32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

سفید بلی

سفید بلی

از۔احمد نعمان شیخ

یہ سن دو ہزار بارہ کی بات ہے۔ کافی عرصہ کی تگ و دو کے بعد بالآخر میرا اسلام آباد تبادلہ کر ہی دیا گیا۔ گھر آ کر بیگم کو بتایا تو وہ بھی خوش ہو گئیں۔
لاہور کی گرمی اور ٹریفک کے شور سے ہم دونوں کی ہی جان جاتی تھی۔ بس پھر کیا تھا، بیگم  نے جلد ہی تمام تیاری مکمل کی اور ہم اپنے تین سالہ اکلوتے بیٹے معاذ کو  لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔
دفتر والوں نے میری رہائش کا انتظام میری خواہش کے عین مطابق پہاڑوں کے درمیان گھری ایک خوبصورت کالونی میں کر دیا تھا۔
دن بھر آفس میں سر کھپائی کے بعد جب شام کو میں اپنے گھر پہنچتا تو معاذ اور بیگم کے ساتھ قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے نکل جاتا۔ میں معاذ کے ساتھ فٹ بال کھیلنے لگتا اور بیگم دوسری خواتین کے ساتھ محو گفتگو ہو جاتیں۔
اس دن ہم ابھی پارک میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک دس بارہ سالہ لڑکا ہمارے قریب سے گزرا۔ اس کا نام عمر تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیاری سی سفید بلی تھی۔ مجھے اور میری بیگم کو بلیاں بہت پسند ہیں۔ جیسے ہی میری بیگم  نے اس سفید بلی کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے عمر سے مخاطب ہوئی
ارے اتنی پیاری بلی ۔۔۔۔۔ آپ کی ہے کیا؟
’’جی آنٹی۔۔۔۔۔۔۔ میری بلی ہے۔ آپ کو پسند ہے ؟
یہ کہہ کر عمر  نے بلی میری بیگم کو پکڑا دی۔ بیگم نے مسکراتے ہوئے بلی کو پکڑا اور پیار کرنے لگی۔ معاذ قریب کھڑا بلی کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
یہ تو بہت پیاری بلی ہے۔
بیگم، معاذ کا ہاتھ پکڑ کر بلی کی کمر پر پھیرنے لگیں۔ معاذ کی خوشی دیدنی تھی۔ لاہور میں بھی ہمارے گھر میں بلی موجود تھی، جسے ہم اپنے ساتھ اسلام آباد نہیں لا سکے تھے۔
یہاں آ کر اکثر میری بیگم اور بیٹا دونوں ہی اسے یاد کرتے تھے۔ ایسے میں ویسی ہی ایک سفید بلی دیکھ کر دونوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
آنٹی! اگر آپ کو یہ بلی پسند ہے تو آپ مجھ سے خرید سکتی ہیں۔   عمرکی اس بات کو سن کر تو میری بیگم کا چہرہ کھل اٹھا۔
بیٹا! کیا واقعی۔۔۔۔۔ کیا آپ ہمیں یہ بلی فروخت کر دو  گے؟ بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
جی۔۔۔۔۔ میں  نے آج ہی اپنے دوست سے دو ہزار روپے میں خریدی ہے۔ آپ مجھے دو ہزار روپے دے دیں۔ میں آپ کو یہ بلی دے دیتا ہوں۔ کل اپنے دوست سے میں کوئی اور بلی  لے لوں گا۔
بیگم نے خوش ہو کر میری طرف دیکھا۔ میں ان کا ارادہ سمجھ گیا، اور عمر سے مخاطب ہوا
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ ہم کل آ کر آپ سے بلی لے لیں گے۔ میرا پرس گھر میں ہی رہ گیا ہے۔ اس لیے اتنی رقم ابھی میرے پاس موجود نہیں ہے۔
انکل! آپ پیسوں کی فکر نہ کریں۔ میں نے آپ کو اکثر پارک میں دیکھا ہے۔ آپ کل پیسے لے آنا۔ وہ سامنے ہی میرا گھر ہے۔  عمر نے اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
عمر کے اصرار کرنے پر ہم بلی  لے کر گھر آ گئے۔
اس کا نام کیا رکھیں؟ میں نے راستے میں بیگم سے پوچھا۔
ہوں۔۔۔۔۔۔ لیزا۔  بیگم نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔ مجھے بھی نام پسند آیا۔ پھر بیگم نے گھر آ کر لیزا کو دودھ دیا۔ لیزا ابھی ہم سے مانوس نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے وہ ایک کونے میں دبی بیٹھی رہی۔
معاذ اس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتا رہا ۔
٭
چلو پارک چلتے ہیں۔ عمر کو دو ہزار وپے بھی ادا کرنے ہیں۔ اگلے دن جب میں گھر واپس آیا تو آتے ہی بیگم سے کہا۔
لیزا کو ساتھ لے جائیں؟  بیگم نے پوچھا۔
نہیں ۔۔۔۔۔ اسے یہاں ہی رہنے دو۔  میں نے جواب دیا اور پھر ہم کچھ ہی دیر بعد پارک میں موجود عمر کو ڈھونڈ رہے تھے۔ دور سے ہی مجھے عمر نظر آ گیا۔ ہم اس کی طرف بڑھنے لگے۔
وہ بھی ہمیں اپنی طرف آتا دیکھ چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم عمر تک پہنچتے، ایک چالیس بیالیس سالہ نفیس سی خاتون ہمارے قریب آئیں۔
ان کے ساتھ دس بارہ سالہ ان کی بیٹی بھی تھی۔وہ سلام کرنے کے بعد پوچھنے لگیں
کل عمر سے سفید بلی آپ نے خریدی تھی؟ میں سمجھ گیا کہ وہ عمر کی والدہ ہیں اور اب اپنی رقم کا تقاضا کریں گی۔
جی جی ۔۔۔۔۔۔ ہم  نے ہی لی تھی۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ کل میرے پاس کیش موجود نہیں تھا، اسی لیے آپ کی رقم ادا نہیں کر سکا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آج لایا ہوں۔
اتنا کہہ کر میں نے جیب سے ہزار ہزار روپے کے دو نوٹ نکالے۔
انہیں نہیں۔۔۔۔ میں آپ سے رقم کا تقاضا نہیں کر رہی۔ آپ صرف اتنا بتائیں کہ کیا آپ جانتے ہیں وہ بلی کس کی ہے؟ خاتون کے اس سوال سے میں تھوڑا چونک گیا اور جواب دیا
جی ہاں۔۔۔۔۔ وہ عمر  نے اپنے کسی دوست سے دو ہزار روپے میں خریدی تھی۔ ہمیں اچھی لگی تو اس  نے ہمیں دے دی۔
جی نہیں۔۔۔۔۔ عمر  نے آپ سے جھوٹ بولا ہے۔ اس  نے یہ بلی ہمارے گھر سے چرا کر آپ کو فروخت کر دی۔
خاتون کی یہ بات  سن کر میں اور میری بیگم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ پھر میری بیگم نے حیرت زدہ انداز میں پوچھا
کک۔۔۔۔۔کیا واقعی؟
جی ہاں۔۔۔۔۔۔ یہ بلی میری بیٹی ماریہ کی ہے۔ کل ماریہ اپنی بلی کے ساتھ ہمارے گھر کے لان میں کھیل رہی تھی۔ کسی کام کی وجہ سے وہ بلی کو لان میں چھوڑ کر اندر چلی گئی۔
جب واپس باہر آئی تو بلی موجود نہیں تھی۔ ہم نے گھر کا کونا کونا چھان مارا، گلی میں بھی دیکھا ۔ لیکن بلی کہیں بھی نظر نہیں آئی۔
آج مجھے کسی نے بتایا کہ اس نے عمر کے ہاتھ میں ایک سفید بلی دیکھی تھی۔
جب میں نے عمر سے پوچھا تو پہلے تو اس نے صاف انکار کر دیا، لیکن پھر تھوڑی سختی کے بعد اس نے قبول کر لیا کہ اس نے بلی ہمارے لان سے اٹھا کر آپ لوگوں کو فروخت کر دی ہے۔
ہمارے پاس آپ کے گھر کا پتا موجود نہیں تھا۔ اسی لیے آج آپ کا پارک میں انتظار کر رہے تھے۔
جیسے جیسے وہ خاتون حقیقت بتاتی جا رہی تھیں، ہم شرمسار ہوتے جا رہے تھے کہ ایک بچے کی باتوں میں آ کر بلا تصدیق بلی اٹھا کر اپنے گھر  لے گئے اور اس چوری میں شریکِ جرم بن گئے۔
اتنی دیر میں عمر بھی ہمارے پاس آ گیا۔ اسے دیکھ کر میں  نے پوچھا
عمر بیٹا! کیا وہ بلی آپ نے ان کے گھر سے چرائی تھی؟
جی۔۔۔۔۔۔ عمر نے سر جھکائے جواب دیا۔ اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں تھے۔
دیکھو بیٹا! یہ کتنی بری بات ہے۔ ایک تو آپ نے چوری کی اور پھر ہم سے جھوٹ بھی بولا۔ کیا آپ نہیں جانتے چوری کرنا اور جھوٹ بولنا کتنا برا فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔
جی جانتا ہوں۔ میں آپ سب سے معافی چاہتا ہوں۔
وعدہ کرو کہ آئندہ کوئی چیز چراؤ گے اور نہ ہی جھوٹ بولو گے۔
جی انکل اور آنٹی! میں آپ سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی بھی کوئی بھی چیز بلا اجازت نہیں اٹھاؤں گا اور نہ ہی کسی سے جھوٹ بولوں گا۔
عمر کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی غلطی دوبارہ نہیں دہرائے گا۔
ہم آپ سے بہت شرمندہ ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلیں ، میں آپ کی بلی آپ کو واپس کر دیتا ہوں۔
میں نے خاتون سے کہا اور پھر ہم سب ہمارے گھر کی طرف چل دیئے۔
جیسے ہی ہم لوگ گھر میں داخل ہوئے، بلی کی نظر ماریہ پر پڑی۔ وہ بھاگ کر اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔ ماریہ نے بلی کو اٹھایا اور اسے پیار کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد بلی لے کر وہ واپس چلے گئے اور ہمارے گھر میں ایک طویل خاموشی چھا گئی۔
معاذ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بلی کہاں چلی گئی؟
بیگم اور معاذ کا اداس چہرہ دیکھتے ہوئے میں نے ایک فیصلہ کرتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور انٹر نیٹ کنیکٹ کر کے اسلام آباد میں پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کی دکانیں ڈوھنڈنے لگا تاکہ اگلی شام ہمارے گھر میں لیزا سے بھی خوبصورت بلی موجود ہو۔

٭٭٭

احمد نعمان شیخ
احمد نعمان شیخ
قلمی نام: احمد نعمان شیخ والد کا نام: مقبول احمد قمر تاریخ پیدائش: ۲ جون ۱۹۸۲ (فیصل آباد) تعلیم: ڈگری ان ہوٹل مینجمنٹ ، شعبہ: کسٹمر سروس (ہوٹل استقبالیہ) حالیہ مصروفیت : دمام ، سعودی عرب میں ملازمت شائع شدہ کتب: نیلی یو ایس بی، فیک آئی ڈی، قتل کہانی مضامین ، کہانیوں، کتب کی تعداد: پندرہ کے قریب جاسوسی شارٹ اسٹوریز مختلف ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ مشہور کرداروں کے نام جو وجہ شہرت بنے : رانیہ ، عمیر اور انسپکٹر شہروز (نیلی یو ایس بی)۔ پسندیدہ مشاغل: جاسوسی ناولز اور جاسوسی فلمیں دیکھنا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles