31 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

A Book of Ghosts |عجیب انتقام

سیبیِن بیرینگ گولڈ Sabine Baring-Gould( 28 جنوری 1834 سے 2 جنوری 1924) برطانیہ میں اینگلیکن چرچ کے پادری تھے۔ اس کے ساتھ ناول نگار اورمختصر کہانی نگار کے طور پر بھی برطانیہ کے نامورمصنفوں میں مستند ہیں۔ مندرجہ ذیل پراسرار کہانی ان کی کتاب A Book of Ghosts کی تیرھویں کہانی Mustapha سے ماخوذ ہے۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن Methuen & Co., London نے 1904 میں شائع کیا۔
…………………
ضمیر کا قیدی
اِک انہونے انتقام کا ماجرا
تحریر شاہد لطیف

یہ 1900 کے اوائل کا ذکر ہے۔ میں عموماََسال میں ایک مرتبہ مصر کے شہر ’ لکسر‘ Luxor میں قیام کرتا تھا ۔یہاں ایک ہوٹل ڈی یورپ تھا جس کے باہر گدھا گاڑی والے، قلی، گائیڈ اور قدیم دور کی اشیاء کے ڈیلر اکثر اوقات موجود ہوتے ۔ اِن میں ایک لڑکا مصطفیٰ ، یورپی اور امریکی سیاحوں کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے بہترین تھا۔
میں پانچ سال جاڑوں کے موسم میں مسلسل مصر آیا اور لکسر کے اسی ہوٹل میں قیام کیا ۔ میں چند دن یہاں سکون کے ساتھ گزارنا چاہتاتھا تا کہ تبدیلی آب و ہوا کے ساتھ صحت بہتر ہو۔ پیشے کے لحاظ سے میں مصور ہوں لہٰذا ’لکسر‘ کی کشش ہر سال یہاں کھینچ لایا کرتی۔ میں نے ان پانچ جاڑوںمیں ، مصطفیٰ کو لڑکپن سے جوان ہوتے دیکھا۔اُس کے چہرے اور روشن چمک دار آنکھوں سے ذہانت ظاہر ہوتی تھی ۔وہ اچھی طبیعت کا حامل تھا اور ’ اپنی مخصوص‘انگریزی سے کام چلا لیتا تھا۔اُس کا بس چلتا تو لکسر میں آنے والے مختلف ممالک کے سیاحوں سے اُن کی ہی زبانوں میں بات کرتا!
مصطفیٰ گدھا گاڑی چلاتا اور ضرورت پڑتی تو قلی کا بھی کام کر تا تھا۔ وہ مستقبل میں مترجم اور گائیڈبننے کی خواہش رکھتا تھا۔مصر میںمترجم /گائیڈبننے کا مطلب عمدہ لباس، ٹھاٹ باٹ اور پیسوں کی فراوانی تھا۔اس کے علاوہ یہ مترجم غیر ملکی سیاحوں کو مقامی دوکان داروں کے پاس لانے کی ’ بخششیں ‘ بھی لیاکرتے۔شاہوں کی طرح یہ خود کچھ نہیں کرتے بلکہ دوسرے لوگ اِن کے لئے کام کیا کرتے تھے۔ لکسر کے مقامی لوگوں میں دو شادیاں کرنے والے گائیڈ عام تھے۔بعض کی تو تین اور چار بیویاں بھی ہوتیں۔ مسلمہ اصول ہے جب دولت آتی ہے تو اکثر برائیاں ساتھ لاتی ہے۔کئی مترجم اور گائیڈ اپنے رہن سہن ، طورطریقوں کو فرسودہ جان کر مغربی اطوار اپنانے کی حتی الامکان کوشش کرتے یوں ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں خود اپنی چال بھول جاتے۔ بر طانوی اور امریکی سیاحوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں میں سے بعض نے شراب سے اجتناب کرنے کی تعلیمات بھلا دی تھیں۔کچھ جوئے کی لت میں بھی پڑ گئے …
ہم سب ہی مصطفیٰ کو پسند کرتے ۔اس ہوٹل میں آنے والے سیاحوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے کبھی اُس سے کوئی شکایت ہوئی ہو۔ہاں ! ایک بات ضرور تھی کہ وہ مسجد، نماز روزے سے دور تھا۔ سیاحوں میں سے بعض نے اُس کی پینے پلانے اور جُوا کھیلنے کی ہچکچاہٹ رفتہ رفتہ ختم کروا دی۔ ظاہر ہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجا کرتی ہے۔کچھ حالات ایسے تھے کچھ اُس کی بھی رضامندی تھی۔ہوٹل میں باقاعدگی سے آنے والے سیاحوں میںایک امیر کبیر لیکن مغرور اور فہم و فراست میں کورا اور انا پرست لادینی پروفیسر بھی تھا۔اسی نے مصطفیٰ کو شراب اور جوئے کی لت میں مبتلا کیا۔میں اکثر سوچتا کہ یہ عجیب شخص ہے کہ اِسے لکسر کی قدیم تہذیب ، اصلی اور نقلی نوادر ات سے رتی برابر لگائو نہیں ۔ پھر نہ جانے وہ یہاں کیا لینے آتا ہے !
اِس کے برعکس میری طرح کئی ایک سیاح یہاں باقاعدگی سے ہر سال آتے تھے۔ ہم سب کو مصر اور لکسر کی سرزمین کھینچ کر لاتی ۔ ایک دفعہ کوئی صاحبِ ذوق یہاں آ جائے تو اُس مخصوص سانپ کے کاٹے والی کیفیت میں مبتلا ہو جا تا ہے جس کا پورا وجود ہر سال ایک مخصوص زمانے میں بے چین ہو جائے کہ پھر…سانپ آئے اور ڈسے ۔لکسر کے قدیم نوادر، فرعونوں کی تاریخ، بھورے رنگ کا دریائے نیل، یہاں کا صحرا، سنسان اور ویران پہاڑیاں، گہرا نیلا آسمان، طلوع اور غروبِ آفتاب کے انوکھے رنگ اور مقامی لوگ یہ سب مل کر ایک بھاری مقناطیسی کشش رکھتے تھے۔
مصطفیٰ اُس پروفیسر سے جلدگھُل مل گیا۔پروفیسر بھی بر ملا کہتا پھرتا : ’’ دیکھو! ! کتنی بڑی بات ہے کہ اس حوصلہ مند لڑکے نے لکسر جیسے پسماندہ شہر میں رہتے ہوئے مذہبی روایات کے طوق اور زنجیروں کو توڑ ڈالا ہے‘‘۔مصطفیٰ عام طور پر تو اپنے خیالات اپنے تک ہی محدود رکھتا تھا لیکن کبھی کبھار ترنگ میں آ کر وہ کچھ کہہ جاتا جو نہیں کہنا چاہیے۔
اکثر وہ میرا تصویر کشی کا سامان اُٹھا کر میرے ساتھ چلتا اور کبھی ضرورت پڑتی تو بطور ماڈل کافی کافی دیر ساکت بھی بیٹھتا ۔شاید مصطفیٰ کو بھی اس کام میں دلچسپی تھی کیوں کہ اکثر اُس کو باہر کا پیسوں والا کوئی کام مل رہا ہوتا لیکن وہ میرے ساتھ بحیثیت مدد گار کہیں کم پیسوں میں کام کرتا ۔اس طرح ہم دونوں میں باہمی اُلفت پیدا ہو گئی ۔جب کبھی لکسر میں زیادہ تعداد میں سیا ح آتے تو وہ مجھ سے ایک دو دن کی رخصت پر پیسے کمانے نکل جاتا۔میں نے ان پانچ سالوں میں مشاہدہ کیا کہ بنیادی طور پر مصطفیٰ پیسے کا لالچی نہیں تھا۔
یورپی تہذیب کے فوائد اور نقصانات اور مصر ی معاشرے پر اُس کے تباہ کُن اثرات کے بارے میں مصطفیٰ کو آگاہی دینا میرا دردِ سر نہیں تھا بہرحال وہ عجب دوراہے پر کھڑا تھا۔وہ پرانی اقدار سے نکلنے کی تگ و دو میں تھا۔ایک طرف اُس نے پرانی تہذیب کی فرسودہ رسوم جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا، تھام رکھی تھیں اور دوسری طرف نئی تہذیب کے برے اور تباہ کن پہلو اپنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
مصطفیٰ کے قریبی رشتہ دار اور بستی کے لوگوں کے خیال میں مصطفیٰ مرتد اور منکر ہوتا جا رہا تھا۔یہ لوگ ہر وقت اسے شک کی نظر سے دیکھتے اور سخت سست کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔لڑکا بلند حوصلہ تھا لیکن ملامت اورہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ اسے سخت نا پسند تھی ۔وہ بستی کی منافقت کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اُس وقت اُن کی لعن طعن ختم ہو جائے گی الٹا یہ فرشی سلام کرنے لگیں گے جب وہ کامیاب گائیڈ بن جائے گا اور اُس کی جیبوں میں چھنکتے ہوئے چاندی کے سکے ہوں گے۔
وقت گزرتا گیا۔میں ہر سال تقریباََ ایک مہینہ لکسر گزرتا۔مصطففیٰ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا گیا۔ اس کا عمومی مزاج بہت ملنسار اور عاجزانہ تھا۔اسی لئے وہ بستی والوں کی تلخ تُرش باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا۔میرے ساتھ اُس کا تعلق بے تکلف دوست کی طرح ہو گیا تھا لیکن میں نے کبھی اُس کے ’’ ذاتی مسائل ‘‘ پرتبصرہ نہیں کیا۔پھر ایک سال ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس کے بعدبستی والوں کا رویہ مصطفیٰ کے لئے بہتر ہو گیا۔
اُس سال بھی سردیوں کی ایک رات تھی ۔ میں ہوٹل کے کمرے میں سو رہا تھا جب بستی کی طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیں۔ تقریباََ آدھی رات کا وقت تھا اور مجھے کمرے کی کھڑکی پر روشنی کے سائے نظر آ رہے تھے۔میں نے لپک کر کھڑکی کے پردے ہٹائے تو بستی سے آگ کے شعلے بلند ہوتے نظر آئے۔آگ کی روشنی میں لوگوں کی بھاگ دوڑ صاف دکھائی دے رہی تھی۔یہ ہولناک منظر دیکھ کر میں سکتے کی کیفیت میں آ گیا۔آخر لوگوں کی دوڑ دھوپ رنگ لائی ۔پو پھٹنے تک آگ پر قابو پایا جا چکا تھا اور دن چڑھے تک تمام ا بتدائی طبی امداد دے دی گئی۔شام تک مجھے اس واقعے کی تمام تفصیل مل چکی تھی۔
آگ بھوسے کی کوٹھڑی سے شروع ہوئی۔وہاں کیا حادثہ پیش آیا؟ کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکا۔جتنے منہ اُتنی باتیں۔خشک بھوسے نے سیکنڈوں میں آگ پکڑی اور بستی کے ساتھ ساتھ جڑے کچے مکانوں میں سرعت کے ساتھ پھیل گئی۔سردی، رات اور نیند کے باوجود پوری بستی فوراََ بیدار ہو گئی۔ تمام لوگ گھروں سے نکل آئے اور آگ بجھانے کے لئے کوششیں کرنے لگے۔بھوسے کی کوٹھڑی کے ساتھ والے گھروں میں آگ کی شدت زیادہ تھی۔اِن گھروں میں کچھ بچے اور خواتین پھنسے ہوئے تھے۔ مصطفیٰ اپنی جان پر کھیلتے ہوئے انہیں بچانے کے لئے آگ میں گھس گیا۔آگ یا دھوئیں سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔مصطفیٰ خود بھی آگ سے زخمی ہوا مگر لوگوں کو بچانے کے بعد وہ مسلسل آگ بجھانے کو کوششوں میں آگے آگے تھا۔مصطفیٰ کی اس لگن نے اسے بستی والوں کا ہیرو بنا دیا۔پھر اس سال جب تک لکسر میں رہا مصطفیٰ کی محنت اور لگن دیکھتا رہا ۔اس نے سب کام چھوڑ دیے اور بستی کو نئے سرے سے آباد کرنے میں دن رات ایک کر دیے۔ان دنوں میں سنا کرتا کہ تمام لوگ مصطفیٰ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔پھر میں واپس آ گیا۔
اگلے سال میرا لکسر کا قیام بہت خوشگوار تھا۔بستی بہت خوبصورتی سے آباد تھی۔گو کہ مصطفیٰ کے پرانے مشاغل بدستور قائم تھے لیکن اب بستی میں اس کی بہت عزت تھی۔عاجزی و انکساری کا پیکر تو وہ تھا ہی اب وہ محبت کا پیکر بھی بن گیا۔سب اس سے محبت کرتے اور وہ سب سے محبت کرتا۔مصطفیٰ کے ماں باپ کون تھے؟ اس نے کبھی ان کا تذکرہ نہیں کیا تھانہ میں نے ہی کبھی تجسس کیا۔میں نے اسے ہمیشہ اکیلے دیکھا۔اِس مرتبہ میرے قیام کی سب سے خوشگوار بات یہ تھی کہ مصطفیٰ اپنا گھر بسانا چاہتا تھا۔اسے اپنی بستی کی ایک لڑکی پسند تھی اور وہ اس کے والدین کو بستی کے بزرگوں کے ذریعے رشتہ بھی بھجوا چکا تھا۔ یہ سب باتیں مجھے مصطفیٰ نے خود بتائیں۔وہ بتانے لگا:
’’ دو ہفتے ہوئے میں نے رشتہ بھجوایا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ وہ لڑکی بھی مجھے پسند کرتی ہے۔ ویسے ہماری براہِ راست کبھی بات چیت نہیں ہوئی مگر میں نے اس کی نظروں میں اپنے لئے پسندیدگی کے پیغام پڑھ لئے تھے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگاپھر یکدم سنجیدہ ہو گیا۔
’’ نہ جانے کیوںاُس کے والدین پس و پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے ابھی تک مجھے کوئی جواب نہیں بھجوایا‘‘۔
اُس سال وہ پورا مہینہ اسی پس و پیش میں گزر گیا۔میرے قیام کا وقت پورا ہوا اور میں واپس آ گیا۔
اگلا سال تو بہت سی تبدیلیاں لے کر آیا۔میں ابھی لکسر میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو مقامی مصری لباس میں ایک تنو مند جوان کو سامنے کھڑے پایا۔اس کے چہرے پر نفاست سے تراشی ہوئی داڑھی تھی۔اُس نے مسکرا کر سلام کیاتو اُس کی آواز سُن کر میں اچھل پڑا ۔حیرت و خوشی سے میری آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔
’’ مصطفیٰ !!!! ‘‘
مصطفیٰ خوشی سے میرے ساتھ لِپٹ گیا۔
ہم دونوں ذرا سنبھلے تو میں اسے اندر لے آیا ۔میرے الفاظ میرا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔مصطفیٰ سمجھ گیا اور خود ہی بولا :
’’ سر ! ‘‘ وہ ہمیشہ مجھے ایسے ہی مخاطب کرتا تھا ۔
’’ آپ مجھے دیکھ کر حیران ہیں نا کہ یہ کایا پلٹ کیسے ہوئی؟ ‘‘ ۔وہ اب بہت بہتر اور شستہ انگریزی بولتا تھا۔
’’ میں آپ کو زیادہ دیر حیرت میں نہیں رکھوں گا۔میں اسی لئے تو فوراََ آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ کو اپنی خوشی میں شامل کروں۔میں تقریباََ ایک ہفتے سے روزانہ شام کو ہوٹل میں آ کر بیٹھ جاتا اور رات کو واپس جاتا۔آج جب آپ کمرے کی چابی لے رہے تھے تو میں آپ کو دیکھ رہا تھا۔اسی لئے فوراََ آپ کے پیچھے آ گیا‘‘۔
یہ کہہ کر وہ خوشی سے ہنسا۔مجھے کرسی پر بٹھایا۔پانی پلایا اور خود بھی دوسری کرسی پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولا:
’’ سر ! میری منگنی ہو گئی ہے‘‘۔
’’ کیا !!! ‘ میں کُرسی سے اُچھل پڑا اور مصطفیٰ کو زور سے بھینچتے ہوئے کہا ۔ ’’ واقعی ! کب ! کس کے ساتھ؟ اور…اور یہ تمہارا حلیہ؟ ‘‘
مصطفیٰ ہنس پڑا اور مجھے کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہنے لگا:
’’ سر ! میں تفصیل بتاتا ہوں۔آپ کو یاد ہے پچھلے سال میں نے ایک رشتے کا ذکر کیا تھا۔اور کہا تھا کہ وہ پس و پیش کر رہے ہیں بس وہیں رشتہ ہو گیاہے۔اصل بات یہ تھی کہ کوئی مہینے دو مہینے اسی طرح گزر گئے ۔آخر بات یہ کھُلی کہ لڑکی کے والِد یہ چاہتے تھے کہ میں اسلامی شعائر اختیار کروں اور شراب جواء چھوڑ کر نماز روزہ اختیار کروں۔بہر حال… سر ! وہ میرے دین کا ہی حکم مجھے بتا رہے تھے۔ اب میں شش و پنج میں پڑ گیا ۔میرے محلے کے ایک بزرگ مجھ سے بہت شفقت فرماتے ہیں ۔ میں بھی اُن کا کہانہیں ٹالتا۔آخر ایک دن انہوں نے مجھے بٹھایا۔اللہ اور دین کی باتیں سمجھائیں ۔اللہ کے رسول کے فرمان بتائے۔آہستہ آہستہ میری آنکھیں کھُلتی گئیں ۔دِل کا دروازہ بھی کھُلا۔اُن کی ایک بات تو میرے دل میں کھُب کر رہ گئی۔وہ کہنے لگے بیٹا ! لڑکیاں تو تمہیں اور بھی ملیں گی مگر تمہارا رَب تمہیں صرف مسجد میں ملے گا۔ لڑکی کے والدین کے کہنے سے نہیں بلکہ اپنے رب سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے اس کے گھر باقاعدگی سے جا۔ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں تیرا گھر بسا دے گا‘‘۔
اتنا کہہ کر مصطفیٰ دور خلائوں میں کہیں کھو گیا۔ میں مبہوت اُس کی کہانی سُن رہا تھا۔کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی۔پھر وہ آہستہ سے دوبارہ بولا:
’’ ان بزرگ کی بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ اللہ نے چاہا تو اب میں کبھی اِن لغویات میں نہیں آئوں گا۔شراب کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات ، اس کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔اسی وقت عشاء کی اذان ہوئی اور ہم دونوں مسجد کی طرف چلے۔ وہاں میں نے رو رو کر اللہ سے معافی مانگی اور اپنے رب سے بھی عہد کیا کہ اب میں اس کی نافرمانی کا کوئی کام نہیں کروں گا اور اللہ سے دعا کی کہ وہ مجھے اس کی ہمت بھی دے‘‘۔ یہ کہہ کر مصطفیٰ نے آنکھیں بند کر کے اپنا سر کرسی کی پُشت پر ٹیک دیا۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ 180 ڈگری پر خود کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں۔معلوم نہیں یہ اپنے وعدے پر قائم رہ بھی سکا یا نہیں… اُسی وقت مصطفیٰ نے اپنی آنکھیں کھولیں گویا وہ میرے دل کی آواز سُن چکا ہو۔وہ سیدھا ہوا ، مسکرایا اور کہنے لگا :
’’ سر ! وہ دن اور آج کا دن ، میری کوئی نماز با جماعت نہیں چھوٹی…روزے میں پہلے بھی رکھتا تھامگر اس مرتبہ پنچگانہ نماز کے ساتھ روزوں کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔بہرحال لڑکی کے والد شادی پر رضامند ہو گئے۔ہماری منگنی ہو گئے ا ور دو سال بعد شادی ٹھہری ہے۔ چھ ماہ گزرے ہیں۔مجھے امید ہے اگلے ڈیڑھ سال تک میرے پاس اتنی پونجی ہو جائے گی کہ شادی کے اخراجات برداشت کر سکوں‘‘۔
میں نے دل کی گہرائیوں سے اسے دعا دی۔
’’ مصطفیٰ ! مجھے یقین ہے کہ اللہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔اور اگر کسی بھی موقع پر تمہیں میری ضرورت ہو بلا جھجھک کہنا۔میرا پتہ تمہارے پاس ہے جس پر تم مجھے خط لکھ سکتے ہو ۔ ‘‘۔
مصطفیٰ چلا گیا اور میں حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سامان کھولنے لگا۔
میرا وہ مہینہ ہر سال کی طرح مصروفیت میں گزر گیالیکن مجھے اس دوران چند نئی باتوں کا علم ہوا۔ ایک تو خود مصطفیٰ کا رویہ…پہلے دن اُس نے جتنی باتیں کی تھیں اُس کے بعد نہیں کیں۔میرے کام میں مدد دینا، ماڈل بننا، سب ویسا ہی تھامگر خاموشی کے ساتھ …باقی لوگوں کے ساتھ بھی بہت اچھے طریقے سے معاملات نبٹاتا مگر باتیں نہیں کرتا تھا۔بطور گائیڈ بولنا…ایک گائیڈ کے فرائض میں شامل ہے۔ وہ بہت خوش اسلوبی سے یہ فرض نبھا رہا تھامگر بولتا صرف اتنا جتنی ضرورت ہو ! اور مزے کی بات یہ کہ ایسا کرنے سے اس کی مقبولیت میں اور اضافہ ہی ہوا۔
دوسری نئی بات مجھے کئی لوگوں نے بتائی کہ جب مصطفیٰ نے شراب نوشی ختم کرنے کا وعدہ کیا تو اُس نے قسم کھائی تھی کہ اب اگر اُس نے کبھی شراب کو چکھا بھی تو وہ مسجد کی دہلیز پر خود اپنے ہاتھ سے اپنا گلا کاٹ ڈالے گا …خیر یہ اتنا نازک معاملہ تھا کہ میں نے کبھی اس پر مصطفیٰ سے کوئی بات نہیں کی۔
مصطفیٰ کی اِس تبدیلی پر مجھ سمیت پوری بستی اور آنے والے سیاح خوش تھے سوائے ایک شخص کے جو میری اور چند دوسرے سیاحوں کی طرح ہر سال سردیوں میں لکسر آتا تھا۔یہ وہی لادینی پروفیسر تھا جو پہلے مصطفیٰ کے بُرے مشاغل پر تحسین بھیجتا تھا اور اب کی مرتبہ اُسے مصطفیٰ کی یہ بدلتی حالت ایک آنکھ نہ بھائی۔وہ اُٹھتے بیٹھتے طنز کے تیر چلاتا اور اُسکے منہ پر طعنے دیتا۔بہرحال کسی ناخوشگوار واقعے کے رو پذیر ہونے سے پہلے ہی وہ میری موجودگی میں واپس چلا گیااور میں بھی اپنی تعطیلات گزار کر واپس آ گیا۔
اگلے سال سردیاں تھیں اور لکسر تھا۔سب کچھ ویسا ہی تھا۔ مصطفیٰ مزید پُر وقار اور منجھا ہوا گائیڈ بن چکا تھا۔وہ اپنے کیے ہوئے وعدے پر قائم تھا۔وہ بہت خوش تھا کہ اُس نے کافی بچت کر لی ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور خوش گفتار ہو گیاتھا۔بہت روانی سے سلیس انگریزی بولتا جس سے سننے والے پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوتے۔میں بھی خوش تھا۔
لیکن اُس وقت میری خوشی قدرے مُرجھا گئی جب وہی پروفیسر جو مصطفیٰ کا بیری تھا، چند دنوں بعد ہی ہوٹل میں میرا پڑوسی ہو گیا ۔تقریباََ روزانہ ہی رات کے کھانے پر اُس سے ٹاکرہ ہوتا اور وہ میری تمام دن کی محنت اور خوشی کو کلفت میں بدل دیتا۔لیکن مرتا کیا نہ کرتا، مجھے برداشت کرنا ہی تھا۔
پھر اس سال ایک اور مسئلہ ہوگیا۔میں عموماََ سردیوں کے آغاز میں لکسر آتا اور کرِ سمِس سے پہلے گھر لوٹ جاتا ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کرِ سمِس گھر سے باہر منائی ہو۔لیکن اِس مرتبہ یہ ہو گیا۔کچھ ایسی نا گزیر وجوہات آئیں کہ میں کرِ سمِس پر واپس نہ جا سکا۔ہمارے ہوٹل میں میرے اور میرے ’ پڑوسی ‘ کے علاوہ کئی ایک مرد و خواتین بھی قیام پذیرتھے۔کرِسمِس سے ایک دن پہلے ہم سب سیاحوں نے مشاورت کی کہ ہوٹل کا مقامی شیف ہمارے روایتی کِرسمِس کھانے نہیں بنا سکتا کیوں کہ ہم میں سے ایک آدھ پہلے بھی یہاں کرِ سمِس منا چکے تھے۔لہٰذا طے پایا کہ ہم سب مل کر کچھ روایتی کھانے بنائیں گے اور یوں تین طرح کے کھانے طے پا گئے۔ہم لوگوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ بستی کے عمائدین اور تمام گائیڈوں کو بھی اگلے دِن کرِسمِس کی خوشی میں شریک کیا جائے ۔
’’ اگر آلو بخارے کی پڈنگ بن جائے تو میںیہ سمجھوں گی کہ اپنے وطن ہیں ہوں‘‘۔ ایک انگریز خاتون نے تجویز پیش کی۔
’’ ارے آلو بخارے کی پُڈنگ ! بالکل بیکار شے ہے۔یہ تو صرف بچے ہی کھاتے ہیں۔بہرحال یہاں کا شیف تو صرف کسٹرڈ ہی بنا سکتا ہے وہ بھی…‘‘۔ ہر ایک بات کی مخالفت کی عادت سے مجبور ہو کر پروفیسر نے کہا۔
ہم سب خود کون سے ماہر شیف تھے لیکن سب جُت گئے۔ کرِسمِس کے کھانے بنانے بس ایک تفریح ہی تھی۔ہا ہا ہا …ہم نے کِس معیار کے بنائے یہ بھی سُن لیجئے۔بھُنا گوشت جو بنایا گیا وہ ایسا تھا جیسے چمڑا۔کم و بیش یہی حال دیگر کھانوں کا تھا۔ البتہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آلو بخارے کی پڈنگ خاصی لذیذ بنی۔ابھی ہم نے وہ پڈنگ کھانا شروع ہی کی تھی کہ پروفیسر ’ وائٹ سوس ‘ کی بڑی بوتل لے کر آیا۔
’’ لو ! اصل مزہ تو اس کے ساتھ آئے گا۔یہ تھوڑی تھوڑی پڈنگ پر ڈال کر کھائو ! ہا ہا ہا ‘‘۔ اُس کی بے تکی ہنسی اور بے سروپا مذاق کے ہم لوگ عادی تھے۔
’’ ارے ! یہ تو برانڈی ہے؟‘‘۔ ایک امریکی سیاح نے کہا۔
’’ ہا ہا ہا ۔ میں نے سوس کی بوتل میں برانڈی ڈالی ہے۔سوس کا مزہ دوبالا ہو جائے گا‘‘۔ پروفیسر نے ہنستے ہوئے کہا۔
اب ہاتھ میں سوس کی بوتل لئے پروفیسر نے میزبان بن کر سب لوگوں کی پلیٹوں میں پُڈنگ کے اوپر برانڈی والی سوس ڈالنا شروع کی۔ پھر وہ کہنے لگا:
’’ اب میں ہوٹل کے شیف، کچن کے مددگار اور باہر موجود لوگوں کو تھوڑی تھوڑی پڈنگ چکھائوں گا کہ یہ ہوتی ہے پڈنگ۔ہا ہا ہا ہا ! ‘‘۔
ہم میں سے کسی نے بھی پروفیسر کی کسی بھی بات پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اُس کے یہاں سے چلے جانے پر سُکھ کا سانس لیا۔
تقریباََ دس منٹ بعد وہ ہنستا ہوا واپس آیا ۔ ہمارے ساتھ کرسی پر بیٹھنے کے بعد بھی مسلسل ہنسے جا رہا تھا۔ہنس ہنس کر اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔’’ بہت ہی تفریح رہی۔ تم لوگ بھی وہاں ہو تے تو مزہ آ جاتا‘‘۔
’’ پروفیسر ! کہاں؟ ‘‘۔ایک خاتون نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہوٹل کے دروازے پر! جہاں مقامی افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کو تھوڑی تھوڑی پڈنگ دی اور کہا کہ یہ ہماری ملکہ کی پسندیدہ پڈنگ ہے جو وہ روزانہ دن میں ایک بار ضرور کھاتی ہیں۔ہا ہا ہا …اور ہاں وہاں مصطفیٰ بھی تھا‘‘۔پروفیسر نے میری جانب رُخ کر کے کہا۔’’ میں نے اُسے بھی پڈنگ کھلائی جو وہ مزے لے کر کھانے لگا۔پھر میں نے کہا کہ اس پڈنگ کے ساتھ یہ سوس بھی لازم ہوتی ہے ۔اِس پر اُس نے پوچھا کہ یہ سوس ہی ہے نا؟ میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ سوس کی بوتل ہے بس اس میں شکر ڈالی گئی ہے۔بس میں نے بوتل مصطفیٰ کے منہ سے لگائی اور اُس نے ایک دو لمبے گھونٹ لئے۔ہا ہا ہا … بڑا آیا قسمیں کھانے والا ہونہہ ! ‘‘۔
اُس کی بات سُن کر میں بھونچکا رہ گیا۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اپنی خباثت میں اس حد تک پہنچ جائے گا۔دفعتاََ غصہ میری آنکھوں میں اُتر آیا اور آواز کے ذریعے بہنے لگا۔
’’ دیکھو مِسٹر ! تم اپنی ذِلّت اور خیالات سے کتنا ہی دوسروں کو اذیت دو لیکن کسی کی مذہبی حدود کی پامالی کا تمہیں کوئی اختیار نہیں۔ تم اخلاقاََ اِس بات کے پابند ہو کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں ٹانگ نہ اَڑائو ۔ جب کہ تم اچھی طرح یہ بات جانتے ہو کہ مصطفیٰ نے قسم کھا رکھی ہے ! اگر اسے پتا چل گیا کہ وہ کیا پی چکا ہے تو …؟ ‘‘۔
’’ ہاں ہاں ! مجھے معلوم ہے ! گلا کاٹنا اور وہ بھی اپنا۔ ہونہہ ! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں‘‘۔ اُس نے نخوت سے سر جھٹکا۔
’’ کہنے کی باتیں ہیں یا نہیں مگر برائے مہربانی کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا کم از کم تمہیں کوئی حق نہیں ‘‘۔
پھر ہم دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔میں رات گئے تک سوچتا رہا مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔
صبح سویرے ہی ہوٹل کے باورچی خانے میں ہماری جانب سے بستی کے عمائدین اور گائیڈوں کی دعوت کی تیاریوں کی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ شام کو بستی سے مہمان آنا شروع ہو گئے۔مصطفیٰ بھی آیا۔ حسبِ عادت خاموش، کسی سوچ میں گُم لیکن چہرے پر مدھم مسکراہٹ۔آٹھ بجے کھانے کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے بستی والوں کو پھلوں کا شربت دیا ۔پھر کھانے کا دور چلا ۔ آخر میں ایک میٹھا پکوان۔تمام مہمانوں نے خوب مزے لے کر یہ پکوان کھائے۔میٹھے پکوان کی بھی خوب تعریفیں ہوئیں۔ کسی نے اِس میٹھے کے بنانے کی ترکیب پوچھ لی ۔شاید پروفیسر اب تک اسی سوال کے انتظار میں خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ فوراَ َ خوشی خوشی اجزائے ترکیبی بتانے لگا۔جیسے ہی اُس نے برانڈی کا لفظ ادا کیا تو میں ساکِت ہو گیا۔ چپکے سے مصطفیٰ کو دیکھا۔اُس کے ویسے ہی دھیمے دھیمے تاثرات تھے۔وہی مسکراہٹ …گویا اُس نے کچھ سُنا ہی نہیں۔
کب تقریب ختم ہوئی، کب لوگ گئے مجھے علم نہیں…میں صرف مصطفیٰ کو سوچ رہا تھا۔سب لوگوں کی طرح وہ بھی سب سے مصافحہ کر کے رُخصت ہو گیا۔میں کمرے میں آ گیا۔
پریشان کُن خیالات نے مجھے ٹھیک سے سونے بھی نہ دیا۔میں ایسی ہی ادھ سوئی کیفیت میں تھا کہ باہر سے ایک شور سا اُٹھا۔کسی نا معلوم جذبے کے تحت میں اسی حالت میں باہر بھاگا۔باہر ابھی اندھیراتھا۔لوگ فجر کی نماز کے لئے مسجد کی طرف جا رہے تھے اور شور کی آواز بھی اُدھر سے ہی آ رہی تھی۔میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ہاں ! یہ تو مسجد کے باہر ہی لوگوں کا جمگھٹا ہے اور…
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔مجھے محسوس ہوا کسی نے مجھے پکڑ رکھا ہے اور مقامی زبان میں مجھے ہوش میں آنے کا کہہ رہا ہے۔ میں نے خود کو سنبھالا ۔لوگوں کی اکثریت مجھے جانتی تھی۔ انہوں نے راستہ چھوڑا اور اب میرے سامنے مصطفیٰ تھا…اُس کا گلا کٹا ہوا تھا اور جسم بے جان۔اتنے میں لوگ چار پائی لے آئے۔ اس پر مصطفیٰ کو رکھا۔مسجد دھوئی نماز ادا کی اور دن چڑھے جنازہ تیار کرنے لگے۔میں نے کمرے میں آ کر کپڑے بدلے اور تمام وقت مصطفیٰ کے جنازے کے ساتھ رہا۔ سیاحوں  میں واحد میں ہی تھا جو جنازے کی تدفین تک لوگوں کے ساتھ رہا۔باقی تمام سیاحوں کو خبر ہو گئی تھی مگر کوئی باہر نہ آیا۔دوپہر تک تدفین مکمل ہو گئی اور میں ہوٹل واپس آ یا۔
صبح سے ایک کھِیل تک اُڑ کر میرے منہ میں نہیں گئی تھی۔میں ڈائننگ ہال میں ہی بیٹھ گیا۔کھانے کا آرڈر دیاتو پروفیسر کو پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا۔میں نے رُکھائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھنے کی دعوت بھی نہیں دی اور اسے گھُور کر دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا :
’’ کچھ باتیں صرف کہنے کی نہیں ہوتیں …کر گزرنے کی ہوتی ہیں‘‘۔
اُس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن میں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر کے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔بیرا کھانا چُننے لگا اور پروفیسر چلا گیا۔
کھانا کھا کر میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔مجھ پر ایسا تکان کا غلبہ ہوا کہ میں بے خبر سو گیا۔نہ جانے کتنی دیر سویا کہ ایک شور سے میری آنکھ کھُل گئی۔شور میرے کمرے کے باہر تھا۔بمشکل اُٹھا، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے ۔کچھ لوگوں نے انہیں پکڑ رکھا ہے ۔بالآخر انہیں ٹھنڈا کر کے کمرے میں لے جایا گیا۔معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے مصطفیٰ اِن کے کمرے میں آیا تھا اور اُس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا۔
’’ تم سب نے مجھے بے وقوف بنایا ہے۔مصطفیٰ زندہ ہے۔میں نے خود اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اس کے ہاتھ میں خنجر بھی تھا۔تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘۔
اُس نے آخری فِقرہ مجھے دیکھ کر کہا۔
’’ نہیں ! میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔تُم سب میں سے کوئی بھی جنازے میں نہیں آیا۔تم آتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ اب میں کیسے تمہیں یقین دِلائوں‘‘۔
لیکن اُس نے میری کسی بات کا یقین نہیں کیا۔بالآخر اسے اس بات پر آمادہ کر لیا ایک اور شخص اُس کے ساتھ کمرے میں سوئے۔
اگلی چار راتیں بہت کربناک تھیں۔دِن تو خیریت سے گزر جاتا ۔رات کو مقیم سیاحوں میں سے کوئی ایک اس کے کمرے میں سوتا۔ بے چارہ سوتا کیا تھا…آنکھوں میں رات کٹتی تھی۔جونہی بشری تقاضوں کے تحت رضا کار شخص کی آنکھ لگتی پروفیسر چیخ و پکار سے اسے اُٹھا دیتا۔ہر اک مرتبہ یہی کہتا کہ ابھی مصطفیٰ یہاں آیا تھا۔سب عاجز آ گئے۔کسی کے پاس اس وہم کا کوئی علاج نہیں تھا۔صرف مجھے علم تھا کہ یہ سب کیا ہے !!!!
پانچویں رات میری باری تھی۔میرے ساتھ دو تین سیاح اور بھی پروفیسر کے کمرے میں آ گئے کچھ دیر خوش گپیاں ہوتی رہیں پھر باقی لوگ چلے گئے اور ہم دونوں کمرے میں رہ گئے۔
میں کمرے میں کرسی پر بیٹھا تھا اور پروفیسر اپنے بستر پر نیم دراز تھا۔
ــ ’’ کیا واقعی مصطفیٰ مر چکا ہے؟ ‘‘۔اُس نے آہستہ سے سوال کیا۔
’’ ہاں وہ مر چکا ہے اور ویسے ہی جیسے اُس نے قسم کھائی تھی ‘‘۔میں نے بھی رسان سے جواب دیا۔
’’ پھر وہ کون ہے جو روزانہ را ت کو کمرے میں آتا ہے؟‘‘۔پروفیسر اپنے بستر پر سیدھا بیٹھ کر مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’ دیکھو ! جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔میں نے تمہیں سمجھایا بھی تھا کہ مذہبی جذبات سے نہ کھیلو۔اُس وقت تم نے میری نہ سُنی۔اور قسم کھانے والے نے اپنی قسم پوری کر لی۔ رات کو مصطفیٰ نہیں آتا۔تمہارا ضمیر آتا ہے‘‘۔میں نے سچ اُس کے سامنے رکھ دیا۔
’’ ہاں ! شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔لیکن اب میں کیسے اُس سے چھٹکارا حاصل کروں ! ‘‘۔وہ کچھ سوچنے لگا۔
’’ لیکن نہیں ! وہ واقعی مصطفیٰ ہی ہے۔وہ مجھے گھُور کر دیکھتا ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اُس وقت آتا ہے جب کُرسی پر بیٹھے شخص کو اونگھ آتی ہے۔پھر جونہی میں اُس کو چیخ کر اُٹھاتا ہوں وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ہاں ہاں ! وہ مصطفیٰ ہی ہے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے پروفیسر نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور یہی دھراتا رہا ’’ وہ مصطفیٰ ہی ہے‘‘۔
میں اُٹھا ، اُسے تسلّی دی۔بستر پر لِٹایا۔ ’’ تم سو جائو۔ میں اپنا مصوری کا سامان لایا ہوں صبح تک ایک تصویر مکمل کرنا ہے۔تُم فِکر نہ کرو آج مصطفیٰ نہیں آئے گا‘‘۔
میں نے اپنا سامان نکالا اور کام شروع کر دیا ۔پروفیسر شاید سو ہی گیا تھاجب کام کرتے کرتے میں نے آرام کی غرض سے اپنی پشت کو کرسی سے ٹیک دی۔نیند کے جھونکے نے مجھے کچھ دیر کے لئے گردوپیش سے بے نیاز کر دیا۔پھر اچانک میری آنکھ کھُل گئی۔ہر طرف خاموشی تھی۔میری نظر بستر کی طرف گئی اور میں جھٹکے سے سے سیدھا ہو گیا۔بستر خالی تھا۔میں غسلخانے کی طرف لپکا وہ بھی خالی تھا۔کمرے کا دروازہ نیم وا تھا ۔ میں تیزی سے باہر نکلا۔راہداری میں کوئی نہیں تھا۔میں بھاگتا ہوا ہوٹل کے بڑے دروازے باہر سڑک پر آ گیا۔گہری رات کا سنّاٹا چاروں طرف بول رہا تھا۔میں سوچنے لگا کِس طرف سے تلاش شروع کروں ۔ناگہاں ایک شخص تیزی سے میری طرف آتا دکھائی دیا۔اُس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا۔تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنا رُخ مسجد کے راستے کی طرف کر لیا۔میرا دل کسی انجانے خطرے سے زور زور سے دھڑکنے لگا ۔دور مسجد کے قریب چند لوگ کھڑے تھے اور مسجد کی دہلیز پر کوئی لیٹا ہوا تھا۔ میں آگے بڑھا۔ سب لوگ احترا ماََ پیچھے ہٹ گئے۔اور ایک لمحے کے لئے میرے دل کی دھڑکن تھم گئی۔وہ وہی تھا۔وہ بالکل اُسی طرح مسجد کی دہلیز پر پڑا تھا جیسے مصطفیٰ پایا گیاتھا۔بس فرق یہ تھا کہ مصطفیٰ کی گردن کٹی ہوئی تھی لیکن اِس کی گردن سلامت تھی بس آنکھیں حلقوں سے اُبلی پڑی تھیں۔ دہشت اُس کے چہرے پر چپک کر رہ گئی تھی ا ور وہ خود مر چکا تھا۔
میں نے آگے بڑھ کر اُس کی آنکھیں بند کیں۔وہ ضمیر کا قیدی اپنی ہی عدالت میں سزا پا چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles