23 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

سو روپے کا سبق

سو روپے کا سبق

احمد نعمان شیخ

میں  نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی. رات کے نو بج چکے تھے۔ آج صبح سے بارش ہو رہی تھی, اسی لیے دکان پر کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ ملازم بھی گھر جا چکا تھا۔ میں نے موبائلوں کا شو کیس کھینچتے ہوئے دکان کے اندر کیا۔ غلے سے کچھ رقم نکالی اور تمام بتیاں بجھا دیں۔ پھر شٹر گرا کر تالا لگایا اور زمین پر موجود بارش کے پانی سے بچتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم لیے پارکنگ کی طرف چلنے لگا۔
ابھی بھی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ اگست کے حبس زدہ موسم میں ہلکی ہلکی بوندا باندی بھلی محسوس ہوتی ہے ۔میں بھی موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ پچھلے دو تین دن کی موسلا دھار بارش کی وجہ سے کاروبار نہ ہونے کے برابر تھا۔ آج بھی صرف دو موبائل مرمت کے لیے آئے اور دو سیکنڈ ہینڈ موبائل فروخت ہوئے۔ پتا نہیں بارش کی وجہ سے کاروبار میں مندی تھی یا پھر مہینے کے آخری ایام تھے۔
چلتے چلتے میں اپنی موٹر سائیکل تک پہنچا۔ لاک کھولا تو پچھلے ٹائر پر نظر پڑی۔ ٹائر پنکچر تھا۔ دیکھ کر غصّہ آیا اور زور سے سیٹ پر ہاتھ مارا۔
خیر ۔۔۔۔اب کیا ہو سکتا تھا۔ بادلِ نخواستہ موٹرسائیکل کا لاک کھولا اور اسے دھکیلتے ہوئے قریبی پنکچر والی دکان کی طرف چل دیا۔ ہلکی ہلکی بارش، دل فریب ٹھنڈی ہوا اور بارش کی بھینی بھینی خوشبو مجھ پر ایک سحر سا طاری کر رہی تھی۔ میں کاروبار کی مندی اور پنکچر کا غم بھلا کر گنگناتا ہوا دس منٹ بعد مطلوبہ دکان تک پہنچ گیا۔
دکان پر موجود لڑکے کو اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا۔ موٹر سائیکل اس کے سامنے کھڑی کی اور ایک سائیڈ پر بیٹھ کر کاروباری معاملات کے بارے میں سوچنے لگا۔ تقریباً دس منٹ بعد لڑکے کی آواز سنائی دی۔
بھائی صاحب! آپ کی موٹر سائیکل تیار ہو گئی ہے۔ سو روپے دے دیں۔
میں نے ایک نظر لڑکے کی طرف دیکھا اور جیب سے اپنا بٹوا نکالتے ہوئے سوچنے لگا کہ بلا وجہ ہی یہ سو روپے کا نقصان ہو گیا۔ اگر ٹائر پنکچر نہ بھی ہوتا تو کیا فرق پڑ جاتا۔ اسی سو روپے سے میں کوئی پھل خرید سکتا تھا، جسے بچے شوق سے کھاتے۔ ایک تو پیسے کا نقصان دوسرا گھر پہنچنے کے لیے بھی دیر ہو گئی۔ اگر راستے میں بارش تیز ہو گئی تو اور بھی مشکل ہو جائے گی۔
بہرحال۔۔۔۔ میں  نے لڑکے کو سو روپے دیے اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کر کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر کے قریب پہنچ کر اچانک ہی یاد آیا کہ بیگم تو بچوں سمیت اپنی والدہ کی طرف گئی ہوئی ہیں اور اب کل ہی واپس آئیں گی۔ پھر گھر جانے کا کیا فائدہ؟
کل اتوار ہے۔  کیوں نہ آج کچھ وقت دوستوں کے ساتھ گزارا جائے۔ یہی سوچتے ہوئے میں نے موٹر سائیکل ایک طرف  روک کر جیب سے موبائل نکالا اور اپنے جگری دوست فاروق کو کال ملانے لگا۔ سلسلہ ملتے ہی فاروق کی چہکتے ہوئی آواز سنائی دی۔
آج کیسے یاد کر لیا ؟
بس یار تیری بھابھی اپنے میکے گئی ہوئی ہے۔ سوچا کہ تیرے پاس آ جاتا ہوں۔ تو گھر پر ہی ہے نا؟
ہاں ہاں۔۔۔۔ میں گھر پر ہی ہوں بلکہ آج تو امین بھائی بھی آئے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ فاروق نے اپنے کزن کا نام لیا۔
’’ارے واہ یہ تو کمال ہو گیا۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے میں بس پانچ منٹ میں آ رہا ہوں۔
امین بھائی کا نام سن کر میں خوش ہو گیا اور کال کاٹ دی ۔امین بھائی ہم سے عمر میں پانچ سات سال بڑے تھے۔ آج کل سعودیہ میں ملازمت کر رہے تھے۔ میٹرک تک فاروق اور میں ان سے ٹیوشن پڑھتے تھے۔ کافی عرصہ سے ان سے ملاقات نہیں ہو ئی تھی۔ آج اچانک ان کی موجودگی کا سن کر میری باچھیں کھل اٹھیں۔
پانچ منٹ بعد میں فاروق کے گھر کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ فاروق نے دروازہ کھولا اور بیٹھک میں لے آیا۔ بیٹھک میں امین بھائی کے علاوہ سجاد بھی موجود تھا۔سجاد، فاروق کا چھوٹا بھائی تھا اور درزی کا کام کرتا تھا۔
امین بھائی! آپ سعودیہ سے کب واپس آئے؟ میں نے حال احوال کے بعد پوچھا۔
بس ابھی کل ہی آیا ہوں۔ تم سناؤ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟امین بھائی نے پوچھا۔
کاروبار کی کیا سناؤں؟ آج کل برسات کی وجہ سے کچھ مندا ہے۔ سڑکوں پر پانی کھڑا رہتا ہے ، اسی وجہ سے گاہک گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ میں  نے جواب دیا ۔ فاروق کولڈ ڈرنک کا کین  لے آیا جسے میں  نے مسکراتے ہوئے پکڑ کر کھول لیا ۔
ہاں۔۔۔۔ موسم اور ملکی حالات تو ہمیشہ ہی کاروبار پر اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن یہ وقت بھی ٹل جائے گا۔ جو تمہارا کام ہے ،آج کے زمانے میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ لوگ موبائل خریدتے بھی رہیں گے اور لوگوں کے موبائل خراب بھی ہوتے رہیں گے ۔  امین بھائی مسکرا دیے۔ ان کی بات سن کر میں فوراً بولا
بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ اسی لیے تو یہ کاروبار اپنایا۔ لیکن چھوٹے چھوٹے بلاوجہ کے اخراجات سے میں بہت تنگ ہوں۔ مثلاً  آج جب دکان بند کر کے نکلا تو دیکھا کہ موٹر سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے۔ دس منٹ تک پیدل چل کر پنکچر لگوایا اور بلاوجہ سو روپے کا نقصان ہو گیا۔ کیا ہوتا اگر ٹائر پنکچر نہ ہوا ہوتا ؟ پیسہ بھی بچ جاتا اور اذیت بھی نہ اٹھانا پڑتی۔  میں نے جواب دیا۔ میری بات سن کر فاروق بولا۔
ہاں۔۔۔ بات تو تیری ٹھیک ہے۔ ابھی دو دن پہلے ہماری واشنگ مشین خراب ہو گئی۔ بلا وجہ ہی دو ہزار روپے لگ گئے۔ فاروق نے میری بات کی تائید کی۔
نہیں ۔۔۔۔تم دونوں کی بات غلط ہے۔  امین بھائی نے باری باری ہم دونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا اور میں ان کی بات سن کر حیران رہ گیا۔
کیا مطلب ہے آپ کا ؟  میں نے حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
تمہاری موٹر سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو گیا اور تمہیں سو روپے دے کر پنکچر لگوانا پڑا، تاکہ تمہاری موٹر سائیکل پھر سے سواری کے قابل ہو جائے۔ ایسا ہی ہوا نا؟  امین بھائی نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔ ایسا ہی ہوا۔  میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے تائید کی اور کولڈ ڈرنک کا کین منہ سے لگا لیا۔
یہ بتاؤ، تم کیا کام کرتے ہو؟ امین بھائی نے پوچھا۔
یہ کیسا سوال ہے؟ آپ سب جانتے ہیں کہ میں موبائل فون مرمت اور خرید و فروخت کا کام کرتا ہوں۔
’’لوگ تمہارے پاس موبائل ٹھیک کروانے کیوں آتے ہیں؟‘‘
ان کا موبائل کسی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے۔ استعمال کے قابل نہیں رہتا تو ٹھیک کرواتے ہیں۔ تا کہ پھر سے استعمال ہو سکے اور موبائل سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔  میں جواب دینے لگا۔
اگر کسی دن تمہارے پاس کوئی بھی موبائل ٹھیک کروانے نہ آئے تو ؟
تو پھراس دن میری کمائی پر خاصا فرق پڑ جائے گا۔ شاید رات کو مجھے گھر خالی ہاتھ جانا پڑے۔
تو تم چاہتے ہو کہ لوگوں کے موبائل خراب ہوں۔ تاکہ وہ تمہارے پاس ٹھیک کروانے آئیں، جس سے تمہارے گھر کا خرچہ چلتا رہے۔  امین بھائی کی بات نے نہ صرف مجھے بلکہ کمرے میں موجود فاروق اور سجاد کو بھی چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ میں نے پوچھا۔
پہلے تم میری بات کا جواب دو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کے موبائل خراب ہوں تا کہ تم زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکو۔
اب میں کیا کہوں۔۔۔۔۔ میرا تو ذریعہ روزگاریہی ہے۔ موبائل خراب نہیں ہوں تو میرے پاس ٹھیک کروانے کون آئے گا؟
اُس پنکچر والے کا ذریعہ روزگار بھی یہی ہے۔ وہ بھی اس انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ کسی کی موٹر سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو اور وہ پنکچر لگانے کے بدلے سو روپے کمائے اور اس طرح اپنے گھر کا خرچہ اٹھا سکے۔ امین بھائی کی بات اب کچھ کچھ میری سمجھ میں آ رہی تھی۔
دیکھو! اللہ  نے یہ نظام ایسا ہی بنایا ہے۔ اللہ کسی کو بھی گھر بیٹھے رزق نہیں دیتا۔ ہر ایک کو اس کے لیے مشقت جھیلنی پڑتی ہے۔ ایک آدمی کئی لوگوں کے روزگار کا سبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ تم لوگوں کے خراب موبائل ٹھیک کر کے پیسہ کماتے ہو، فاروق اے سی ٹھیک کر کے پیسا کماتا ہے اور سجاد لوگوں کے کپڑے سی کر اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے۔
اسی لیے کبھی بھی اللہ سے یہ شکوہ نہیں کرنا چاہئے کہ بلا وجہ کوئی چیز خراب ہو گئی اور بیٹھے بٹھائے خرچہ پڑ گیا۔  امین بھائی کی باتیں ہم تینوں کے دل کو لگ رہی تھیں۔
امین بھائی! بات تو آپ  نے ٹھیک کی ہے۔ میں نے تو کبھی اس نظریئے سے سوچا ہی نہیں تھا۔ فاروق کی آواز سنائی دی۔
اسی لیے اللہ نے نظامِ زندگی اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ اگریہ نظامِ زندگی انسان کے ہاتھ میں ہوتا تو کوئی بھی غریب اور کمزور آدمی زندہ نہ رہ سکتا۔ اللہ  نے ہم سب کے رزق کا وعدہ کیا ہے۔ وہ تو ہر حال میں پہنچا کر ہی رہے گا۔
جی جی۔۔۔۔۔ آپ کی بات اب سمجھ میں آ رہی ہے۔ میں نے جواب دیا۔
ایک اور بات۔۔۔۔ اللہ کبھی بھی نا انصافی نہیں کرتا۔ نقصان ہونے سے پہلے اس کی قیمت دلوا دیتا ہے۔ آج تم نے کتنے موبائل مرمت کیے ؟  امین بھائی نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔
صرف دو موبائل۔  میں نے جواب دیااور کولڈ ڈرنک کا گھونٹ بھرا۔
’’کیا ہوتا اگر آج کوئی بھی نہ آتا یا صرف ایک ہی موبائل ٹھیک ہونے آتا۔ تم کچھ کر سکتے تھے ؟‘‘
نہیں۔۔۔۔۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ اللہ نے آج دو گاہک بھیجے۔ وہ بھی نہ بھیجتا تو میں کیا کر سکتا تھا۔ میں نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
تو پھر یہ سمجھ لو کہ تمہاری موٹر سائیکل کے ٹائر کا پنکچر لگوانے کے لیے اللہ نے سو روپے تمہیں پہلے ہی دلوا دیے تھے۔  امین بھائی نے مسکرا کر کہا۔
جی۔۔۔۔۔ امین بھائی! آپ نے بالکل صحیح کہا۔ اللہ پہلے انسان کو دیتا ہے پھر اس سے خرچہ کرواتا ہے، تا کہ وہ نقصان کی تلافی کر سکے۔  میں اب سب سمجھ چکا تھا۔
تمہیں تمہارے سو روپے کے زیاں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، لیکن تم جیسے دس لوگوں سے سو سو روپے لے کر وہ پنکچر والا رات کو ہزار دو ہزار روپے کما کر گھر جائے گا۔ جیسے تم ہر موبائل سے تین چار سو روپے کما کرپورے دن میں دو چار ہزار کما لیتے ہو۔
امین بھائی! آپ کی بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔ ہمارا معمولی نقصان کسی دوسرے کے گھر کا چراغ چلانے میں مدد کرتا ہے۔  دوسروں کا معمولی نقصان ہمارے گھر کا چولہا جلاتا ہے۔ یہی ہمارے پیارے اللہ کا نظام ہے اور ہمیں اس طرح کے معمولی نقصان پر افسوس نہیں کرنا چاہئے۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور کولڈ ڈرنک کا کین قریب پڑی ہوئی کچرے کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے اپنی پرانی سوچ بھی اسی کین کے ساتھ کچرے کی ٹوکری میں پھینک دی۔ اب میں خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ کیونکہ آج میں نے ایک نیا سبق سیکھا تھا اور یہ قیمتی سبق مجھے صرف سو روپے میں حاصل ہوا تھا۔

٭٭٭

Previous article
Next article
احمد نعمان شیخ
احمد نعمان شیخ
قلمی نام: احمد نعمان شیخ والد کا نام: مقبول احمد قمر تاریخ پیدائش: ۲ جون ۱۹۸۲ (فیصل آباد) تعلیم: ڈگری ان ہوٹل مینجمنٹ ، شعبہ: کسٹمر سروس (ہوٹل استقبالیہ) حالیہ مصروفیت : دمام ، سعودی عرب میں ملازمت شائع شدہ کتب: نیلی یو ایس بی، فیک آئی ڈی، قتل کہانی مضامین ، کہانیوں، کتب کی تعداد: پندرہ کے قریب جاسوسی شارٹ اسٹوریز مختلف ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ مشہور کرداروں کے نام جو وجہ شہرت بنے : رانیہ ، عمیر اور انسپکٹر شہروز (نیلی یو ایس بی)۔ پسندیدہ مشاغل: جاسوسی ناولز اور جاسوسی فلمیں دیکھنا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles