34 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

آخری چال

جاسوسی ناولٹ

آخری چال

چند مجرموں کا فسانہ، ہر کوئی دوسرے کے خلاف چال چل رہا تھا۔

از۔ احمد نعمان شیخ

دسمبر کی سرد ہوائیں آس پاس کے ویران درختوں کی اداس شاخوں کو رقص کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ جنگل بھی ویران تھا اور رات بھی سنسان تھی۔ چرند پرند اپنے اپنے مسکنوں میں ایسے دبے بیٹھے تھے جیسے تیز برسات کے بعد خوشبودار مٹی۔
کچی پکی وہ خاموش سڑک اس بات کے انتظار میں تھی کہ کوئی اس کی گود میں سوار ہو اور وہ سوار کو اس کی منزل مقصود تک پہنچائے۔ دور کہیں سے دو پیلی روشنی کے دائرے نظر آئے۔ درخت کے نیچے سویا ہوا ایک آوارہ کتا آنکھوں میں چبھنے والی روشنی سے بیدار ہو گیا۔
اس نے ایک نظر روشنی کی طرف ڈالی جو لمحہ با لمحہ قریب ہو رہی تھی۔ اندھیرے میں ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بھوت اس کی طرف بڑھ رہا ہو۔ وہ ڈر گیا اور تیزی سے جنگل کے اندرونی حصّے کی طرف بڑھنے لگا۔ سرمئی بادلوں نے سر اٹھا کر صاف آسمان کی طرف دیکھا، آج تو ستارے اور چاند بھی بے وفائی پر اتر آئے تھے. نہ جانے وہ کہاں چھپے بیٹھے تھے۔ گاڑی پکی سڑک سے اتر کر کچی سڑک پر آہستہ آہستہ رینگے لگی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کو چلانے والا کسی خاص چیز کی تلاش میں تھا۔
اس سے آگے نہیں جا سکتے۔ جنگل گھنا ہوتا جا رہا ہے۔ گاڑی چلانے والے آدمی نے ساتھ بیٹھے دوسرے آدمی سے کہا اور گاڑی روک دی۔
تو پھر ہمیں لاش یہیں دفنانی ہو گی؟ دوسرے آدمی نے اپنی کالی جیکٹ کے ہڈ کوسر پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔
اتنا کہہ کر گاڑی چلانے والے نے انجن بند کیا اور تیزی سے گاڑی سے باہر نکلا۔ تیز ہوا کے جھونکے نے اس خوفناک جنگل میں اس کا استقبال کیا۔ اس نے اپنا میرون مفلر چہرے اور گلے کے گرد لپیٹا ۔
میں سامان نکال کر لاتا ہوں تم گڑھا کھودنے کے لئے جگہ دیکھو۔  کالی جیکٹ والے نے کہا اور گاڑی کی ڈگی سے کدال اور بیلچا نکال لایا۔
ہاں ۔۔۔ اب بتائو گڑھا کہاں کھودنا ہے؟‘‘ اس نے دوسرے ساتھی کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
’’یہ درخت ٹھیک رہے گا۔ اسی کے نیچے گڑھا کھودتے ہیں۔
آج کی رات بہت کالی ہے۔ آسمان پر چاند ستارے بھی نظر نہیں آ رہے، اور تم نے گاڑی کی ہیڈ لائٹس بھی بند کر دی ہیں۔
روشنی سے کوئی بھی ہماری طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ ‘‘میرون مفلر والے نے کدال پکڑ کر زمین پر ایک ضرب لگاتے ہوئے کہا۔ دوسرے نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا اور گڑھا کھودنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی محنت کے بعد گڑھا اتنا گہرا ہو گیا کہ اب وہ لاش دفنا سکتے تھے۔
اتنا گہرا کافی ہے۔ ایسا کرو کہ ہیڈ لائٹ جلا لو۔ بالکل بھی نظر نہیں آ رہا۔ ایک بار لاش گڑھے میں پھینک دیں، اس کے بعدہیڈ لائٹس بند کر دینا۔
’’کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔‘‘ میرون مفلر والے نے اپنا ڈر پیش کیا ۔
فکر نہ کرو، اس جنگل میں کوئی نہیں آتا۔ پچھلے ایک گھنٹے میں ایک بھی گاڑی یہاں سے نہیں گزری۔‘‘ کالی جیکٹ والے نے اطمینان دلایا۔ مفلر والے نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر انجن اسٹارٹ کیا ۔ ایک گھنٹے کے بعد انھوں نے روشنی محسوس کی، اسی لئے روشنی سے دوستی کرنے میں ان کی آنکھوں کو کچھ وقت لگا۔ روشنی سے آنکھیں مانوس ہونے کے بعد وہ دونوں گاڑی کی ڈگی کی طرف بڑھے اور سفید چادر میں لپٹی لاش کو باہر نکالنے لگے۔
خون کے دھبے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ چادر میں سموئے وجود کو کسی نے بہت بے رحمی سے قتل کیا ہے یا اس کے ساتھ کوئی سنگین حادثہ پیش آیا ہے۔ وہ ابھی لاش کو نکال ہی رہے تھے کہ کہیں دور سے انھیں ایک پولیس جیپ کی ہیڈ لائٹس اپنی طرف بڑھتی نظر آئیں ۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھ پاتے۔ جیپ میں سے چند پولیس والے باہر نکلے اور ان پر پستولیں تان کر بولے
اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دو، اور خبردار بھاگنے کی کوشش کی۔ وہ دونوں بے چارگی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف اس انداز سے دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں ۔
کھیل ختم ہو گیا۔
٭
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ایک ہی بار کوئی لمبا ہاتھ مارا جائے۔ آخر کب تک چھوٹے چھوٹے فراڈ اور چوریاں کرتے رہیں گے؟  جمال نے اپنے گلاس میں مشروب ڈالتے ہوئے کہا۔
لمبے ہاتھ میں خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے، اور اگر پکڑے جائیں تو جیل بھی لمبی ملتی ہے۔  اعجاز نے منہ بناتے ہوئے کہا اور اپنا گلاس اٹھا کر گھونٹ بھرنے لگا۔
اگر پلان اچھا اور مضبوط ہو تو کوئی بھی نہیں پکڑ سکتا۔ میں جمال کے ساتھ ہوں۔
اعجاز کا چھوٹا بھائی شہباز  جمال کی حمایت میں بولا۔ وہ تینوں پیشہ ور مجرم تھے اور چھوٹے موٹے فراڈ کر کے پیسہ کماتے تھے۔
بظاہر جمال، ملک کے ایک مشہور سیاستدان شفقت علی خان کا ڈرائیور تھا لیکن صرف ڈرائیوری کی نوکری سے بھلا کہاں عیاشی کی جا سکتی تھی، اسی لیے موقع ملنے پر وہ اپنے ساتھ اعجاز اور شہباز کو ملا کر چھوٹی موٹی وارداتیں کرتا رہتا تھا۔
آج بھی وہ کافی دنوں بعد ایک ساتھ اکٹھے ہوئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد اب مشروب پینے کا وقت تھا ابھی کچھ دن پہلے انھوں نے ایک لاکھ روپے کمائے تھے اور اسی ایک لاکھ روپے کمانے کی دعوت اڑائی جا رہی تھی۔
تمہارے پاس کوئی منصوبہ ہے؟  اعجاز نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔ ایک زبردست منصوبہ ہے۔  جمال نے ہلکے ہلکے نشے میں سرور بھرے انداز میں کہا۔
کیسا منصوبہ؟ شہباز نے اپنے خالی گلاس کو دیکھتے ہوئے کہا اور بوتل پکڑ کر دوبارہ سے اپنا جام بنانے لگا۔
بتاتا ہوں۔  جمال نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر اپنا منصوبہ بتانے لگا۔
٭
وہ اتوار کا ایک سرد د ن تھا۔ صبح کا آغاز قاتل دھند کے ساتھ ہوا تھا۔ اب دوپہر کے تین بج رہے تھے لیکن گھر سے باہر قدم نکالو تو ایسا گمان ہوتا تھا کہ جیسے ابھی صبح صادق چڑھا ہو.
سفید کرولا پورچ میں کھڑی تھی۔ جمال گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا لان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وسیع لان میں موجود درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے۔ بہار کی آمد کے انتظار میں ہر روز شاخیں مردہ پتے اپنے وجود سے الگ کر دیتی تھیں، جیسے وہ ان پر بوجھ ہوں ۔
کالا ٹراؤزر، نیلی شرٹ اور کالی لیدر جیکٹ پہنے اٹھایئس، انتیس سالہ خوبصورت نوجوان اندرونی حصّے سے باہر نکلا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک کالا بیگ اور دوسرے ہاتھ میں ٹینس ریکٹ تھا۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ٹینس کھیلنے جا رہا ہے۔ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر وہ اندر بیٹھا اور جمال کی طرف دیکھ کر بولا
جی جمال بھائی! چلیں، آج تھوڑا لیٹ ہو گیا میں۔ دوست احباب انتظار کر رہے ہیں۔  ارسلان، شفقت علی خان کا بیٹا تھا ۔ کاروبار کے علاوہ ان کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی وہ ساتھ ساتھ ہوتا۔ ہر اتوار کو وہ ٹینس کھیلنے ایک اسپورٹس کلب جاتا تھا۔ دو ماہ پہلے ارسلان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ تب سے شفقت صاحب نے اسے گاڑی چلانے سے منع کر دیا تھا اور اب جمال ہی اس کی گاڑی ڈرائیو کرتا۔
آج تو کافی سردی ہے ارسلان بابو۔  جمال نے گاڑی مین روڈ کی طرف موڑتے ہوئے کہا۔
ہاں۔۔۔۔ سردی تو ہے۔  مختصر جواب دینے کے بعد ہمیشہ کی طرح ارسلان نے اپنے موبائل کی بلو ٹوتھ کانوں سے لگائی اور آنکھیں بند کر کے کوئی گانا سننے لگا۔
دوران سفر یہ ارسلان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کچھ آگے جا کر جمال نے بیک مرر سے ارسلان کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی بھی آنکھیں موندھے سیٹ سے ٹیک لگائے دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا۔ جمال تھوڑا سا مسکرایا اور ایک سائیڈ پر گاڑی روک لی۔ اعجاز اور شہباز پہلے سے ہی ان کا انتظار کر رہے تھے۔
جیسے ہی جمال نے گاڑی روکی، دونوں دایاں اور بایاں دروازہ کھول کر جلدی سے اندر بیٹھ گئے۔ ارسلان آنکھیں بند کیے گانا سننے میں اتنا محو تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہو سکا کہ اس کے دائیں اور بائیں دو آدمی بیٹھ چکے ہیں۔ حقیقت اس پر تب آشکارا ہوئی جب اعجاز  نے اس کے ناک پر ایک رومال لگایا اور اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
٭
جب ارسلان کو ہوش آیا، اس نے خود کو ایک کمرے میں قید پایا۔ اس کے پاؤں ایک مضبوط لوہے کی زنجیر کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ زنجیر کی لمبائی قریب دس فٹ لمبی تھی۔
اس نے ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ وہ پرانی طرز کا ایک کمرا تھا۔ فرنیچر کے نام پر چار کرسیاں اور ایک میز تھی۔ دیواروں پر کسی زمانے میں مالک مکان نے سفید رنگ کروایا ہو گا، جو اب وقت کے ساتھ ساتھ بد نما ہو چکا تھا۔ کمرے میں دو دروازے نظر آ رہے تھے۔ ایک بڑا دروازہ یقینا کمرے کا داخلی دروازہ ہو گا اور ایک نسبتاً چھوٹا دروازہ جو غالباً ملحقہ باتھ روم کا دروازہ تھا۔
وہ چھوٹے دروازے کے ساتھ ہی بندھا تھا۔ یقیناً اسے وہاں باندھنے والوں نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ وہ آسانی سے باتھ روم جا سکے اور انھیں بار بار اس کی رسیاں نہ کھولنی پڑیں۔ ذہن پر زور ڈالنے کے بعد اسے سب سمجھ میں آنے لگا۔
تو یعنی مجھے اغوا کر لیا گیا۔ اور وہ بھی ہمارے پرانے ملازم نے۔ ارسلان نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور خود کو زنجیر سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کوشش بے سود گئی۔
جمال، جمال ۔۔۔۔ کمینے دھوکے باز ! کہاں ہو تم ؟  اب وہ زور زور سے چلانے لگا۔ شور سن کر جمال اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
تو ہوش آ گیا ارسلان بابو کو؟ جمال نے ارسلان کی طرف دیکھ کر کہا۔
ہاں۔۔۔۔ اب ہوش آیا۔ آستین کے سانپ کو اپنے سامنے دیکھ کر سب ہوش آ گیا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ تم ایسا کرو گے۔
بابو! آخر کب تک آپ کے گھر پندرہ بیس ہزار کی نوکری کرتا رہوں۔ مجھے بھی پیسہ کمانا ہے۔ امیر آدمی بننا ہے۔ میرے بھی کچھ ارمان ہیں۔
جیل جا کر تمہارے ارمان پورے ہو جائیں گے۔ میرا باپ اور پولیس تمہیں چھوڑیں گے نہیں۔
ارسلان کے لہجے میں نفرت تھی۔
ارمان کا تو پتا نہیں، پر تاوان ہم ضرور حاصل کریں گے وہ بھی ایک کروڑ روپے۔
تم چاہے پیسہ حاصل کر بھی لو لیکن بعد میں پولیس تمہیں ڈھونڈ نکالے گی ۔ تم نے ایک سابق وفاقی وزیر کے بیٹے کو اغوا کیا ہے۔
یہ بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی تو میں تمہارے باپ کو فون کر کے تمہارے بارے میں اطلاع دینے جا رہا ہوں۔
پھر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔
میں شہر جا کر کسی پی سی او سے کال کر کے اس کے باپ سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کرو ں گا۔ پچاس لاکھ میرے اور پچاس لاکھ تم دونوں کے۔ دوسرے کمرے میں جا کر جمال نے کہا۔
کیا مطلب؟ پیسہ تینوں میں برابر تقسیم کیوں نہیں ہو گا؟ شہباز ، جمال کی بات سن کر حیران ہو گیا۔
یہ تم اپنے بھائی سے پوچھو۔ وہ اس تقسیم پر راضی ہے۔
جمال! کا کہنا ہے کہ یہ پلان اس کا ہے۔ پولیس کو پتا چل جائے گا کہ ارسلان کو جمال نے اغوا کیا ہے۔ اس کے لئے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہے۔ ہم دونوں کو تو کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم محفوظ ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی ؟ اگر جمال پکڑا گیا تو ہم بھی پکڑے جائیں گے۔ خطرہ سب کے لئے برابر ہے۔
شہباز، اعجاز کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوا تھا۔
یہ بات میں پہلے ہی اعجاز کو سمجھا چکا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پیسے کے دو حصّے ہوں گے۔
ایک میرا اکیلے کا اور ایک تم دونوں کا اور یہ کرولا گاڑی بھی میری ہو گی۔میں اس میں کچھ تبدیلیاں کر کے بیچ دوں گا۔ یہ بات بھی اعجاز جانتا ہے۔
جمال کا لہجہ اب سخت تھا۔ شہباز، اعجاز کی طرف ناپسندیدہ نظروں سے گھور رہا تھا۔
اب میں جا رہا ہوں۔ گاڑی یہاں ہی کھڑی رہے گی۔ میں بائیک پر ہیلمٹ پہن کر جاؤں گا تا کہ کسی کی پہچان میں نہ آ سکوں۔
شفقت علی سے ایک کروڑ کی ڈیمانڈ کروں گا اور کل دن دس بجے دوبارہ کال کرنے کا کہوں گا۔
اتنا کہہ کر جمال باہر نکل گیا۔ اس گفتگو کی آواز اتنی بلند تھی کہ دوسرے کمرے میں موجود ارسلان سب سن رہا تھا۔ ان تینوں کا یہ جھگڑا دیکھ کر اس کا دماغ ایک پلان ترتیب دینے لگا۔
٭
اتوار کے دن شفقت صاحب اپنی سیاسی اور کاروباری سرگرمیاں معطل کر کے گھر میں فیملی کے ساتھ ہی وقت گزارتے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھے شام کی چائے پی رہے تھے کہ اچانک ا ن کے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
نمبر غیر مانوس تھا۔ پہلے تو انھوں نے سوچا کہ گھنٹی بجنے دوں۔ اکثر میڈیا اور دوسرے حضرات بلاوجہ فون کر کے تنگ کرتے رہتے تھے اور انھیں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے؟  بیگم شفقت نے پوچھا۔ شفقت علی نے ناگواری سے اپنی بیگم کی طرف دیکھا اور چائے کا مگ میز پر رکھ کر فون اٹھا کر کال ریسیو کی۔
ہیلو۔
شفقت صاحب ! بات غور سے سنیں۔ ارسلان بابو کو ہم نے اغوا کر لیا ہے ۔ اگر آپ اسے دوبارہ زندہ سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک کروڑ روپے کا انتظام کر لیں ۔ میں کل صبح دس بجے دوبارہ فون کروں گا اور بتاؤں گا کہ پیسہ کب اور کہاں لے کر آنا ہے۔ دوسری طرف سے جمال نے فلمی انداز میں اطلاع دی۔
کک۔۔۔ کون ہو تم؟ آواز تو جانی پہچانی سی لگتی ہے۔ ارے تم تو جمال ہو۔ ارسلان تو تمہارے ساتھ ہی کلب گیا تھا۔
جی جناب!صحیح پہچانا۔ آپ کا پرانا خادم ، جمال۔ ایک بات اور، پولیس کو اطلاع کرنے کی غلطی مت کرنا۔ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ اتنا کہہ کر جمال نے فون رکھ دیا۔
جمال نے ارسلان کو اغوا کر لیا ہے اور بدلے میں ایک کروڑ روپے مانگے ہیں۔  شفقت علی نے اپنی بیگم کو غم زدہ لہجے میں بتایا۔ فون پر کی گئی گفتگو سے ہی بیگم شفقت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ چائے کا مگ ان کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا۔ وہ پریشان لہجے میں کہنے لگیں۔
کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ جمال ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ وہ تو اس گھر کے ایک فرد جیسا ہے۔
کیا بتاؤں۔۔۔۔ ہمیشہ آستین میں چھپا سانپ ہی ڈنک مارتا ہے۔ اتنا کہہ کر شفقت علی کال ملانے لگے۔
کسے فون کر رہے ہیں؟
اے ایس پی سجاد بابر کو۔ نمبر مل چکا تھا۔
لیکن پولیس کو بتانے پر کہیں جمال ہمارے بیٹے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔
تو کیا میں ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہوں؟ اتنے میں اے ایس پی سجاد نے کال ریسیو کرلی تھی۔
شفقت صاحب ! ہم دس منٹ میں آپ کے گھر پہنچ رہے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں۔ تفصیلات جاننے کے بعد اے ایس پی سجاد نے کہا اور نفری تیار کر کے شفقت علی کے گھر پہنچ گئے۔
سب سے پہلے آپ ہمیں جمال کا فون نمبر، اس کی تصویر اور گاڑی کی تفصیل دیں اور بے فکر ہو جائیں۔ رات سے پہلے پہلے ڈھونڈ نکالوں گا ۔
اے ایس پی سجاد نے کافی عجلت میں شفقت علی سے بات کی۔ انھوں نے ملازم کو اشارہ کیا۔ ملازم تمام تفصیلات سب انسپکٹر کو لکھوانے لگا۔ جما ل کی تصویر بھی دے دی۔
وسیم! جس نمبر سے کال آئی ہے وہ نمبر بھی نوٹ کر لو۔  اے ایس پی سجاد نے وسیم سے کہا۔
اے ایس پی صاحب! میرا ارسلان مل جائے گا نا؟ اسے کچھ ہو گا تو نہیں نا؟
بیگم شفقت کی آنکھیں آنسوئوں سے بھیگ چکی تھیں۔
محترمہ! آپ بے فکر ہو جائیں، ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔  تمام تفصیلات حاصل کرنے کے بعد اے ایس پی سجاد اپنے اسسٹنٹ انسپکٹر وسیم کو ہدایات دینے لگے۔
’’وسیم! سب سے پہلے یہ جس نمبر سے جمال کی کال موصول ہوئی اس کے بارے میں پتا لگوائو، کال کہاں سے کی گئی۔ پھرجمال اور ارسلان کے موبائلوںکی لاسٹ لوکیشنز کا پتا لگوائو۔ یہ پوش ایریا ہے۔ کالونی سے باہر نکلتے ہی مین روڈ پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، ان کیمروں کی فوٹیج حاصل کرکے گاڑی کو ٹریس کرنے کے کوشش کرتے ہیں۔
سر! جمال اور ارسلان دونوں کے موبائل بند ہیں۔ وسیم نے جیپ میں بیٹھنے کے بعد بتایا۔
وہ تو بند ہی ہوں گے۔ اسی لئے کہا کہ لاسٹ لوکیشنز کا پتا چلاؤ کہ نمبر کہاں جا کر بند ہوئے۔
سر! لگتا ہے جمال ہوشیار آدمی ہے۔ ورنہ اتنے مشہور سیاستدان کے جوان بیٹے کو اغوا کرنے کی ہمت نہ کرتا۔
وسیم نے کہا۔
وسیم! مجرم جتنا مرضی ہوشیار ہو جائے، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سراغ لازمی چھوڑ جاتا ہے۔ یا پھر جرم کو چھپاتے ہوئے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کر بیٹھتا اور پکڑا جاتا ہے۔ بس تفتیش کا رخ صحیح ہونا چایئے۔ مجرم خود آپ کے سامنے ہو گا۔
جلد ہی وہ پولیس کنٹرول روم میں موجود تھے ۔ وہاں کے عملے کو صورتِ حال بتا کر سفید کرولا کی تفصیل اور فوٹو دکھا کر گاڑی ٹریک کرنے کا کہا گیا۔
٭
شام کے چھے بج چکے تھے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ آج سارا دن آسمان پر سرمئی بادل راج کرتے رہے۔ اسی لئے سورج کی تپش میں شدّت نہ تھی۔ اپنی ناکامی پر شرمندہ تعبیر سورج اس امید سے مغرب میں کہیں چھپ چکا تھا کہ کل کا دن اس کے راج کا دن ہو گا۔ کل وہ اپنی گرم گرم کرنوں سے زمین کے مکینوں کو گرمائے گا۔ لوگ چھت پر بیٹھ کر مزے مزے سے مالٹے اور ڈرائی فروٹ کھائیں گے۔ پنچھی بھی اپنے اپنے گھروں کو ہو لئے تھے۔ سڑکوں پر آوارہ بلیاں اور کتے بھی گرم مسکن کی تلاش میں تھے۔
جمال کو گئے کافی دیر گزر چکی تھی۔ اعجاز اور شہباز بھی اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ جمال کے جانے کے کافی دیر بعد تک دونوں بھائیوں میں تاوان کی رقم کی تقسیم پر جھگڑا ہوا تھا۔ شہباز بضد تھا کہ رقم کے تین حصّے ہونے چاہیں۔
ایک بات کا جواب دو۔ ارسلان نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
کیا بات ہے؟ جلدی بولو۔  شہباز نے منہ بنا کر پوچھا۔
تم میرے باپ سے ایک کروڑ مانگو  گے۔ پچاس لاکھ تو جمال لے اڑے گا اور تم دونوں کے حصے پچیس پچیس لاکھ آئیں گے۔ کرولا بھی دس لاکھ روپے تک بک جائے گی۔
ہاں تو؟  شہباز، ارسلان کی بات غور سے سننے لگا۔
میرے پاس ایک پلان ہے۔ اگر تم دونوں چاہو تو تم دونوں ایک کروڑ دس لاکھ یعنی پچپن پچپن لاکھ کما سکتے ہو۔
کیسا پلان؟  شہباز ، ارسلان کی بات سمجھ رہا تھا۔ اعجاز بھی اب متوجہ ہو چکا تھا۔
جمال کے قتل کا پلان۔ ابھی جب جمال واپس آئے گا تم دونوں بھائی مل کر اس کا خون کر دو۔ کب تک اس کی سنتے رہو گے ؟ آگے بڑھو اور بہادری دکھاؤ۔  ارسلان دونوں کو قتل کرنے کے لئے ایسے قائل کر رہا تھا جیسے آج کل کے موٹیویشنل اسپیکرز عام عوام کو موٹیویٹ کرتے ہیں۔
کیا بات کرتے ہو تم؟ ہم قاتل نظر آتے ہیں تمہیں؟یہ ٹھیک ہے کہ ہم چھوٹی موٹی چوریاں یا فراڈ کر لیتے ہیں۔ آج پہلی بار اغوا بھی کیا۔ لیکن ہمیشہ جمال کا ہی پلان ہوتا ہے۔ وہ پہلے واردات کے لئے مضبوظ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ ہر پہلو پر نظر رکھتا ہے اسی لیے اکثر اوقات وہ آدھا حصّہ خود رکھتا ہے اور باقی کا آدھا ہمیں دیتا ہے، لیکن قتل۔۔۔۔۔  اعجاز نے بات ادھوری چھوڑی۔
تو ٹھیک ہے ۔ جیسے جمال نے ہمیں دھوکا دیا، ویسے ہی تم دونوں کو بھی دھوکا دے کر بھاگ جائے گا۔ یا تم دونوں کا ہی قتل کر دے گا۔
تمہیں ہماری فکر کیوں ہو رہی ہے؟
مجھے تم دونوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہو رہی۔ میری طرف سے تم کل کے مرتے آج مرو۔ مجھے بس جمال پر غصّہ آ رہا ہے۔ اس نے ہمارا اعتبار توڑا ہے۔ دس سال ہمارا نمک کھانے کے بعد نمک حرامی کی ہے۔
ارسلان کے لہجے میں اب پھر سے نفرت تھی۔
بھائی! یہ لڑکا بات ٹھیک کر رہا ہے۔ جمال صرف پیسے کا بھوکا ہے ۔ وہ ہمیں کبھی بھی دھوکا دے سکتا ہے ، جان سے بھی مار سکتا ہے۔  شہباز نے ارسلان کی تائید کی۔
لیکن وہ کیسے ہمیں مار سکتا ہے؟  اعجاز نے جھنجھلاتے ہوئے پوچھا۔
کیا پتا کھانے میں زہر ملا دے یا تم دونوں کو سوتے میں قتل کر دے یا جیسے ہی وہ واپس آئے ایک ایک گولی تم دونوں کے سر میں مار دے۔  ارسلان کی باتوں سے دونوں ڈر گئے۔
اپنی جان بچانے کے لئے کسی کو مارنا قتل نہیں کہلاتا۔ اگر آج ہم  نے اسے نہیں مارا تو شاید کسی اور دن وہ ہمیں مار دے گا۔ شہباز نے کھوئے کھوئے انداز میں اعجاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے گیا۔ ارسلان ان کو جاتا دیکھ کر مسکرانے لگا اور سمجھ گیا کہ تیر ٹھیک نشانے پر لگا ہے۔ اب اسے جمال کا انتظار تھا پھر یہ کھیل اور دلچسپ ہو جاتا۔
٭
پولیس کنٹرول روم میں اے ایس پی سجاد اپنے عملے کے ساتھ موجود تھے۔ پچھلے ایک گھنٹے کی محنت کے بعد وہ کافی کچھ معلوم کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
سر! جس نمبر سے جمال نے تاوان کی رقم کے لئے کال کی تھی وہ نمبر ٹریس ہو گیا ہے۔  انسپکٹر وسیم  نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اطلاع دی۔
بہت خوب۔۔۔۔ کہاں کا نمبر ہے؟
سلطا ن روڈ کا کوئی پی سی او ہے۔
مجھے یہی امید تھی کہ کال ایسے ہی کسی پی سی او سے کی گئی ہو گی۔سلطان روڈ شہر سے باہر جاتی ہے نا؟  اے ایس پی سجاد نے پوچھا۔
جی جناب۔ جس جگہ سے کال کی گئی اس سے پانچ کلومیٹر کے بعد شہر کی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
وسیم نے تائید کی۔
سر ہم  نے کرولا بھی ٹریس کر لی ہے۔  سی سی ٹی وی آپریٹر کی آواز سنائی دی۔
زبردست۔۔۔۔۔کیا معلوم ہوا؟
اسر! شفقت علی کی رہائش گاہ کے بعد پہلا کیمرا سرمد روڈ کے اشارے پر نصب ہے۔ وہاں سے گاڑی گزرتی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرے اشارے کے قریب گاڑی رک جاتی ہے اور دو لڑکے سوار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد گاڑی سلطان روڈ پر آ جاتی ہے۔ اور شہر سے باہر کے ٹول پلازہ کو کراس کر جاتی ہے۔
ٹول پلازہ کراس کرنے کے بعد کوئی بھی سی سی ٹی وی کیمرا نصب نہیں ہے۔ اس لیے اس کے بعد گاڑی کہاں گئی؟ اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔
اس ٹول پلازہ کے بعد اگلا ٹول پلازہ کتنے کلومیٹر کے بعد ہے؟
تقریباً تیس کلو میٹرکے فاصلے پر۔ وسیم نے جواب دیا۔
وسیم! اس ٹول پلازہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرو اور ریکارڈ سے پتا چلاؤ کہ کیا سفید کرولا  نے اگلا ٹول پلازہ کراس کیا؟ اے ایس پی سجاد نے ہدایت دی۔
جی بہتر جناب۔ وسیم نے فوراً جواب دیا۔
اور یہ جو دو لڑکے سوار ہوئے ہیں، ان کے چہرے پر زوم کرو اور اپنے ریکارڈ میں دیکھو۔ شاید کوئی پرانا ریکارڈ موجود ہو۔ اے ایس پی سجاد نے سی سی ٹی وی آپریٹر سے کہا۔
کچھ دیر بعد وسیم ان کے پاس آیا اور بولا
سر! دوسرا ٹول پلازہ کراس نہیں کیا گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ دونوں ٹول پلازوں کے درمیان اس تیس کلو میٹر میں ہی کہیں موجود ہیں۔
سر! جمال کے دونوں ساتھیوں کا ریکارڈ مل گیا ہے۔ وہ دونوں بھائی ہیں۔ اعجاز رفیق اور شہباز رفیق۔
دونوں چھوٹی موٹی وارداتوں میں پہلے بھی جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔
ہوں۔۔۔۔ اس بار لمبا ہاتھ مارنے کی سوچ رہے ہیں۔
سر ! اب آگے کیا کرنا ہے؟ وسیم نے پوچھا۔
دونوں شہروں کے درمیان یہ تیس کلو میٹر کی بیلٹ میں ہی وہ کہیں چھپے بیٹھے ہیں۔ شہر سے باہر نکلتے ہی چند چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں اور پھر اس کے بعد گھنا جنگل اور چند پہاڑی سلسلے۔ لوکل پولیس کو تمام ریکارڈ بھیجو اور ان سے کہو کہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھیں۔
آس پاس کے دیہاتوں کی کڑی نگرانی کریں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم انھیں موبائل یا فون کال سے ٹریس کر سکتے ہیں۔ اسی لئے وہ لوگ رابطہ کرنے کے لئے پھر سے شہر آئیں گے۔ اس کے علاوہ آج ساری رات ہم بھی اس جنگل میں گشت کریں گے۔ اے ایس پی سجاد اپنے عملے کو اگلا لائحہ عمل بتانے لگے۔
ٹھیک ہے سر۔
اور جس پی سی او سے کال کی گئی تھی، اس کی بھی نگرانی کرواؤ۔ شاید وہ کل دوبارہ وہاں کال کرنے آئے۔
سر! ایک بات ابھی ابھی پتا چلی ہے کہ اعجاز اور شہباز کی پرانی رہائش اسی علاقے کے ایک گاؤں میں ہے۔
سب انسپکٹر نے بتایا۔
بہت خوب۔۔۔۔ لوکل پولیس کو اطلاع دو کہ وہ نفری تیار کر کے ان کی رہائش پر چھاپا ماریں۔ ہو سکتا ہے، وہ وہاں مل جائیں۔
سر! باہر میڈیا والے کافی دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔ ایک کانسٹیبل نے بتایا۔
وہ تو کریں گے ہی۔ چلو ان میڈیا والوں کو جواب دیں۔  اتنا کہہ کر اے ایس پی سجاد کمرے سے باہر نکل گئے۔
٭
شام کے سات بجے کے قریب جمال کمرے میں داخل ہوا اور ارسلان کو دیکھتے ہی بولا
تمہارے باپ سے بات ہو گئی ہے۔ وہ ایک کروڑ روپے دینے کے لئے تیار ہے۔
میں جانتا تھا کہ وہ تاوان بھرنے کی حامی بھر لیں گے۔  ارسلان نے اطمینان سے کہا۔
اتنا یقین ہے اپنے باپ پر؟ جمال نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
کیا نہیں ہونا چاہیے؟ الٹا ارسلان نے جمال سے پوچھا۔ اس کی بات سن کر جمال عجیب انداز میں مسکرایا اور اپنی جیب سے ایک دوسرا موبائل نکال کر ایک نمبر ملانے لگا۔
اپنا موبائل اور ارسلان کا موبائل پہلے ہی کہیں چھپا چکا تھا تا کہ پولیس لوکیشن ٹریس نہ کر سکے۔ سلسلہ ملتے ہی جمال نے لائوڈ اسپیکر آن کر دیا اور وہ کچھ دیر بات کرتا رہا۔ اسپیکر آن کرنے کا مقصد شاید ارسلان کو کچھ سنانا تھا۔ فون بند کرنے کے بعد وہ ارسلان سے کچھ دیر بات کرتا رہا ۔ جلد ہی اعجاز اور شہباز بھی کمرے میں آ گئے۔ ان کو آتا دیکھ کر جمال  نے پوچھا۔
تم دونوں کہاں تھے؟
دوسرے کمرے میں تھے پر تمہارے آنے کا پتا ہی نہیں چلا۔  اعجاز نے جواب دیا۔
شفقت علی پیسہ دینے کے لئے مان گیا ہے۔ کل دس بجے میں اسے دوبارہ فون کر کے ملنے کا مقام اور وقت بتاؤں گا۔ میں پیسہ حاصل کرنے کے بعد تمہیں فون کروں گا۔ تم ارسلان کو بے ہوش کر نا اور مقررہ جگہ لے کر پہنچ جانا۔
ٹھیک ہے۔ شہباز نے جواب دیا۔
اور ہاں میں تم لوگوں کے لئے کھانا بھی لے آیا ہوں ۔ تم دونوں کھا لو ۔ باہر میز پر رکھا ہے اور ارسلان کے لئے یہ رہا۔ کمرے میں آتے ہوئے وہ ایک پلاسٹک بیگ لے کر آیا تھا جو اس نے میز پر رکھ دیا تھا۔
’’کیوں تم نہیں کھاؤ گے؟  شہباز نے مسکرا کر پوچھا۔
نہیں یار! ابھی بھوک نہیں۔ تم لوگ کھا لو۔ جو بچ جائے گا میں کچھ دیر بعد وہی کھا لوں گا۔ تھک گیا ہوں ابھی تھوڑا آرام کروں گا۔
جمال نے مسکرا کر کہا اور کمرے سے باہر نکلنے لگا۔ اعجاز اور شہباز کو ارسلان کی کچھ دیر پہلے کی گئی بات یاد آنے لگی۔
سکتا ہے وہ تمہارے کھانے میں زہر ملا کر تم دونوں کو مار ڈالے۔
اب شہباز کے لئے فیصلہ کرنا نہایت آسان ہو گیا تھا۔ اس  نے اپنی جیب سے پستول نکالا اور ایک آواز لگائی۔
اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبر میں آرام کرنا۔
اس سے پہلے کہ جمال، شہباز کی بات سمجھ سکتا وہ ٹریگر دبا چکا تھا۔ کمرا فائر کی آواز سے گونج اٹھا۔ جمال کے منہ سے ایک دردناک چیخ نکلی۔
گولی سینے میں لگی تھی۔ خون کا ایک فوارہ اس کے سینے سے بہنے لگا۔ شہباز نے ایک اور گولی چلا دی جو جمال کے پیٹ میں لگی اور وہ زمین پر گر گیا۔ اس کی حیرت زدہ آنکھیں اس سوال کا جواب مانگ رہی تھیں کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیوں اس کی زندگی کی شمع بجھا دی گئی؟
ہم جانتے ہیں جمال میاں، تم ہم دونوں کو مار کر ساری رقم خود ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔
شہباز  نے جمال کے قریب جا کر کہا۔ کچھ دیر کمرے میں موت کی سی خاموشی رہی۔ آخر کار اعجاز کی آواز سنائی دی۔
آج ہم قاتل بن گئے۔  اعجاز نے کھوئے کھوئے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اس کی نظریں ابھی بھی جمال کی لاش پر جمی ہوئی تھیں۔
یہ مر گیا۔ اب اس کی لاش کا کیا کریں۔
ابھی رات سنسان ہونے کا انتظار کرو۔ رات گیارہ بارہ بجے قریبی جنگل میں جا کر اس نمک حرام کی لاش دفنا دینا۔ ارسلان نے اعجاز کے سوال کا جواب دیا۔
اگر پکڑے گئے تو؟
اتنی شدید سردی میں رات کے اس وقت کوئی بھی نظر نہیں آئے گا۔ تم بے فکر رہو۔  ارسلان نے جواب دیا۔ پھر ان دونوں نے جمال کی لاش کو ایک سفید چارد میں لپیٹا۔ زمین پر موجود خون صاف کیا ۔ گاڑی میں کچھ ضروری سامان رکھا اور رات بارہ بجے کے قریب جمال کی لاش اسی سفید کرولا کی ڈگی میں ڈالا جسے آج دوپہر جمال چلا کر اس جگہ تک لایا تھا۔ جمال کا لایا ہوا کھانا ان تینوں میں سے کسی نے نہیں کھایا تھا۔ کیا پتا اس میں واقعی زہر ہو یا شاید نہ بھی ہو۔
٭
جیسے ہی ان دونوں نے جمال کی لاش کو ڈگی سے باہر نکالا، تیز چبھتی ہوئی روشنی ان کی آنکھوں سے ٹکرائی۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں محتاط ہوتے، پولیس جیپ میں سے چند پولیس والے ہاتھوں میں پستولیں پکڑے باہر نکلے۔
’’ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دو، اور خبردار بھاگنے کی کوشش کی۔
اے ایس پی سجاد کی آواز گونجی۔ وہ ایک نظر میں ہی سارا معاملہ سمجھ گئے۔ اعجاز اور شہباز ان کے سامنے تھے اور سفید چادر میں لپٹی لاش یقینا جمال یا ارسلان میں سے کسی ایک کی تھی۔
یہ لاش کس کی ہے ؟
جج۔۔۔۔۔ جم ۔۔۔۔جمال کی۔ شہباز نے لڑکھڑاتی زبان سے جملے ادا کئے۔ جو اس وقت میرون مفلر گلے میں لپیٹے ہوا تھا۔
اوہ ۔۔۔۔ تو تم دونوں بھائیوں نے جمال کا خون کر دیا اور اب لاش دفنانے یہاں آ گئے۔
اے ایس پی سجاد نے جمال کی لاش سے کپڑا اٹھا کر چہرہ دیکھ کر کہا۔ اٹھے ہوئے ہاتھ اور جھکے ہوئے سر اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ اے ایس پی سجاد کا اندازہ صحیح ہے۔
ارسلان کہاں ہے ؟
ہم۔۔۔۔۔ہماری قید میں۔ اعجاز کی مر ی مری آواز سنائی دی۔ وہ کالی جیکٹ میں تھا۔  دونوں کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ انھی کی نشاندہی پر ارسلان کو بھی بازیاب کروا لیا گیا۔ جمال کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے فرانزک لیب بھجوا دی گئی۔
مان گئے سر آپ کو۔ آٹھ گھنٹوں میں ہی مجرم گرفتار کر لئے۔ وسیم  نے اے ایس پی سجاد کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔وہ صرف مسکرا دیے۔
لیکن سر! ایک بات سمجھ نہیں آئی ۔ آپ کو کیسے اندازا ہوا کہ وہ رات کے اس پہر ہمیں یہاں ملیں گے؟
یہ پیسے کی ہوس بہت بری چیز ہوتی ہے وسیم صاحب۔ جب مجھے پتا چلا کہ جمال نے اپنے ساتھ دو بھائی ملا کر اغوا کا منصوبہ بنایا ہے اور بطور تاوان ایک کروڑ روپے مانگے ہیں تو مجھے ایک خیال آیا کہ کہیں دونوں بھائی مل کر جمال کا خون نہ کر دیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑی رقم ملنے کے بعد یا ملنے کی امید پر ہی ساتھی ایک دوسرے کا خون کر دیتے ہیں۔ میری چھٹی حس نے مجھے یہ احساس دلا دیا کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔ کیونکہ اس بار تو دوسگے بھائی ہیں۔ ان کے لئے تیسرے کا خون کرنا آسان ہو گا۔ اور اگر خون کر دیا تو لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے وہ لوگ جنگل میں ہی آئیں گے۔  اے ایس پی سجاد نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
لیکن اگر ایسا نہ ہوتا؟ وہ دونوں جمال کا قتل نہ کرتے ؟
تو کل جب انھوں  نے پیسہ لینے شفقت علی سے ملنا تھا، ہم  نے تب گرفتار کر لینا تھا۔
جو بھی ہوا اچھا ہوا۔ ایک مجرم مارا گیا، قتل اور اغوا کرنے والے دونوں بھائی گرفتار ہو گئے۔ ارسلان بھی بازیاب ہو گیا۔  وسیم نے خوش ہو کر کہا۔
پولیس ریکارڈ میں موجود اعجاز اور شہباز کے پتے پر پولیس نے چھاپا مارا، لیکن اب اس گھر میں کوئی نہیں رہتا تھا۔ راستے میں انھوں نے شفقت علی کو فون کر کے خوشخبری بھی سنا دی اور انھیں معمولی رسمی کارروائی کے لیے تھانے بلا یا گیا۔ تا کہ وہ ارسلان کو اپنے ساتھ واپس گھر  لے جا سکیں۔
٭
کہاں ہے میرا بیٹا؟ جیسے ہی شفقت صاحب تھانے پہنچے۔ زور دار آواز سنائی دی۔ میڈیا کو بھی ارسلان کی بازیابی کی اطلاع مل چکی تھی۔ وہ بھی تھانے کے باہر موجود تھے۔
ارسلان کو دیکھ کر شفقت صاحب نے اپنے گلے لگایا اور پوچھا
تم خیریت سے ہو نا، انھوں نے مارا پیٹا تو نہیں ؟
نہیں ۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں، آپ بے فکر رہیں۔ ارسلان نے سرد لہجے میں جواب دیا جسے شفقت صاحب کے علاوہ اے ایس پی سجاد نے بھی محسوس کیا۔
کیا ہوا، ایسے کیوں بات کر رہے ہو؟ چلو گھر چلتے ہیں، تمہاری ماں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔
ٹھیک ہے شفقت صاحب! آپ ارسلان صاحب کو اپنے ساتھ گھر  لے جا سکتے ہیں۔ بس کچھ دیر میں روٹین کی کارروائی پوری ہو جائے گی۔ ہمیں صرف ارسلان کا بیان قلم بند کرنا ہے۔ اے ایس پی سجاد نے کہا۔
اے ایس پی صاحب! جمال اور اس کے ساتھی اعجاز اور شہباز نے مل کر میرا اغوا کیا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سارا منصوبہ جمال کا ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ جمال  نے کسی اور کے کہنے پر میرا اغوا کیا۔
ارسلان کی نظریں شفقت صاحب پر جمی تھیں۔
کیا کہہ رہے ہو میرے بچے۔ تمھیں کون اغوا کروانا چاہے گا؟  شفقت صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔
آپ ۔۔۔۔ میرے سوتیلے والد صاحب، آپ۔  ارسلان نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
کیا۔۔۔! کمرا کئی آوازو ں سے گونج اٹھا۔
کیا کہہ رہے ہو؟ میں ایسا کیوں کروں گا؟
تاکہ آپ میڈیا اور عوام کی نظر میں ہمدردی سمیٹ سکیں، اور اگلے ماہ ہونے والے الیکشن میں اس بات کا فائدہ اٹھا کر جیت سکیں۔
میں ایسا نہیں کر سکتا۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟ شفقت صاحب چلائے۔
اے ایس پی صاحب! جمال میرے والد کے پاس پچھلے دس سال سے کام کر رہا ہے۔ بظاہر وہ ہمارا ڈرائیور ہے ۔ لیکن حقیقت میں قتل، اغوا، بھتہ خوری جیسے جرائم کرنا اس کا کام ہے۔
آپ ایک کام کریں۔ آج شام سات بج کر پانچ منٹ پر میرے والد صاحب کو ایک نمبر سے کال آئی تھی۔ جس نمبر سے کال آئی، وہ نمبر چیک کریں۔
وہ جمال کا دوسرا موبائل ہے جو آپ کو اسی گھر سے ملا جہاں میں قید تھا اور جمال کا خون ہوا۔ آپ موبائل کی لوکیشن بھی چیک کر سکتے ہیں۔
وہ ۔۔۔۔ وہ جمال نے مجھے تاوان کے سلسلے میں فون کیا تھا۔ شفقت صاحب کی کمزور آواز سنائی دی۔
جی نہیں۔۔۔۔۔ میرے سوتیلے باپ کا اصل چہرہ دکھانے کے لیے جمال نے موبائل کا لائوڈ اسپیکر آن کر دیا تھا۔ جس میں میرے باپ نے اقرار کیا تھا کہ یہ اغوا اس کے کہنے پر ہوا اور اس سے پہلے بھی جمال ان کے لئے کئی کام کر چکا تھا۔ ثبوت کے طور پر یہ میموری کارڈ پیش کر رہا ہوں۔
اتنا کہہ کر ارسلان نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کا ایک بٹن دبایا اور ایک چھوٹا سا میموری کارڈ باہر نکالا۔ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔
بظاہر یہ ایک عام سی گھڑی لگتی ہے لیکن اس میں کیمرا ہے۔ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ بھی ہو سکتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ ایک مکمل موبائل فون ہے۔‘‘ ارسلان نے میموری کارڈ اے ایس پی سجاد کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
جب مجھے اندازہ ہوا کہ جمال مجھے کچھ خاص بات بتانا چاہتا ہے تو میں نے اس سے نظر بچا کر گھڑی میں ویڈیو ریکارڈنگ والا بٹن دبا دیا اور ہاتھ کی پوزیشن ایسی رکھی کہ بہت آرام سے ویڈیو بن گئی۔
ارسلان نے بتایا۔
اے ایس پی سجاد نے اپنے موبائل میں میموری کارڈ ڈال کر ویڈیو چلا دی۔ ویڈیو میں جمال لاؤڈ اسپیکر آن کئے کسی سے بات کر رہا تھا جو بلاشبہ شفقت علی خان کی آواز تھی۔
شفقت علی، جمال کوہدایت دے رہے تھے کہ کل پیسے  لے کر غائب ہو جانا اور اپنے دونوں ساتھیوں کو موت کی نیند سلا دینا تا کہ کوئی بھی ثبوت باقی نہ رہے۔
تم نے دس سال سے میرا خوب ساتھ دیا۔ یہ ایک کروڑ تمہارا انعام ہے۔ کل پیسے  لے کر کہیں غائب ہو جانا اور اپنے باقی ساتھیوں کو بھی مار دینا۔ ارسلان کے اغوا کے ڈرامے سے میری مردہ سیاست ایک بار پھر سے زندہ ہو جائے گی اور میں اگلا الیکشن جیت جاؤں گا۔
ہمدردی کا ووٹ اس ملک میں بہت کام آتا ہے۔ جوں جوں ویڈیو چلتی جا رہی تھی، شفقت صاحب کا رنگ اڑتا جا رہا تھا۔ اب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔
شفقت صاحب! میں جانتا ہوں کہ سیاست دان الیکشن کی بازی جیتنے کے لئے بہت سی چالیں چلتے ہیں۔ آپ نے بھی کئی چالیں چلیں ہوں گی۔ لیکن آپ کی یہ چال آخری چال ثابت ہوئی جو بری طرح ناکام رہی۔
اتنا کہہ کر اے ایس پی سجاد نے کانسٹیبل کو اشارہ کیا وہ آگے بڑھا اور شفقت علی کو اٹھا کر حوالات کی طرف لے جانے لگا۔ شفقت علی نے ارسلان کی طرف اس انداز سے دیکھا جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں لیکن وہ صرف ایک عجیب سے انداز میں مسکرائے اور خاموشی سے حوالات کی طرف بڑھنے لگے۔ پھر اچانک مڑ کر اے ایس پی سجاد سے کہنے لگے۔
میں قانون کا احترام کرنے والا شہری ہوں۔ آج کچھ نہیں بولوں گا، مگر اس ویڈیو کو عدالت میں پہلی پیشی میں ہی جعلی ثابت کر دوں گا۔
ارسلان نے آگے بڑھ کر اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور اے ایس پی سجاد سے اجازت  لے کر تھانے سے باہر نکل گیا۔ جہاں اسے ابھی میڈیا کے ہزاروں سوالات کے جواب دینے تھے۔
٭
رات کے تین بج چکے تھے۔ سنسان سڑک پر ارسلان اپنی سفید کرولا پر واپس گھر جا رہا تھا۔ آج کا دن اسے کبھی نہیں بھولے گا۔ پچھلے بارہ گھنٹے اس نے بہت اذیت سے گزارے تھے۔ وہ گھر جلد سے جلد پہنچ جانا چاہتا تھا جہاں اس کی والدہ اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ڈرائیو کرتے ہوئے اسے تین دن پہلے شفقت صاحب کے ساتھ کی گئی گفتگو یاد آنے لگی اور وہ سوچ کر مسکرانے لگا۔
پاپا! میں جانتا ہوں کہ آپ اس بار کے الیکشن کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ آپ کی اپنی اور آپ کی پارٹی دونوں اس بار نہایت کمزور پوزیشن میں ہیں۔
جانتا ہوں۔ شفقت صاحب  نے ایک سرد آہ بھری۔
آپ کے حریف موجودہ ایم این اے ہے، حکومت بھی ان کی ہے اور اگلی بار بھی وہ آسانی سے جیت جائے گا۔ حکومت بھی دوبارہ ان کی جماعت کی ہی بنے گی۔
یہ بات بھی جانتا ہوں۔ تم الیکشن کی مہم میں میرا ساتھ دو۔ دن رات ایک کر دو۔
دن رات ایک کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک دن کی محنت کافی ہوگی۔
ارسلان نے مسکرا کر کہا اور میز پر پڑا شفقت علی کا سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا۔
کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں۔
میرے پاس ایک پلان ہے۔ اب وہ ڈبی سے ایک سگریٹ نکال چکا تھا۔
کیسا پلان؟
الیکشن ووٹوں سے جیتا جاتا ہے اور ووٹ عقل کے صحیح استعمال سے ملتے ہیں۔ ہمیں اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنا ہو گا۔ کوئی ایسی چال چلنی ہو گی کہ ووٹ خود بخود آپ کی جھولی میں گریں، اور پھر اگلے پانچ سال آپ کی بادشاہت کے نام۔ اب وہ لائٹر پکڑ چکا تھا۔
تو اس بار کیا ہے چال؟ شفقت علی نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
میرے اغوا کا ڈرامہ۔  ارسلان نے لائٹر کا بٹن دبایا، نیلا اور لال شعلہ ہوا میں جھوم گیا۔
اوہ ۔۔۔۔ سمجھ گیا۔ یعنی ہم تمہارے اغوا کا ڈرامہ رچائیں گے۔ تمہیں کوئی اغوا کرے گا، بدلے میں تاوان مانگے گا۔ ہم تاوان ادا کریں گے۔ اس کے بعد میڈیا پر تمہاری مظلومیت دکھائی جائے گی۔ ہر چینل کے ٹاک شوز میں ہم جا کر حکومت کو برا بھلا کہیں گے اور عوام ہمدردی میں مجھے ووٹ دے گی۔ زبردست پلان ہے۔
شفقت علی تجربہ کار سیاستدان تھے۔ سیاسی داؤ پیچ کھیلتے ہوئے عمر گزری تھی۔ ارسلان کا اشارہ فوراً سمجھ گئے۔
بالکل یہی پلان ہے۔ آپ کوئی قابل اعتبار آدمی ڈھونڈیں ۔ جو ہمارا راز رکھ سکے۔
تم اس کی فکر نہ کرو۔ جمال اس کام میں ماہر ہے۔ وہ پہلے بھی میرے کئی اس قسم کے کام کر چکا ہے۔
لیکن اسے یہ پتا نہیں چلنا چاہیے کہ یہ ہم دونوں کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ یہ آپ کا منصوبہ ہے اور میں اس سے بے خبر ہوں۔
میں یہ سب باتیں اچھی طرح جانتا ہوں، لیکن مجھے ایک بات پر حیرانی ہو رہی ہے۔
کون سی بات پر ؟ ارسلان نے پوچھا۔
تم اپنے سوتیلے باپ کو الیکشن جتوانے کے لئے اتنی قربانی دو گے۔ میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے اور سگریٹ کا کش لگایا۔
میں آپ کو سگا باپ ہی سمجھتا ہوں، لیکن آپ نے مجھے کبھی سگا بیٹا نہیں سمجھا۔  ارسلان نے شفقت علی کا ہاتھ تھام کر کہا اور دونوں مسکرانے لگے۔
جھوٹ کہا تھا میں  نے۔ میں آپ کو پہلے دن سے سوتیلا باپ ہی سمجھتا ہوں۔ آپ نے ہمیشہ اپنی سگی اولاد کو مجھ پر فوقیت دی۔ مجھے چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے ترسایا ہے آپ  نے۔ اپنے سگے بیٹے کی پسند کی شادی کروا دی۔ اسے لندن بھیج دیا۔ جس سے میں محبت کرتا اور شادی کرنا چاہتا تھا، اس سے شادی کروانے کے لیے آپ نے انکار کر دیا۔ ارسلانٖ گاڑی چلاتے ہوئے بلند آواز چلانے لگا۔
میں پہلے ہی جانتا تھا کہ آپ جمال کو مجھے اغوا کرنے کا کہیں گے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ جمال، اعجاز اور شہباز کے ساتھ مل کر آپ کے لئے کام کرتا ہے۔ وہ ان دونوں کو ساتھ ملا کر مجھے اغوا کرے گا۔
میں  نے سوچا کہ میں دونوں کو جمال کے خلاف کر کے اسے مروا دوں گا اور موقع ملنے پر کسی نہ کسی طرح جمال کے منہ سے آپ کے خلاف حقیقت بیان کروا کر اس کی ویڈیو بنوا کر پولیس میں دے دوں گا۔ آپ سمجھتے تھے کہ چال آپ چل رہے تھے، لیکن حقیقت میں آپ کی چال کے جواب میں میری چال چل رہی تھی۔
اب میں خود آپ کی سیٹ پر الیکشن لڑوں گا، جیتوں گا اور اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کروں گا۔ بھلا آپ کو الیکشن جتوا کر مجھے کیا فائدہ ہوتا۔
ویسے بھی الیکشن جیتنے کے لیے کسی نہ کسی کی قربانی تو دی جاتی ہے۔ تو آج میں  نے آپ کی قربانی دے دی۔ اپنے سوتیلے باپ کی قربانی دے دی۔ سیاسی زندگی میں یہ میری پہلی چال تھی۔ اب دیکھتے ہیں آگے اور کتنی چالیں چلنی پڑیں گی۔  یہی سب سوچتے سوچتے وہ اپنے گھر پہنچ گیا۔
٭
اغوا کے واقعہ کے تین دن بعد ارسلان حسبِ معمول صبح صبح جوگنگ کے لئے گھر سے نکلا ۔ اس  نے الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات جمع کروا دیئے تھے۔  آج کل اس کا اغوا ہی ملکی سیاست میں موضوعِ بحث تھا۔ وہ اپنی کامیابی پر خوش ہو رہا تھا کہ اچانک ایک گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ گولی ارسلان کے دل کو چیرتی ہوئی جسم سے پار ہو گئی تھی۔
قاتل  نے دو گولیاں اور اس کے سینے کا نشانہ  لے کر فائر کر دیں۔ ارسلان زمین پر گر گیا۔ دھند اور سردی کی وجہ سے ابھی سڑک پر اتنا رش نہیں تھا۔ نجانے کتنی ہی دیر ارسلان کی لاش زمین پر پڑی رہی۔ اس کی کھلی آنکھیں کسی مدد کا انتظار کرتی رہیں, لیکن کوئی بھی نہیں آیا۔ اور پھر اس کی دھڑکنیں رک گئیں ۔ سانسیں بھی تھم گئیں۔ وہ شخص جسے اپنی پہلی چال پر بہت غرور تھا ۔ اپنے باپ کی آخری چال کے آگے مات کھا گیا۔
ارسلان کو قتل کرنے والے کرائے کے قاتل حسین خان نے اپنی کامیابی پر خوش ہو کر ارسلان کی لاش کو ایک نظر دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ کر دور چلا گیا۔ گاڑی چلاتے وقت اسے چار دن پہلے شفقت علی سے ہوئی ملاقات یاد آنے لگی۔
حسین !ہو سکتا ہے ارسلان مجھے دھوکا دے۔ اگر میں پکڑا گیا تو تم اسے قتل کر دینا۔ وہ روزانہ صبح صبح جاگنگ کے لیے قریبی پارک جاتا ہے۔ تم راستے میں کہیں بھی اسے گولی مار دینا۔ اگر میں کامیاب نہیں ہو سکا تو وہ بھی کامیاب نہیں ہوگا۔ یہ میری زندگی کی شاید آخری چال ہو گی۔ شفقت علی خان کو دھوکا دینے والا زندہ نہیں بچ سکتا۔
آپ بے فکر رہیں شفقت صاحب۔ جیسا آپ کا حکم ہو گا ویسا ہی ہو گا۔ آپ کی آخری چال ضرور کامیاب ہو گی۔ حسین خان نے سرد لہجے میں کہا اور آج اس نے ان کی حکم کے مطابق ارسلان کو مار دیا تھا۔ دھند میں اس کی گاڑی جلد ہی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔
٭٭٭
ختم شد

Previous article
Next article
احمد نعمان شیخ
احمد نعمان شیخ
قلمی نام: احمد نعمان شیخ والد کا نام: مقبول احمد قمر تاریخ پیدائش: ۲ جون ۱۹۸۲ (فیصل آباد) تعلیم: ڈگری ان ہوٹل مینجمنٹ ، شعبہ: کسٹمر سروس (ہوٹل استقبالیہ) حالیہ مصروفیت : دمام ، سعودی عرب میں ملازمت شائع شدہ کتب: نیلی یو ایس بی، فیک آئی ڈی، قتل کہانی مضامین ، کہانیوں، کتب کی تعداد: پندرہ کے قریب جاسوسی شارٹ اسٹوریز مختلف ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ مشہور کرداروں کے نام جو وجہ شہرت بنے : رانیہ ، عمیر اور انسپکٹر شہروز (نیلی یو ایس بی)۔ پسندیدہ مشاغل: جاسوسی ناولز اور جاسوسی فلمیں دیکھنا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles