جاسوسی ناولٹ
بارش کے بعد
برسات کی ایک رات میں ہوئے قتل کی کہانی
از۔ احمد نعمان شیخ
جولائی کا مہینہ ہر اس شخص کے لئے نوید لے کر کیلنڈر میں اپنے قدم جماتا ہے جو مئی اور جون کی گرمی سے تنگ آ چکے ہوں۔ ایک طرف آموں کی بہار اور دوسری طرف بادلوں کے برسنے کے بعد آسمان پر قوس قزاح۔ برستی بارش سے ہر کوئی لطف اندوز ہوتا ہے۔
بچے باہر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور خواتین گھر کے آنگن کو ہی اپنا مسکن بنا کر بارش کی تیز بوندوں سے خود کو سیراب کرتی ہیں, اور پھر شام کی چائے کے ساتھ گرما گرم پکوڑوں کو کون بھول سکتا ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں انویسٹی گیشن ونگ فیصل آباد میں ڈی ایس پی تھا۔ برسات کا موسم تھا، اور ان دنوں بادل خوب اپنے جوبن پر تھے۔
پچھلے کئی دنوں سے متحرک بادلوں نے پورا شہر جل تھل کیا ہوا تھا۔ ہمارے ہاں اگر ایک دو دن برسات برس جائے تو سمجھو سمندر شہر میں داخل ہو چکا ہے۔
نظام زندگی رک سا جاتا ہے اور اسکول کالجوں اور دفتروں میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ایسی ہی ایک صبح تھی۔ ساری رات بادل برس برس کر اب تھک چکے تھے اور سورج کو اپنے حصار میں لئے چہل قدمی کر رہے تھے۔
بادلوں کی اس چہل قدمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سورج کبھی کبھی سرکشی کرتا اور اپنا دیدار زمین کے مکینوں کو کرواتا۔ سورج کی کرنیں خلا کا سفر طے کرنے کے بعد جب زمین پر پڑتیں تو منظر کو قابلِ دید بناتیں۔
میں بھی آفس دیر سے پہنچا۔ میں ابھی اپنے آفس میں بیٹھا ہی تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ ایک جوان لڑکی اپنے ہی گھر میں قتل ہو گئی ہے۔ ہمارا عملہ موقع واردات پر پہنچ چکا ہے۔ میں بھی موقع واردات کی طرف روانہ ہو گیا۔۔
پچھلے دو دنوں کی لگاتار بارش کی وجہ سے اکثر سڑکیں جھیل جیسا منظر پیش کر رہی تھیں۔ بارش کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ، اتنا فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ سب درخت پھول پودے نکھر جاتے ہیں، ورنہ تو گاڑیوں کے دھوئیں نے پھول پودوں کی شکل ہی بدل کر رکھ دی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد ہم موقع واردات پر پہنچ گئے۔ وہ ایک کنال کا خوبصورت گھر تھا جو اپنے مکینوں کی امارت کے گیت گا رہا تھا۔ مین گیٹ کے بائیں طرف نہایت خوبصورت باغیچہ تھا۔ جو ساری رات بارش میں غسل کرنے کے بعد جنت فریب منظر پیش کر رہا تھا۔ کیاریاں نہایت سلیقے سے سجی تھیں۔
رنگ برنگے پھولوں کے علاوہ چند موسمی سبزیاں اور پھلوں کے درخت بھی دیکھ جا سکتے تھے۔ ایک کونے پر چھوٹی سی پانی کی آبشار اور ارد گرد ترچھی اینٹوں کی باڑ، بہتا ہوا پانی کسی قدرتی آبشار کا گمان پیش کر رہا تھا۔ کار پورچ سے گزر کر میں اندرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ اندرونی دروازہ خوبصورت نگار والی لکڑی اور سبز رنگ کے کانچ کا بنا ہوا تھا۔ بائیں طرف والا ایک کانچ ٹوٹا ہوا دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ قاتل نے اسے توڑا اور ہاتھ اندر لے جا کر لاک کھول دیا۔
جس نے بھی یہ کانچ توڑا، وہ لیفٹ ہینڈڈ ہے۔ میں نے ٹوٹے ہوئے کانچ کو دیکھ کر کہا۔
یہ کیسے کہہ سکتے ہیں آپ؟ میرے اسسٹنٹ، انسپکٹر یاسر نے پوچھا۔
لیفٹ ہینڈڈ بائیں طرف کا کانچ توڑ کر اپنا بایاں ہاتھ اندر ڈال کر لاک کھولے گا۔ دائیں طرف والا کانچ توڑ کر کبھی بھی بایاں ہاتھ ٹھیک سے اندر نہیں جا سکے گا۔ میں نے اندر داخل ہوتے ہوئے یاسر کو سمجھایا۔
پھر میں اندر بڑھا اور دیکھا کہ ڈرائنگ روم کا تمام سامان بکھرا پڑا ہے، جیسے قاتل اور مقتولہ کے درمیان زبردست چھینا چھپٹی ہوئی ہو۔
ڈرائنگ روم میں بچھا سرخ قالین اوراس پر ایک خوبصورت حسینہ کی لاش۔
آج سے پہلے جو قالین اس حسینہ کی قدم بوسی کرتا تھا اب اسی حسینہ کو اپنی آغوش میں لئے ہوا تھا۔ لاش شب خوابی کے لباس میں تھی جو اکثر جگہ سے پھٹ چکا تھا۔
فرانزک ٹیم نے لاش کے گرد حلقہ بنا دیا تھا۔ مقتولہ کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ قتل پیٹ میں چاقو مار کر کیا گیا تھا اور مرنے والی کا نام سعدیہ سفیر تھا۔
سعدیہ کے جسم پر اور بھی کئی چوٹ کے نشانات تھے، جس کا مطلب تھا کہ اس نے مرنے سے پہلے کافی جدوجہد کی ہو گی۔ میں بیڈ روم کی طرف بڑھا۔ بیڈ روم میں بھی بے ترتیبی نظر آئی۔ تجوری کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اندر سے خالی تھی۔
یہ عورت اکیلی رہتی تھی؟ میں نے یاسر سے پوچھا۔
نہیں سر! اس کا شوہر بھی ساتھ رہتا تھا لیکن وہ دو دن سے کاروبار کے سلسلے میں لاہور گیا ہوا ہے۔ اس کو اطلاع کر دی گئی ہے، کسی بھی ٹائم آ سکتا ہے۔
لاش سب سے پہلے کس نے دیکھی اور پولیس کو کس نے خبر کی؟
صبح آٹھ بجے گھر کی ملازمہ صفائی کرنے آتی ہے۔ آج جیسے ہی وہ آئی، لاش دیکھ کر مقامی پولیس اسٹیشن فون کر دیا۔
بلاؤ اسے۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کانسٹیبل کو ملازمہ کو بلانے بھیجا۔
چند لمحوں بعد ایک چالیس سالہ عورت میرے سامنے پریشان حالت میں موجود تھی۔
جی بی بی! کیا نام ہے آپ کا ؟ اور آپ نے کیا دیکھا سب تفصیل سے بتاؤ۔ میں نے پوچھا۔
صاحب جی! میرا نام کلثوم ہے۔ میں کافی ٹائم سے یہاں کام کر رہی ہوں۔ روزانہ صبح آٹھ بجے میں گھر آتی ہوں۔ صفائی کرتی ہوں اور برتن دھو کر چلی جاتی ہوں۔ سعدیہ بی بی ہمیشہ میرے آنے سے پہلے ہی اٹھ جاتی ہیں۔سفیر صاحب اکثر میرے آنے سے پہلے ہی کام پر چلے جاتے ہیں۔ آج بھی میں اپنے وقت کے مطابق آٹھ بجے آئی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا، پر شیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔
میں دیکھ کر گھبرا گئی اور جب ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ بی بی جی اس حالت میں۔۔۔۔۔۔
اتنا کہا اور وہ ڈوپٹا آنکھوں سے لگائے رونے لگی۔
اس کے علاوہ ماں باپ ساس سسر بچے؟ میں نے کلثوم سے پوچھا۔
ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور سفیر صاحب کے والدین تو ملک سے باہر ہیں۔ سعدیہ بی بی کے گھر والے اسی شہر میں رہتے ہیں۔
دونوں میاں بیوی میں کیسا تعلق تھا؟
میں تو زیادہ ان باتوں پر دھیان نہیں دیتی تھی لیکن ایسا لگتا تھا کہ دونوں میں تعلق زیادہ اچھا نہیں ہے۔
سفیر صاحب اکثر غصے میں رہتے تھے۔ ویسے بھی جب میں آتی تھی زیادہ تر صاحب کام پر جا چکے ہوتے تھے اور سعدیہ بی بی موبائل یا کمپیوٹر پر ہی مصروف رہتی تھیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔آپ اپنا نام پتا لکھوا دیں اگر آپ کی ضرورت ہوئی تو پیغام بھجوا دیں گے۔
اتنا کہہ کر میں نے یاسر کی طرف دیکھا اور بولا۔
کیا لگتا ہے؟
مجھے تو یہ چوری کی واردات لگتی ہے۔ چور جانتا تھا کہ سعدیہ گھر میں اکیلی ہے، وہ رات کے کسی پہر دیوار پھلانگ کر اندر آیا۔۔۔۔۔اندرونی دروازے کا کانچ توڑ کر لاک کھولا، اندر داخل ہوا۔
کانچ ٹوٹنے کی آواز سے سعدیہ کی آنکھ کھل گئی۔ دونوں میں ہاتھا پائی ہوئی اور آخر کار چور سعدیہ کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر اس نے تجوری کھولی اور چوری کر کے فرار ہو گیا۔
یاسر نے پوری واردات کا نقشہ اپنے مطابق کھینچا۔
واردات اتنی سادہ نہیں ہے یاسر صاحب، جتنی کہ آپ نے بنا دی۔ یہ سفیر کو فون کر کے پوچھو کہ کتنی دیر تک واپس آ رہا ہے۔
جی میں کرتا ہوں۔ یاسر نے اپنا موبائل جیب سے نکال کر کہا۔
اب میں فرانزک ٹیم کی طرف متوجہ ہوا۔ فنگر پرنٹس کی کیا خبر ہے ؟
کچھ فنگر پرنٹس ملے تو ہیں.۔۔۔۔لیکن ان میں سے قاتل کے پرنٹس ہیں یا نہیں وہ تو لیب جا کر ہی پتا چل سکے گا۔ فرانزک ٹیم کے عملے میں سے ایک نے کہا۔
قتل کس ٹائم کیا گیا ہو گا۔ میں نے فرانزک ڈاکٹر سے پوچھا جو اس ٹائم لاش کا بخوبی معائنہ کر رہے تھے۔
لاش دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ قتل چھے سات گھنٹے قبل یعنی رات دو سے تین کے درمیان کیا گیا ہو گا۔
ایک اور بات، مقتولہ کے ناخنوں میں کچھ ماس کے ٹکڑے نظر آ رہے ہیں، جو یقیناً قاتل کے ہوں گے۔
ہاتھا پائی کرتے ہوئے قاتل کی جلد پر خراش لازمی آئی ہو گی۔ باقی تفصیل تو پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ہی دے سکوں گا۔ فرانزک ڈاکٹر شفیق نے بتایا۔
پھر میں باہر نکل گیا۔ کرائم سین کی مخصوص پیلی ٹیپ پورے گھر کو اپنے حصار میں لے چکی تھی۔ آس پاس کے کچھ مکین باہر کھڑے آپس میں قتل کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔
مجھے قریب آتا دیکھ کر سب خاموش ہو گئے اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھنے لگے جیسے قتل کے بارے میں تجسس کا شکار ہوں۔
کسی نے کل رات دو سے چار کے درمیان کچھ خاص دیکھا یا کوئی غیر معمولی بات محسوس کی ہو۔
میں نے ان کے قریب جا کر سوال کیا۔ وہ سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
میں نے تقریباً چار بج کر دس منٹ پر کسی کو گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ مجھے لگا کہ سفیر ہو گا، اس لئے زیادہ دھیان نہیں دیا۔ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے میرے قریب آ کر بتایا۔
ٹائم کے بارے میں اتنا یقین سے کیسے کہ سکتے ہیں آپ؟
اصل میں چار بج کر بیس منٹ پر فجر کی جماعت کھڑی ہو جاتی ہے، اور میں گھر سے اسی وقت باہر نکلتا ہوں۔اسی لئے ٹائم کے بارے میں اتنے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔
ان کے علاوہ کسی نے کچھ دیکھا یا کچھ سنا؟ میں نے آواز لگائی۔
یہ ظہیر، سفیرکے گھر کے بالکل سامنے رہتا ہے اور ہر وقت بالکونی اور اپنی کھڑکی سے تانکا چھانی کرتا رہتا ہے۔۔۔۔صبح پونے چار بجے جب میں اٹھا تو میں نے اسے بالکونی میں بیٹھے ہوے دیکھا تھا۔ اسی بزرگ نے نفرت سے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کیا۔
وہ پچیس چھبیس سال کا نوجوان تھا۔ اچھا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور دائیں ہاتھ میں خوبصورت راڈو کی گھڑی باندھ رکھی تھی۔ اپنی طرف اشارہ دیکھتے ہوئے ایک دم سے وہ گھبرا گیا اور گھبراتے گھبراتے بولا۔
یہ ٹھیک ہے کہ میں اکثر بالکونی میں بیٹھتا ہوں اور کل رات بھی بالکونی میں موجود تھا، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں کسی کا بھی خون کر دوں گا۔
انکل! کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟ ظہیر تلملا گیا۔
ان کو چھوڑیں اور آپ مجھے بتائیں۔۔۔۔ آپ نے کچھ دیکھا کیا؟ میں نے ظہیرسے پوچھا۔
میں نے قریب ساڑھے تین بجے کسی کو تیزی سے سفیر کے گھر کی جانب دوڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ مجھے لگا شاید سفیر ہی ہو گا اور تیز بارش کی وجہ سے بھیگ کر اپنے گھر پہنچنا چاہتا ہو گا۔
میرا گھر ان کے گھر کے بالکل سامنے ہی ہے۔ میں بالکونی میں بیٹھا بارش سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولا۔
تو آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ گھر میں داخل کیسے ہوا تھا؟ میں نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔میں نے ایک آدمی سڑک پر دوڑتے ہوئے اور گھر کے مین گیٹ پر رکتے ہوئے دیکھا تھا۔پھر میں اسی ٹائم کسی کام سے اندر چلا گیا۔
اور آپ ٹائم کے بارے میں اتنا یقین سے کیسے کہ سکتے ہیں؟ میںظہیر کی طرف متوجہ ہوا۔
وہ…… وہ جی پچھلی گلی کی مسجد سے اذان کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔۔۔میں بالکونی میں بیٹھا اذان سن رہا تھا اور بارش کا نظارہ لے رہا تھا۔
کمال کے ہمسائے تھے۔ ایک نے اذان اور دوسرے نے جماعت کے وقت کے حساب سے قاتل کے گھر میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے وقت کا سراغ دیا تھا۔
پھر باقی کی ضروری تفصیلات نوٹ کرنے کے بعد لاش کو فرانزک لیب بھجوا دیا گیا، اور میں یاسر کو لے کر گھر کا چاروں اطراف سے جائزہ لینے لگا۔ جب ہم گھر کی پچھلی طرف پہنچے تو دیکھا پیچھے کا پلاٹ خالی تھا۔
میں دیوار پر چڑھا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔ دیوار کے پاس مجھے ایک چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ میں دوسری طرف کود گیا اور وہ چیز احتیاط سے اٹھا کر پلاسٹک بیگ میں ڈال دی۔
٭
تقریباً بارہ بجے کے قریب ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ میں اپنے آفس کی کھڑکی میں کھڑا گولڈ لیف سگریٹ کا کش لیتا ہوا بیرونی منظر دیکھ رہا تھا۔
سورج بھی نکل آیا تھا لیکن اب اس میں جلال نہ تھا۔ بارش اور سورج کا امتزاج مجھے نہ جانے کیوں بھاتا تھا۔ موسم کی چاشنی دل میں سموتے ہوئے میں سعدیہ سفیر کے قتل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
جناب! وہ مقتولہ کا شوہر سفیر احمد آیا ہے۔ ایک کانسٹیبل نے اندر داخل ہو کر اطلاع کی۔
بھیجو اسے۔ میں نے ایک لمبا سا آخر کش لگایا اور سگریٹ کرسٹل ایش ٹرے میں بجھاتے ہوئے کہا۔ پھر اپنے دراز سے منٹ چیوگم نکال کر منہ میں ڈالی۔
سفیر احمد اندر داخل ہوا۔ میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کا اجڑا ہوا حلیہ اس بات کا شاہد تھا کہ بیوی کی اچانک موت نے اسے توڑ پھوڑ دیا تھا۔
سفیر صاحب! ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہے اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ قاتل جلد ہی ہماری گرفت میں ہو گا۔ میں نے اسے تسلی دی۔
اب قاتل پکڑا جائے یا نہ، کیا فرق پڑتا ہے؟میری بیوی تو دنیا میں واپس نہیں آ سکتی نا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کو کسی پر شک ہے؟ کسی سے آپ کا جھگڑا یا آپ کی بیوی سے کسی کی دشمنی؟
ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ ہماری زندگی بہت پرسکون تھی۔
لیکن ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ آج کل آپ دونوں کے درمیان تعلقات اچھے نہیں تھے۔
چھوٹے موٹے جھگڑے میاں بیوی میں ہوتے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔اور لوگوں کو تو عادت ہوتی ہے ایک کی دس لگانے کی۔
اب وہ تھوڑا غصّے میں تھا۔
کل رات آپ کہاں تھے ؟
آپ کو پتا ہے میں ابھی ابھی لاہور سے آ رہا ہوں۔ پچھلے دو دن سے لاہور میں ہی تھا اور میرا کل شام واپس آنے کا ارادہ تھا، لیکن جیسے ہی کلثوم کی کال آئی، میں سب چھوڑ کر بھگا چلا آیا۔
لاہور کہاں ٹھہرے ہوئے تھے؟
آواری ہوٹل کمرا نمبر 402۔ اس نے بتایا۔
کچھ مزید تفتیشی سوالات کے بعد میں اس سے بولا۔
سفیر صاحب معافی چاہتا ہوں۔ آپ کو تھوڑی سی زحمت اور دیں گے۔ آپ کے فنگر پرنٹس اور ڈی این اے کے سیمپل لینے ہوں گے۔
میں ہر طرح سے تعاون کے لئے تیار ہوں۔ میںپولیس کے طریقہ تفتیش سے با خوبی واقف ہوں۔ سفیر نے جواب دیا اور میں نے اسے ایک کانسٹیبل کے ساتھ بھیج دیا۔
یاسر! ایک تو سعدیہ کے موبائل ریکارڈز نکلواؤ اور دوسرا سفیر کے موبائل کی کل رات کی لوکیشن بھی ٹریس کرواؤ۔
جی۔۔۔۔۔بہتر۔
قریب تین بجے مجھے سعدیہ کے موبائل ریکارڈز مل گئے۔ واٹس ایپ ریکارڈز سے پتا چلا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی اور سفیر سے طلاق لے کر اپنے محبوب سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ دوسرا سفیر کے موبائل لوکیشن سے پتا چلا کہ کل ساری رات موبائل لاہور ہوٹل میں ہی تھا۔
سر! یہ تو بہت آسان ہو گیا۔ سفیر کے علم میں یہ بات آ گئی کہ اس کی بیوی کسی اور سے محبت کرتی ہے اور اس سے طلاق لینا چاہتی ہے تو اس نے غصہ میں آ کر اپنی ہی بیوی کے قتل کا پلان بنایا۔
اپنی موجودگی دوسرے شہر میں ظاہر کی۔ رات کے اندھیرے میں گھر میں داخل ہوا۔ بیوی کو قتل کیا اور واپس لاہور چلا گیا اور ہمارے اطلاع کرنے پر پھر سے واپس آ گیا۔ قتل ایک ڈکیتی لگے، اسی لئے اس نے توڑ پھوڑ اور تجوری سے پیسا نکالا اور کہیں چھپا دیا۔
میرے اسسٹنٹ یاسر نے اپنے ذہن کے مطابق سارا کیس ہی حل کر دیا تھا۔
یار! ایک تو تم بہت جلد ہی نتیجہ نکال لیتے ہو۔ پہلے کہہ رہے تھے کہ چور ڈکیتی کی نیت سے آیا اور قتل کیا۔
اب کہہ رہے ہو سفیر نے قتل کیا۔ تفتیش کا اصول ہے جب تک پکا ثبوت ہاتھ نہ لگے کوئی بھی نتیجہ نہ نکالو۔ ایسا کرو، سفیر لاہور کے جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، وہاں کی لابی اور جس فلور پر سفیر کا کمرا تھا۔ اس فلور کے برآمدے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرو۔ ہوٹل والوں سے بولو کہ رات گیارہ بجے سے صبح نو بجے تک کی فوٹیج چاہیے۔
سفیر کے بیان کے مطابق وہ رات گیارہ بجے ہوٹل میں واپس گیا تھا اور سیدھا اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔ رات دو بجے کے قریب اس نے کھانا آرڈر کیا اور پھر صبح کلثوم کے اطلاع کرنے پر سوا آٹھ بجے ہوٹل سے نکلا۔
ساجد! تم سعدیہ کے محبوب کے بارے میں پتا لگاؤ۔ کیا کرتا ہے کہاں اٹھتا بیٹھتا ہے اور کوئی پولیس ریکارڈ ہے یا نہیں۔
میں نے اے ایس آئی ساجد کو ہدایات دیں اور پھر ایک خاص بات پر غور کرنے لگا۔ مجھے کچھ گڑبڑ سی محسوس ہوئی۔ دو گھنٹے بعد ساجد نے فون کیا اور بتایا۔
سر! سعدیہ کے محبوب کا تو اچھا خاصا پولیس ریکارڈ موجود ہے۔ اس کا نام کاشف ہے دو بار پہلے بھی فراڈ اور بلیک میلنگ کے کیس میں جیل کاٹ چکا ہے۔ فون ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ وہ سعدیہ کو بھی آج کل بلیک میل کر کے کافی رقم ہتھیا چکا تھا۔۔۔۔۔کہیں ایسا تو نہیں اسی نے قتل کیا ہو؟
ساجد نے اپنے دو گھنٹے کی تفتیش کا رزلٹ بتایا۔
بہت خوب ساجد۔۔۔۔ اٹھا لو اس کو۔ میں نے خوشی سے ساجد کو ہدایت دی۔
ایک گھنٹے بعد کاشف اب میری نظر کے سامنے کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔
سر! میں نے سب برے کام چھوڑ دئیے ہیں۔ اب تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں سعدیہ سے سچی محبت کرتا تھا۔ اس نے غم زدہ آواز میں کہا۔
وہ تو ہم پتا چلا لیں گے کہ تم سعدیہ سے کتنی محبت کرتے تھے، اور محبت سعدیہ سے تھی یا اس کی دولت سے۔۔۔۔۔۔ڈال دو اندر اس کو۔ میں نے ساجد سے کہا۔ ساجد نے اسے گریبان سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا حوالات میں بند کر دیا۔
اسی وقت لاہور کے ہوٹل سے سی سی ٹی وی کی فوٹیج بھی آ گئی۔ گیارہ بجے سفیر ہوٹل کی لابی میں داخل ہوتا نظر آیا اور لفٹ کی طرف بڑھا۔ اس کے بعد دوسری ویڈیو میں اپنے کوریڈور کی لفٹ سے نکلتا نظر آیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
رات دو بجے کے قریب ایک ویٹر اس کے لئے کھانے کا آرڈر لے کر آیا۔ اس کے بعد وہ ساری رات کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ سوا آٹھ بجے تیزی سے وہ کمرے سے باہر نکل کر لفٹ کی طرف بڑھا۔
یعنی….. یہ ویڈیو سفیر کے بیان کی تصدیق کرتی ہے۔ میں نے ویڈیو دیکھنے کے بعد یاسر سے کہا۔
سر! سفیر تو لاہور میں موجود تھا اور رات گیارہ بجے کے بعد اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ قاتل نہیں ہو سکتا۔ یاسر بولا۔
لیکن کسی کو قتل کے لئے ہائر تو کر سکتا ہے نا۔ کوئی کرائے کا قاتل چند پیسوں کی خاطر بہت صفائی سے قتل کر سکتا ہے۔ میں نے کہا۔
سر! پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے۔ ساجد نے رپورٹ میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا۔
کوئی خاص بات؟
مرنے سے کچھ دیر قبل سعدیہ کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ، یعنی ریپ ہوا ہے۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ کیس پیچیدہ ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر شفیق نے بتایا کہ قتل پیٹ میں چاقو مار کر رات تین سے چار بجے کے درمیان کیا گیا۔ چاقو پر کوئی فنگر پرنٹس نہیں ملے۔
سفیر اور کاشف دونوں کا ڈی این اے سیمپل لیب بھجواؤ۔ جس کے بھی میچ ہوئے سمجھو وہی قاتل ہے۔
اچانک مجھے ایک خیال نے چونکا دیا اور میں نے یاسر اور ساجد کو ایک آدمی کا پتا دیا اور کہا کہ اس کو اٹھا لاؤ۔ وہ دونوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی شکل تکنے لگے۔
اس کو پکڑ کر لاؤ اور ڈی این اے کرواؤ۔ آج رات تک مجھے یہ کیس ختم کر کے گھر جا کر آرام سے ابن صفی کا کوئی جاسوسی ناول پڑھنا ہے۔
میری آواز میں جوش اور خوشی کی ملی جلی کیفیت تھی۔ تقریباً تین گھنٹے بعد مجھے رپورٹ ملی کہ ڈی این اے میچ ہو گیا ہے۔
٭
رات کے دس بج رہے تھے۔ بارش کی بوندیں دن بھرکی تھکن اتار کر اب پھر سے زمین کی طرف محوِ سفر تھیں۔سفیر، کاشف اور ایک اور آدمی میرے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے گولڈ لیف کے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکالا اور لبوں کے درمیان پھنسا کرجیب سے لائٹر نکالا۔
آگ کا شعلا ہوا میں جھوم گیا اور لائٹر کی موسیقی نے جلترنگ بکھیرا۔ ایک کش لینے کے بعد میں نے خاموشی کو توڑنے کا فیصلہ کیا اور کہانی سنانی شروع کی۔
تو کہانی کچھ ایسے ہے کہ بطور میاں بیوی سعدیہ اور سفیر کے کچھ اچھے تعلقات نہیں تھے۔ ایسے میں سعدیہ کو کاشف ملا اور دونوں میں دوستی اور پھر محبت ہو گئی۔ اس بات کا سفیر کو پتا چل گیا اور اس نے سوچا کہ اس معاملے کو کیسے نمٹایا جائے۔
ایک دن اچانک سفیر کو کچھ کام سے لاہور جانا پڑا اور وہ سعدیہ کو اکیلا چھوڑ کر تین دن کے لئے لاہور چلا گیا۔دوسری طرف سعدیہ، کاشف کی حقیقت بھی جان چکی تھی کہ وہ اس سے محبت کا کھیل، کھیل کر صرف پیسہ بٹور رہا ہے۔
سفیر کے پاس بیوی کی بے وفائی کو لے کر قتل کرنے کی وجہ تھی اور کاشف کو اس بات کا ڈر کہ کہیں سعدیہ پولیس کو سب بتا کر پھر سے اسے جیل نہ بھجوا دے۔ اتنا کہہ کر میں کچھ لمحے کے لیے رکا ۔
ہمارا شک دونوں پر تھا، لیکن پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے سارے کیس کا رخ ہی تبدیل کر دیا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کی مطابق مرنے سے پہلے سعدیہ کے ساتھ زیادتی کی گئی اور قاتل کا ڈی این اے سعدیہ کے ناخنوں میں مل گیا۔ مزے کی بات یہ کہ سعدیہ کے ناخنوں میں ملا ڈی این اے سفیر اور کاشف دونوں سے بالکل بھی میچ نہیں ہوتا تھا۔
تو کس سے میچ ہوتا ہے؟ وہی راڈو گھڑی والا نوجوان بولا جس نے مجھے قاتل کے گھر میں داخل ہونے کا وقت ساڑھے تین بجے بتایا تھا۔
’’آپ سے.۔۔۔۔۔ظہیر صاحب۔ میں نے مسکرا کر کہا اور سب اچھل پڑے۔
سب سے پہلے میرا شک سفیر پر تھا۔ ایسے قتل میں زیادہ تر شوہر ہی قاتل ہوتے ہیں، لیکن سفیر صاحب سارا وقت ہوٹل میں اپنے کمرے میں موجود رہے۔ بلکہ رات دوبجے کے قریب ویٹر سے کھانا بھی منگوایا، جو اس بات کا پختہ ثبوت تھا کہ وہ قتل کے وقت شہر سے دو سو کلو میٹر دور دوسرے شہر میں موجود ہیں۔
پھر میرا شک کاشف کی طرف گیا۔ وہ سعدیہ کو بلیک میل کر رہا تھا۔ سعدیہ اس کی بلیک میلنگ سے ڈر گئی تھی اور پولیس کو سب بتانے والی تھی۔ وہ بھی سعدیہ کا راستہ صاف کر سکتا تھا لیکن ہمیں کاشف کا اس رات سعدیہ کے گھر میں موجود ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکا۔
ایسے میں میرا شک ایک تیسرے آدمی یعنی ظہیر کی طرف گیا۔ میں اس کی گردن پر کچھ زخم اور دائیں ہاتھ میں بندھی گھڑی دیکھ چکا تھا۔ کانچ کے ٹوٹنے سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ جو بھی گھر میں داخل ہوا، وہ لیفٹ ہینڈڈ ہے۔ لیفٹ ہینڈڈ لوگ اکثر گھڑی دائیں ہاتھ میں باندھتے ہیں تا کہ لکھنے میں مشکل نہ ہو۔ میری بات ختم ہونے پر سفیر زور سے چلایا۔
کمینے۔۔۔۔۔۔تو نے میری بیوی کو مار دیا۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ سفیر نے غصے سے ظہیر کا گریبان پکڑ لیا۔
سفیر صاحب! ظہیر کو چھوڑ دیں۔ قتل ظہیر نے نہیں کیا ہے۔ میں نے مسکرا کر کہا۔
ظہیر قاتل نہیں ہے؟ ابھی تو آپ نے کہا کہ ڈی این اے اس خبیث ظہیر سے میچ ہو گیا ہے۔ اب کی بار سفیر کے لہجے میں حیرانی تھی۔
میں نے یہ ضرور کہا کہ ڈی این اے میچ ہوا اور اسی لیے پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بالکل نہیں کہا کہ قتل بھی اسی نے کیا ہے۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ تو پھر قتل کس نے کیا؟ سفیر نے الجھن بھرے انداز میں پوچھا۔
قتل تو بلاشبہ آپ نے ہی کیا ہے سفیر صاحب۔ میں نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بے فکری سے کہا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ کمرا ایک اونچی آواز سے گونج اٹھا۔
کک۔۔۔۔۔۔۔کیا مطلب ہے آپ کا؟ آپ جانتے ہیں کہ میں کل رات لاہور موجود تھا۔ آپ نے سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ بھی دیکھی ہو گی۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا۔ رات دو بجے میں نے اپنے لئے کھانا منگوایا تھا۔ ویٹر نے مجھے دیکھا تھا۔ وہ گواہی دے گا۔ سفیر اپنی صفائی پیش کرنے لگا۔
بالکل جناب۔۔۔۔۔۔۔آپ کی سب باتیں صحیح ہیں۔ پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ قتل آپ نے ہی کیا۔
کیا بکواس ہے یہ۔۔۔۔۔۔کبھی کہتے ہو ڈی این اے ظہیر کا میچ ہوا۔ پھر کہتے ہو میں ہوٹل میں موجود تھا۔ اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ قتل بھی میں نے ہی کیا۔۔۔۔۔۔میں ایک وقت میں دو مختلف جگہوں پر کیسے موجود ہو سکتا ہوں؟ لگتا ہے نشہ کیا ہوا ہے ڈی ایس پی صاحب نے۔
اب سنیں۔۔۔۔۔۔۔سفیر صاحب کو اپنی بیوی کی بے وفائی کا پتہ چل چکا تھا، لیکن وہ اسے طلاق نہیں دے سکتا تھا۔ایسا کرنے میں کمپنی کے پچاس فیصد شیئرز سے دستبردار ہونا پڑتا، جو انھیں گوارا نہیں تھا۔
ایسے میں انھوں نے ایک زبردست پلان بنایا۔ دو ساتھی اپنے ساتھ ملائے۔ پلان کے مطابق ان کا ایک ساتھی ان کے کپڑے پہن کر ان جیسا حلیہ بنا کر کل رات نو بجے ہوٹل میں داخل ہو کر ان کے کمرے میں چلا گیا۔ چابی وہ اس کو پہلے سے ہی دے چکے تھے۔
مزید ثبوت پکا کرنے کے لئے اس نے رات دو بجے کچھ کھانے کا آرڈر بھی دے دیا تا کہ سب یہی سمجھیں کہ سفیر صاحب ہوٹل کمرے میں موجود تھے۔ جبکہ دوسری طرف ان کا ایک اور دوست انھیں اپنی گاڑی میں لاہور سے فیصل آباد لے آیا۔
سارا راستہ گاڑی میں وہ پچھلی سیٹ پر لیٹے رہے تاکہ راستے میں موجود کسی بھی ٹول پلازہ کے سی سی ٹی وی کی زد میں نہ آ جائیں۔
اپنے گھر پہنچ کر بڑی ہوشیاری سے قریب ہی کہیں گاڑی کھڑی کی۔ گھر کی پچھلی طرف کا پلاٹ خالی ہے۔ یہ وہاں سے دیوار پھلانگ کر اندر آئے اور کھڑکی کھول کر بیڈ روم میں داخل ہو گئے۔ مرکزی دروازے کا انتخاب اس لئے نہیں کیا کہ کہیں کوئی ان کو آتے جاتے دیکھ نہ لے۔
ان کے داخل ہونے سے پہلے ہی ظہیر اپنا کام کر کے جا چکا تھا اور سعدیہ بے ہوش تھی۔ سفیر سمجھا کہ سعدیہ سو رہی ہے اور پیٹ میں چاقو کا زوردار وار کر کے اپنی ہی بیوی کا قتل کر دیا۔ پھر واردات کو ڈکیتی کی شکل دینے کے لئے تجوری کھولی۔۔۔۔۔پیسا نکالا، سامان ادھر ادھر بکھیرا، لاش کو زمین پر رکھا اور اسی راستے سے واپس چلا گیا۔
یہ سب کام انھوں نے دس منٹ کے اندر اندر کیا۔ سفیر اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ شاید اس نے داخلی دروازے کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ ورنہ اسے معلوم ہو جاتا کہ کوئی اور اس سے پہلے گھر میں کانچ توڑ کر داخل ہوا تھا۔
اتنا کہ کر میں خاموش ہوا اور اب سفیر کی شکل پر ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔
تو اس بزرگ نے چار بج کر دس منٹ پر گھر سے باہر نکلتے کسے دیکھا تھا؟ یاسر نے تجسس سے پوچھا۔
وہ میں تھا۔۔۔۔۔ ظہیر بول پڑا۔ اس کا چہرہ ابھی بھی نیچے جھکا ہوا تھا۔ اس نے پہلی بار اس کارروائی میں اپنی زبان کھولی تھی۔
مجھے پتا تھا کہ سفیر دوسرے شہر گیا ہوا ہے اور سعدیہ اکیلی ہے۔ میرا اکثر سفیر سے جھگڑا ہوتا رہتا تھا اور سعدیہ بھی مجھے پسند نہیں کرتی تھی۔ سفیر کو شک تھا کہ میں اپنی بالکونی میں بیٹھا ان کی حرکات کو دیکھتا ہوں اور سعدیہ پر بری نظر رکھتا ہوں۔
اسی لئے میں نے سوچا کہ آج کی رات اچھا موقع ہے۔ سعدیہ اکیلی ہے میں اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکتا ہوں۔اسی لئے تقریباً دو بجے میں غلط ارادے سے کانچ توڑ کر گھر میں داخل ہوا۔ اس ٹائم اچھی خاصی بارش ہو رہی تھی۔۔۔۔۔اس لئے مجھے یقین تھا کہ کوئی بھی مجھے نہیں دیکھ سکے گا اور نہ ہی کانچ کے ٹوٹنے کی آواز کو کوئی سن سکے گا۔
میں چہرے پر نقاب کر کے گھر میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سعدیہ جاگ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ڈر گئی اور سمجھ گئی کہ میں کس نیّت سے گھر میں داخل ہوا ہوں۔
کافی تگ و دو کے بعد میں اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔زبردستی اور میری مار پیٹ کی وجہ سے سعدیہ بے ہوش ہو گئی اور میں اپنا کام پورا کرنے کے بعد تقریباً اڑھائی بجے واپس آ گیا۔
اڑھائی بجے گھر سے نکل گئے تو دوبارہ گھر میں کیوں داخل ہوئے؟
اس دوران میرے چہرے سے نقاب ہٹ گیا تھا اور سعدیہ مجھے پہچان گئی تھی۔۔۔۔۔اسی ڈر سے کہ کہیں وہ پولیس کو میرے بارے میں نہ بتا دے۔ میں چار بجے دوبارہ گھر میں داخل ہوا اور سوچا کہ سعدیہ کی تصاویر بنا لوں گا تا کہ وہ اپنی زبان بند رکھے اور پولیس کو میرے بارے میں کچھ نہ بتا سکے, لیکن جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا، اس بار سارا منظر ہی تبدیل ہو چکا تھا۔
ڈرائنگ روم میں سامان بکھرا پڑا تھا اور سعدیہ کی لاش قالین پر تھی۔ میں ڈر گیا کہ کہیں سعدیہ کے قتل کا الزام مجھ پر نہ لگ جائے اسی لئے گھر سے بھاگ گیا۔ اتنا کہہ کر ظہیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
لیکن آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں رات کو واپس آیا اور اپنی بیوی کا قتل کیا؟ سفیر ایک دم سے بولا۔
میں نے ہوٹل کی ایک الیکٹرانک چابی ہوا میں لہرائی۔
یہ الیکٹرانک کارڈ کی شکل میں تھی جیسا کہ آج کل بڑے بڑے ہوٹلوں میں لاک کھولنے کے لئے کارڈ کو صرف لاک سے ٹچ کرنا ہوتا ہے اور لاک کھل جاتا ہے۔
ہوٹل والے ہر گیسٹ کو دو کارڈ دیتے ہیں کہ اگر ایک گم جائے تو دوسرے کارڈ سے لاک کھولا جا سکے۔ایک کارڈ تو سفیر اپنے ساتھی کو دے چکا تھا جبکہ دوسرا اس کی جیب میں موجود تھا۔
یہ الیکٹرونک کی کارڈ ہمیں آپ کے گھر کی پچھلی طرف والے خالی پلاٹ میں ملا۔جب آپ قتل کرنے کے بعد دیوار پھلانگ کر بھاگے جا رہے تھے۔ اسی دوران آپ کی جیب سے گر گیا اور آپ کو خبر نہ ہو سکی۔ اس پر آپ کی انگلیوں کے نشانات بھی ہیں۔
ہوٹل کارڈ دیکھ کر وہ بے چارگی کے ساتھ ساتھ شرمندگی کے عالم میں میری طرف دیکھنے لگا۔ اسی لمحے ایک کانسٹیبل آگے بڑھا اور سفیر اور ظہیر کو حوالات کی طرف لے گیا۔ سفیر کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا اور میں کھڑکی سے باہر برستی بارش کو دیکھ کر اپنا سگریٹ ختم کرتے ہوئے یہ سوچنے لگا کہ بارہ گھنٹوں میں قاتل ہم نے پکڑ لیا ہے اور اب گھر جا کر ابن صفی کا کون سا ناول پڑھا جائے؟
٭٭٭
ختم شد