22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

رشتے بوجھ نہیں ہوتے

احساس کے انداز        

رشتے بوجھ نہیں ہوتے! 


 کہتے ہیں رشتے اور راستے تب ختم ہوتے ہیں جب پاؤں نہیں، دل تھک جاتے ہیں۔”  

تحریر :۔ جاوید ایاز خان

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ دن بدن اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر بے شمار ایسی تصاویر آئیںاور آ رہی ہیں، جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
یہ تصاویر اپنے اندر ایک پوری کہانی سمائے ہوتی ہیں اور لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو بے حد متاثر کرتی ہیں ۔
ایک تصویر جس کا عنوان “گدھ اور ننھی بچی” تھا۔ اس نے پوری دنیا کو ہلا اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مقبولیت  کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ جس میں بھوک سے بلکتی بچی اور اس کی موت کے منتظر گدھ کو فوٹو گرافر #کیون کارٹر  نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔

kevin-carter
famous pictures www.shanurdu.com

اس فوٹو گرافر کو صحافت کی دنیا کا موقر ترین اعزاز پلٹزر پرائز دیا گیا. پھر متاثر کن  تصاویر کی لائن لگ گئی مگر  ان ہی میں سے پچھلے دنوں جاپان میں ہمت و طاقت کی علامت مانی جانے والی تصویر  نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ۔
یہ جنگ عظیم دوم کے دوران لی گئی ایک آٹھ سالہ بچے کی تصویر ہے۔ جس نے اپنی پیٹھ پر جنگ کے دوران مر جانے والے اپنے چھوٹے بھائی کی لاش اُٹھائی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں یہ بچہ اپنی پیٹھ پر لاش اُٹھائے پیدل  بڑی دور سے آیا تھا۔ اب اس کی تدفین کا منتظر تھا کہ ایک فوجی نے اسے دیکھ کر  ہمدردی سے کہا بیٹا:
” یہ بوجھ ( وزن ) بھاری لگ رہا ہے تو میں اُٹھا لوں؟ ”
بچے نے جواب دیا: ” یہ بوجھ (وزن ) نہیں میرا بھائی ہے۔ “

www.shanurdu.coma boy with brother
www.shanurdu.coma boy with brother

رشتے بوجھ نہیں ہوتے۔ نبھانے کے لیے حوصلہ اور ہمت ہونی چاہیے۔ یہ تصویر آج بھی جاپان میں ہمت و طاقت کی علامت مانی جاتی ہے۔ اس تصویر میں بچے کے چہرے کے تاثرات اور اس کی  بےبسی پوری دنیا کو ایک پیغام دے رہی کہ
“رشتے بوجھ نہیں ہوتے نبھانے کے لیے انسانی حوصلہ اور ہمت درکار ہے!
کہتے ہیں رشتے اور راستے تب ختم ہوتے ہیں جب پاؤں نہیں، دل تھک جاتے ہیں۔”
اللہ تعالیٰ کے بنائے رشتے تو پاکیزہ پھولوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی میں خوشبو کا جھونکا بن کر آتے ہیں ۔ یہ دل کے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ہماری روح سے نزدیک مگر آنکھوں سے اوجھل رہ کر بھی اپنا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔
رشتے، جن کے بغیر انسانی زندگی ادھوری، بے معنی اور نامکمل ہے۔
کہتے ہیں رشتے جسم میں روح کی طرح ہوتے ہیں، جو ایک لطیف احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔ باہمی الفت ،احترام ،توجہ اور اعتماد کے محتاج ہوتے ہیں۔
کچھ رشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی پیدائش کے ساتھ ہی بنا دیے جاتے ہیں، جو خاندان اور قوم کہلاتے ہیں۔ انسان سب سے پہلے جن رشتوں سے جڑتا ہے، وہ ماں، باپ، بہن، بھائی اور ایسے ہی دیگر بےشمار رشتہ دار، جن سے آپ کا خونی رشتہ ہوتا ہے۔
جو حقیقی رشتے بھی کہلاتے ہیں اور حقیقی رشتوں کا مرتبہ دوسرے رشتوں کی نسبت زیادہ بلند ہوتا ہے۔
ایسے ہی بہت سے دیگر رشتے جو خونی تو نہیں مگر قریبی ہوتے ہیں ۔ کچھ ناتے اور رشتے ایسے ہیں جو ہم خود بناتے یا پھر بن جاتے ہیں۔
جیسے دوست یا بیوی بنانے میں ہم آزاد ہوتے ہیں، لیکن ان سب کے اپنے اپنے حقوق ہیں۔ جن کی ادائیگی رشتوں کو نبھانے کے لیے ازحد ضروری ہے ۔
اچھا انسان رشتوں کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے بہت اچھی طرح سے نبھاتا ہے ۔
حقیقی رشتوں کا نبھانا ہمارے مذہب میں فرض ہے اور اس کی ادائیگی لازم ہے ۔
ماں باپ کے حقوق اتنے زیادہ ہیں کہ مختصراً بیان ممکن نہیں۔ ساتھ ساتھ بہن بھائیوں سے رشتے نبھانا بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ہے ۔
بعض رشتوں کے نام نہیں ہوتے مگر مقام بڑے ہوتے ہیں ۔
انسانی زندگی ایک درخت کے مانند ہوتی ہے۔ جس سے جڑے سارے رشتے ہری بھری ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ٹہنیاں سوکھ جائیں تو پورا درخت سوکھ جاتا ہے۔ زندگی کے اس درخت کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے ٹہنیوں کا ہرا بھرا رہنا ضروری ہے۔
اگر رشتوں میں ذرا سی بھی غلط فہمی جنم لینے  لگے تو یہ ٹہنیاں آہستہ آہستہ سوکھ کر ٹوٹنے بکھر نے لگتی ہیں۔ انھیں بچانے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور جھکتا وہی ہے جسے رشتوں کی قدر معلوم ہو۔
رشتوں کو نبھانے کا شعور ہو، کیونکہ رشتوں کا ایک وزن ہوتا ہے۔ اس لیے رشتوں کا بوجھ اُٹھانا کوئی آسان کام نہیں ۔یہ وزن اُٹھاتے ہوئے اگر آپ کا دل بھی ٹوٹ جائے تو کوئی بات نہیں ۔
غلطیوں کو معاف کرنا  اور دل کو صاف رکھنا بڑائی ہے۔
عاجزی ،انکساری اور خلوص سے ہی دلوں کو جیتا جا سکتا ہے ۔ رشتوں سے کبھی مقابلے نہیں ہوتے۔ یہ تو برابری کا درجہ رکھتے ہیں ۔
کسی نے پوچھا  ” تم انھیں یاد کرتے ہی کیوں ہو جو تمہیں یاد نہیں کرتے؟
تو دل تڑپ کر بولا:  رشتے نبھانے والے مقابلہ نہیں کرتے۔ ”
رشتوں میں سرد رویے، جھوٹ، غرور، غلط فہمی اور زبان کی تلخی زہر گھولتی ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
یہ تو ایک حساس اعتماد کا نام ہے اور اس کا پودا خلوص ، پیار، انکساری ،درگزر ،سچ ، برداشت اور مثبت رویے کے پانی سے ہی سینچا جائے تو خوب پھولتا پھلتا ہے ۔
رشتوں کی بقا کے لیے رابظے ضروری ہیں، کیونکہ بھول جانے سے تو اپنے ہاتھوں سے لگائے درخت اور پودے بھی سوکھ جاتے ہیں ۔
زمانہ اور حالات بدل رہے ہیں۔ پہلے پرانے لوگ سمجھدار تھے۔ رشتوں اور تعلقات کو سنبھالنا اور نبھانا خوب جانتے تھے۔ پھر لوگ رفتہ رفتہ پریکٹیکل ہوتے چلے گئے۔
رشتے اور تعلق سے فائدے  اور بدلے ڈھونڈنے لگے۔ اب تو لوگ پروفیشنل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ فائدہ ہو تو رشتہ اور تعلق بناتے اور رکھتے ہیں ۔
افسوس! صد افسوس! اب رشتوں کو بوجھ تصور کرتے ہیں۔ کاش میں ان کو بتا سکوں کہ رشتے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا ستعمال کرنے کے لیے نہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں دل پر لینے سے بڑے بڑے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔
ہمیں اپنوں کے ساتھ جینا ہے۔ جن کے بغیر ہم زندگی گزار ہی نہیں  سکتے۔
یاد رکھیں! رشتوں کے بغیر زندگی ادھوری اور ویران ہو جاتی ہے۔ ہر رشتے میں غلط فہمیاں اور غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں، مگر غلط فہمی کو دور اور غلطیوں کو معاف کیا جاتا ہے۔
رشتوں کو توڑا نہیں جاتا۔  انھیں تو جوڑا جاتا ہے ۔
رشتوں کے درخت کو  ہر دم سر سبز اور تازہ رکھیں۔  یہی انسانی ضرورت ہے اور ہمارا دین ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔یہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ ہے اور وہ صلہ رحمی بھی جس کا قرآن کریم میں بار بار حکم آیا ہے ۔
اپنے رشتوں کی قدر کریں۔ ان کی اہمیت کو سمجھیں!
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام رشتوں کو  عمدگی سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین  !

آئینہ ٹوٹ بھی  جائے تو  کوئی  بات نہیں
دل نہ ٹوٹے کہ یہ بکتا نہیں بازاروں میں  

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles