29 C
Lahore
Thursday, March 28, 2024

Book Store

سیٹ بیلٹ  

جاسوسی ناولٹ

سیٹ بیلٹ  

ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر کا قصہ، اسے اپنی بیٹی کی خود کشی کا انتقام لینا تھا

از۔ احمد نعمان شیخ

پیارے پاپا
جب آپ کو یہ خط ملے گا، آپ خط لکھنے کی وجہ جان چکے ہوں گے۔ میں آپ کو ایک ایسی بات بتانا چاہتی ہوں، جو میں آپ سے کبھی کہہ نہ پائی ۔ اگر پہلے کہہ دیتی تو شاید آج یہ قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوتی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ بات کا آغاز کیسے کروں۔ یہ بات بتائے بغیر میں اتنا بڑا قدم نہیں اٹھانا چاہتی۔
ماما کی وفات کے بعد میں بہت ٹوٹ گئی۔ ڈپریشن میں چلی گئی۔ دنیا سے لا تعلق ہو گئی۔ ایسے میں انٹرنیٹ پر مجھے حسن ملا۔ جس نے مجھے ایک نئی دنیا دکھائی۔ محبت کا سمندر دکھایا اور میں اس سمندر میں حسن کے ساتھ بہتی چلی گئی اور بہتے بہتے اتنا دور چلی گئی کہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی کو کبھی بھی اتنا دور نہیں جانا چاہئے تھا۔
پاپا! میں بہت شرمندہ ہوں اور سمجھ نہیں پا رہی کہ آپ کو کن الفاظ میں یہ بات بتاؤں۔ میں نے عورت کی حیا کی دہلیز پار کر لی اور میرے وجود کے ساتھ ایک ننھی جان پلنے لگی۔
جب میں  نے اس بات کا ذکر حسن سے کیا تو اس نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کچھ دنوں تک جرمنی جا رہا ہے۔
اپنے مستقبل کی خاطر نہ تو وہ مجھ سے شادی کر سکتا ہے اور نہ ہی اس نئی مصیبت کو قبول کر سکتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جتنا جلدی ہو سکے مجھے اس مصیبت سے پیچھا چھڑا لینا چاہئے۔
پاپا! آپ ہی بتائیں، کوئی کیسے اپنے ہی وجود کے حصّے کو ختم کر سکتا ہے؟ کیسے مار سکتا ہے؟ اگر میں سب ایسے ہی چلنے دوں تو بہت جلد یہ بات دنیا کی نظر میں آ جائے گی۔ مجھے اپنی عزت کی پروا نہیں ہے لیکن میرا باپ ایک ایماندار ریٹائرڈ پولیس آفیسر ہے۔
لوگ اس کی شرافت اور ایمانداری کی قسمیں کھاتے ہیں۔ میں کیسے اپنے پیارے پاپا کو رسوا کر سکتی ہوں۔اگر میں اس ننھی جان کو مار ڈالوں تو قاتل بن جاؤں گی، اور قاتل کی سزا تو پھانسی ہے نا؟ اس لیے میں  نے یہ فیصلہ لیا کہ خود کو ختم کر لوں۔ آج میں اپنے گناہ کی سزا خود ہی تجویز کروں گی۔
جب آپ یہ خط پڑھ رہے ہوں گے تو شاید مجھے پنکھے سے لٹکا ہوا پائیں گے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے بعد آپ بالکل تنہا رہ جائیں گے۔ لیکن میرے ساتھ روز لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرتے ہوئے ذلّت کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ آپ اکیلے عزت سے جی لیں۔
لوگ آپ سے میری خودکشی کی وجہ پوچھیں گے، تو آپ بتا دینا کہ امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سے میں  نے ڈپریشن میں آ کر یہ قدم اٹھایا۔ میں جانتی ہوں کہ میری لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جائے گا اور اوٹوپسی رپورٹ میں میرے گناہ سے پردہ فاش ہو جائے گا۔
آپ اپنے دوست ڈاکٹر شہزاد سے میرا پوسٹ مارٹم کروانا۔ وہ میرا گناہ چھپا لیں گے۔
پاپا! میں نے پچھلے تین دنوں میں اتنا کھانا بنا کر فریج، فریزر اور ڈیپ فریزر میں رکھ دیا ہے کہ آپ یہ سب کافی دن تک کھا سکتے ہیں۔ آپ کے کپڑے دھو کر استری کر کے الماری میں رکھ دیئے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس کے بل میں  نے آن لائن جمع کروا دیئے ہیں۔
دودھ والے کا بل بھی ادا کر دیا۔ آپ کے باتھ روم کا نل خراب تھا وہ بھی آج صبح پلمبر بلوا کر ٹھیک کروا دیا۔ آپ کو کچھ دن تک کسی بھی چیز کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اپنا موبائل فون میں نے توڑ کر پھینک دیا ہے۔ سم بھی پھینک دی۔ میں اس منحوس چیز کو دوبارہ نہیں دیکھ سکتی جس کی وجہ سے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پاپا! اپنا خیال رکھیے گا۔ ہو سکے تو اپنی گنہگار بیٹی کو معاف کر دیں۔ میں ماما کے پاس جا رہی ہوں۔ کچھ دیر پہلے میں آپ کے کمرے میں آپ کا آخری بار دیدار کرنے گئی تھی۔ آپ بہت پرسکون نیند سو رہے تھے۔ مجھے بہت اچھا لگا۔
میں نے آپ کا ماتھا بھی چوما تھا۔ اس وقت رات کے بارہ بجنے والے ہیں۔ شاید میں نئی تاریخ نہ دیکھ سکوں۔ اپنا ڈوپٹا پنکھے کے ساتھ باندھ چکی ہوں اور اب میں بس کچھ پل کی مہمان ہوں۔ اپنا خیال رکھیئے گا، اللہ حافظ۔
آپ کی بیٹی حیا کمال (جو نہ تو حیا دار تھی اور نہ ہی زندگی میں کوئی کمال کر سکی)
٭
رات اتنی تاریک اور خاموش پہلے کبھی نہ لگی تھی، جتنی کمال کو آج لگ رہی تھی۔ کالی گھٹائیں ہر سو چھائی ہوئی تھیں ۔ چاند اور ستارے نہ جانے کہاں شب گزار رہے تھے۔ سرمئی بادل تو جیسے چھلکنے کو تیار بیٹھے تھے۔سردی میں شدت آ رہی تھی۔
اس گھر میں پہلے بھی صرف دو افراد رہتے تھے، لیکن آج ایسا لگ رہا تھا کہ یہ گھر صدیوں سے خالی ہے۔ کمال بیڈ پر لیٹا چھت والے پنکھے کو گھور رہا تھا۔ فروری کے ٹھنڈے موسم میں فل اسپیڈ سے چلتا ہوا پنکھا اور نیچے کمبل میں لپٹا کمال سردی سے تھر تھر کانپ رہا تھا لیکن وہ پھر بھی پنکھا بند نہیں کر سکتا تھا۔
جیسے ہی بند پنکھا اسے نظر آتا، اس کی آنکھوں کے سامنے وہ بھیانک منظر آ جاتا۔ اس کی جان سے پیاری بیٹی گلے میں پھندا لگائے پنکھے کے ساتھ جھول رہی ہے۔ وہ دیوانہ وار چلانے لگتا، رونے لگتا۔
میری حیا! ایک بار اپنے پاپا سے بات تو کی ہوتی۔ پاپا کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے۔ تمہیں معاف کر دیتے۔
حیا! تم تو میری جان ہو۔ تمہاری ماں کے جانے کے بعد صرف تمہارے لئے ہی تو زندہ ہوں اور تم بھی چلی گئیں۔
وہ پچھلے تین دن سے اپنے کمرے میں قید تھا۔ جنازے کے بعد ایک بار بھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ کچھ محلے دار آتے، افسوس کر کے چلے جاتے۔ وہ کسی سے کچھ بات نہیں کرتا تھا۔
لوگ حیا کی خودکشی کی وجہ دریافت کرتے وہ بت بنا بے تاثر نگاہوں سے دیکھتا رہتا۔لوگ سرد موسم میں گھر کے ہر کمرے کے چلتے ہوئے پنکھے کو دیکھ کر حیران ہوتے۔ کمال سے پنکھا بند کرنے کو کہتے۔ لیکن کمال نفی میں سر ہلا دیتا۔
پہلے بیوی چلی گئی اور اب بیٹی بھی چلی گئی۔ میں جی کر کیا کروں گا؟ کیا میں بھی پنکھے کے ساتھ لٹک جاؤں؟ یا ٹرین کی پٹڑی پر لیٹ جاؤں؟ کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگا دیتا ہوں، یا زہر کھا لیتا ہوں۔ پھر کچھ اور سوچ دماغ پر دستک دینے لگی۔
نہیں۔۔۔۔۔ میں حسن کو ڈھونڈ کر اسے اس کے گناہ کی سزا دوں گا۔ جس کی وجہ سے میری بیٹی کی زندگی خراب ہوئی۔ اسے کسی اور کی بیٹی کی زندگی خراب کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔
لگتا تھا کہ وہ فیصلہ کر چکا ہے۔
دروازے کی گھنٹی بجی۔ وہ جانتا تھا کہ دروازے پر کون ہو گا؟ وہ دھیرے دھیرے دروازے کی طرف بڑھا اور بنا پوچھے دروازہ کھول دیا۔ حسبِ توقع ڈاکٹر شہزاد سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ایک نظر اس پر ڈالی اور لاؤنج میں صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔
شہزاد اندر داخل ہو کر سیدھا باورچی خانے کی طرف گیا۔ بازار سے لائی روٹیوں کا بیگ اس نے ہاٹ پاٹ میں رکھا۔ فریزر سے دال ماش کی پتیلی نکال کر فرائی پین میں ڈالی۔ چولہے پر آگ جلائی اور دال گرم کرنے لگا۔ ابھی تک دونوں  نے ایک دوسرے سے ایک بھی لفظ نہیں بولا تھا۔
شہزاد کل بھی اسی طرح آیا تھا اور کمال کو زبردستی کھانا کھلا کر چلا گیا۔ آج بھی وہ اسے کھانا کھلانے ہی آیا تھا۔ کل رات کے برتن ابھی تک ویسے ہی سنک میں موجود تھے، جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ یعنی کمال نے آج سارا دن کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس  نے ایک نظر کمال کی طرف دیکھا، اب وہ آنکھیں بند کیے صوفے پر نیم دراز تھا۔ جتنی دیر میں دال گرم ہوئی، شہزاد برتن دھو کر فارغ ہو چکا تھا۔
کتنا خیال تھا اسے اپنے دوست کا۔ پچھلے تین دنوں سے اپنے دفتر سے فارغ ہو کر وہ سیدھا کمال کے گھر چلا آتا۔ راستے سے روٹیاں لے آتا۔ کھانا تو حیا بنا کر فریز کر چکی تھی، تو کچھ بھی نکال کر گرم کر لیتا۔ کھانے کے بعد چائے بناتا۔
دونوں خاموش ہی رہتے۔ شہزاد بات کرنے کی کوشش کرتا لیکن کمال نے تو جیسے چپ سادھ لی تھی۔
برتن دھل چکے تھے۔ دال گرم ہو چکی تھی۔ شہزاد  نے ایک ہاتھ میں فرائی پین کا دستہ پکڑا اور دوسرے ہاتھ میں روٹیوں کا ہاٹ پاٹ پکڑ کر کمال کی طرف بڑھے لگا۔
دونوں چیزیں میز پر رکھنے کے بعد وہ واپس کچن میں آیا۔ پانی کی بوتل اور دو گلاس ریک سے نکال کر اٹھا لایا۔ پچھلے دس منٹ سے وہ اس گھر میں موجود تھا لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی کلام کی کوشش نہیں کی۔شہزاد نے اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر کمال کے آگے کیا اور بولا۔
لو کھا لو۔۔۔۔۔ آج سارا دن تم نے کچھ نہیں کھایا۔
کمال نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا اور خاموشی سے نوالہ ہاتھ میں پکڑ کر کھا لیا۔
کیسی طبیعت ہے؟  شہزاد پوچھنے کے بعد اپنی کرسی سے اٹھا اور پنکھا بند کر دیا۔
زندہ ہوں۔۔۔۔۔ بس جی رہا ہوں۔  اس نے چھت کو گھورتے ہوئے کہا اور کچھ دیر بعد ایک نوالہ توڑ کر منہ میں ڈال لیا۔پھر اچانک وہ شہزاد سے مخاطب ہوا
میرا ایک کام کر سکتے ہو؟
ہاں ضرور۔۔۔۔۔بتاؤ کیا کرنا ہے۔
’حیا کا موبائل ریکارڈ نکال کر اس کمینے حسن کا نمبر اور ایڈریس نکال کر دے سکتے ہو؟
کمال کا ہاتھ روٹی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ شہزاد سمجھ گیا کہ کمال یہ بات کیوں کہہ رہا تھا۔ وہ اپنے دوست کو اچھی طرح جانتا تھا۔
حسن کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ شہزاد نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔۔ میں اسے کسی قیمت پر زندہ نہیں چھوڑ سکتا۔
لیکن کیا فائدہ؟ ہماری بیٹی واپس تو نہیں آ سکتی نا۔
دوسروں کی بیٹیوں کو اس کی کمینگی سے بچایا تو جا سکتا ہے نا؟ کمال کا سپاٹ چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے خالی تھا۔
اگر تم اسے مار دو گے تو پولیس انویسٹی گیشن کو دوران اس کا موبائل ریکارڈ چیک کرے گی اور اس کے موبائل سے حیا کا نمبر مل جائے گا۔ پولیس سب سمجھ جائے گی۔
حیا کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کروایا جائے گا۔ اب کی بار اس کی پریگنینسی والی بات چھپائی نہیں جا سکے گی۔ پولیس سب کھیل سمجھ جائے گی۔ تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور فیک رپورٹ بنانے پر میرا لائسنس کینسل کر دیا جائے گا۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں تمہیں اپنی فکر بھی نہیں ہے، لیکن حیا بیٹی کا گناہ جو ہم چھپا رہے ہیں وہ دنیا کے سامنے آ جائے گا۔ پھر کیا کرو گے؟ شہزاد بولتا چلا گیا۔
ساری زندگی پولیس میں نوکری کر کے گزاری ہے۔ ڈی ایس پی کی پوسٹ سے ریٹائر ہوا ہوں۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں ایسا کوئی تھرڈ کلاس پلان بناؤں گا کہ پکڑا جاؤں؟
میں یہ سب باتیں جانتا ہوں۔ ایسا پلان بناؤں گا کہ سب کو اس کی موت قدرتی لگے گی۔ اس کا موبائل ریکارڈ نکلوانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
شہزاد ، کمال کی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ حیا کی موت کا بدلہ حسن سے ضرور لے گا۔
تو پلان کیا ہے؟ شہزاد نے نوالہ لیتے ہوئے پوچھا۔
تمہارا بیٹا عادل سائبر سیکورٹی میں ہے۔ اس سے کہو کہ حیا کا موبائل ریکارڈ نکلوا کر حسن کا نمبرمعلوم کرے۔ پھر حسن کا ایڈریس، لوکیشن وغیرہ مجھے دے دے۔ میں حسن کی روٹین کا جائزہ لوں گا اور پھر کوئی فول پروف منصوبہ بناؤں گا۔ ہمارے پاس وقت کم ہے۔
حیا نے خط میں لکھا تھا کہ وہ جلد ہی جرمنی جا رہا ہے۔ اگر وہ پاکستان سے باہر چلا گیا تو مجھے دوبارہ موقع نہیں مل سکے گا۔
کمال نے کہا۔
وہ اب اپنا کھانا ختم کر چکا تھا۔ شہزاد سمجھ گیا کہ کمال فیصلہ کر چکا ہے اور اب کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا۔ کھانا کھانے کے بعد شہزاد چائے بنانے چلا گیا۔ ساتھ ہی فرائی پین دھونے لگا۔ فارغ ہو کر اس نے عادل کا نمبر ملایا اور اسے کمال کا فیصلہ سنایا۔ عادل نے حیرانی کے عالم میں کہا۔
بابا! اب کیا فائدہ، حیا واپس نہیں آ سکتی۔
کمال کہتا ہے کہ کسی دوسرے کی حیا کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں یہی قدم اٹھا نا چاہیے۔
کمال اور شہزاد دونوں کی یہی خواہش تھی کہ عادل اور حیا کی شادی ہو جائے۔ عادل بھی حیا کو پسند کرتا تھا۔ لیکن قدرت نے ان کی فیصلے پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔
ٹھیک ہے میں کل آفس جا کر سب کام کرتا ہوں۔
ایک بات کا خیال رہے یہ صرف ہم تینوں کے درمیان راز ہے۔ کسی چوتھے کو اس بات کی بھنک بھی نہیں لگنی چاہیے۔
آپ بے فکر رہیں۔ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں۔ چائے تیار ہو گئی تھی۔ شہزاد نے فون بند کیا ۔ چائے کپوں میں ڈالی۔ کپ ٹرے میں رکھے اور کمال کے پاس آ گیا۔ ٹرے میز پر رکھ کر بولا
عادل سے بات ہو گئی ہے۔ وہ کل تمہارا کام کر دے گا، لیکن میں یہی کہوں کا کہ ایک بار پھر سوچ لو۔ شاید ارادہ بدل جائے
سوچ لیا۔۔۔۔۔ ارادہ نہیں بدلہ۔  کمال نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے شہزاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا اور چائے کا گھونٹ اطمینان سے بھرنے لگا۔
٭
اگلے دن شام چھے بجے عادل کی کال آئی۔ کمال  نے تجسس بھرے انداز میں کال ریسیو کی۔ وہ جانتا تھا کہ عادل اسے حسن کی خبر دے گا۔
اسلام علیکم انکل
وعلیکم اسلام، حسن کا نمبر اور تفصیل نکلوائی؟
جی۔۔۔۔ حیا پچھلے پانچ چھے ماہ سے کسی سے بہت زیادہ رابطے میں تھی۔ دونوں کے درمیان گھنٹوں بات ہوتی رہی۔ میں نے اس نمبر کا ریکارڈ نکالا ہے۔ موبی لنک کا نمبر ہے اور سم کسی علی حسن کے نام ہے۔ نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن کا رہائشی ہے۔
ویری گڈ! حیا نے بھی خط میں حسن کا ہی نام لکھا تھا۔ اور کیا معلومات ملی ہیں؟
سارا دن اس نے رائے ونڈ روڈ کے انڈسٹریل ایریا میں گزارا ہے۔ شاید وہاں اس کا آفس ہے ۔ پانچ بجے وہاں سے نکلا اور اب گلبرگ ایم ایم عالم روڈ پر موجود ہے۔ شاید کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہا ہو۔
ایم ایم عالم روڈ تو میرے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں اس کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔ تم اس کی لوکیشن پر نظر رکھو۔ اس کا نمبر اور اقبال ٹاؤن والا ایڈریس ایس ایم ایس کرو۔  چار دن بعد آج پہلی بار کمال کی آواز میں جوش تھا۔
انکل! آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟
کچھ نہیں، بس ابھی ایک نظر دیکھوں گا۔  کمال جلدی سے گھر سے باہر نکلا اور اپنی گرے سوزوکی کلٹس نکال کر تیزی سے ایم ایم عالم روڈ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کا گھر فردوس مارکیٹ گلبر گ میں تھا۔
لگتا ہے اپنے جرمنی جانے کی خوشی میں دوستوں کو پارٹی دے رہا ہے۔ عادل کے ساتھ کمال مسلسل رابطے میں تھا۔ اس کے مطابق وہ کافی دیر سے ویلیج ریسٹورنٹ میں موجود تھا۔
کمال بھی اپنی گاڑی پارک کر کے اندرونی لابی کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے پر پگڑی پہنے ہوئے دربان نے اسے سلام کیا۔ وہ ایک نظر دربان کو دیکھ کر اندر داخل ہو گیا۔
ہال میں تقریباً تیس کے قریب لوگ موجود تھے۔ ایک طرف چھے لڑکے بیٹھے تھے۔ حلیے سے وہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس لگ رہے تھے۔ ایک کونے پر آٹھ نو لوگوں کی شاید کوئی بزنس میٹنگ چل رہی تھی۔ سب کے سب سوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے تھے۔ دو فیملیز بھی موجود تھیں اور ایک طرف چار لڑکے بیٹھے تھے۔
ان سب میں سے حسن کون تھا؟ یہ معلوم کرنے کے لیے کمال  نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور حسن کا نمبر ملانے لگا۔ اس کی نظر ہال میں موجود ہر ایک نوجوان پر تھی۔ جیسے ہی اس نے نمبر ڈائل کیا، چار لڑکوں میں سے ایک اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر ہوا اور جیب سے موبائل نکال لیا۔
جیب سے موبائل نکالتا دیکھ کر کمال نے کال کاٹ دی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حسن کے موبائل ریکارڈ میں اس کا نمبر شامل ہو جائے۔ کنفرم کرنے کے لئے کمال  نے ایک بار پھر سے نمبر ڈائل کیا۔ دوسری دفعہ اسی لڑکے  نے پھر سے کال پک کرنے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے ہی کمال کاٹ چکا تھا۔
یار! کون تمہیں مس کال کر رہا ہے؟  ایک لڑکے نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
پتا نہیں، نمبر سیو نہیں ہے۔ حسن نے کندھے اچکا کر کہا۔
لگتا ہے کوئی گرل فرینڈ ہے۔ دوسرے نے شرارت سے کہا۔ کمال اب ان کی پچھلی سیٹ پر ان کی طرف اپنی پشت کر کے بیٹھ چکا تھا۔
ارے نہیں بھائی، آج کل ایسا کوئی سین نہیں ہے۔ میں  نے یہ سب کام ختم کر دیئے ہیں۔ اب صرف کیریئر پر توجہ دینی ہے اور پھر جہاں گھر والے کہیں گے وہاں شادی کروں گا۔ ان لڑکیوں کے چکر میں کچھ نہیں رکھا۔ میں نے سب چھوڑ دیا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
میری بیٹی کی جان لینے کے بعد اب سب چھوڑ دیا، بہت اچھے۔ کمال نے دل میں سوچا۔ وہ لوگ کھانے سے فری ہونے والے تھے۔ کمال نے اپنے لیے صرف چائے کا آرڈر دیا۔ جیسے ہی وہ چاروں کھانے سے فارغ ہو کر باہر جانے لگے۔ کمال بھی بل ادا کر کے ان کی پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
کل آفس جانا ہے تم نے؟  ایک لڑکے نے حسن سے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔ بس تین دن اور رہ گئے ہیں۔ پھر اس منحوس آفس کی کبھی شکل نہیں دیکھوں گا۔ پھر اسے کچھ یاد آیا اور چلتے چلتے کہنے لگا۔
یار خرم! مجھے گھر تک ڈراپ کر دے۔ تو جانتا ہے کہ اب میرے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے۔ آج کل اوبر سے آفس آ جا رہا ہوں۔
حسن! تو نے اپنی گاڑی کیوں بیچ دی؟  خرم نے اس کے نام کو ب گاڑتے ہوئے سین کو تھوڑا لمبا کھینچتے ہوئے پوچھا۔ وہ اب خرم کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کمال تھوڑا پیچھے رہ گیا۔
بس یار ! کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد کی بات کمال ٹھیک سے سن نہیں سکا۔ صرف جرمنی، باہر، ٹکٹ جیسے کچھ الفاظ سمجھ میں آ سکے۔ کمال سمجھ گیا کہ حسن کچھ دن تک جرمنی جا رہا ہے، اسی لئے اپنی گاڑی بیچ دی تاکہ ان پیسوں کو جرمنی میں استعمال کر سکے۔
خرم کی گاڑی گلبرگ مین بلیوارڈ ہوتے ہوئے وحدت روڈ کی طرف مڑ گئی۔ وہ مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے ان کا پیچھا کرتا رہا۔ جلد ہی وہ نیلم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن میں داخل ہو گئے۔
خرم  نے گاڑی ایک سفید آہنی گیٹ کے سامنے روک دی۔ کمال سمجھ گیا کہ یہی حسن کا گھر ہے۔ عادل نے جو پتا بھیجا تھا وہ بھی اسی گھر کا تھا ۔
یعنی یہ تو کنفرم ہو گیا کہ یہ لڑکا ہی حسن ہے اور اسی گھر میں رہتا ہے ۔  حسن کا گھر دیکھنے کے بعد کمال واپس اپنے گھر چلا گیا۔ ایک بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ حسن کے پاس اپنے گاڑی نہیں تھی۔  وہ اوبر کے ذریعے آفس آتا جاتا تھا۔ لیکن آفس کس وقت نکلتا تھا؟ یہ دیکھنا ضروری تھا۔
ایک منصوبہ ہلکے ہلکے کمال کے دماغ پر دستک دے رہا تھا۔ کمال اپنے دماغ کا دروازہ اس منصوبے کے لئے کھول چکا تھا۔ گھر پہنچتے پہنچتے وہ اپنا منصوبہ مکمل کر چکا تھا۔ اب بس حسن کے آفس جانے کا وقت دیکھنا تھا۔
٭
اگلے دن وہ پونے سات بجے حسن کے گھر پہنچ گیا۔ گاڑی ایک درخت کے پیچھے کھڑی کی۔ اس کی نظر حسن کے گھر کے سفید گیٹ کی طرف تھی۔ تقریباً ساڑھے سات بجے سفید گیٹ کھلا اور اس میں اسکائی بلیو شرٹ اور کالی پینٹ زیب تن کیے حسن باہر نکلا۔ اسکائی بلیو شرٹ پر نیوی بلیو ٹائی بھی لگائی ہوئی تھی۔ باہر نکل کر اس کے دائیں بائیں دیکھا اور پھر موبائل پر کسی سے بات کرنے لگا۔
دو منٹ بعد اس کے قریب ایک سفید کلٹس رکی۔ ڈرائیور سے کچھ بات کی اور دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کمال ان کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگا۔ سفید کلٹس کنال روڈ سے ہوتے ہوئے رائے ونڈ روڈ کی طرف مڑ گئی۔
کمال ہوشیاری سے ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حسن کو کسی قسم کا شک بھی ہو۔
کچھ آگے جا کر گاڑی ایک فیکٹری کے سامنے رک گئی۔ عادل نے بتایا تھا کہ سارا دن اس کا موبائل اسی ایریا میں رہا۔ کمال اب حسن کا گھر اور آفس دونوں دیکھ چکا تھا۔ اس کے پاس صرف دو دن تھے۔ حسن اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اسے صرف تین دن اور آفس جانا ہے۔ گتھیاں سلجھتی جا رہی تھیں۔ حسن کا جرمنی کا ویزہ لگ چکا تھا۔ اسے ٹکٹ اور وہاں کی رہائش وغیرہ کے لئے پیسے کی ضرورت تھی۔
اسی لیے اس نے اپنی گاڑی فروخت کر دی۔ آفس سے بھی وہ ریزائن کر چکا تھا۔ کمال کے پاس دو دن بچے تھے ان دو دنوں میں ہی اسے کچھ کرنا تھا۔ اس نے ایک چھوٹے سے ٹی اسٹال کے سامنے گاڑی روکی، اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی چائے اور ساتھ میں سینڈوچ کا آرڈر دیا۔ ناشتے کے دوران وہ اپنا منصوبہ مکمل کر چکا تھا۔
اب اسے اپنی گاڑی کو آن لائن ٹیکسی سروس ’’اوبر‘‘ پر رجسٹر کروانا تھا اور کل حسن کو اپنی گاڑی میں بٹھانا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ اوبر رجسٹریشن آفس چلا گیا۔ نو بج چکے تھے۔ اس کا ایک پرانا دوست وہاں کا منیجر تھا۔ وہ بہت گرم جوشی سے ملا۔ پہلے حیا کی وفات کا افسوس کیا۔ کچھ پرانی باتیں کیں۔ پھر کمال  نے اپنا آنے کا مقصد بیان کیا۔
صدیقی صاحب! آپ جانتے ہیں بیوی اور بیٹی دونوں دنیا سے چلی گئیں۔ پولیس سے ریٹائر ہو گیا ہوں۔ اکیلا پن اب کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔
کمال صاحب! میں سمجھتا ہوں آپ کی بات اور یہ آپ نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ فارغ اوقات میں ٹیکسی چلائیں۔ آج کل سبھی لوگ یہی کام کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لوگ ٹیکسی چلاتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے تھے، لیکن ڈیجیٹل ورلڈ  نے سب ماڈرن کر دیا۔
ٹیکسی کا کام بھی اب ماڈرن ہو گیا ہے۔ لوگوں لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنی ذاتی کار خریدتے اور ٹیکسی چلاتے ہیں۔  صدیقی صاحب کہتے چلے گئے۔
جی جی ۔۔۔۔ آپ کی بات بالکل صحیح ہے۔ سارا دن گھر میں کیا کروں گا؟ چار پانچ گھنٹے گاڑی چلا لوں گا تو دل بہل جائے گا۔
ویسے بھی لوگ آپ جیسے بڑی عمر کے ڈرائیور پسند کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکوں کے بارے میں اکثر شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر اکیلی لڑکی تو سفر ہی نہیں کر سکتی۔
میں اچھی طرح جانتا ہوں آج کل کے نوجوانوں کو۔ ساری زندگی پولیس میں گزاری ہے۔ روزانہ ایسے ہی لفنگوں سے واسطہ پڑتا تھا۔
کمال کو اپنی بیٹی حیا اور حسن کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ کیسے اس کمینے کی وجہ سے آج وہ اس دنیا میں نہیں تھی۔ تمام مطلوبہ کارروائی کے بعد کمال کے موبائل میں ایپلی کیشن انسٹال کر دی گئی اور استعمال کرنے کا طریقہ کار سمجھا دیا گیا۔
ہماری طرف سے کمال صاحب آپ جب چاہیں اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔ دونوں نے خوشدلی سے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور کمال آنکھوں میں ایک نئی چمک لئے آفس سے باہر نکل گیا۔
٭
سورج کی پہلی کرن نے رات کو الودع کہا۔ رات نے پیچھے مڑ کرسورج کی طرف دیکھا ۔وہ اپنی نحیف سی جھلک دکھلا رہا تھا، لیکن اس کے دل میں ایک نیا عزم تھا۔ دھرتی کو روشن کرنے کا عزم دل میں لئے سورج اڑان بھرنے کے لئے سر ابھار رہا تھا۔ پہلی کرن زمین پر اتری اور زمین کے باسیوں کو اپنا سلام پیش کیا۔ سنسان سڑک کے ارد گرد ہرے بھرے پیڑ اور پیڑوں پر بنے ہوئے پنچھیوں کے گھونسلے، اور گھونسلوں میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے ننھے ننھے پنچھی۔
کمال چھے بجے ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ ابھی صبح پوری طرح روشن نہیں ہوئی تھی۔ اسے کہیں جانے کی جلدی تھی۔ وہ جلد از جلد حسن کے گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ آج کا موقع کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ پوری تیاری سے گھر سے نکلا تھا جیسے آج والا سورج دوبارہ کبھی نہیں ابھرے گا۔
قریب ساڑھے چھ بجے ہی حسن کے گھر کے قریب پہنچ کر حسن کی بکنگ کا انتظارکرنے لگا۔ کل حسن کی ٹیکسی قریب ساڑھے سات بجے آئی تھی۔ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔
حسن کو صرف دودن مزید آفس جانا تھا اور شاید اس کے بعد جلد ہی وہ جرمنی چلا جائے گا۔ کمال بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ سات بج کر پندرہ منٹ پر اسے رائے ونڈ روڈ کی ایک ریکویسٹ ملی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ اس کی مطلوبہ ریکویسٹ ہی ہے۔ اس نے نام دیکھا ۔ بکنگ علی حسن کے نام سے تھی۔ اس نے جلدی سے ریکویسٹ قبول کی۔ ایک منٹ بعد ہی اسے کال آ گئی۔
سر! رائے ونڈ روڈ کے لئے رائیڈ بک کی ہے۔ آپ کہاں ہیں ابھی؟
میں آپ کی لوکیشن کے قریب ہی ہوں۔ بس دو منٹ میں پہنچ جاؤں گا۔
ارے واہ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں گھر کے باہر کھڑا ہوں ۔ میں نے لائیٹ گرین شرٹ، ڈارک گرین ٹائی اور سیاہ پینٹ میں ملبوس ہوں۔
کمال دھیرے دھیرے گاڑی حسن کے گھر کی طرف بڑھا رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حسن کو اس پر کوئی شک ہو۔ جلد ہی اسے حسن ا پنے گھر کے باہر کھڑا نظر آ گیا۔ لمبا چوڑا خوبصورت نوجوان، چھوٹے چھوٹے بال جیسے اس  نے کچھ دن پہلے ہی سر پر استرا پھروایا ہو۔ دائیں ہاتھ میں آفس بیگ اور بائیں ہاتھ میں موبائل پکڑے وہ کمال کی گرے کلٹس دیکھ رہا تھا۔ کمال نے گاڑی اس کے قریب جا کر روکی۔ حسن نے مسکرا کر سلام کیا اور دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
انکل !کیسے ہیں آپ؟  حسن نے مسکرا کر پوچھا اور سیٹ بیلٹ باندھ لی۔
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ کمال نے مصنوعی مسکراہٹ سے اسے جواب دیا۔
جی اللہ کا شکر ہے وہ جس حال میں بھی رکھے۔  حسن نے جیب سے ہینڈ فری نکال کر موبائل میں لگا دی۔ کمال اس کی طرف دیکھنے لگا۔
لگتا ہے آپ کہیں قریب ہی موجود تھے، فوراً ہی پہنچ گئے۔ ورنہ اکثر کافی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہ کمال کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔
جی، آخری سواری آپ سے پچھلی گلی میں اتاری تھی، اسی لیے دو منٹ میں پہنچ گیا۔  کمال کی بات سن کر حسن اپنے موبائل پر کچھ سرچ کرنے لگا اور پھر موبائل جیکٹ کی جیب میں ڈال کر آنکھیں بند کر کے کچھ سننے لگا۔ کمال اسے دیکھتے ہوئے گاڑی چلانے لگا۔
ضرور اب یہ گانے سن رہا ہو گا۔ آج کل کے نوجوانوں کو اور کام بھی کیا ہے۔ چلو میرا کام آسان ہو گیا۔  گاڑی اب کنال روڈ پر داخل ہو چکی تھی۔ کمال بار بار اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حسن آنکھیں بند کیے سر سیٹ پر ٹکائے بیٹھا تھا۔ اس کے بعد کمال  نے بھی حسن سے کوئی بات نہیں کی۔ وہ اس سے بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ حسن کے چہرے میں اسے اپنی بیٹی کا پھانسی لگا چہرا نظر آتا تھا۔
اب اس کی گاڑی رائے ونڈ روڈ پر داخل ہو چکی تھی۔ شہر سے باہر جاتی سڑک پر زیادہ ٹریفک نہیں تھی۔ منصوبے پر اب کام کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ کمال  نے گاڑی کی رفتار خطرناک حد تک بڑھا دی۔
سو، ایک سو بیس اور اب ایک سو چالیس۔ گاڑی ایک سو چالیس کی اسپیڈ سے آگے بڑھ رہی تھی۔ کمال نے حسن کی طرف دیکھا اور اس کی سیٹ بیلٹ کا بٹن دبا دیا، بیلٹ کھل گئی،اور ساتھ ہی اس نے ایک دم سے بریک لگا دی۔ بریک لگاتے ساتھ ہی گاڑی قابو سے باہر ہو گئی۔ سیٹ بیلٹ نہ ہونے کی وجہ سے حسن ونڈ اسکرین کو توڑتا ہوا سر کے بل سڑک پر جا گرا۔ اور گاڑی چار پانچ قلا بازیاں کھاتے ہوئے الٹ گئی۔ اس کے بعد کمال کو بھی کسی چیز کا ہوش نہ رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
٭
کمال کو جب ہوش آیا تو اس نے خود کو ہسپتال کے بستر پر پایا۔ کچھ دیر تک تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کہاں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ دماغ اس کا ساتھ دینے لگا اور اسے سب یاد آ گیا۔ اس نے اپنے جسم کی طرف دیکھا۔ سر پر پٹی بندھی تھی۔ ایک بازو پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اوردائیں ٹانگ پر بھی پٹی بندھی تھی۔ اسے اپنا سر بھاری بھاری سا محسوس ہوا۔ وہ کراہ گیا۔ اس کی کراہٹ سن کر پاس بیٹھی نرس متوجہ ہوئی اور اس کے پاس آ کر بولی۔
شکر ہے۔۔۔۔ آپ کو ہوش آ گیا۔ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
سس۔۔۔۔۔۔سر میں بہت درد  ہے۔ بازو ہلاتے ہوئے بھی تکلیف ہو رہی ہے۔
حادثہ بہت شدید تھا۔ شکر کریں آپ کی جان بچ گئی۔ سر پر چوٹ لگی ہے۔ بازو کی ہڈی فریکچر ہوئی ہے۔ ٹانگ میں بھی کافی چوٹ آئی ہے۔ آپ کو ایک دن بعد ہوش آیا ہے۔ نرس بتاتی چلی گئی۔
میرے ساتھ جو لڑکا بیٹھا ہوا تھا وہ کیسا ہے؟  کمال نے ڈرتے دل سے حسن کے بارے میں پوچھا۔
سوری ان کی تو موقع پر ہی ڈیتھ ہو گئی تھی۔ سیٹ بیلٹ نہیں پہنی ہوئی تھی نا۔ آپ کو آپ کی سیٹ بیلٹ بچا گئی۔ ورنہ شاید آپ کی بھی ۔۔۔۔۔۔ نرس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
اوہ ۔۔۔۔ میری وجہ سے اس لڑکے کی ڈیتھ ہو گئی۔ مجھے بہت افسوس ہے۔
آپ زیادہ بات نہ کریں، میں ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کر دوں ، پولیس بھی آپ کا بیان لینا چاہتی ہے۔ ان کو بھی اطلاع کرنی ہے۔
میں خود ریٹائر پولیس آفیسر ہوں، یہ سب جانتا ہوں۔ کمال نے آنکھیں بند کر لیں اور دل ہی دل میں خوش ہونے لگا کہ اس کا بنایا ہوا منصوبہ بلا کسی مشکل کے کامیاب ہو گیا۔ حسن مر گیا، وہ زخمی ہو گیا ۔ خیر کچھ دن تک وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
حیا کی موت کے سات دن بعد آج اسے سکون نصیب ہوا تھا۔ اس نے اپنی جان پر کھیل کر حسن کا قتل کیا تھا اور ایسا قتل کے ہر کوئی اسے ایک حادثہ سمجھے گا۔ جلد ہی اسے کچھ قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ڈاکٹر اور نرس اسے دیکھنے آئے تھے۔ کچھ دیر وہ اس کا معائنہ کرتے رہے ۔
کمال صاحب ! آپ خوش قسمت ہیں، اتنے سنگین حادثے کے بعد بھی زندہ بچ گئے۔ آپ کے ساتھ والا لڑکا تو موقع پر ہی زندگی کی بازی ہار گیا۔
جی، نرس بتا چکی ہے۔
آپ کو دو دن ہم ابھی ہسپتال میں ہی رکھیں گے۔ اس کے بعد آپ گھر جا سکتے ہیں۔ جب آپ کی گاڑی الٹی تو گاڑی کی چھت آپ کے سر کے ساتھ ٹکرا گئی۔ سر کی چوٹ مجھے کچھ خطر ناک لگ رہی تھی لیکن آپ کو ہوش آ گیا، اس لئے اب پریشانی کو کوئی بات نہیں
ہے۔ بس کچھ دن احتیاط کریں، مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے آپ کو۔
جی ٹھیک ہے، میں خیال رکھوں گا۔
ہم آپ کو وارڈ میں شفٹ کر رہے ہیں۔ پولیس آپ کا بیان لینا چاہتی ہے، کچھ ہی دیر میں وہ پہنچ جائیں گے۔ ڈاکٹر باقی عملے کو کمال کے بارے میں ہدایات دے کر چلا گیا۔
کچھ ہی دیر میں دو باوردی پولیس والے اس کے قریب آ گئے۔
اسلام علیکم سر! کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟  انسپکٹر سہیل  نے آتے ہی پوچھا۔ اس کے ساتھ سب انسپکٹر جمیل بھی تھا۔ وہ دونوں کئی سال کمال کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ تینوں کی ٹیم نے کئی کیس ایک ساتھ حل کیے تھے۔
بس اب بہتر ہو رہی ہے۔ تم دونوں کو دیکھ کر اچھا لگا۔
سر! آپ تو پولیس کی کارروائی جانتے ہی ہیں، آپ کے ساتھ دوسری سواری کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ اسی لیے آپ کا بیان لینا پڑے گا
سہیل میاں! اب مجھے پولیس کی کارروائی سکھائو گے کیا؟  کمال نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
نہیں سر! آپ سے ہی تو سب سیکھا ہے۔ اب آپ کو کیا سکھائیں گے۔  سہیل کچھ کچھ شرمندہ سا لگا۔
پھر کمال ساری تفصیل بتانے لگا۔
تم تو جانتے ہو بیٹی کی ڈیتھ ہو گئی۔ میں کافی اکیلا پن محسوس کر رہا تھا تو سوچا کہ کچھ کام کرنا چاہئے۔
اب مجھ بڈھے کو کون نوکری دے گا، اسی لئے خیال آیاکہ گاڑی پاس ہے تو ٹیکسی چلا لیتا ہوں۔ آج پہلی سواری ہی اٹھائی اور دیکھ لو کیا ہو گیا۔
کمال نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ آنکھوں میں نمی بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ سب انسپکٹر جمیل سب نوٹ کرتا رہا۔ چند اور روٹین کے سوالات پوچھنے کے بعد وہ دونوں کمال سے اجازت لے کر چلے گئے۔ کمال کو دوسری منزل پر وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ کمال اب مطمئن تھا کہ جیسا اس نے سوچا ویسا ہی ہوا۔ اسے اپنی کامیابی پر خوشی بھی محسوس ہو رہی تھی اور اب دل بھی مطمئن تھا۔
٭
مجھے کچھ گڑبڑ لگتی ہے۔ یہ کیس اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا کہ لگ رہا ہے۔ ہسپتال سے نکلنے کے بعد انسپکٹر سہیل نے کہا۔ وہ اس وقت پولیس جیپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کمال کے بیان پر غور کر رہا تھا۔ سب انسپکٹر جمیل جیپ چلا رہا تھا۔
کون سا کیس سر؟ جمیل نے نہ سمجھتے ہوئے سہیل کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
یہی کیس، کمال صاحب کے ایکسیڈنٹ والا کیس۔
اس میں ایسا کیا ہے؟ ایک قدرتی حادثہ پیش آیا۔ ایک سوار مر گیا اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ ایسے روزانہ سینکڑوں حادثات ہوتے ہیں۔
نہیں۔۔۔۔۔ یہ واقعہ کچھ ہٹ کر ہے۔ جیسا کمال صاحب نے کہا، میں وہ ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ خود ہی سوچو کہ ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی جس کی بیٹی پانچ چھپ دن پہلے خودکشی کر لیتی ہے اور وہ ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہے اور پہلے دن پہلی ہی سواری کو لے جاتے ہوئے خوف ناک حادثہ پیش آتا ہے۔
سواری کی موقع پر ہی موت ہو جاتی ہے اور کمال صاحب زخمی ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں اس کہانی میں کچھ جھول ہے۔ کوئی ایسی بات ہے جو ہم سب سے چھپی ہوئی ہے۔ ہمیں اس اسی بات کا سراغ لگانا ہو گا۔
سہیل نے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جمیل نے سہیل کی آنکھوں میں ایک خاص چمک محسوس کی۔
سر! آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟
ہاں۔۔۔۔ کچھ ایسا ہی۔  سہیل نے سیٹ کی پشت پر سر رکھتے ہوئے دھیمے سے کہا۔
تو کیا کمال صاحب نے اپنی جان داؤ پر لگاتے ہوئے دوسرے سوار کو قتل کیا ہے؟
جمیل نے حیران ہو کر پوچھا اور سہیل کی طرف دیکھنے لگا۔
کمال صاحب نے خود تو سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی تھی، لیکن مقتول نے سیٹ بیلٹ کیوں نہیں باندھی؟ اس بات کا کیا جواب ہے؟
کمال صاحب نے بتایا تو تھا کہ سفر کے آغاز کے وقت لڑکے نے بیلٹ باندھی ہوئی تھی۔ پھر اچانک سے وہ اپنی جیب سے کچھ نکالنے لگا، اسی لئے اس نے بیلٹ کھول دی۔ اچانک اسی لمحے گاڑی کے سامنے ایک کتا آ گیا، جسے بچانے کے لئے کمال صاحب نے بریک لگائے اور گاڑی بےقابو ہو گئی۔
جمیل نے کچھ دیر پہلے کمال کا لیا گیا بیان دوہرا دیا۔
یہ تو کمال صاحب نے بیان دیا ہے ۔ خود سوچو کہ بیچ سڑک میں کتا کہاں سے آ گیا؟ اب اس بیان میں کتنی سچائی ہے ہمیں یہ پتا لگانا ہو گا۔
تو کمال صاحب جھوٹ بول رہے ہیں؟ اکثر جانور سڑکوں کے درمیان آ جاتے ہیں۔ یہ کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے۔  جمیل ابھی تک سہیل کی بات سے اتفاق نہیں کر رہا تھا۔
ہو سکتا ہے، ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ایسا کرتے ہیں کہ مرحوم کے گھر چلتے ہیں۔ وہاں اس کا موبائل نمبر  لے کر اس کا کال ریکارڈ نکلواتے ہیں۔ موبائل سے پتا چل جائے گا کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق ہے یہ نہیں۔
تو کیااب علامہ اقبال ٹاؤن چلیں ؟
ہاں۔۔۔۔۔ گھر کا پتا معلوم ہے تمہیں؟
ٹھیک سے نہیں معلوم۔ میں تھانے فون کر کے ایڈریس لیتا ہوں۔ پر مجھے نہیں لگتا کہ اس بات کا کوئی فائدہ ہو گا۔ اگر وہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے، تو وہ کیوں اس گاڑی میں بیٹھتا؟
ہو سکتا ہو اسے اس بات کا احساس نہ ہو کہ کمال صاحب اس کے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔
آپ کی بات ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی۔
تم تھانے فون کر کے ایڈریس معلوم کرو۔ بات بعد میں ہضم کرتے رہنا۔
جمیل  نے تھانے فون کر کے ایڈریس حاصل کیا اور پھر جلد ہی ان کی جیپ مطلوبہ گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ جمیل نے جیپ سے اتر کر گھنٹی بجائی۔ جلد ہی دروازہ کھل گیا۔ سہیل دروازہ کھولنے والے کو دیکھ کر پہچان گیا۔
ارے آپ لوگ یہاں، خیریت تو ہے نا؟ ہسپتال میں سب پولیس کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی کیا؟ آپ سے جب کل ملاقات ہوئی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ سب کارروائی پوری ہو چکی ہے۔ وہ ہسپتال میں مل چکے تھے۔
آپ کے بیٹے کی موت کی تفتیش کر رہے ہیں۔ کیا آپ مجھے اس کا موبائل نمبر دے سکتے ہیں؟
سہیل نے پوچھا۔
موبائل کیوں چاہیے؟ اور کس بات کی تفتیش۔ میرا بیٹا ایک حادثے میں مر گیا۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور تو ریٹائر ڈی ایس پی صاحب ہیں۔ ان کو بھی کافی چوٹ آئی۔ میں  نے دیکھا تھا انھیں ہسپتال میں۔ شاید ابھی تک بے ہوش ہیں وہ
آپ کی بات صحیح ہے، لیکن ہمیں اپنی تسلی کر لینے دیں۔ سہیل نے کہا۔
ٹھیک ہے آ پ کو جو صحیح لگے۔  اتنا کہہ کر انھوں نے جمیل کو زونگ نیٹ ورک کا موبائل نمبر لکھوا دیا۔ نمبر لینے کے بعد وہ دونوں پھر سے جیپ میں آ بیٹھے۔
یہ نمبر ڈیجیٹل فرانزک میں بھیجوا کرسی ڈی آر (کال ڈیٹیل ریکارڈ )نکلواؤ۔ اگر تو اس موبائل سے کمال صاحب کے ساتھ بات کی گئی ہے تو پھر معاملہ واقعی گڑ بڑ ہے۔
ٹھیک ہے جناب۔
جمیل نے نمبر بھجوا دیا اور جیپ تھانے کی طرف بڑھا دی۔ تھانے پہنچنے کے کچھ دیر بعد انھیں کال ریکارڈ مل گیا۔ سہیل کویہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اس ریکارڈ میں کمال کا نمبر موجود نہیں تھا۔
سر ! میں  نے کہا تھا نا کہ کمال صاحب ایسا کچھ غلط نہیں کر سکتے۔  جمیل خوشی سے بولا۔
ہاں۔۔۔۔ تمہاری بات ٹھیک ہی لگتی ہے۔ اور یہ تو اچھی بات ہے کہ میرا شک غلط ثابت ہو گیا۔ ورنہ میرے لیے کمال صاحب کے خلاف کیس تیار کرنا آسان کام نہیں تھا ۔ پانچ چھے سال ان کے ساتھ کام کیا ہے ۔  سہیل مسکراتے ہوئے بولا۔
٭
کمال وارڈ میں اپنے بستر پر لیٹا چھت کے بند پنکھے کو گھور رہا تھا۔ اب اسے بند پنکھے کو دیکھ کر خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ شاید وہ اپنی بیٹی کی موت کا بدلہ  لے چکا تھا۔ اسی لئے اب اس کا دل پر سکون تھا۔ڈاکٹر شہزاد اور عادل بھی کافی دیر اس کے پاس بیٹھے رہے۔ عادل کچھ دیر بیٹھ کر واپس آفس چلا گیا۔ ڈاکٹر شہزاد کو بھی فرانزک لیب میں کسی ضروری کام کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔ شام کو دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے وہ بھی چلا گیا۔
انسپکٹر سہیل کو بیان دیتے ہوئے کمال نے ہر درجہ پر سکون رہنے کی کوشش کی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ سہیل بال کی کھال اتارنا جانتا ہے۔ اگر اسے ذرا سا بھی شک ہو گیا تو وہ اس واقعے کی تفتیش کرنے لگے گا۔ اور کمال نہیں چاہتا تھا کہ سہیل اس معاملے میں ٹانگ اڑائے۔ وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ حسن کی شکل سے ملتی جلتی شکل کا ایک لڑکا اس کے قریب آیا۔
اسلام علیکم، کیسے ہیں آپ؟
وعلیکم اسلام بیٹا! میں  نے آپ کو پہچانا نہیں۔
کل جو آپ کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ اس میں میرا بد نصیب بھائی مارا گیا۔  آنے والے نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
بیٹا! میں آپ سے معافی چاہتا ہوں، میری لا پروائی کی وجہ سے آپ کے بھائی کی وفات ہو گئی۔ میں آپ سب سے بہت شرمندہ ہوں۔  کمال نے اپنے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا۔
انکل! اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ بس میرے بھائی کا وقت اس دنیا میں پورا ہو گیا تھا۔ وہ اپنا وقت پورا کر کے چلا گیا۔ آپ سے کوئی گلہ نہیں۔
یہ تو آپ لوگوں کا ظرف ہے کہ مجھے معاف کر دیا، ورنہ میں اپنی نظروں میں ہی بہت شرمندہ ہوں۔
انکل! مجھے اطلاع ملی تھی کہ آپ کو ہوش آ گیا ہے۔ میں جانتا تھا کہ آپ پریشان ہوں گے، اسی لیے میں آپ سے ملنے چلا آیا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے گھر میں کسی کے دل میں بھی آپ کے لئے کچھ برا نہیں ہے۔ اس لئے آپ خود کو قصوروار نہ سمجھیں۔
بہت شکریہ بیٹا، آپ نے میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا۔
میرا بھائی بہت نیک تھا۔ جب بھی وہ سفر کرتا تھا، قرآن کی تلاوت سنتا رہتا تھا۔ کل بھی وہ تلاوت ہی سن رہا تھا۔ جن لوگوں نے اسے ہسپتال پہنچایا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے کانوں میں ہینڈ فری لگی ہوئی تھی۔ اس کا موبائل معجراتی طور پر محفوظ رہا۔
تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ مجھے یہ سب ایمبولنس والے ایک لڑکے  نے بتایا۔
وہ اب رونے لگا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر کمال بھی چونک گیا۔ وہ تو سمجھ رہا تھا کہ حسن گانے سن رہا ہے۔ لیکن وہ تو اللہ کا کلام سن رہا تھا۔
ابھی دو ہفتے پہلے ہی میرا بھائی عمرہ کر کے آیا ہے۔  کمال کو اس کے چھوٹے چھوٹے بال یاد آ گئے۔ یعنی وہ کچھ دن پہلے عمرہ کر کے آیا تھا، اسی لئے سر منڈھایا تھا۔
میرا بھائی تو کبھی نماز بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ اکثر محلے کی مسجد میں اذان بھی دیا کرتا تھا۔ یقیناً میرا بھائی جنت میں مزا کر رہا ہو گا۔
اللہ اس کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ دے۔ کمال اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔
اوکے انکل !میں اب چلتا ہوں۔ آپ اپنا خیال رکھیے گا۔ میری کل شام کی جرمنی کی فلائٹ ہے۔ ان حالات میں جانے کا دل تو نہیں کر رہا لیکن جانا پڑے گا۔
جرمنی کا نام سن کر کمال ایک دم سے چونک گیا اور ہکلاتے ہوئے پوچھنے لگا۔
جج۔۔۔ جرمنی، تم جرمنی جا رہے ہو؟
جی۔۔۔۔ کل شام کی فلائٹ ہے۔ برلن میں جاب مل گئی ہے مجھے۔ وہ جلد سے جلد جوائن کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ پہلے سوچ رہا تھا کہ فلائٹ کچھ دن آگے کروا دوں، لیکن ان کی طرف سے اجازت نہیں مل سکی۔
تت۔۔۔۔ تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘ کمال نے ایک بار پھر ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
حسن، میرا نام علی حسن ہے۔
لل۔۔۔۔لیکن تمہارے بھائی نے جب رائیڈ بک کی تھی تو اس کا نام علی حسن آ رہا تھا۔
کمال کے منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو رہے تھے۔
میں جرمنی جا رہا ہوں تو اپنی سم میں نے چھوٹے بھائی کو دے دی تھی۔ پاکستانی سم تو وہاں استعمال نہیں کی جا سکے گی نا۔ سم کے ساتھ ساتھ موبائل بھی گفٹ دے دیا۔ اس کا موبائل خراب ہو گیا تھا۔ اسی لیے رائیڈ بک میرے نام سے بک ہوئی
تو اس کا کیا نام تھا؟
حسان، وہ محمد حسان اور میں علی حسن۔  اب کمال کو سمجھ آیا کہ ریسٹورنٹ میں اس کے دوست نے حسن کا سین لمبا کیوں کھینچا تھا۔ اصل میں وہ حسن نہیں حسان پکار رہا تھا۔
تو میں نے ایک بے گناہ کو قتل کر دیا اور میری بیٹی کا قاتل میری آنکھوں کے سامنے کھڑا ہے اور میں اب کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ دل میں سوچنے لگا۔
اچھا انکل اپنا خیال رکھیئے گا، میں چلتا ہوں۔ اور اپنے آپ کو قصوروار نہ سمجھیں۔جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ حسان اب واپس نہیں آ سکتا۔  اتنا کہہ کر علی حسن وارڈ سے باہر نکل گیا۔ کمال کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ میں  نے بے گناہ کو مار دیا، میں  نے ایک شریف اور نیک لڑکے کو مار دیا۔  وہ اپنے حواس کھوتا چلا جا رہا تھا۔
میرا بھائی بہت نیک تھا۔ جب بھی وہ سفر کرتا تھا، قرآن کی تلاوت سنتا رہتا تھا۔ کل بھی وہ تلاوت ہی سن رہا ہو گا ۔
ابھی دو ہفتے پہلے ہی میرا بھائی عمرہ کر کے آیا ہے۔
میرا بھائی تو کبھی نماز بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ اکثر محلے کی مسجد میں اذان بھی دیا کرتا تھا۔ حسن کے الفاظ اس کے سر پر ہتھوڑا بن کر برس رہے تھے۔
یہ میں  نے کیا کر دیا۔ میں  نے ایک بے گناہ کو مار دیا۔ یہ کیا کر دیا۔  وہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔ پھر ایک خیال آنے پر وہ اپنے بیڈ سے اٹھا ۔ اس کے قدم کھڑکی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ لنگراتا ہوا چلتا رہا اور کھڑکی کے قریب پہنچ کر اس  نے کھڑکی کھول دی۔ نیچے دیکھا۔ وہ دوسری منزل پر تھا ۔ ایک نرس  نے کمال کو کھڑکی کے پاس کھڑا دیکھا تو چلا کر بولی۔
یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں۔ کھڑکی بند کریں اور اپنے بیڈ پر لیٹ جائیں۔ آپ کی حالت اچھی نہیں ہے، نیچے گر جائیں گے۔
کمال نے ایک نظر نرس کی طرف دیکھا ، پھر سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے آسمان پر اپنی بیوی اور بیٹی کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔ وہ بھی مسکرا دیا اور دوسرے ہی لمحے کھڑکی سے باہر کود گیا۔
٭٭٭
ختم شد

Previous article
Next article
احمد نعمان شیخ
احمد نعمان شیخ
قلمی نام: احمد نعمان شیخ والد کا نام: مقبول احمد قمر تاریخ پیدائش: ۲ جون ۱۹۸۲ (فیصل آباد) تعلیم: ڈگری ان ہوٹل مینجمنٹ ، شعبہ: کسٹمر سروس (ہوٹل استقبالیہ) حالیہ مصروفیت : دمام ، سعودی عرب میں ملازمت شائع شدہ کتب: نیلی یو ایس بی، فیک آئی ڈی، قتل کہانی مضامین ، کہانیوں، کتب کی تعداد: پندرہ کے قریب جاسوسی شارٹ اسٹوریز مختلف ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ مشہور کرداروں کے نام جو وجہ شہرت بنے : رانیہ ، عمیر اور انسپکٹر شہروز (نیلی یو ایس بی)۔ پسندیدہ مشاغل: جاسوسی ناولز اور جاسوسی فلمیں دیکھنا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles