22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

پیاسی مچھلی

پیاسی مچھلی

دانیہ صدیقی

اِس ایکوریم کو لاؤنج میں رکھے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ پورا ایک ہفتہ!گویہ ایکوریم زیا دہ بڑا نہیں ہے مگر انتہائی نفیس اور دیدہ زیب ہے۔ رضوان اِسے بڑے شوق سے لے کر آ ئے ہیں۔ گھر میں رکھے دیگر نوادرات اورشو پیسز کے بعد یہ ایک شاندار اضافہ ہے۔رضوان ایسے ہی ہیں۔انھیں گھر کو سجانے سے عشق ہے اور ان کی یہ پسند بھی ہمیشہ کی طرح لاجواب ہے۔
اس ایکوریم میں چار سنہری مچھلیاں ہیں۔انھیں میں نے پہلے روز ہی گن لیا تھا۔کیا بچوں نے بھی یہ مچھلیاں گنی تھیں؟ مجھے اس کا علم نہیں یا شاید میں نے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی۔ میں تو ایکوریم کے سحر میں ایسی گرفتار تھی کہ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔جیسے کہ بانو سے پوچھنا کہ اس نے آ ٹا نرم گوندھا ہے کہ نہیں ،کہیںدھوبی پھر سے رضوان کی قمیضوں پر کف لگانا تو نہیں بھول گیا، بچے اب تک اسکول سے کیوں نہیں لوٹے ،کیوںرضوان مجھے کبھی فون نہیں کرتے یا حمنہ نامی اس آزاد خیال اور من موجی لڑکی کا کیا ہوا جو ہمیشہ اس معاشرے سے بغاوت پر تُلی رہتی تھی۔ان جیسی ہزاروں سوچوں سے بے نیاز میں مچھلیوں کو دیکھنے میں مگن تھی۔مجھے ان سے خاص اُنسیت سی محسوس ہورہی تھی۔ان میں اور مجھ میں ضرور کوئی بات مشترک تھی مگر وہ بات ابھی مجھ پر آ شکار نہیں ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی روز شام کو ہمارے پڑوسی مسٹر اینڈ مسز علی چائے پر آ دھمکے۔یہ ایک درمیانی عمر کا لاولد جوڑا تھا۔چائے وغیرہ سے فارغ ہوکر حضرات تو لان میں سگریٹ پینے چلے گئے جبکہ میں مسز علی کے ساتھ لاؤنج میں تنہا رہ گئی۔ہم دونوں رسمی سی گفتگو کر رہے تھے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مسز علی مجھے کچھ خاص پسند نہیں تھیں۔دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کا انھیں بہت شو ق تھا۔اس کے علاوہ بے موقع اور بے محل مشورے دینے میں بھی یہ ا پنا ثانی نہیں رکھتی تھیں ۔ ان سے باتیں کرتے کرتے میں نے بے چینی سے پہلو بدلا کیونکہ میں جانتی تھی کہ بہت جلد وہ مجھے کسی بے سروپا مشورے سے نوازنے والی ہیں۔
اسی دوران اچانک ان کی نظر ایکوریم پرپڑگئی اور خلاف توقع وہ کہنے لگیں،’’یہ نیاایکوریم کتنا خوبصورت ہے۔ رضوان بھائی تمہارا اور گھر کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔اب یہی دیکھو ،اتنا مہنگا فرنیچر،یہ امپورٹڈ شو پیس اور یہ قیمتی ایکوریم!سچ بتاؤں تومیں تمہیں بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ تمہیں رضوان بھائی جیسے جان چھڑکنے والے شوہر ملے ہیں۔‘‘اُنھوں نے بات کے اختتام پر مسکر ا کر میری جانب دیکھا تو لامحالہ میں بھی مسکرا دی۔اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی؟
لیکن میرے مسکراتے ہی ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ایکوریم میں تیرتی شوخ نارنجی رنگ کی ایک مچھلی جو دوسری مچھلیوں سے قدرے بڑی بھی تھی، اس نے آ نکھوں میں آ نکھوں ڈال کر مجھے دیکھا۔میری مسکراہٹ جیسے منجمد ہو گئی اور حلق میں گولا سا اٹک گیا۔’’جھوٹ مت بولو!‘‘ اس کی منحنی سی آ واز میری سماعت سے ٹکرائی۔حیرت کے مارے میری آ نکھیں اس پر جم گئیں اور میں ہولے سے بدبدائی،’’کیا کہا تم نے؟‘‘مجھے اپنی ہی آ واز اجنبی سی لگی۔اب کی بار مچھلی کی آ واز زیادہ بلند تھی،’’احمق عورت!جھوٹ مت بولو۔‘‘
مسز علی صوفے کے ڈیزائین پر تبصرہ کر رہی تھیں جب مجھے اس طرح ایکوریم کی جانب دیکھتا پا یا۔انھوں نے بھی میری نظروں کا تعاقب کیا تو مچھلی پلٹ کر فوراً تیرنے لگی۔’’اُف!یہ ایکوریم کے ساتھ رکھا ہوا گلدان کتنا دلکش ہے۔بھئی ،رضوان بھائی کی چوائس کا تو کوئی جواب ہی نہیں!‘‘شکر ہے کہ وہ گلدان دیکھ کر میری کیفیت بھول بھال گئیں اور اب آ نکھیں پھیلا کر اس کی تعریف کر رہی تھیں۔ میرا بھی کام تھا کہ ان کی تعریف کا شکریہ ادا کرتی مگر میں تو اپنی ہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں تھی۔کیا اس مچھلی نے ابھی مجھ سے بات کی تھی؟ کیا میں ان کی زبان سمجھ سکتی ہوں؟ کیا میں اتنی خو ش قسمت ہوں کہ اس نے بات کرنے کے لیے مجھے چنا؟ایک خوشگوار سے احسا س نے مجھے دھیرے سے گدگدایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح رضوان نے مجھے مطلع کیا کہ انھیں آ ج دفتر سے آ تے پھر دیر ہو جائے گی۔میں نے گہری سانس لے کر ان کی جانب دیکھا۔دراصل آ ج ہماری منگنی کی پندرھویں سالگرہ تھی۔میں نے رضوان کو چپکے چپکے سر پرائز دینے کا اہتمام کررکھا تھا اور اس سلسلے میں ایک شاندار سے ہوٹل میں ڈنر ٹیبل بھی بک کروا رکھی تھی۔میرا اندازہ تھا کہ انھیںیہ دن یاد ہوگا اسی لیے میں نے آ ج کا دن یاد گار بنانے کی ٹھانی تھی مگر ان کا ارادہ جان کر میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا۔انھیںکافی کا مگ پکڑاتے ہوئے میں نے چہرہ دوسری جانب کرلیا کہ مباداوہ میری بجھی بجھی سی رنگت اور نم آ نکھوں کودیکھ کر کوئی سوال ہی نہ کرلیں ۔ویسے اپنے دل کو بہلانے کے لیے یہ میری خام خیالی ہی تھی کیونکہ رضوان تو بہت عرصہ ہوا ایسے تمام احساسات سے مبرا ہو چکے تھے۔
اسی شام کو آ ٹھ بجے میں لاؤنج میں بیٹھی یونہی ایک بور سے فیشن میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی ۔دونوں بچے اپنے کمرے میں ہوم ورک کر رہے تھے اور بانو رات کا کھانا پکانے میں مصروف تھی جب ایک عجیب سے احساس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔آ ج سے پندرہ برس قبل ٹھیک یہی وقت تھا جب رضوان نے کتنی احتیاط اور محبت سے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اپنے نام کی انگوٹھی پہنائی تھی۔ کیا یہ وہی رضوان ہیں جن کے ساتھ میں اب رہ رہی تھی۔نہیں!شایدیہ تو کوئی اجنبی سا شخص ہے جو کسی پتھر کی مورت کی طرح تمام احساسات اور جذبات سے بے نیاز ہے۔
یہ پندرہ سال جیسے ریت کے ذروں کی طرح میری ہتھیلی سے پھسلتے چلے گئے۔ان ذروں نے کتنی ہی یادوں کو دھندلا کر رکھ دیا تھا ، جیسے ان کا وجود کبھی ہی نہیں!ان ریت کے ذروں نے میرے خوابوں کے شیش محل کو گہنا کر ریت کے ناتواں سے گھروندے میں تبدیل کر دیا تھاجو ہوا کے ایک تیز جھکڑ کے ساتھ ہی ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔میرے سینے میں درد کی لہر سی جاگی جس سے میرا سارا وجود جھرجھرا گیا۔
کیا میں رضوان کو مِس کر رہی تھی ؟
’’ہاں!‘‘
میرے اندر سے آ واز آ ئی ’’ہاں، اسے کال کرو۔ اسے آ ج کا دن یاد دلاؤ۔اسے بتاؤکہ تم اسے بہت مِس کررہی ہو اور چاہتی ہو کہ یہ یادگار شام اس کے ساتھ گزارو۔‘‘
میراہاتھ فون کی جانب بڑھا۔
’’اوراگر وہ ناراض ہو گئے تو؟‘‘
میں نے ایک جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کر لیا اوراسی لمحے مجھے احساس ہوا جیسے کوئی مجھے گھور رہا ہو۔بے اختیار میری نظریں ایکوریم کی جانب اٹھ گئیں۔ایکوریم کی شیشے کی دیوار کے اس پار سے دو ننھی مچھلیاں مجھے ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔
میں نے پھر سے فون کی جانب ہاتھ بڑھایا اور رضوان کا نمبر ڈائل کردیا۔ پہلی، دوسری اور تیسری بیل گئی پھر آ ٹو میٹک مشینی آ واز سنائی دی جو مجھے بیپ کے بعد اپنا پیغام چھوڑنے کی استدعا کر رہی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر میں نے فون رکھ دیا۔اب مچھلیوں نے اطمینان سے دوبارہ تیرنا شروع کردیا تھا۔
میں نے غور سے ان کی جانب دیکھا۔ یہ مچھلیاں کتنی عجیب طرح سے تیرتی ہیں۔بار بار منہ کھول کر پانی پیتی ہیں اور گلپھڑوں کو پھلاتی ہیں جیسے سب کچھ ایک لَے ،ایک تال میں ہو رہا ہو۔مجھے علم ہے کہ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔آ پ کہیں گے کہ اس طرح تو وہ سانس لے کر زندگی کی کچی ڈور سے بندھی ہیںمگر میرا وجدان کہتا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں کیونکہ وہ پیاسی ہیں! روح کی گہرائیوں تک پیاسی! ان کی پیاس کو پانی کبھی نہیں بجھا سکتا ۔وہ تڑپ کر بار بار فریاد کرتی ہیں مگر اس کے نتیجے میں ڈھیر سارا پانی ان کے حلق میں انڈیل دیا جاتا ہے ۔وہ پیاسی ہیں مگر زندہ رہنے کے لیے گھٹ گھٹ کر سانس لینے پر مجبور ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ ج ہفتے کا دن ہے اوربچے اسکول کی جانب سے پکنک پر گئے ہوئے ہیں۔ بانو کو بھی میں نے ان کا خیال رکھنے کے لیے ساتھ ہی روانہ کر دیا ہے۔خلاف توقع کافی عرصے کے بعدرضوان بھی آ ج گھر پر ہیں ورنہ چھٹی والے دن بھی وہ بزنس میٹنگز میں یا دفتر کے کاموں میں الجھے رہتے ہیں۔پچھلے کئی دنوں سے وہ راتوں کو بھی دیر سے گھر آ رہے تھے اس لیے بات چیت کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا۔
وہ گیارہ بجے جاگے اور ناشتے کی ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئے۔میں جو نو بجے ہی ناشتے سے فارغ ہو چکی تھی ،ان کو کمپنی دینے کی غرض سے دوبارہ ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔ سچ بتاؤں، تو میں آ ج بہت خو ش تھی۔بالکل اس بچے کی طرح جسے اس کی پسندیدہ ٹافی مل گئی ہو۔ناشتے کے دوران میں ان سے بات کرنے کا موقع ڈھونڈتی رہی مگر وہ لگاتار موبائل کان سے لگائے کسی بزنس ڈیل میں مصروف تھے۔ناشتے کے بعد میں نے ان کے سامنے کافی کا مگ لا کر رکھا تو فون بند کرکے انھوں نے اخبار اٹھا لیا اور پڑھنے میں محو ہو گئے۔
میں ان کے سامنے بیٹھی بے مقصد ٹیبل پر انگلیوں سے دائرے بناتی رہی۔میں ان سے ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتی تھی۔میں پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ کیوں دو روز پہلے ہماری منگنی کی سالگرہ بھول گئے تھے۔میں انھیں بتا نا چاہتی تھی کہ میں نے اس دن کو یادگار بنانے کے لیے کیا کچھ سو چا تھا۔ میں ان سے جاننا چاہتی تھی کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم آ ج اپنی منگنی کی سالگرہ منائیں ۔میں انھیں پندرہ سال پہلے کیا گیا وعدہ بھی یاد دلانا چاہتی تھی لیکن الفاظ میری زبان پر آ آ کر دم توڑ رہے تھے۔کوشش کے باوجود میں کچھ نہیں کہہ پا رہی تھی۔ عجب لاچاری تھی جس نے مجھے بے بسی کے بھنور میں دھکیل دیا تھا۔
میں ٹیبل پر سے اٹھنے کا سوچ ہی رہی تھی جب میرے کانوں سے منحنی سی آ واز ٹکرائی،’’اسے بتاؤجو تم کہنا چاہتی ہو۔‘‘ میں نے چونک کر ایکوریم کی جانب دیکھا۔وہی نارنجی مچھلی مجھے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور پانی میں اپنی چھوٹی سی دم لہرا لہرا کر میری ہمت افزائی کر رہی تھی۔’’ہاں ہاں، جو کچھ تمہارے دل میں ہے اسے بتادو ۔‘‘ باقی تینوں سنہری مچھلیوں نے بھی دم لہرا لہرا کر اس کا ساتھ دینا شروع کردیا۔اب وہ چاروں مل کر ایک کورس میں بول رہی تھیں۔میں نے گھبرا کر رضوان کی جانب دیکھا کہ کہیں انھیں تو یہ شور شرابا سنائی نہیں دے رہا مگر وہ ویسے ہی اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
میں نے مچھلیوں کی جانب دیکھا اور اثبات میں گردن ہلا دی گویا یہ ان کی بات ماننے کا اشارہ تھا۔میرا اشارہ پا کر مچھلیاں یکسر خاموش ہوگئیں اور اب ایک ٹک میری جانب دیکھ رہی تھیں۔ میں نے گلا کھنکھار کر ہمت جمع کرتے ہوئے رضوان کو مخاطب کیا۔’’رضوان ایک بات کہوں؟‘‘ اور امید بھری نظروں سے انھیں دیکھنے لگی۔جواباً اخبار کے پیچھے سے ایک بیزار سا ’’ہونہہ‘‘ سن کر میری رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی اور جب کچھ سمجھ نہ آ یا تو بے ارادہ میرے منہ سے نکل گیا،’’رضوان،مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ایکوریم میں تیرتی ہوئی مچھلیاں پیا سی ہوں۔‘‘
رضوان نے اخبار نیچے کرکے حیرت سے مجھے دیکھا ۔’’کیا کہا؟ مچھلیاں پیا سی ہیں؟‘‘اور بے اختیارپلٹ کر ایکوریم کی جانب دیکھنے لگے جس میں مچھلیاں معمول کے مطا بق تیر رہی تھیں۔’’توکیا فرما رہی تھیں آ پ حمنہ بیگم؟پیا سی مچھلی؟میرا خیال ہے کہ تمہیں بہت جلدکسی اچھے نفسیاتی معالج کی ضرورت پڑنے والی ہے۔‘‘اوروہ اخبار پٹخ کر وہاں سے چلے گئے۔میں ویسے ہی سر جھکائے بیٹھی رہی۔جانے کیوں رضوان کے وہاں سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی استہزائیہ نظریں مجھے اپنے چہرے پر گڑی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
میں نے اپنے کہے ہوئے الفاظ پر غور کیا۔ مچھلیاں پانی کی مخلوق ہیں مگر اس میں کیا عجب ہے کہ وہ بھی پیاس محسوس کرتی ہوں۔پانی تو ان کے لیے صرف ایک جزوی عنصر ہے ۔ کیا رضوان کو یہ نظر نہیں آ تا؟کھڑکی پر پڑے زرد رنگ کے دھاری دار پردے ہوا سے لہرا رہے تھے۔
’’ہم پیا سی ہیں۔ہم بہت پیا سی ہیں۔‘‘
مچھلیوں کی آ واز کمرے میں دوبارہ گونجی اور دفعتاً مجھے احساس ہو ا کہ ان کے سا تھ ساتھ میں بھی یہی الفاظ دُہرا رہی ہوں لیکن اس بار یہ آ واز حمنہ کی تھی۔وہی آ زاد خیال اور من موجی سی لڑکی جسے میں بچپن سے جانتی تھی۔

دانیہ صدیقی

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles