

’’آپ ناراض نہ ہوں۔ مَیں ابھی سب کچھ بتاتا ہوں۔ کتا ایک ہفتہ پہلے گم ہوا تھا۔ میری بیوی کی خادمہ روزانہ سہ پہر کے وقت اُسے ٹہلانے کے لیے کینگسگٹن باغ میں لے جایا کرتی تھی۔
کتا وہیں سے غائب ہوا۔ اگلے روز میری بیوی کے نام ایک خط آیا جس میں لکھا تھا کہ اگر دو سو پونڈ کی رقم خط بھیجنے والے کو فلاں پتے پر ارسال کر دی جائے، تو کتا واپس بھیج دیا جائے گا۔
مَیں نے سنا، تو میرا خون کھول اٹھا۔ بھلا اُس چھوٹے سے حقیر کتے کے لیے دو سو پونڈ کی رقم کون ادا کرے گا۔ مگر میری بیوی نے رو رَو کر برا حال کر لیا تھا۔
خط کی بات بھی مجھے اُس نے بعد میں بتائی۔ وہ دو سو پونڈ کی رقم اُس بدمعاش کو بھیج چکی تھی اور یوں کتا واپس آ گیا۔‘‘

’’کتا کس طرح واپس آیا ….. کیا کوئی شخص اُسے لے کر آیا تھا؟‘‘

’’جس روز رقم بھیجی گئی، اُسی روز شام کے وقت ہمارے گھر کی گھنٹی بجی ….. خادمہ نے دروازہ کھولا، تو کتا سیڑھیوں پر بیٹھا ہانپ رہا تھا۔
خادمہ نے اِدھر اُدھر دیکھا، مگر وہاں کوئی شخص نظر نہ آیا۔‘‘

’’خوب ….. خوب …..‘‘ پوئرو نے زیرِلب کہا۔
’’اچھا، یہ تو بتائیے کہ دو سو پونڈ کی رقم بڑے نوٹوں میں ادا کی گئی یا چھوٹے نوٹ بھیجے گئے؟‘‘

’’آپ نے اچھا سوال کیا ہے مسٹر پوئرو! دراصل خط میں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ دو سو پونڈ کی رقم ایک ایک پونڈ کے نوٹوں کی صورت میں روانہ کی جائے۔
قصّہ مختصر جب مجھے اِس تمام خرافات کا علم ہوا، تو میرے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ مجھے دو سو پونڈ کے ضائع ہونے کا اتنا رنج نہ تھا جتنا اِس بات کا ہوا کہ میری بیوی ایسی احمق بھی ہو سکتی ہے۔
ممکن ہے مَیں اِس قصّے میں نہ پڑتا، لیکن اگلے ہی روز جب کلب میں ایک پرانے دوست سیموئل سے ملاقات ہوئی، تو اُس نے بھی ایسی ہی واردات کا ذکر کیا۔‘‘

’’اچھا!‘‘ پوئرو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’’آپ کے دوست نے کیا بتایا؟‘‘

’’مسٹر پوئرو! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدمعاشوں کا کوئی گروہ ہے جو اَیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ میرے گھر میں جو واقعہ پیش آیا، بالکل ویسا ہی واقعہ مسٹر سیموئل کے ہاں ہوا۔
فرق صرف یہ رہا کہ میری بیوی سے بدمعاشوں نے دو سو پونڈ طلب کیے اور سیموئل کی بیوی سے تین سو۔ جب مَیں نے یہ قصّہ سنا، تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ کرنا چاہیے۔ یہ ہے اصل وجہ آپ کو زحمت دینے کی۔‘‘

’’لیکن جنابِ والا! کیا یہ مناسب نہ تھا کہ آپ مجھے طلب کرنے کے بجائے اِس معاملے کو سلجھانے کے لیے پولیس کو زحمت دیتے؟ یقیناً اِس طرح آپ مزید اخراجات سے بھی بچ جاتے۔‘‘

سر جوزف نے اِس سوال پر چند لمحے تک اپنی ناک مسلی، پھر مسکرا کر کہا:

’’مسٹر پوئرو! کیا آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘

’’افسوس کہ مَیں اِس نعمت سے ابھی تک محروم ہوں۔‘‘

’’آہ! تب آپ کو سمجھانا دشوار ہو گا ….. واقعہ یہ ہے کہ یہ بیویاں اللہ کی عجب مخلوق ہیں۔ مَیں آج تک اپنی بیوی کو نہیں سمجھ سکا کہ وہ کس ذہن کی مالک ہے۔
مَیں نے خود جب اُس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اِس واردات کی اطلاع پولیس کو دینی چاہیے، تو یقین کیجیے اُس عورت پر ہسٹریائی کیفیت طاری ہو گئی۔
وہ بار بار یہ کہتی تھی کہ اگر پولیس نے اِس معاملے میں مداخلت کی، تو سان تنگ کی جان پر بن جائے گی۔ تب مَیں نے آپ کا نام لیا اور کہا مسٹر پوئرو نہایت قابل اور مشہور سراغ رساں ہیں۔
وہ اُن بدمعاشوں کا سراغ لگائیں گے۔ میری بیوی اِس پر بھی آسانی سے راضی نہ ہوئی۔ اُس کے دل پر مجرموں کی اتنی ہیبت بیٹھی ہوئی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔
بہرحال مَیں نے اُس سے کہہ دیا کہ تم جو چاہے کرو، مَیں اب یہ معاملہ مسٹر پوئرو کے حوالے کر کے رہوں گا۔‘‘

’’خوب، خوب!‘‘ پوئرو نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ’’غالباً سان تنگ آپ کی بیوی کے پالتو کتے کا نام ہے؟‘‘

سر جوزف نے اثبات میں گردن ہلائی۔ پوئرو چند لمحے گہری سوچ میں گم رہا۔ پھر کہنے لگا:

’’یہ نہایت دلچسپ، مگر پیچیدہ معاملہ ہے۔ سر جوزف! مَیں اِسے حل کرنے کی کوشش کروںگا، لیکن یہ ضروری ہے کہ اب مَیں آپ کی بیوی سے ملوں اور اُنھیں اطمینان دلاؤں کہ وہ سان تنگ کے بارے میں مزید پریشان نہ ہوں۔ اُن کے کتے کا مستقبل بہرحال محفوظ ہے۔‘‘

سر جوزف نے پھر گردن ہلائی اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’آئیے، مَیں آپ کو اَبھی اپنی بیوی سے ملا لاتا ہوں۔‘‘

(۳)

نہایت عمدہ طریق پر سجے سجائے وسیع ڈرائنگ روم میں دو عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔
سر جوزف اور ہرکیول پوئرو جُوں ہی کمرے میں داخل ہوئے، ایک جانب سے چھوٹے قد کا گھنے بالوں والا کتا دوڑتا ہوا آیا اور پوئرو کے قریب کھڑا ہو کر زور زور سے بھونکنے لگا۔

’’سان ….. سان ….. اِدھر آؤ ….. چلو ہٹو وہاں سے ….. مس کارنیبی اِسے اٹھا کر یہاں سے لے جاؤ۔‘‘
ایک عورت نے چلّا کر کہا۔ دوسری عورت فوراً اُٹھ کر آئی اور جوش میں بھرے ہوئے کتے کو بغل میں دبا کر باہر چلی گئی۔

’’کتا تو اچھی نسل کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ پوئرو نے مسکرا کر کہا۔

’’جی ہاں! آپ نے خوب پہچانا۔‘‘ عورت نے خوش ہو کر کہا۔
’’بےحد نڈر اَور بہادر کتا ہے۔ یہ نسل خاصی کمیاب ہے۔‘‘

سر جوزف نے جلدی سے ہرکیول پوئرو کا تعارف اپنی بیوی سے کرایا، پھر کہنے لگا:

’’مسٹر پوئرو! آپ یہاں اطمینان سے بیٹھیے اور میری بیوی سے جو پوچھنا ہے، پوچھیے۔ مَیں اب اجازت چاہتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔ اب پوئرو نے گہری نظر سے لیڈی جوزف ہوگن کا جائزہ لیا۔
یہ نہایت موٹی تازہ اور پست قامت عورت تھی۔ سب سے نمایاں اُس کے گہرے سرخ رنگ کے بال تھے۔ اتنے میں دوسری عورت مس کارنیبی بھی کمرے میں آ گئی۔
اُس کے اور لیڈی جوزف کے حُلیے اور قد و قامت میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان ہو گی۔ پوئرو نے فوراً گفتگو کا آغاز کر دیا۔

’’لیڈی ہوگن! مَیں آپ کی زبان سے اُس واردات کی تمام تفصیلات جاننا چاہتا ہوں۔‘‘

لیڈی ہوگن کا چہرہ یک لخت سرخ ہو گیا۔ شاید شرم کی وجہ سے ….. اُس نے رک رک کر کہا:

’’مَیں آپ کو بڑی خوشی سے سب کچھ بتانے کو تیار ہوں۔
آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ یہ نہایت بھیانک واردات تھی۔ آپ کو معلوم نہیں میرا کتا نہایت زود حِس ہے۔
بالکل بچوں کی طرح اور مجھے اُس سے دیوانگی کی حد تک پیار ہے اور وُہ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

اِس موقعے پر مس کارنیبی نے زبان کھولی اور ہکلاتے ہوئے بولی:

’’مسٹر پوئرو! میری بےوقوفی کے باعث یہ سب کچھ ہوا ….. مَیں اُس روز معمول کے مطابق سان تنگ کو لے کر باغ میں گئی تھی۔ کتا میرے آگے آگے دوڑ رہا تھا۔
اُس کی لمبی پتلی زنجیر میرے ہاتھ میں تھی۔ وہ کچھ زیادہ دُور نہیں جا سکتا تھا۔ جب مَیں واپس آنے لگی، تو دیکھا کہ ایک بچہ گاڑی میں نہایت پیارا بچہ بیٹھا ہوا ہے۔
وہ مجھے دیکھ کر ہنسا۔ مجھے چھوٹے خوبصورت بچوں سے بےحد پیار ہے۔ اُس بچے کی آیا قریب ہی کھڑی تھی۔ مَیں اُس سے باتوں میں لگ گئی اور بچے کو پیار کرنے لگی۔

’’مجھے معلوم ہوا کہ بچے کی عمر ڈیڑھ سال ہے، مگر اُس کی صحت اتنی اچھی تھی کہ وہ دو ڈھائی سال کا نظر آتا تھا۔
خیر ایک دو منٹ آیا سے باتیں کر کے جب مَیں چلنے لگی، تو پتا چلا کہ سان تنگ غائب ہے۔ زنجیر میرے ہاتھ میں رہی اور کوئی اُسے اٹھا کر لے گیا۔
مَیں نے بعد میں دیکھا، تو زنجیر اُس جگہ سے کٹی ہوئی تھی جہاں وہ پٹے سے بندھی رہتی ہے۔‘‘

’’مس کارنیبی! اگر تم اپنے فرائض کی طرف دیانت داری سے توجہ دیتیں، تو کسی کو یہ حرکت کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔‘‘
لیڈی ہوگن نے سخت لہجے میں کہا اور سنتے ہی خادمہ آنسو بہانے اور سسکیاں لینے لگی۔ پوئرو نے بےزاری سے کہا:

’’براہِ کرم یہ رونا ملتوی کیجیے اور بتائیے کہ پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر کیا ہوتا؟‘‘ خادمہ نے مسلسل ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’مَیں نے باغ کے چپّے چپّے پر سان تنگ کو ڈھونڈا، آوازیں دیں، حتیٰ کہ چوکیدار سے بھی پوچھا، مگر کسی نے کچھ نہ بتایا۔
چوکیدار کہنے لگا کہ اِس قسم کے تو بہت سے کتے باغ میں آیا کرتے ہیں۔ پھر مَیں ….. مَیں گھر واپس آ گئی۔‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پوئرو نے پوچھا:

’’اور پھر آپ کے پاس ایک خط آیا؟‘‘

’’جی ہاں! اگلے روز صبح کی ڈاک میں وہ منحوس خط ملا۔‘‘ لیڈی ہوگن نے جواب دیا۔
’’اُس میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے کتے کو صحیح سلامت دوبارہ دَیکھنے کی خواہش مند ہوں، تو دو سو پونڈ کی رقم ایک ایک پونڈ کے نوٹوں کی شکل میں ایک لفافے کے اندر بند کر کے عام ڈاک میں کیپٹن کرٹس کے نام ۳۸ بلومزبری روڈ سکوائر کے پتے پر بھیج دیں۔
اگر آپ نے نوٹوں پر کسی قسم کا خفیہ نشان لگایا یا پولیس کو اطلاع دی، تو پھر یاد رَکھیے کہ ہم سان تنگ کے دونوں کان اور دُم کاٹ کر آپ کو ارسال کر دیں گے۔‘‘

’’اللہ رحم کرے ….. آج کل لوگ کس قدر سنگ دل ہو گئے ہیں۔‘‘ مس کارنیبی نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔

لیڈی ہوگن نے اپنی خادمہ کی اِس کیفیت کو بالکل نظرانداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی:

’’خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آپ نے رقم فوراً بجھوا دِی، تو آج ہی شام آپ کا کتا زندہ سلامت گھر پہنچا دیا جائے گا .
کتے کے واپس پہنچ جانے کے بعد بھی اگر پولیس کو خبر کی، تو ہم سان تنگ کو دوبارہ اَغوا کر لیں گے ۔ پھر اُس کا جو حشر کریں گے، اُسے دیکھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔‘‘

’’اُف ….. اُف ….. مجھے تو اب بھی خوف آتا ہے ….. مسٹر پوئرو کا تعلق پولیس سے نہیں ہے ….. پھر بھی …..‘‘

خادمہ نے آنسو بہاتے ہوئے جملہ نامکمل چھوڑ دیا۔ اگرچہ اُس کا مفہوم پوئرو نے بخوبی سمجھ لیا۔

’’یہ حالات ہیں مسڑ پوئرو جو مَیں نے صحیح صحیح بیان کیے۔
اب ظاہر ہے یہ پیارے کتے کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ آپ کو خاصا محتاط ہو کر اِس کام میں ہاتھ ڈالنا چاہیے۔‘‘ لیڈی ہوگن نے کہا۔

’’لیڈی ہوگن! آپ قطعی اطمینان رکھیے۔ میری کارروائیاں نہایت خاموشی سے سرانجام پاتی ہیں۔
اب مَیں آپ کو کامل یقین دلا سکتا ہوں کہ سان تنگ کی زندگی بالکل محفوظ رہے گی۔ اِسے میری جانب سے ایک گارنٹی سمجھیے۔‘‘

دونوں عورتوں پر پوئرو کے اِن الفاظ کا گہرا اَثر ہوا۔ مس کارنیبی کی سسکیاں تھم گئیں اور لیڈی ہوگن کے چہرے پر پھیلے ہوئے پریشانی کے آثار مٹ گئے۔

’’مادام! کیا آپ مجھے وہ خط دکھا سکتی ہیں؟‘‘

لیڈی ہوگن نے نفی میں گردن ہلائی۔

’’افسوس کہ وہ خط میرے پاس نہیں۔ خط میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ جب مَیں رقم ارسال کروں، تو اُس کے ساتھ وہ خط بھی واپس کر دوں۔‘‘

’’اور آپ نے اُس ہدایت پر عمل کیا؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’افسوس ….. افسوس …..‘‘ پوئرو نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔

’’مگر جناب! میرے پاس کتے کی زنجیر اور وُہ کٹا ہوا پٹہ محفوظ ہے۔ اگر آپ کہیں، تو دکھاؤں؟‘‘ خادمہ نے جلدی سے کہا۔

’’ہاں، ہاں! ضرور دِکھائیے۔‘‘

یہ سنتے ہی خادمہ اُٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ پوئرو نے موقع پا کر لیڈی ہوگن سے کہا:

’’مس کارنیبی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

لیڈی ہوگن اُس کا مطلب سمجھ گئی۔ اُس نے فوراً کہا:

’’مسٹر پوئرو! میرا خیال ہے کہ یہ عورت بالکل بےقصور ہے۔ بےوقوف ضرور ہے، مگر دیانت دار ہے۔
میرے پاس اب تک جتنی عورتیں رہی ہیں، سب کی سب بڑھ چڑھ کر بےوقوف تھیں۔
کارنیبی کو اِس کتے سان تنگ سے بڑی محبت ہے۔ اُس کے یوں گم ہو جانے پر وہ بےحد مغموم اور پریشان تھی۔
یہ خادمائیں دوسروں کے بچوں پر یوں ہی فدا ہونے لگتی ہیں۔ یہ بڑی بری عادت ہے۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ کارنیبی کا اِس معاملے میں کوئی ہاتھ نہیں۔‘‘

’’یہ عورت کتنے عرصے سے آپ کے پاس ہے؟‘‘

’’اِسے یہاں آئے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اِس سے پہلے یہ لیڈی ہارٹنگ فیلڈ کے پاس تھی۔
وہاں اِس نے دس سال گزارے اور جب لیڈی ہارٹنگ کا انتقال ہو گیا، تو یہ اپنی بہن کے پاس رہنے لگی۔
وہ بےچاری اپاہج تھی۔ پھر میرے ہاں چلی آئی۔
مَیں نے اِس کے بارے میں خاصی چھان بین کی تھی اور سب نے اِس کی تعریفیں کیں۔ بےوقوفی کے علاوہ اِس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔‘‘

بات یہیں تک پہنچی تھی کہ مس کارنیبی کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس نے پوئرو کو زنجیر اور پٹہ دکھایا۔ پوئرو نے اُن چیزوں کو غور سے دیکھا اور کہا:

’’بلاشبہ اِسے یہاں سے کاٹا گیا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں یہ چیزیں اپنے پاس رکھ لوں؟‘‘
لیڈی ہوگن نے سر ہلا کر اجازت دی۔ پوئرو نے باری باری دونوں کو جھک کر سلام کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

ہرکیول پوئرو کی عادت تھی کہ وہ جس مسئلے کو ہاتھ میں لیتا، اُس کی تمام جزیات کا تجزیہ کرتا تھا۔
لیڈی ہوگن نے اگرچہ اپنی خادمہ مس کارنیبی کے بارے میں اچھی رائے ظاہر کی تھی اور بظاہر پوئرو کے لیے اُس عورت کا بیان قابلِ قبول تھا، تاہم اُس نے اپنی تفتیش کا آغاز یوں کیا۔
لیڈی ہوگن سے مل کر سیدھا اُس مقام پر پہنچا جہاں آنجہانی لیڈی ہارٹنگ فیلڈ کی بھانجی مس ٹریورس رہتی تھی۔ اُس نے پوئرو سے کہا:

’’آپ مس کارنیبی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ہاں ہاں، مَیں اُسے خوب جانتی ہوں۔ وہ میری خالہ کے ہاں برسوں رہ چکی ہے۔ شریف اور پسندیدہ اَطوار کی عورت ہے۔
اُسے کتوں سے بڑی دلچسپی ہے۔ میری خالہ کو اَخبار پڑھ کر سنایا کرتی تھی۔
جب خالہ مر گئیں، تو وہ کسی اور جگہ نوکر ہو گئی ….. خیر تو ہے آپ اُس کے بارے میں یہ باتیں کیوں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں۔‘‘ پوئرو نے جواب دیا۔
’’ایک پالتو کتے کا معاملہ ہے جو گم ہو گیا تھا۔ بھورے رنگ والا چھوٹے قد کا کتا۔‘‘

’’آہ ….. ایسا ہی ایک کتا میری خالہ کے پاس بھی تھا۔ جب وہ چل بسیں، تو یہ کتا مس کارنیبی کے ہاتھ آ گیا۔
کچھ عرصے بعد مَیں نے سنا کہ وہ کتا مر گیا۔ بےچاری نے اُس کا بڑا سوگ کیا۔ کتنی رحم دل عورت ہے۔‘‘

’’اور بےوقوف بھی ….. مَیں نے کچھ ایسا ہی سنا ہے۔‘‘ پوئرو نے کہا۔

’’بےوقوف ….. ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔‘‘
مس ٹریورس نے چلّا کر کہا۔ ’’اُسے بےوقوف کون کہتا ہے۔ وہ نہایت عقل مند عورت ہے بڑی ہوشیار۔‘‘

پوئرو نے اِس مرحلے پر مس ٹریورس کا شکریہ ادا کیا اور رُخصت ہو گیا۔
اب وہ اُس باغ کے چوکیدار سے ملا جس میں مس کارنیبی کتے کو گھمانے پھرانے لے جایا کرتی تھی۔
چوکیدار نے پوئرو کے سوال پر سر کھجایا، چند لمحے تک غور کیا، پھر کہنے لگا:

’’ہاں جناب! اب مجھے یاد آیا ….. ایک ادھیڑ عمر کی پھولے ہوئے جسم کی عورت کتے کو لے کر آیا کرتی تھی ….. ایک دن اُس کا کتا گم ہو گیا۔
یہ چھوٹے قد کے بھورے کتے ہوتے ہی شریر ہیں۔ وہ میرے پاس آئی اور پوچھنے لگی کہ مَیں نے اِس حلیے کا کوئی کتا تو نہیں دیکھا۔
مَیں نے جواب دیا بی بی! مَیں یہاں کتوں کی رکھوالی کرنے نہیں آیا ہوں اور پھر باغ میں سینکڑوں لوگ اپنے کتے لے کر آتے ہیں، بھلا کیا پتا چل سکتا ہے۔‘‘

ہرکیول پوئرو نے چوکیدار کے ہاتھ میں ایک سکّہ تھمایا اور چل دیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ نمبر ۲۸ بلومزی روڈ سکوائر پر کھڑا تھا۔ یہ دراصل تین فلیٹ ملا کر ایک پرائیویٹ ہوٹل بنایا گیا تھا۔ پوئرو نے دفتر کے دروازے پر دستک دی، لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔
تب اُس نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور اَندر جھانکا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ایک لمبی چوڑی میز پر بےشمار کاغذات بکھرے ہوئے تھے۔
اِردگرد چند بوسیدہ کرسیاں پڑی تھیں۔ پوئرو نے دروازہ بند کر دیا اور دُوسری طرف چلا۔ ایک کمرے کے دروازے پر ڈرائنگ روم کی تختی لگی تھی۔
ایک لڑکی بدن پر میلا کچیلا ایپرن باندھے میزوں کی صفائی کر رہی تھی۔ اُس نے تھکی تھکی نگاہیں اٹھا کر پوئرو کو سوالیہ انداز میں دیکھا۔

’’معاف کیجیے، مَیں اِس ہوٹل کے مینیجر سے ملنا چاہتا ہوں، لیکن وہ اَپنے دفتر میں نہیں ہیں۔ کیا آپ بتا سکیں گی کہ وہ کہاں ہیں؟‘‘

’’آپ تشریف رکھیے، وہ ابھی آتی ہیں۔‘‘ لڑکی نے مختصر سا جواب دیا۔
پوئرو زیرِ لب مسکرایا۔ اُس نے سوچا اِس ہوٹل کا مینیجر مرد نہیں کوئی عورت ہے۔ چند لمحے بعد ادھیڑ عمر کی ایک عورت وہاں نمودار ہوئی۔ لڑکی نے پوئرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’مسز ہارٹ! یہ صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے جناب! آپ کو اِنتظار کی زحمت ہوئی۔ کیا آپ ہوٹل میں کمرہ لینا چاہتے ہیں؟‘‘

’’جی نہیں ….. مَیں دراصل اپنے ایک دوست کیپٹن کرٹس کی تلاش میں ہوں۔ کیا حال ہی میں یہ صاحب آپ کے ہوٹل میں ٹھہرے تھے؟‘‘

’’کرٹس؟ کیپٹن کرٹس!‘‘ ….. مسز ہارٹ نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’یہ نام تو کچھ مانوس سا ہے، لیکن اب یاد نہیں آتا کہ کہاں سنا تھا ….. آپ اپنے دوست کا حلیہ بتا سکتے ہیں؟‘‘

’’حلیہ بتانا تو میرے لیے مشکل ہو گا …..‘‘ پوئرو نے کہا۔
’’بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہوٹل کی معرفت مسافروں کے خطوط وغیرہ بھی آتے ہیں۔ کیا آپ اُن خطوں کو محفوظ رکھتی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں! اکثر خط آتے ہیں اور وُہ اَیسے مسافروں کے ہوتے ہیں جو چند دن ہوٹل میں ٹھہرنے کے بعد چلے جاتے ہیں اور ہمیں ہدایت کر دیتے ہیں کہ اُن کی ڈاک سنبھال کر رکھیں۔وہ آ کر وصول کر لیں گے۔
پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے خط لینے نہیں آتے، چنانچہ ایسے تمام خط ایک خاص مدت بعد ڈاک خانے کو لَوٹا دیے جاتے ہیں۔‘‘

’’مَیں نے اپنے اُس دوست کیپٹن کرٹس کو اِس ہوٹل کے پتے پر خط لکھا تھا ….. ذرا دَیکھیے کہ وہ اَبھی تک یہیں موجود ہے یا اُسے مل گیا۔‘‘ پوئرو نے کہا۔

مسز ہارٹ نے جلد جلد کچھ کاغذات اُلٹے پلٹے، میز کی درازیں دیکھیں۔
خطوط کا ایک بڑا اَنبار نکالا، ایک ایک کر کے سب خطوں پر لکھے ہوئے پتے پڑھے، پھر مایوسی سے سر ہلا کر کہا:

’’اِن خطوں میں سے کیپٹن کرٹس کے نام کوئی خط نہیں ملا۔ مجھے افسوس ہے کہ مَیں آپ کی کوئی مدد نہ کر سکی ….. کیا کوئی اہم معاملہ ہے جناب؟‘‘

’’نہیں، نہیں! کوئی خاص بات نہیں۔ بہرحال آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘
پوئرو نے کہا اور باہر جانے کے لیے مڑا۔ مسز ہارٹ کی آواز آئی:

’’جناب! ممکن ہے آپ کے دوست کیپٹن کرٹس کسی وقت یہاں آئیں، تو اُن کو کوئی پیغام دے دیجیے۔‘‘

’’میرا خیال ہے وہ یہاں نہیں آئیں گے۔‘‘ پوئرو نے جواب دیا۔

مسز سیموئل نے خوش اخلاقی سے ہرکیول پوئرو کو اَپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کہا:

’’مَیں نے آپ کا نام اکثر سنا ہے۔ آج دیکھنے کا بھی اتفاق ہو گیا۔‘‘

پوئرو نے انکساری سے سر جھکایا اور مسز سیموئل کے سراپے کا جائزہ لینے لگا۔
لیڈی ہوگن کے برعکس یہ عورت دبلی پتلی اور لمبی قامت کی تھی۔ خشک بال بار بار ہوا کے جھونکوں سے لہراتے اور وُہ ہر دفعہ اُنھیں سنوارتی۔
اُس کی خادمہ مس کیبل بھی قریب ہی بیٹھی تھی اور وُہ بھی مس کارنیبی کی طرح مسز سیموئل کے پالتو کتے ننکی پُو کو باغ میں ٹہلانے لے جایا کرتی تھی۔
اتنے میں بھورے رنگ کا چھوٹا سا خوبصورت کتا دم ہلاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
پوئرو اُسے دیکھتے ہی چونک پڑا۔ ایک پُراسرار تبسم اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوا۔ اُس نے آپ ہی آپ کئی مرتبہ گردن کو جنبش دی۔ پھر اُس کے کانوں میں مسز سیموئل کی آواز آئی۔

’’مسٹر پوئرو! ابھی تک میری عقل چکر میں ہے کہ آخر یہ ہوا کیسے؟
کتے کو یوں غائب کر دینا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ جبکہ مس کیبل کہتی ہیں کہ اُس روز باغ میں بہت سے افراد سیر کے لیے آئے ہوئے تھے۔‘‘

’’نہایت نوازش ہو گی اگر مس کیبل اپنی زبان سے تمام حالات سنائیں۔‘‘ پوئرو نے کہا۔

’’جب مَیں ننکی پُو کو لے کر باغ سے باہر نکلی، تو ایک نرس بچہ گاڑی کے پاس کھڑی تھی۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: کیا وقت ہوا ہے؟ مَیں نے …..‘‘

’’نرس؟ کیا وہ کسی اسپتال کی نرس تھی؟‘‘ پوئرو نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔

’’جی نہیں ….. میرا مطلب ہے وہ بچے کی آیا تھی …..
گاڑی میں جو بچہ لیٹا ہوا تھا، وہ نہایت خوبصورت اور پیارا تھا۔ ایسا صحت مند اور ہنس مُکھ بچہ سارے لندن میں نہ ہو گا۔ مجھے دیکھ کر وہ کھلکھلا کر ہنسا۔
مَیں اُسے پیار کرنے میں لگی رہی اور اتنے میں کوئی موذی ہمارے ننکی پُو کو لے کر غائب ہو گیا۔
مَیں نے بعد میں دیکھا، تو پٹا کاٹ دیا گیا تھا۔ اگر آپ کہیں، تو مَیں وہ پٹا لا کر دکھاؤں؟‘‘

’’نہیں، نہیں ….. اِس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
پوئرو نے جلدی سے کہا۔ ’’مجھے کتوں کے گلے سے اترے ہوئے پٹے جمع کرنے کا شوق بالکل نہیں۔‘‘

’’پھر مَیں روتی ہوئی گھر چلی آئی۔ ننکی پُو کا کہیں پتہ نہ چلا۔‘‘

’’اور اَگلے روز آپ کو خط ملا؟‘‘ پوئرو نے کہا۔

’’جی ہاں ….. بالکل۔‘‘ مسز سیموئل نے کہا۔
’’اُس میں درج تھا کہ اگر مَیں نیچے لکھے ہوئے پتے پر تین سو پونڈ کی رقم، ایک ایک پونڈ کے نوٹوں کی شکل میں روانہ کر دوں، تو کتا بخیر و عافیت گھر پہنچ جائے گا۔
اَگر یہ رقم نہ ملی، تو کتے کی دم اور دونوں کان کاٹ کر روانہ کیے جائیں گے۔
پتا یہ تھا: کمانڈر بلیک لی، ہارلنگٹن ہوٹل، ۶۷ کلومل، گارڈنز، کینسنگٹن۔‘‘

’’اور آپ نے اُس پتے پر تین سو پونڈ کی رقم ڈاک کے عام لفافے میں رکھ کر بھیج دی؟‘‘

’’جی ہاں! اِس کے علاوہ مَیں اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ اپنے پیارے کتے کی جان بچانے کے لیے تین سو کیا، مَیں ہزار پونڈ بھی دے دیتی۔
بہرحال اگلے ہی روز ننکی پُو خود بخود ہمارے گھر پہنچ گیا۔ پھر مَیں ہارلنگٹن ہوٹل خود گئی اور ہوٹل کی پروپرائٹر کے کمرے میں جا بیٹھی تاکہ کمانڈر بلیک لی کے بارے میں معلوم کروں۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے مسٹر پوئرو کہ مَیں نے وہاں اپنا خط لکڑی کے ایک ریک میں رکھا ہوا پایا۔ اُس کے ساتھ اور بھی بہت خط قطار میں رکھے ہوئے تھے۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے لفافے کے اندر نوٹوں کی گڈی ابھی تک موجود ہے۔ مَیں نے جلدی سے وہ لفافہ اُٹھایا اور اَپنے پرس میں رکھ لیا۔ پھر گھر آ کر اُسے کھولا، تو …..‘‘

’’اُس میں سے نوٹوں کے بجائے کاغذ کے سادہ ٹکڑے برآمد ہوئے۔‘‘ پوئرو نے جملہ مکمل کر دیا۔

مسز سیموئل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’’یہ تو معمولی بات ہے مسز سیموئل! ظاہر ہے چور کو کتا واپس کرنے سے پہلے رقم ملنی چاہیے تھی۔
وہ ہارلنگٹن ہوٹل گیا۔ ریک میں سے آپ کا لفافہ اٹھایا، اُس میں سے نوٹ نکالے۔ اُن کی جگہ سادہ کاغذ کے اُسی سائز کے ٹکڑے رکھ دیے جس سائز کے نوٹ تھے۔
پھر وہ لفافہ وہیں ریک میں رکھ دیا تاکہ ہوٹل کی انتظامیہ کو اُس کے گم ہونے کا احساس نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ کمانڈر بلیک لی نام کا کوئی شخص اُس ہوٹل میں نہیں ہو گا۔‘‘

’’میرے شوہر کو جب اِس واردات کا علم ہوا، تو وہ بےحد ناراض ہوا۔ اُس نے مجھے نہایت برا بھلا کہا۔‘‘

’’آپ نے رقم بھیجنے سے پہلے اپنے شوہر کو آگاہ نہیں کیا تھا؟‘‘

’’جی نہیں ….. مَیں ڈرتی تھی کہ وہ ہنگامہ کھڑا کر دے گا اور فوراً پولیس کو اطلاع دے گا۔
اُس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پھر مَیں اپنے پیارے ننکی پُو کو زندگی بھر نہ دیکھ پاتی۔‘‘

’’بےشک ….. بےشک!‘‘ پوئرو نے زیرِ لب کہا۔

ہرکیول پوئرو نے جب اپنا ملاقاتی کارڈ اندر بھیجا، تو سر جوزف ہوگن اُس کے استقبال کے لیے خود کمرے سے باہر آ گیا۔

’’آئیے مسٹر پوئرو! کوئی تازہ خبر؟ کچھ پتا چلا کہ یہ کون بدمعاش ہیں جو پالتو کتوں کو اَغوا کر لیتے ہیں اور پھر بھاری رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں؟‘‘

’’مَیں نے بہت کچھ پتا لگا لیا ہے سر جوزف! بس چند روز کی مہلت اور دِیجیے۔‘‘

’’بہت خوب ….. بہت خوب! آپ نے تو واقعی کمال کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ اِس مسئلے کو حل کرنا دشوار ہو گا۔‘‘

پوئرو نے اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے کہا۔

’’ہرکیول پوئرو کسی مسئلے کو حل کرنے میں کبھی ناکام نہیں رہا سر جوزف!‘‘

اپنے دفتر پہنچ کر پوئرو نے وفادار جارج کو طلب کیا۔
جارج اُس کا خانساماں بھی تھا اور مشیر بھی۔ سراغ رسانی کے چھوٹے موٹے کام بھی پوئرو اُس سے لے لیا کرتا تھا۔ اُس نے جارج کو دھیمے لہجے میں چند باتیں سمجھائیں۔
وہ غور سے سنتا رہا اور سر ہلاتا گیا۔ آخر میں پوئرو نے کہا:

’’میرا خیال ہے تمہیں اِس کام کے لیے تین دن کی مہلت دے دی جائے۔‘‘

جارج نے ادب سے گردن جھکائی اور باہر چلا گیا۔

ٹھیک تین دن بعد جارج نے اپنے آقا کے سامنے کاغذ کا ایک پرزہ رَکھتے ہوئے کہا:

’’جناب یہ ہے وہ پتا!‘‘

’’شاباش ….. شاباش!‘‘ پوئرو نے خوش ہو کر کہا۔ ’’آج بھلا کیا دن ہے؟‘‘

’’آج جمعرات ہے جناب!‘‘

’’خوب، خوب ….. بس تو کام بن گیا۔ اب مَیں مزید تاخیر گوارا نہ کروں گا۔‘‘

اُس نے جلد جلد کپڑے تبدیل کیے اور چھڑی ہاتھ میں لے کر دفتر سے باہر نکلا۔
اُس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ ٹھیک ہے ….. بیس منٹ کا راستہ ہے ….. پیدل ہی چلنا چاہیے۔
مزے مزے میں چلتا اور چھڑی گھماتا ہوا آخرکار وُہ روشوم مینشن کے سامنے پہنچ گیا۔

اُسے اِس عمارت کی تیسری منزل پر جانا تھا۔ بدقسمتی سے لفٹ بھی نہ تھی۔
اُس نے منہ بنایا اور سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ جب وہ آخری منزل پر کمرا نمبر دس کے سامنے ٹھہرا، تو اُس کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔
بند دروازے کے پیچھے سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اُس نے مسکرا کر اَپنے سر کو جنبش دی اور پھر دروازے پر لگی ہوئی برقی گھنٹی کا بٹن دبا دیا۔
چند ثانیے بعد دروازہ کھلا۔ کتے کے بھونکنے کی آواز اور بلند ہو گئی۔ پوئرو نے ٹوپی اتار کر گردن جھکائی اور کہا:

’’کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے؟‘‘

کھلے دروازے میں کھڑی ہوئی مس کارنیبی نے جُوں ہی کیول پوئرو کی صورت دیکھی، اُس کے منہ سے ہلکی سے چیخ نکل گئی اور چہرہ دُھلے ہوئے کپڑے کی مانند سفید پڑ گیا۔
پوئرو اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرا تھا جس میں پرانا فرنیچر بےترتیبی سے بکھرا ہوا تھا۔
آتش دان کے قریب رکھے ہوئے صوفے پر ایک عمررسیدہ عورت لیٹی تھی۔ پوئرو کو دیکھتے ہی عورت نے اٹھنے کی ناکام کوشش کی۔ وہ اَپاہج تھی۔
دفعتاً بھورے رنگ کا ایک چھوٹا کتا بھونکتا ہوا پوئرو کے نزدیک آیا۔

’’آہ ….. یہ ہے اِس ڈرامے کا ہیرو ….. میرے ننھے دوست! مَیں تمہیں عمدہ اَداکاری پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘

پھر اُس نے جھک کر کتے کو گود میں اُٹھا لیا۔ کتے نے ایک دو مرتبہ اُسے سونگھا، پھر خاموشی سے دم ہلانے لگا۔
مس کارنیبی نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا:

’’مسٹر پوئرو! آپ کو سب کچھ پتا چل گیا۔‘‘

’’ہاں!‘‘ پوئرو نے جواب دیا۔ ’’یہ غالباً تمہاری بڑی بہن ہیں۔‘‘

مس کارنیبی نے اثبات میں گردن ہلائی، پھر اپنی بہن سے کہا:

’’ایملی ….. یہ مسٹر پوئرو ہیں ….. مشہور سراغ رساں۔ تم نے اِن کا نام سنا ہو گا۔‘‘

اپاہج عورت کی آنکھوں سے خوف جھلکنے لگا۔ اُس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔ پوئرو نے کتے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

’’اور اِس ننھے ہیرو کا کیا نام ہے؟‘‘

’’ہم اِسے آگسٹس کہتے ہیں۔‘‘

’’بہت خوب ….. مَیں تمہاری ذہانت کی داد دَیتا ہوں مس کارنیبی …..
تم نے اِس کتے کو نہایت ہوشیاری سے سدھایا ہے۔ اور خدا ہی بہتر جانتا ہے تم نے اِس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کتنی محنت کی ہو گی۔
معاملہ صرف اتنا ہے کہ تم اپنی مالکہ کے کتے سان تنگ کو باغ میں گھمانے لے جاتی تھیں۔ ایک روز تم نے ایسا کیا کہ سان تنگ کو اَپنے گھر لے آئیں۔
اُسے یہاں باندھا اور اَپنے کتے آگسٹس کو لے کر باغ میں جا پہنچیں۔ یہ دونوں کتے ایک ہی قد و قامت، ایک ہی رنگ اور ایک ہی نسل کے ہیں۔ اِس لیے کسی کو بھی شبہ نہ ہوا۔
واپسی کے وقت تم نے نہایت چالاکی سے پٹا کاٹ دیا۔ تمہارا کتا فوراً وَہاں سے رفوچکر ہو کر اَپنے گھر پہنچ گیا اور پھر تم نے کتے کے گم ہو جانے پر غل غپاڑہ مچا دیا۔‘‘

اپاہج عورت نے اِس مرحلے پر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونا شروع کر دیا۔ مس کارنیبی پلک جھپکائے بغیر پوئرو کو گھور رَہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ غش کھا کر گرنے والی ہے۔

’’آپ سب کچھ جانتے ہیں مسٹر پوئرو ….. مَیں بےشک مجرم ہوں۔ اب مَیں اپنے اِس جرم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں ….. مگر آپ سے اتنی التجا کرتی ہوں کہ میری اپاہج بہن پر ترس کھائیے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کن حالات میں یہ جرم کرنا پڑا ہے۔ میری ساری زندگی بڑے گھروں کی خدمات میں کٹ گئی ہے۔

’’اب مَیں بوڑھی ہوتی جا رہی ہوں۔ مزید چند برس بعد مَیں بالکل بےکار ہو جاؤں گی۔
اُس کے بعد کیا ہو گا؟ شاید ہم دونوں بہنیں فاقے کرنے پر مجبور ہوں۔ چوبیس گھنٹے کام میں جُتے رہنے کے باوجود میری مالکہ مجھ سے مطمئن نہیں۔
وہ ہر وقت مجھے سُست، کام چور اَور بےوقوف ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ میری تنخواہ میں ایک پائی کا اضافہ کرنے کو تیار نہیں، بلکہ بہانے بنا بنا کر تنخواہ میں سے بھی ہر ماہ کچھ رقم کاٹتی رہتی ہے۔
مجھے اِس کمرے کا ہر ماہ اَچھا خاصا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اُس کے بعد گیس اور بجلی کا خرچہ بھی ہے۔ آپ یقین کیجیے کئی کئی دن تک ہمیں رات کو پورا کھانا بھی نہیں ملتا۔

’’ایک دن مَیں نے لیڈی ہوگن سے تھوڑی سی رقم ادھار مانگی۔ اُنھوں نے سختی سے انکار کر دیا۔
سینکڑوں باتیں سنا کر رکھ دیں۔ مجھے بےحد رنج ہوا۔
اُس روز مَیں اپنی بےبسی پر خوب روئی۔ ایک دن مَیں اپنے کتے آگسٹس کو نہلا رہی تھی کہ رقم حاصل کرنے کی انوکھی تدبیر میرے ذہن میں آئی۔
یہ کتا مجھے سابق مالکہ ہارٹنگ فیلڈ نے دیا تھا۔ اِسی نسل کے دو اَور کتے بھی مسز سیموئل اور لیڈی جوزف ہوگن کے پاس تھے۔

’’اگر اُن تینوں کتوں سان تنگ، ننکی پُو اور آگسٹس کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے، تو کوئی شخص بھی آسانی سے اُن میں تمیز نہ کر سکے گا۔
مجھے یہ بھی خوب اندازہ تھا کہ لیڈی ہوگن اور مسز سیموئل اپنے کتوں پر جان دیتی ہیں، چنانچہ سان تنگ کے گم ہونے کی خبر مَیں نے لیڈی ہوگن کو سنائی، تو اُنھوں نے رو رَو کر آنکھیں سجا لیں ۔
جب اگلے روز کیپٹن کرٹس کے نام سے میرا بھیجا ہوا خط اُنھیں ملا، تو وہ اِتنی حواس باختہ ہوئیں کہ میری توقع کے مطابق اُنھوں نے دو سو پونڈ کے نوٹ لفافے میں بند کر کے میرے حوالے کر دیے اور کہا کہ اِسے ابھی ڈاک میں ڈال دوں۔ مَیں نے وہ نوٹ نکال کر اپنے پاس رکھ لیے اور لفافہ پھاڑ کر پھینک دیا۔‘‘

پوئرو کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اُس نے کہا:

’’مَیں آپ کو اِس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے واقعی صحیح اندازہ کیا تھا۔ آگے بتائیے پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر یہ ہوا کہ مَیں نے مسز سیموئل کی خادمہ مس کیبل کو اپنے ساتھ ملایا۔
وہ بھی اپنی مالکہ کے ہاتھوں عاجز تھی۔ مَیں نے اُسے سو پونڈ دینے کا وعدہ کیا، تو اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
اگلے ہی روز وہ مسز سیموئل کے کتے ننکی پُو کو ہمارے گھر لے آئی اور اُس کی جگہ آگسٹس کو باندھ کر باغ میں لے گئی ….. اُس کے بعد جو کچھ ہوا، آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں! اِس معاملے میں فرق صرف اتنا پڑا کہ مسز سیموئل نے تین سو پونڈ کی رقم لفافے میں بند کر کے مس کیبل کو پوسٹ کرنے کے لیے نہ دی، بلکہ خود جا کر سپردِ ڈاک کی، چنانچہ آپ یا مس کیبل میں سے کوئی ایک خاتون ہارلنگٹن ہوٹل میں گئیں۔
ریک میں رکھے ہوئے لفافوں میں سے مسز سیموئل کا بھیجا ہوا لفافہ اُٹھایا۔ اُس میں سے نوٹ نکالے اور اُن کی جگہ کاغذ کے ٹکڑے بھر کر چلی آئیں۔‘‘

’’جی ہاں ….. ایسا ہی ہوا۔‘‘ مس کارنیبی نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔
’’مسٹر پوئرو! مجھے بخوبی احساس تھا کہ مَیں قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہوں اور یہ نہایت بھیانک جرم ہے، لیکن حالات نے مجھے مجبور کر دیا ….. اب ہم دونوں بہنوں کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

پوئرو نے چند لمحے تک اِس معاملے پر غور کیا۔ پھر کہا:

’’بہرحال ….. میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے۔ اِس لیے مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مزید کارروائی نہیں کی جائے گی، مگر شرط یہ ہے کہ آئندہ آپ ایسی واردات ہرگز نہ کریں۔
مَیں آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ آپ بہترین اداکارہ ہیں۔

’’مَیں ابتدا ہی میں سمجھ گیا تھا کہ چور کون ہو سکتا ہے اور اِس واردات میں ایک کے بجائے کئی کتے شامل ہیں۔ آپ نے بہت ہوشیاری سے اپنے کتے آگسٹس کے مرنے کی خبر اڑائی تھی۔
حالانکہ یہ کتا زندہ ہے۔ بہرحال مَیں نے اپنے ملازم جارج کو ہدایت کر دی تھی کہ فلاں فلاں علاقے میں گھوم پھر کر معلوم کرے کہ ایک اپاہج عورت جس کی بہن کا حلیہ یہ ہے، کہاں رہتی ہے۔
اُن کے پاس بھورے رنگ کا ایک چھوٹا کتا بھی لازماً ہونا چاہیے اور جارج نے تین دن کے اندر اَندر آپ کا پتا نشان معلوم کر کے مجھے بتا دیا ….. جمعرات کے روز آپ چھٹی کرتی ہیں، یہ بات بھی مجھے معلوم تھی ….. پس سیدھا یہاں چلا آیا۔‘‘

مس کارنیبی نے ایک ایک پونڈ کے نوٹوں کی گڈی نکال کر پوئرو کے حوالے کی اور کہا:

’’یہ وہ رقم ہے جو لیڈی ہوگن نے ارسال کی تھی۔‘‘

پوئرو نے احتیاط سے نوٹ گن کر جیب میں رکھے اور کہا:

’’مسز سیموئل سے تم نے جو رقم حاصل کی، اُس کا حساب کتاب مَیں نہیں پوچھوں گا۔
میرا تعلق تو صرف سر جوزف کے کیس سے ہے۔ اب مَیں یہ رقم اُنھیں لَوٹا دوں گا۔‘‘

’’ہرکیول پوئرو نے جب سر جوزف کے سامنے دو سو پونڈ کی رقم رکھی، تو وہ اُچھل پڑا اَور کہنے لگا:

’’مسٹر پوئرو! آپ واقعی اپنے فن میں ماہر ہیں ….. مگر یہ تو بتائیے کہ وہ بدمعاش کون ہے جس نے یہ بےہودہ حرکت کی؟‘‘

’’جنابِ والا! یہ مَیں نہ بتاؤں گا۔ اِسے صیغۂ راز میں رہنے دیجیے۔ آپ اپنی رقم سنبھالیے اور یقین رکھیے کہ آئندہ ایسی واردات نہ ہو گی۔‘‘

’’مگر یہ تو غلط ہے …..‘‘ سر جوزف نے غصّے سے کہا۔
’’مجرم کو بہرحال پولیس کے حوالے کرنا چاہیے۔ اُس نے قانون توڑا ہے۔‘‘

’’آپ ٹھیک فرماتے ہیں، مگر مجرم کو پولیس کے حوالے کرنا میرا کام نہیں ہے آپ ازخود یہ کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘

سر جوزف نے انتہائی طیش سے پوئرو کی طرف دیکھا اور کہا:

’’اِس کا مطلب ہے کہ آپ مجرم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پولیس سے کہوں گا کہ آپ کو شاملِ تفتیش کرے۔‘‘

’’آپ بڑے شوق سے ایسا کر سکتے ہیں …..‘‘ پوئرو نے کہا۔
’’مگر ایک پرانی بات مجھے یاد آ رہی ہے، اجازت ہو تو اِس کا ذکر کر دوں؟‘‘

’’ضرور کہیے۔‘‘

’’بہت برس گزرے میرے وطن بیلجئیم میں لندن کا ایک شخص رہا کرتا تھا۔

اُس نے اپنی حسین سیکرٹری سے شادی کرنے کے لیے بیوی کو زہر دے کر مار ڈالا اور پھر لندن بھاگ آیا۔
مَیں اُس شخص کو جانتا ہوں۔
جب آپ سے پہلی ملاقات ہوئی، تو نہ معلوم کیوں میرے ذہن میں اُس شخص کی شکل گھومنے لگی۔ آہستہ آہستہ سب کچھ یاد آتا گیا۔‘‘

سر جوزف کے چہرے پر یک لخت مُردنی چھا گئی۔ دیر تک کوئی لفظ اُس کے منہ سے نہ نکل سکا۔ پھر اُس نے دو سو پونڈ کی رقم اُٹھا کر پوئرو کے سامنے رکھ دی اور کہا:

’’مسڑ پوئرو! اِسے آپ اپنی فیس سمجھ کر قبول کیجیے۔ مَیں مجرم کو پولیس کے حوالے کیے جانے پر اصرار نہیں کرتا۔‘‘

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles