33 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

ساحلِ سمندر اور سنگِ مرمر سے تراشا شوخ بدن| Denmark

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

پندرہواں حصہ

ساحلِ سمندر اور سنگِ مرمر سے تراشا شوخ بدن

طارق محمود مرزا، سڈنی

اس وقت شام کے پانچ بجے تھے۔ اس خطے میں ان دنوں آٹھ بجے کے قریب آفتاب غروب ہوتا تھا۔ ہم سڑک پار کر کے وسیع پارک میں داخل ہو گئے جہاں سمندر کے نظاروں کے ساتھ ساتھ گھاس، پودے، شجر، پھول اور نرم دُھوپ پھیلی تھی۔
پارک میں متعدد خاندان ٹولیوں کی شکل میں پکنک منا رہے تھے۔ انہوں نے کوئلے سے جلنے والے چولہے سُلگا رکھے تھے اور کھانے بنا اور کھا رہے تھے۔ ان میں اکثریت عربی النسل افراد کی تھی۔ پارک سے گزر کر ہم ریتیلے ساحل پر پہنچے۔ سرد موسم کی وجہ سے اس وقت وہاں تیراکی کرنے والے نہیں تھے۔
تاہم کئی مرد و زن کم سے کم لباس میں ریت پر لیٹے غُسلِ آفتابی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ نصر ملک نے بتایا ۔ جوں جوں گرمی میں اضافہ ہوتا جائے گا ان ساحلوں پر رش بڑھتا جائے گا۔ حتیٰ کہ جون جولائی میں یہاں تل دھر نے کی جگہ نہیں رہتی۔
یہ سفید ریت سفید اور سنہری بدنوں سے ڈھک جاتی ہے۔ اس قدرتی ریت پر دراز بدن بھی قدرتی لباس میں ہوتے ہیں۔ یوں یہ ریت اور جسم ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ آفتاب کی کرنیں اس منظر کو مزید چمکاتی ہیں۔ سمندر کی لہریں اُٹھ اُٹھ کر یہ سنہرے بدن دیکھتی ہیں۔ انہیں گدگداتی اور اُن سے اٹھکیلیاں کرتی ہیں۔
طاہر عدیل  نے محظوظ ہو ئے کہا ۔ آ پ نے تو شاعرانہ تصویر کشی کر دی۔
قدرت کی صناعی کو سراہتے ایک عُمر گزری ہے ۔
ملک صاحب نے ایسے کہا جیسے غزل سنا ر ہے ہوں۔ شاعر ی اِسے ہی تو کہتے ہیں۔
میں اس لمحے دو شاعروں اور شاعرانہ منظر کے درمیان کھڑا تھا۔ سمندر کی لہریں ساکت تھیں۔ ایسے لگتا تھا کہ یہ محوِ خواب ہے۔ بعدازاں مَیں  نے نوٹ کیا کہ اس خطے میں سمندر انتہائی شریف النفس بلکہ کاہل واقع ہو ئے ہیں۔ ان میں وہ تندی و تیز طغیانی نہیں ہے جو دیگر سمندروں کا خاصہ ہے۔
یُوں بھی یہ کھلا سمندر نہیں بلکہ دونوں اطراف سے آبادیوں میں گھری سمندری پٹی تھی۔ ہماری جا نب ڈنمارک اور مخالف سمت سویڈن کی ساحلی بستیاں تھیں۔ دونوں اطراف کے لوگ کشتیوں، جہازوں، ٹرین اور گاڑیوں کے ذریعے آسانی سے آرپار جا رہے تھے۔ اُن کی راہوں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہے۔
یورپ میں پڑوسی ملکوں کے درمیان اتنی ہم آہنگی اور باہمی سفر و حضر میں اتنی آسانیاں دیکھ کر مجھے بی بی سی پر حال ہی میں نشر ہو نے والی ایک دُکھ بھری کہانی یاد آ جاتی ہے۔ یہ کہانی دو پڑوسی ملکوں کے درمیان معلّق کئی خاندانوں کی ہے۔
اس کہانی کا آغاز ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ سے ہوتا ہے جس میں بھارت نے بلتستان میں واقع چند پاکستانی گاؤں پر قبضہ کر لیا۔ اس میں سے ایک گاؤں کا باسی محمد اقبال اس وقت پاک فوج میں ملازم تھا اور اسکردو میں تعینات تھا۔
جنگ کے دوران ہی اسے اطلاع مل گئی کہ اس کے گاؤں پر بھارت کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس گاؤں میں محمد اقبال کے والدین، بیو ی، بہن اور دیگر عزیز و اقارب موجود تھے۔ محمد اقبال نے بہت کوشش کی مگر اپنے گاؤں واپس نہ جا سکا اور نہ اُس کے گھر والے کبھی پاکستان آ سکے۔ مُدتوں تک محمد اقبال کو اپنے والد، والدہ، بیوی اور بہن کی کوئی خبر نہ تھی کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
اسی طرح محمد اقبال کے اعزہ و اقربا اس کے بارے میں قطعی لاعلم تھے۔ آ خر بذریعہ ریڈیو ہواؤں کے دوش پر محمد اقبال کو گھر والوں کے زندہ وسلامت ہونے کی اطلاع ملی۔ ان کا براہ راست رابطہ پھر بھی نہ ہو سکا۔
محمد اقبال بلتستان کے جس گاؤں میں مقیم ہے وہاں سے اس کا اپنا گاؤں زیادہ دور نہیں ہے مگر درمیان میں شوریدہ ندی اور بندوقیں اور توپیں حائل ہیں۔
محمد اقبال کی بیوی کو اپنے شریکِ حیات کے زندہ ہو نے کی اطلاع ملی تو وہ اُس کے پا س پہنچنے لیے بے قرار ہو گئی۔ جب کوئی راہ نظر نہ آئی تو اُس نے ندی میں چھلانگ لگا دی۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے تندی و تیزی سے بہنے والی ندی نے محمد اقبال کی تیرہ سال سے بچھڑی بیوی کو سرحد پار اپنے محبوب کے پاس پہنچا تو دیا مگر مردہ حالت میں۔
محمد اقبال نے بیوی کی لاش دیکھی تو ایک لمحے میں اسے پہچان لیا۔ اس نے بیوی کا جسدِ خاکی اپنے ہاتھوں میں اُٹھایا اور پاک سرزمین میں اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا۔
محمد اقبال۱۹۷۱ء کے بعد اپنی والدہ سے نہ مل سکا۔ اس کے پاس والدہ کی ایک تصویر تھی، جسے دیکھتا اور ماں کو یاد کرتا رہتا تھا۔ اُدھر اس کی ماں بھی بیٹے کی جدائی میں آخر دم تک تڑپتی رہی مگر بیٹے کی شکل دیکھے بغیر چل بسی۔ اب اُس گاؤں میں محمد اقبال کی بہن موجود ہے جو ہمیشہ بھائی کو یاد کرتی رہتی ہے۔ مگر وہ اِس پار آ سکتی ہے اور نہ محمد اقبال اُس پار جا کر سینتالیس برس سے بچھڑی بہن سے مل سکتا ہے۔ حالانکہ اُن دونوں گاؤں کے درمیان صرف چند میل کا فاصلہ ہے۔ مگر دو ملکوں کی باہمی دشمنی کی وجہ سے یہ صدیوں کا فاصلہ بن گیا ہے۔
دُنیا کے ایک خطے میں انسانوں کے درمیان اتنی گہری لکیر حائل ہے اور اسی دُنیا کے دوسرے خطے یورپ میں آپ چائے پینے پڑوسی ملک میں جا سکتے ہیں۔ کتنا فرق ہے ان کی زندگیوں میں ۔
ایک بار پھر ہم ساحلی شاہراہ پر ہلسنگور کی جا نب رواں تھے۔ آ فتاب ہمارے دائیں جانب سمندر کے دوسری طرف مائل بہ زوال تھا۔ اس کی سنہری کرنیں رنگین کشتیوں پر پڑتیں تو ان سے قوسِ قزح جیسے رنگ منعکس ہوتے تھے۔ شاہراہ کے دونوں جانب ڈینش امرا کے گھر، با ئیں جانب کہیں ہموار میدان اور کہیں ڈھلوانوں پر زرعی اور مویشی فارم، کھیت کھلیان، درختوں کے جھُنڈ، کہیں گائیں، بھیڑیں اور گھوڑے چرتے ہو ئے اور شفاف نیلا آسمان اور اُڑ تے پرندے اس منظر کا حصّہ تھے۔
ان تمام مناظر میں درخت، سبزہ اور پانی نمایاں تھے۔ یہ پانی سمندر کا بھی تھا جو شیشے کی طرح شفاف تھا ۔جبکہ ہمارے بائیں جانب زرعی زمین پر نہریں، ندیاں اور جھیلوں کا پانی بھی چمک رہا تھا۔ ان پانیوں نے نہ صرف سرزمینِ ڈنمارک کو سرسبز و شاداب رکھا ہوا ہے بلکہ اس کے حُسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔
کُرّہ ارض میں زندگی اور اس کا حُسن پانی کا مرہونِ منّت ہے۔ یہ سبزہ، پیڑ پودے، جنگلا ت، کھیل کھلیان، یہ پھل پھو ل، نباتات، سبزیاں اور زمین پر قالین کی طرح بچھی گھاس پانی کی بدولت ہے۔ جہاں جہاں یہ نعمتِ خداوندی وافر موجود ہے، وہاں ہر جانب قدرت کے رنگین نظارے، لہلہاتے پھول، خوش ذائقہ پھل اور اجناس ہے جو انسان کی صحت و زندگی کے لیے لازم ہے۔ گویا پانی سے دُنیا کی رونق قائم ہے۔ جہاں پانی نہیں وہاں زندگی ناپید ہے۔
ملک نصر کے مشورے سے طاہر عدیل نے ایک مقام پر کار روکی۔ وہاں سمندر کے کنارے سیکڑوں کشتیاں کھڑی تھیں۔ ان کے درمیان سمندر کے اوپر بنے ایک کیفے میں ہم جا بیٹھے۔ ہم ریستوران کے اندر نہیں بلکہ سمندر کے اوپر بنے اس کے ڈیک پر رکھی کرسیوں پر براجمان تھے۔ جہاں سورج کی دھوپ کم اور یخ بستگی زیادہ تھی۔
لیکن سمندر کے نظارے اور ہماری سگریٹ نوشی نے ہمیں اندر بیٹھنے سے روک رکھا تھا۔ ہماری محفل پہلے ہی رنگین تھی کہ ایک کافر ادا ویٹرس کی آمد نے اسے رنگین تر بنا دیا۔ میدے کی سی ملاحت، سیب کی سی سُرخی اور مور کی سی چال والی اس سروقد حسینہ کے انگ انگ سے جوانی کا نشہ ٹپکتا محسوس ہوتا تھا۔
طاہر عدیل تو خیر نوجوان تھے، نصر ملک بھی آنکھیں جھپکے بغیر سنگ مرمر کا تراشا شوخ بدن دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں توصیفی لہریں اور دماغ میں غزل کے شعر گردش کر رہے تھے جو اس کے جانے کے بعد ہمیں سنانے والے تھے۔ کیونکہ اس وقت تو ہم تینوں مینو کی جانب بلکہ مینو لانے والی کی طرف متوجہ تھے۔
ڈینش اور انگریزی میں گفتگو ہو رہی تھی جسے طول دینے کی کوشش ہو رہی تھی۔ وہ پری وش بھی رنگینی ماحول اور قصیدہ حُسن سے محظوظ ہو رہی تھی۔ مسکراہٹ اور شوخی اس کے اَنگ اَنگ سے پھوٹ رہی تھی۔ اِٹھلاتی، مسکراتی، حسن کی بجلیاں گراتی اور ساتھ جُڑ کر کیفے کے کھانوں کے بارے میں بتاتی تھی۔ وہ توصیفی نظروں اور ستائشی جملوں کی عادی تھی اور ان سے محظوظ ہو رہی تھی۔

؎ حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مُسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا

اس کے اور باہمی صلاح مشورے کے بعد آئس کریم، کیک اور کافی کا آرڈر دیا گیا۔ اس کے بعد یہ دُعا مانگی جانے لگی کہ آرڈر کی تکمیل بھی اسی حسینہ کے ہاتھوں ہو۔ لیکن ساری دُعائیں بیک وقت کہاں قبول ہوتی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک مرد ویٹر مطلوبہ اشیا  لے کر آیا تو ہم سب نے ایسے منہ بنایا جیسے چکھے بغیر ہی کیک کڑوا لگا ہو۔ وہ بیچارا مسکرا مسکرا کر سرو کر رہا تھا جبکہ ہماری نظریں اس کے عقب میں کیفے کے دروازے پر جمی تھیں کہ شاید اس کی جھلک دِکھ جائے۔
وہ تو لوٹ کر نہیں آئی اُس کا تذکرہ ہوتا رہا۔ کافی پینے اور ذکر رُخ یار کے بعد ہم وہاں سے اُٹھے تو الوادعی جملوں کے بہانے اس کا شربتِ دیدار حاصل کرنے کیفے کے اندر داخل ہو گئے۔ اس حسینہ  نے دستی جنبش اور مسکراتی آنکھوں کے ساتھ خداحافظ کہا مگر کیفے کا ادھیڑ عمر منیجر ہمیں الوداع کہنے باہر نکل آیا۔
آدھا گھنٹہ مزید سفر کے بعد ہم ڈنمارک کے شمال مشرقی کونے میں موجود چھوٹے مگر تاریخی شہر ہلسنگور پہنچ گئے۔ یورپی ملکوں میں چھو ٹے شہروں کا تصور پاکستان کے چھو ٹے شہروں سے مختلف ہے۔ یورپ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں چھو ٹے شہر بڑے گاؤں کی طرح ہو تے ہیں۔
تمام شہری سہولتوں کے باوجود دیہات کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ بڑے شہروں والی بھاگ دوڑ کے بجائے زندگی ٹہری ہوئی لگتی ہے۔ سڑک، بازار اور عوامی مقامات پر کم لوگ نظر آتے ہیں۔ سرِشام دُکانیں اور بازار بند ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد پورے قصبے میں خاموشی اور ویرانی سی ہوتی ہے۔ ان گاؤں اور قصبوں میں اس جدید ِدور میں بھی طرز حیات صدیوں پُرانا اور روایتی ہے۔
میں نے ایسے کئی گاؤں میں بہت وقت گزارا ہے۔ دن کے وقت وہاں اگر پچاس فیصد قدرتی ماحول ہوتا ہے تو رات میں سو فیصد فطرت کا راج ہوتا ہے۔ گلیاں ویران، میشنیں خاموش، ہر سُو سکوت ہوتا ہے۔ تاریکی پھیلنے کے بعد لوگ گھروں کے باہر بہت کم نکلتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی گاڑی کے گزرنے کی آواز آتی ہے۔ ورنہ جھینگروں اور گیڈروں کی صدا کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ آسمان پر تارے ایسے چمکتے ہیں جیسے آسمان قریب آ گیا ہو۔ کھلی فضا کی وجہ سے گرما کی راتیں بھی یخ بستہ ہوتی ہیں۔ یوں قدرت اپنے اصل رنگ و روپ میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔
یہی ان لوگوں کا مطمحِ نظر ہے۔

یہ مضمون انگریزی میں پڑھیں
https://shanurdu.com/the-beach-and-marble/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles