29 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

بولتے مجسمے

بولتے مجسمے
تحریر
شاہد لطیف

اُن کے نزدیک برّاعظم افریقہ تو بس خزانوں کے نِچوڑنے کی جگہ تھی۔ایک طرف تو وہ اِس سے نفرت کرتے اور ڈرتے تھے اور دوسری طرف مال و زر کے لئے اِس سے پیار بھی جی کھول کر کرتے تھے۔ شاید اَسی لئے تو کہا جاتا تھا کہ افریقہ افریقہ ہے۔افریقہ نے ہی اِن دونوں کو باہم ایک کر رکھا تھا۔ ابراہیم دائودی، ممباسا، کینیا Kenya کا رہنے والا تھا لیکن پلا بڑھا امریکہ کے شہر شکاگو میں تھااو ر محمو د علی دائود ، شام کے شہر دمشق کا رہنے والا تھا۔یہ عرب ، عجیب و غریب شخصیت کا مالک تھا ۔ ایک طرف ہمدرد تو دوسری طرف غصّہ کا تیز، ایک طرف سخت گیر تو دوسری جانب لوگوں میں بے حد مقبول بھی تھا، طبیعت میں سادگی بھی اور بے چینی بھی تھی گویا اُسکی طبیعت مجموعہء تضاد تھی۔
Dowdy & Dawud دائودی اینڈ دائود اِن کی فرم کا نام تھا جو وسطی افریقہ میں کافی مشہور تھی۔اِس تمام علاقے او ر دریائے کانگوکے اطراف میں رہنے والے سب اِن سے واقف تھے۔
یہ زیادہ تر ہاتھی دانت اور شتر مُرغ کے پروں، ربڑ، سونا، قیمتی موتی اور مختلف اقسام کے نباتات اور کونین کا لین دین کرتے تھے ۔ دریائے کانگو کے بالائی حصہ میں اِن کے کارخانے، گودام، گودیاں اور دفاتر واقع تھے۔دریائی آمد و رفت کے لئے اِن کے اپنے چھوٹے ، اسٹیمر چلتے تھے۔سال میں دو مرتبہ وہ بڑے بحری جہاز منگوا کر اپنا برآمدی مال لیور پور Liverpool برطانیہ بھجوایا کرتے تھے۔
اب اِن کا کاروبار اِس سطح پر پہنچ چکا تھا کہ وہ مونہہ مانگی قیمت پر کانٹی نینٹل چارٹرڈ کمپنی Continental Chartered company کو اپنا یہ چلتا کاروبار فروخت کر سکتے تھے۔وہ حریف کمپنی کہ جِس کے ساتھ انہوں نے دس سال مُقابلہ کر کے اُس کو تقریباََ منظر سے ہٹا دیا تھا۔ اِس سودے کے بدلے ، دائودی امریکہ کے شہر شکاگو میں ایک عا لیشان مکان میں ٹھاٹھ سے ساری زندگی رہ سکتا تھا جو اُس کا ایک پُرانا خواب تھا۔جبکہ محمود علی دائود دمشق میں ایک آرام دہ زندگی کا ارمان پورا کر سکتا تھا۔ جہاں ایک خوب پھلنے پھولنے والا باغ ہوتا۔
’’ عرب کے کھجوروں کی تمام ہی اقسام میرے باغ میں ہوں گی، ‘‘۔وہ اکثر اپنے شریکِ کار سے یہ بات خوب چٹخارے لے لے کر کہا کرتا تھا ۔ اِن خوہشات کے اظہار کے دوران بحث و مباحثہ اور کشیدگی بھی ہوتی، ایک دوسرے کو بُرا بھلا بھی کہا جاتا مگر پھر بھی یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔یہ کہانی سالوں سے چلی آ رہی تھی۔کیوں؟ اِس لئے کہ یہ افریقہ تھا۔اِس کا میٹھا میٹھا زہر، اِن کی روح میں اُتر چکا تھا ۔
کچھ عرصہ سے اِن دونوں کو ایک عجیب مسئلہ نے گھیر رکھا تھا…
دائودی نے ایک گہرا سانس لیا اور محمود کے چہرے پر نظریں جما دیں۔
’’ دیکھو محمود، ‘‘ اُس نے کہنا شروع کیا۔’’ پچھلے چار مہینوں میں، اب ہمارا یہ تیسرا آدمی غائب ہوا ہے۔ ہم اپنے اِس تجارتی اسٹیشن کو اپنے ہاتھ سے ہر گز نہیں جانے دیں گے۔ دریائے کانگو کے بالائی علاقے کا یہ بہترین اسٹیشن ہے۔ہمارے حریف تو پہلے ہی زخموں کو چاٹ رہے ہیں ، وہ تو ہم پر چڑھ دوڑیں گے ‘‘۔
دورانِ گفتگو ، محمو د لکڑی کے دانوں والی ایک لمبی سی تسبیح کے دانے گنتا رہا۔اب اُس نے بھی مونہہ اوپر کر کے اپنے مقابل کو دیکھا۔
’’ ہمارے پاس کئی ایک وفادار اور محنتی لوگ ہیں جو وہاں پر بہترین نتائج دے سکتے ہیں…اور علاقے اور وہاں کے لوگوں سے بھی واقف ہیں‘‘۔
’’ وہ تو پھر صریحاََ قتل ہو گا محمود! یہ بھی غائب ہو جائیں گے جیسے اِن سے پہلے والے والے گُم ہو چکے ہیں‘‘۔
جواب میں محمود علی دائود نے اثبات میں سر ہلایا۔’’ بد قسمتی تو جیسے ہماری گردنوں پر سوار ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ اندرون جنگل والوں کی حرکت ہو ‘‘۔
’’ نہیں نہیں وہ تو اِس قصّہ میں کہیں دور دور نہیں ہیں‘‘۔
محمود نے اپنا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا: ’’ میرے دوست اگر میری بات کا کوئی ثبوت نہیں ، تو تمہاری بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ اُن کا ہمارے آدمیوں کے غائب ہو جانے سے کوئی تعلق نہیں۔ہمیں تو کچھ علم ہی نہیں ‘‘۔
دائودی غصّہ سے بولا:’’ یہ تو ثابت ہے نا کہ ہمارے یکے بعد دیگرے، تین بہترین آدمی اسٹیشن سے پراسرار طور سے غائب ہو گئے‘‘۔
محمود مُسکرایا۔’’ اِس سب کے با وجود کہ ہمارے اُس دور افتادہ اسٹیشن سے آدمی غائب ہو رہے ہیں ،ابھی بھی بہت سے لوگ وہاں پر جانے کے لئے تیار ہیں ۔یہ دیکھو اُن کی درخواستیں‘‘ ۔ اُس نے سامنے میز پر رکھے کئی خطوط اٹھا کر دکھائے۔
دائودی نے نظر بھر کر محمود کی طرف دیکھا۔’’ یقیناََ ہم توپھر نہایت گھٹیا درجے کے قاتِل ہوں گے‘‘۔
’’ تُم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمام غا ئب ہونے والے قتل کئے گئے ہیں؟‘‘۔
’’ یہ میں کیسے جان سکتا ہوں؟ لوگ ایسے ہی تو بیٹھے بٹھائے غا ئب نہیں ہو جاتے؟ کوئی سراغ چھوڑے بغیر…‘‘۔
محمود کے چہرے پر مُسکراہٹ کھیل گئی۔ ’’ اللہ سب سے بڑا ہے‘‘۔اور دوبارہ تسبیح کے دانے گھُمانے لگا۔
دائودی کُرسی سے اُٹھ کر کھڑ کی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور باہر دیکھنے لگا۔ وہ اپنے اُس عظیم ’ لا پو پو ‘ اسٹیشن کے بارے میں سوچنے لگا جو دریائے کانگو کے بالائی حصّہ میں۳۰۰ میل کی مسافت پر تھا۔ اِن کی فرم ڈبل ڈی “Double-Dee” کا یہ سب سے زیادہ اہم اسٹیشن تھا۔یہاں دریا کا پانی گہرا اور چھوٹے بڑے اسٹیمروں کے لئے گودیاں بہت محفوظ تھیں۔اسٹیشن کے شمال کی جانب گھنے جنگلات تھے جو ہاتھی دانت کے سلسلہ میں شاید پورے افریقہ میں سب سے زیادہ مشہور تھے۔ اِن کے لئے تو ہ ایک ناختم ہونے والا دولت کا سرچشمہ تھا۔یہیں سے یہ اپنا مال و اسباب برطانوی بندرگاہ لیور پول Liverpoolاور جرمن بندرگاہ بریمن Bremen کو برآمد کرتے تھے ۔یہاں کے مقامی لوگ بہت دوستانہ اور اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔پھر بھی نہ جانے یہ سب کیسے ہو رہا تھا؟
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ہینڈرک Hendrick لمبا چوڑ ا اور نسلاََ ’ بور ‘ Boer تھا۔یہ بو ر جنوبی افریقہ کے اصل ڈچ آبادکاروں کی نسل سے تھے جِن کو اب تک ’ افریقانہ ‘ یا Afrikaners کہا جاتا ہے۔یہ اِس اسٹیشن پر کئی سالوں سے اِن کی فرم کا ایجنٹ چلا آ رہا تھا۔ اِس کی ان تھک محنت نے اسٹیشن کو ایک نہایت منافع بخش مرکز بنا دیا تھا۔سال میں ایک مر تبہ ایک خاص زمانے میں وہ اپنے دور اُفتادہ مقام سے شہر میں تین ہفتوں کے لئے تعطیلات گزارنے آیا کرتا تھا۔ بڑے پیمانے پر خوب دِل کھول کے تفریح اورموج میلا کیا کرتا۔
تقریباََ چار ماہ قبل اسی تفریح کے سلسلہ میں وہ کچھ زیادہ ہی نشہ پانی کر گیا نتیجہ میں راہیِ عدم ہوا۔
پھر یکے بعد دیگرے تین ایجنٹ وہاں بھیجے گئے جو تمام ہی افریقانہ ، ایمان دار، منصفانہ سلوک کرنے والے اور مقامی مزدوروں کی نفسیات ، رہن سہن اور زبان سمجھنے والے تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اِس ’ لا پوپو ‘ اسٹیشن پر ذمّہ داری سنبھالنے سے قبل اِن کی فرم کے دیگر اسٹیشنوں میں اپنی بہترین ساکھ بنا چکے تھے۔
پچھلے چار مہینوں میں ایک ایک کر کے یہ منظر سے غائب ہوتے چلے گئے۔سمجھ میں نہہیں آتا تھا کہ ابھی یہاں تھے اگلے لمحہ غائب۔ زمین کھا گئی یا آسمان؟ کسی کو کچھ علم نہیں ہو سکا۔چلو اِن میں سے کسی کو تو کوئی پیغام چھوڑنے کا موقع مِل جاتا۔
بظاہر ان کے یوں اچانک غائب ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اسٹیشن کے کھاتے، لین دین سب کا سب درست تھا۔تمام غائب ہونے والے افراد درمیانی عمروں کے تھے، اِن میں کوئی ایک بھی شکار کا جنونی نہیں تھا۔کسی کی بھی ذاتی دشمنی نہیں تھی، اور اُن کو مقامی افراد سے کوئی مسئلہ بھی نہیں رہتا تھا۔بس وہ سب بیٹھے بٹھائے لا پتہ ہو گئے۔
مقامی کھوجیوں کی ایک دفعہ نہیں، کئی مرتبہ خدمات حاصل کی گئیں؛ جنہوں نے سر توڑ کوشش کی لیکن لا حاصل ! پھر جب تیسرا شخص غائب ہوا تو قریبی شہر سے باقاعدہ ایک سراغ رساں بلوایا گیا جو ’ چوتارا ‘ تھا۔(وہ شخص جِس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک مقامی افریقی ہو)۔اِس غریب نے بھی یڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔
تب پھر دائودی خود دریا کے راستے ’ لا پوپو ‘ گیا۔ہر طرح کی تفتیش اور چھان بین کروا دیکھی۔ آس پاس کے بااثر افراد کو رِشوت اور مُٹھی گرم کرنے کی تگڑی پیش کش بھی کی، انعامات کا باقاعدہ اعلان بھی کروایا۔ اطراف میں میلوں جنگل چھنوا ڈالا۔اندرون جنگل بستیوں میں خود چل کر گیا اور پیار اور دھمکیوں سے تفتیش کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر ایک ہلکا سا بھی اشارہ نہیں ملا کہ اسٹیشن سے غائب ہونے میں کسی بھی طرح ، مقامی لوگوں کا کوئی ہاتھ ہے۔
اور آج ہی صبح ، بد دِل اور تھکاوٹ سے چُور، دائودی، لاپوپو اسٹیشن سے ناکام واپس لوٹا تھا۔
’’ محمود ! اب بتائو ہم کیا کریں؟‘‘۔
’’ ایک چیز تو ہم ہر وقت ہی کر سکتے ہیں۔ہم اپنے تمام اثاثے ’ چارٹرڈ کمپنی ‘ کو فروخت کر دیں۔
دائودی نے اِس بات کے جواب میں ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ’’ اپنی فرم کو بیچ ڈالیں؟ اسرار کی تہہ تک پہنچے بغیر؟۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں! میں ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتا ‘ ‘۔
محمود نے اُٹھ کر گلاس میں پینے کا پانی ڈالا : ’’ اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے‘‘۔کہتے ہوئے پانی پی گیا۔
پھراپنے ساتھی کی جانب متوجہ ہوا۔
’’ تم بھی دوسروں کی طرح ہمیشہ اپنی ہٹ دھرمی اور ضد سے حالتِ جنگ ہی میں رہتے ہو۔قسمت سے لڑنے کا بھلا کیا فائدہ؟۔یہ قسمت ہی ہے جوزمین سے آسمان تک عروج دیتی ہے یا آسمان سے پٹخ کر فرش پہ دے مارتی ہے۔میرا اب بھی یہی مشورہ ہے کہ اپنی فرم کو بیچ کر تُم اور میں اپنے اپنے ملک چلتے ہیں‘‘۔
دائودی نے اِس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔مونہہ اوپر اُٹھا کر خالی نظروں سے چھت کو تکنے لگا۔
اِسی دوران ، اُن کے مکان کے چاروں طرف احاطہ کئے ہوئے برامدے میں سے ایک بے ہنگم سا شور اُٹھا، مقامی لوگوں کی
بے سر و پا گفتگو کرنے کی تیز اور چبھتی ہوئی آواز آنے لگی ۔یہ اُن کے ملازمین تھے جو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔گاہے بگاہے فضول قسم کے قہقہے بھی شامل ہو جاتے۔
دائودی نے اِس کی کوئی پروا نہیں کی کیوں کہ پچھلے بیس سالوں سے وہ اِس قسم کا شور و غُل سُنتا چلا آ رہا تھا۔اُس کے نزدیک یہ افریقہ کی ثقافت کا ایک حصّہ تھا۔جیسے ڈھول بجا بجا کر ایک بستی سے دوسری کو راتوں میں پیغام دینا۔
مگر اب کی دفعہ کچھ ایسا ہوا کہ وہ بھی ہوشیار ہو کر پوری توجہ سے سُننے کی کوشش کرنے لگا۔
کسی نے مقامی لہجے میں اُن کے بدقسمت اسٹیشن لا پوپو کا نام لیا۔پھر کوئی سرگوشی میں دوبارہ اُن کے اسٹیشن کا نام لینے لگا۔
اِس پر اُس نے اپنے ساتھی اور شریکِ کار محمود سے کہا: ’’ تو اب یہ بھی۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’ ہاں ، ‘‘ محمود نے اُس کا جملہ مکمل کرتے ہوئے کہا ’’ یہ بھی اُن تین گُم شدہ افراد کا ذکر کر رہے ہیں۔اب تو یہ کہانی بستی بستی جنگل جنگل مقبول ہو گئی ہے۔دیکھ لو ! اِن کے اعلانیہ ڈھولوں نے ، ۳۰۰میل دور تک یہ خبر پہنچا دی ہے۔اور پھر بھی اِن خطوط کی تعداد کو دیکھو ۔ یہ لوگ اِس کے با وجود وہاں ملازمت کے لئے بے چین ہیں‘‘۔ اُس نے سامنے رکھے خطوط ہاتھ میں لے کر ہوا میں اُچھالے۔
اچانک باتوں کی بھنبھناہٹ ایک دم رُک گئی۔ کچھ دیر مکمل خاموشی چھائی رہی۔پھر کوئی مقامی لہجے اور انداز سے ہٹ کر بات کرنے لگا۔مگر پھر فوراََ ہی آواز اِس قدر دھیمی ہو گئی کہ دائودی اور محمود کو سُننا بھی مشکل ہو گیا۔دوبارہ ایک سکوت چھا گیا۔
پھر وہی آواز اُبھری۔
’’ کچھ تُم نے بھی سُنا محمود؟‘‘۔ دائودی نے سوال کیا۔
وہ اُٹھا اور ہاتھ کے اَشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔دبے پائوں برامدے کے پاس، دروازے پر اپنے کان لگا دئے۔ باہر سے پھر وہی آواز اُبھری؛ اب کی دفعہ ایک کام کا لفظ ہاتھ لگا ’ اوم لینو ‘ ۔ پھر دوبارہ یہی لفظ ’ اوم لینو ‘ بولا گیا۔لفظِ اوم لینو برِاعظم افریقہ، خاص طور سے وسطی اور جنوبی افریقہ میں ’ جادوگر ڈاکٹر ‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تکالیف رفع کرنے والا دانا آدمی ہوتا ہے جو در اصل جادو کے بد اثرات کو مریض سے دور کرتا ہے نہ کہ خود جادو کرتا ہے۔
محمود نے پوری توجہ سے مزید کچھ اور سُننے کی کوشش کی لیکن کچھ سُنائی نہیں دیا۔پھر وہ اپنے کاروباری شریکِ کار کے پاس آ گیا۔
’’ یہ لوگ کسی نئے اوم لینو کے آنے کی بات کر رہے ہیں‘‘۔
’’ یہ بات کون کر رہا تھا؟‘‘۔ دائودی نے سوال کیا۔
’’ وہ چپٹے چہرے والا نیا لڑکا ’ مَا کُو پُو ‘ Makupo ہے‘‘۔محمود نے جواب دیا۔
’’ اچھا! مجھے بتلایا گیا ہے کہ کسی اندرون جنگل بستی سے ہماری ملازمت میں آیا ہے ‘‘۔
’’ ہاں ہاں وہی‘‘۔
’’ بھلا اُس کا اِس دوا دار و والے آدمی سے کیا تعلق ہے؟۔اور خود اِس ’ اوم لینو ‘ کا ہمارے گمشدہ لوگوں سے کیا لینا دینا ہو سکتا ہے؟‘‘۔ دائودی نے کہا۔اِس کے ساتھ ہی وہ ایک دم غصّہ میں آ گیا۔’’ میں اُس کو وہ سبق سِکھائوں گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔اپنی ہی بات ادھوری چھوڑ کر الماری میں سے گینڈے کی کھال کا بنا، ہنٹر نُما کوڑا اُٹھاتے ہوئے محمود کی طرف دیکھا۔
محمود علی نے بہت اطمنان سے اُس کے کاندھے پکڑ کر واپس کُرسی پر بٹھا دیا۔اور نرم لہجہ میں بولا: ’’ میرے دوست ! غم کرنا چھوڑ دو ۔ اِس اسرار سے پردہ اُٹھانے کے لئے اب میں شمال کی جانب جائوں گا‘‘۔
دائودی نے مونہہ اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا۔
’’ مگر ، ‘‘ اُس نے تھکاوٹ سے کہا ’’ میں وہیں سے تو ابھی آ رہا ہوں‘‘۔
محمود اُس کے برابر بیٹھ گیا۔
’’ ہاں! ، ‘‘۔ اُس نے کہا ’’ مگر جب تم وہاں گئے تھے تو یہاں کے مقامی اور وہاں شمال کے اِس ڈاکٹر کے درمیان، نہ کوئی ر ابطہ تھا نہ یہ باتیں کہ’ اوم لینو ‘ بڑے بڑے کمالات اور معجزات دِکھلا رہا ہے۔ میں نے ابھی برامدے میں کھڑے ہو کر یہ باتیں سُنی ہیں‘‘۔
دائودی بیساختہ مُسکرا دیا۔’’ تُم بہت ہی دقیا نوسی ہو، میں تمہارے خیالات کی عزت کرتا ہوں ، لیکن یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ نئے ہوں یا پرانے مگر دُکھوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے اِن بستیوں میں ہمیشہ اِن اوم لینوں کی ضرورت اور نہ ختم ہونے والی مانگ قائم رہتی ہے‘‘۔
’’ اور اِن کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی دیوتا بھی جو مجسموں کی صورت میں ہو تو زیادہ اچھا سمجھا جاتا ہے‘‘۔ محمود نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں! تم صحیح کہتے ہو، ‘‘ ۔ دائودی نے اُس کی بات سے اتفاق کیا۔’’ میں بھی افریقہ سے آشنا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے یہ ملازم ’ وارانگا ‘ Waranga قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔اب بھلا اِن کا۳۰۰ میل دو ر، دریائے کانگو کے بالائی علاقوں والے قبائل یا وہاں کے اوم لینو اور اُن کے ماننے والوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں شمال کا تو صرف ایک ہی لڑکا ہے۔یہ بھی بتائو کہ شمال اور جنوب کی آپس کی دشمنیوں کے بعد بھی اِن میں اب آخر وہ کیسا رشتہ پیدا ہو گیا؟۔ صرف ایک ہی تعلق ہے محمود! وہ ہے ایک مشترکہ دشمن‘‘۔
’’ یہاں کوئی ُ دُشمن و شمن نہیں۔پورا علاقہ پُر امن ہے۔رہا شمال اور جنوب کے قبا ئل میں کوئی وجہ اشتراک، تو وہ جادو ہے۔
بد اثرات ختم کرنے والا بھی ان کی نظر میں جادوگر ہی ہوتا ہے۔ اوم لینو ہی اِن سے مصیبتیں دور کرتا ہے، بیماری اور جسمانی تکالیف بھگاتا ہے، بارش درکار ہو تو اِسی کی دُعا نے کام دِکھانا ہوتا ہے۔کسی کا جانور گُم ہو جائے تو یہ موصوف ہی عمل کر کے اُس کو واپس آنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔میں نے تو یہ بھی سُنا ہے کہ اوم لینو لوگ اکثر اعلی حوصلہ ہوا کرتے ہیں۔طاقت ، زمین، خزانے حتیٰ کہ مملکتیں بھی حاصل کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ہم ایسی داستانیں سُنتے رہتے ہیں‘‘۔محمود نے جواباََکہا۔
’’ تمہارے خیال میں یہ کوئی سازش ہے؟‘‘۔ دائودی نے سوال کیا۔
’’ نہیں! یہ صرف افواہیں جو بنائی جا رہی ہیں اور اوم لینو کے معجزات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔کچھ توقف کے بعد محمود نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں لاپوپو جا کر اپنے اُن گُم شدہ ایجنٹوں کا کھوج لگائوں گا اور مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہاں وہ نیا جادو گر ڈاکٹر یا اوم لینو معجزات کی کیا کھچڑی پکا رہا ہے۔ میں اللہ کی مدد سے ضرور کامیاب ہو کر آئوں گا‘‘۔ وہ مسکرا دیا۔
دائودی اِس مُسکراہٹ کا مطلب بخوبی جانتا تھا۔ ماضی میں کئی ایک مرتبہ مہم جوئی، کاروبار میں کوئی اہم فیصلہ کرنا اور کبھی کبھار موت پر بھی اُس نے یہ مُسکراہٹ دیکھی تھی۔ مگر ہمیشہ یہ کامیابی ہی لائی تھی۔ اُس کی سفر کی تمام تھکاوٹ دور ہو گئی اور وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔
’’ تُم کب نکل رہے ہو؟‘‘۔ دائودی نے پوچھا۔
’’ آج ہی رات کو‘‘۔
دائودی کے چہرے سے حیرانی ٹپکنے لگی۔ ’’ ناممکن! ! ہفتہ کی صبح سے پہلے تو اسٹیمر ہی نہیں جا ئے گا‘‘۔
’’ میں وہاں خشکی کے راستے جنگل میں سے جا ئوں گا‘‘۔
’’ اوہ! آخر تُم ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘۔ دائودی نے بیساختہ کہا۔
محمود مُسکرا دیا۔
’’ کیوں کہ باہر برامدے میں ہمارے ’ وارنگا ‘ Warangasقبیلے کے ملازمین اور شمال سے آئے ہوئے اُس شخص کی بات چیت ہوئی ہے۔ڈھول سے دوسری بستیوں کو پیغامات جا رہے ہیں۔ اُدھر دریا کے بالائی حصّوں میں معجزے دِکھلا ئے جا رہے ہیں۔ یہ سوالات کرنے کا وقت نہیں ہے میرے دوست! وقت سے فوری فائدہ اُٹھانا عقلمندی ہو گی۔سُنو ! میں اُس ’ ماکوپو ‘ Makupoکو اپنے ساتھ لے کر جائوں گا‘‘۔
دائودی نے محمود کو شک کی نظروں سے دیکھا۔اُس کا اِس طرح سے دیکھنا ہی بہت کچھ کہہ گیا۔
’’ ماکوپو ؟ ہمارے اتنے بہت سے مُلا ز مین میںسے کیا صرف یہ ہی رہ گیا تھا لے جانے کو؟تُم تو اُس پر بالکل بھی بھروسہ نہیں کیا کرتے؟‘‘۔
’’ ا سی لئے تو ساتھ لے جا رہا ہوں ! ، ‘‘ ۔ محمود کھڑا ہو گیا۔’’ اِس پر بات کرنے کا وقت نہیں۔میں نے سفر کی تیّاری بھی کرنا ہے ۔ ہاں!! البتہ تم نے ایک بہت ہی ضروری کام کرنا ہے‘‘۔
’’ بتائو؟‘‘۔
’’ یہ کہ میرے شمال کی جانب جانے کا گھر کے ملازمین ، قطعاََ کسی سے بھی ذکر نہ کریں۔اور نہ اِس بات کا کہ میں ماکوپو کو اپنے ہمراہ لے کر گیا ہوں۔خبردار وہ کسی کو بھی کوئی پیغام نہ دینے پائیں‘‘۔
دائودی نے بے چینی کی حالت میں اثبات میں سر ہلایا۔
’’ یہ تو تقریباََ ناممکن کام ہے ! یہ بھلا کیسے کیا جا سکے گا؟ ‘‘۔
’’ اِس کا بہترین حل یہ ہے کہ تُم یہاں کے پولیس کمشنر کے پاس چلے جانا اور میرے یہاں سے جانے سے ایک گھنٹہ قبل ، گھر کے تمام چھوٹے بڑے ملازمین کو اندر کروا دینا۔پولیس کمشنر کو تم جتنا مناسب سمجھو بتا دینا کہ ایک رات کے لئے وہ اِن سب لوگوں کو کیوں اندر بند رکھے۔مگر خاص خیال رہے کہ میری واپسی تک یہ میرے معاملے میں اپنی زبان بند رکھیں۔میں اِس بات کو بالکل بھی پسند نہیں کروں گا کہ اِدھر سے اُدھر پیغامات کی ترسیل ہو یا بستی بستی ڈھول بجا کر یہ خبر عام کی جائے‘‘۔
’’ وہ کیوں؟‘‘۔
’’ اِس لئے کہ میں افریقہ کو جانتا ہوں۔اور معجزے کو پکنے سے پہلے روک دینا چاہتا ہوں‘‘۔یہ کہہ کر وہ گنگناتا ہوا کمرے سے باہر
نکلا اور ٹہلتا ہوا چلا۔
دائودی نے اُس کو ملازمین اور دیگر وارنگا قبائل کے بیچ میں سے جاتا دیکھا جو باہر برامدے میں ٹکڑیوں میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ پھر دائودی اٹھا اور پولیس کمشنر کی طرف چلا۔
گھنٹے بھر کے اندر ’ ڈبل ڈی ‘ کے تمام مقامی ملازمین حوالات میں نظر بند کر دئے گئے؛ جو خود ایک خلافِ قانون اقدام تھا۔ اُدھر محمو د خوف زدہ ماکوپو Makupo کے ہمراہ ۳۰۰میل کی مسافت طے کرنے کے لئے جنگل کی خاک چھاننے نکل گیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کچھ دیر مسلسل سفر کرنے کے بعدوہ دونوں ایک جگہ سستانے کے لئے رُک گئے۔
’’ سُنو ؟‘‘۔محمود مخاطب ہوا۔
’’ جی صاحب! ‘‘۔
محمود ایک نیچے گرے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا اور اُس کو بھی بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔’’ دیکھو لڑکے ! تُم دریائے کانگو کے بالائی شمالی علاقہ سے آئے ہو اور اِدھر ہمارے لوگوں میں بددلی اور مایوسی کا زہر گھول رہے ہو‘‘۔
ماکوپو نے جواب میں سر اُٹھا کر محمود کو بے بسی سے دیکھا ۔
’’ اب تُم میری بات غور سے سنو۔ تُم میرے ساتھ جنگل کے راستہ شُمال کو جا رہے ہو، مگر، ایک سُراغ رساں کی حیثیت سے؛ لہٰذا اپنی سونگھنے کی حس ہر وقت بیدار رکھو۔اب تم مجھے اُس اوم لینو کے پاس لے کر جائو گے جِس نے تُم کو یہاں ہمارے پاس بے چینی اور بد دلی پھیلانے کے لئے بھیجا ہے۔اب یہ بیماروں کو اچھا کرنے والا جو نیا شخص اُدہر آیا ہے اُس سے ملنے ہی کے لئے تو میں کل کا انتظار کئے بغیر ابھی نکلا ہوں‘‘۔
’’ میں حاضر ہوں‘‘۔ماکوپو نے جواب دیا۔
’’ اگر تُم نے غدّاری کی یا ہمارے لا پوپو اسٹیشن تک کے سفر میں ، آس پاس کی بستیوں کو کوئی پیغامات ترسیل کیے یا اشارے
دئیے، تو یاد رکھنا کہ پھر تمہارا انجام اچھا نہیں ہو گا‘‘۔
ماکوپو نے ڈرتے ڈرتے محمود کی طرف دیکھا۔اُس کو پکا یقین ہو گیا کہ ضرورت پڑنے پر محمود ایسا کر بھی سکتا ہے۔’’ جی صاحب آپ بے فِکر ہو جائیں‘‘۔
محمود کھڑا ہو گیا۔’’ یہ تم نے اچھا فیصلہ کیا۔اب میرا اور تمہارا معاہدہ ہو گیا۔اپنا سامان اُٹھا ئو اور ر وانگی کے لئے تیاری کر لو ۔ اب تُم لا پوپو تک کی رہبری کرو گے ‘ ‘۔
ایک لفظ کہے بغیر ماکوپو نے عمل کرنا شروع کر دیا۔
اور دونوں ایک طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ ماکوپو نے بھی اپنے وعدہ کا بھرم رکھا۔راہ میں آنے والی بستیوں میں کسی سے کوئی کانا پھوسی ہوئی نہ کوئی پیغام ترسیل ہوا۔ حالاں کہ کھانے پینے اور کبھی کسی مقامی ر اہبر کی ضرورت کے لئے، اُن کو کسی بستی میں کچھ دیر کو رکنا بھی پڑتا تھا۔
جنگل کے پُر پیچ راستوں کا ایک جال تھا جِس میں کبھی اُن کے قد سے اونچی گھاس ملتی اور کبھی ایسے راستے جو اچانک تنگ ہو کر بالکل ہی بند ہو جاتے۔پھر اِن میں سے راستہ بنانا بھی ایک عذاب تھا۔اُنہوں نے دریا کو بہت پیچھے جنوب میں چھوڑ کر ایک قوس بناتے ہوئے چلنا شروع کیا۔ وہ راستہ نشیبی علاقوں کی بُری آب و ہوا اور مچھروں کی آفات سے محفوظ ؛ اور دلدلی علاقے سے کافی ہٹ کرواقع تھا۔وہ ایسی سنگلاخ چٹانوں سے بھی گُزرے جو سورج سے اِس طرح تپتی تھیں جیسے بھٹے میں پکی ہوئی کوئی اینٹ۔بعض ایسی سرد راتیں بھی بسرہوئیں کہ جیسے کہ وہ کوہِ کیلی منجارو Mount Kilimanjaro کی برف پوش چوٹی پرہوں۔وہ اپنے سفر کے بیسویں ۲۰ ویں دِن خطِ استوا Equatorپر پہنچ گئے۔آسمان پر ایک بھی بادل نہیں تھا۔ چبھنے والی گرمی تھی ۔ وہ دونوں دِن بھر آرام کرتے اور سہ پہر اور راتوں کو سفر کرتے۔اِس طرح تپش سے محفوظ رہتے۔
بالآخرایک شام، وہ دوبارہ دریائے کانگو پر پہنچ گئے۔چلتے چلتے ماکوپو رُک گیا۔
’’ ’ لا پوپو ‘ ‘‘۔اپنے سامنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُس نے کہا۔
محمودنے اثبات میں سر ہلا یا۔
پھر یہ لوگ ایک طویل پہاڑی ڈھلوان سے نیچے ایک وادی میں اُترے۔وہ رات کا وقت تھا۔ بہت دور آگ کے الائو نظر آ رہے تھے۔کافی رات بیت گئی جب یہ لا پوپو اسٹیشن کے باہر پہنچے ۔
محمود ٹہر گیا۔’’ اب تُم مجھے اوم لینو کے پاس لے کر چلو جویہاں بیٹھ کر خوا ہ مخواہ نئے نئے اسرار گڑھ رہا ہے‘‘۔
’’ مجھ پر رحم کریں جناب! یہاں تک میں آپ کو لے آیا ہوں۔اب اِس سے آگے مجھے معاف رکھیں۔ او م لینو میری گفتگو
یہاں سے سُن سکتا ہے۔وہ تو مٹی کے بنے دیوتائوں کو بات کروا سکتا ہے‘‘۔بولتے بولتے ماکوپو کی آواز بھرّا گئی۔
محمود علی مُسکرا دیا۔’’ ہم دونوں میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ وہ یاد ہے؟ ‘‘۔ محمود نے کہا۔
اچانک ماکوپو کھڑا ہو گیا۔کچھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔کانپتے ہوئے ہاتھ سے ایک جھونپڑے کی جانب اِشارہ کیا جو اُن کی ایجنسی کے بنگلے کے پڑوس میں تھی۔’’ وہاں۔۔۔۔۔وہاں۔۔۔۔۔۔‘‘۔ بہت مشکل سے اُس سے الفاظ ادا ہوئے۔’’ او م لینو وہاں رہتا ہے۔۔۔۔ وہاں لال مٹی کے بولتے دیوتا بھی ہیں‘‘۔
محمود نے بیساختہ مونہہ سے سیٹی بجائی۔’’ یا اللہ رحم!! ایجنسی کے اندر۔۔۔۔۔ اسٹیشن کے اندر۔۔۔۔ ‘‘۔
اب تک تو حالات قابو میں ہی تھے۔اُس کو یقین تھا کہ دریا یا جنگل سے اُن کے یہاں آنے کا کوئی پیغام نہیں آیا ہو گا۔اِس لئے دوا دارو والے کے جو بھی ارادے ہیں، اور غائب ہونے والے ایجنٹوں سے جوبھی تعلق ہے، اچانک محمود کے سامنے آنے سے وہ ذہنی طور پر قطعاََ تیار نہیں ہو گا۔پھر ماکوپو کو اپنے ساتھ لئے پھرنے سے غدّاری کے امکانات بھی نہیں رہے تھے۔
اِن کا اسٹیشن بالکل غیر آباد تھا۔ مہینوں کا جھاڑ جھنکار اُگ آیا تھا۔کیاریاںبے ترتیب تھیں ۔ باغ کی باڑھیں بے ہنگم بڑھی ہوئی۔ایک عجیب افسردگی سی چھائی ہوئی تھی۔
محمود نے اطراف کا جائزہ لیا۔اُسے رہائشی بنگلہ، چھوٹے اسٹیمروں کے ٹہرنے کی گودی اور گوداموں پر کہیں بھی کوئی چوکیدار نظر نہیں آیا۔ایک گودام کے دروازے چوپٹ کھلے ہوئے تھے۔ یہ سب اِس بات کا ثبوت تھا کہ اِن لوگوں کو محمود کے آنے کا کوئی پیغام نہیں مِلا۔
محمود کو غصّہ آنے لگا۔وہ بنیادی طور پر تاجر تھا۔وقت اور اشیاء کا ضائع کرنا اُس کے نزدیک شیطان سے نفرت کرنے سے بھی زیادہ قابلِ نفرت تھا۔ وہ نہایت آہستگی سے چلتا ہوا ایجنسی کے بنگلے کے دروازے پر آ گیا۔ باڑھ کے پار جنگل نظر آ رہا تھا۔چاند کی چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔کبھی کبھار ہلکی سے ہوا چلتی تو پتے اور ہلکی شاخیں سرسراہٹ پیدا کرتیں؛ ورنہ پاگل کر دینے والی افریقی خاموشی، جِس سے نئے آنے والے کا تو دِل ہی بیٹھ جائے۔
بنگلے کے تقریباََ برابر ہی بستی کے اوم لینو یا حکیم کا شفا خانہ تھا۔محمود نے نظروں سے دونوں گھروں کے درمیانی فاصلے کا اندازہ لگایا جو کسی لاش کے لے جانے کے لئے صرف چند گز ہی کا بنتاتھا۔مگر۔۔۔۔ ؟ مقامی اور شہر سے بلوائے گئے سراغ رسانوں نے یہاں کی ایک
ایک انچ زمین دیکھ ڈالی تھی۔اب وہ خود یہاں پر موجود تھا۔اگر اِس جھونپڑی کے اند ر قتل کی واردات ہوئی ہے تو لازماََ اب کسی سراغ کا معلوم کرنا پڑے گا ۔یہ بھی ایک اٹل حقیقت تھی کہ ہمیشہ سے ہی شمال میں دوا دارو والے اوم لینو موجود رہے ہیں اور اِن کے تجارتی اسٹیشنوں میں بھی ایسے لوگوں کی عام آمدورفت رہا کرتی تھی۔
پتہ نہیں کیوں اُس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اِس اوم لینو اور اُن کے آدمیوں کے قتل یا غائب ہونے میں کوئی قدرِ مشترک ضرور ہے۔ اُس نے اوم لینو کی جھگی کو غور سے دیکھا۔دیواروں کی درزوں سے ہلکی ہلکی روشنی نظر آ رہی تھی۔
’’ اے اللہ! مجھے رات کی تاریکی سے محفوظ رکھنا جب وہ مجھ پر چھا جائے‘‘، اُس نے دِل ہی دِل میں دعا مانگی۔ مگر ماحول کی ہیبت نے بھی اُس کے اعصاب کو جکڑ رکھا تھا۔اُس کے قلب پر نفرت اور خوف دونوں کا غلبہ تھا۔ پھر بتد ریج اُس نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔اعتماد کی چال چلتے ہوئے اُس نے زور دار طریقے سے اوم لینو کے دروازے کو دھکا دے کر کھولا۔
دروازہ کھولنے پر ایک بوجھل فضاء نے اُس کا استقبال کیا۔ یہ دھوئیں سے بھر پور تھی جِس میں کئی طرح کے تیل، جلتی مشعلوں کا دھواں اور پسینے کی بو شامِل تھی۔
وہ بے خوف چند قدم آگے بڑھا اور محفل پر ایک اُچٹتی نگاہ ڈالی۔چاروں جانب کثیف دھوئیں کی دھند چھائی ہوئی تھی۔کئی سو افراد کم جگہ میں سمائے ہوئے تھے۔کچھ گھٹنوں کے بل، کچھ اپنے بازو زمین پر پھیلائے ہوئے سجدے کی حالت میں تھے۔
انہوں نے اُس کی آمد سرے سے محسوس ہی نہیں کی۔ ایک باقاعدہ طریقے سے وہ لوگ دائیں اور بائیں ہل رہے تھے۔ساتھ
ساتھ اُن کے مونہہ سے الفاظ کم اور آوازیں زیادہ نکل رہی تھیںجو گاہے بگاہے بہت ہلکی ہو جاتی تھیں۔جھگی میں سامنے کی جانب پانچ عد د بھدّی بناوٹ کے قدِ آدم مجسمے چکر کھاتے دھوئیں میں پراسرار انداز سے کھڑے نظر آئے۔ اِن پر لال مٹی کی بھونڈی لپائی کی گئی تھی۔یہ اُن کے دیوتا تھے، جِن کو مقامی زبان میں جو جو Ju – Ju کہا جاتا تھا۔
یہ سب محمود کی تجربہ کار نگاہ نے سیکنڈوں میں بغور دیکھ لیا۔اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے کچھ محسوس بھی کیا۔یہ اُس کے حواسِ خمسہ سے متعلق ہر گز بھی نہ تھا۔نہ تو سماعت، نہ بصارت، نہ شامّہ، نہ ذائقہ اور نہ چھونے کا احساس بلکہ وہ احساس اُس کی چھٹی حِس پر اثر انداز ہوا۔اُسے دبے قدم آتی ہوئی موت او ر اپنے انتہائی قریب آنے والی کسی تکلیف اور اذیت کا احساس ہوا۔
مگر اُس کی حاضر دماغی قائم رہی ، جِس کا اُس نے فوراََ اللہ سے شکر ادا کیا۔پھر جب اُن مجسموں کے پیچھے سے اوم لینو برآمد ہوا تو محمو د دوبارہ پُر اعتماد ہو گیا۔
’’ دریائی قبائل کی بیماریاں اور دُکھ دور کرنے والے پر سلامتی ہو‘‘۔محمود نے یہ جملے بہت ہی بلند آواز میں کہے۔
اِن الفاظ نے گویا پرستش میں ڈوبے ہوئے افریقیوں کو جھٹکے سے جگا دیا۔اُن میں کئی ایک ایسے بھی تھے جو بِن بلائے مہمان کے یوں آ جانے سے سخت طیش اور غصّہ میں تھے۔ بہتوں کے پاس نیزے، بھالے اور خنجر بھی تھے۔اِن کی اکثریت ایسی تھی جو اُس وقت دماغی طور پربالکل اوم لینو کے کنٹرول میںتھی۔
وہ جہاں تھے وہیں رُک گئے۔بعض نے پیچھے مُڑ کر اوم لینو کو دیکھا، جیسے کسی حکم کے منتظر ہوں۔
اِس مختصر دورانیہ کے وقفہ کو محمود نے اپنے حق میں استعمال کیا۔اُس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور چہرہ پر مُسکراہٹ طاری کر لی۔
’’ میرے لوگو! تُم پر سلامتی ہو‘‘۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بُلند کر کے موقع محل کے مطابق، سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
پھر خراماں خراماں ، شاہانہ چال چلتے ہو ئے وہ سامنے کھڑے لوگوں کی طرف چلا۔اُن لوگوں نے فوراََ ہی اُس کے لئے راستہ بنا دیا۔ اِدہر اُدہر دیکھتے اور ہجوم میں سے بعض کو پہچانتے ہوئے اُن کا نام لیتا ہوا آگے بڑھا جیسے:
’’ ارے، لاکاگا! ۔۔۔ ہو ، آسافی کے بیٹے! ‘‘۔
جواباََ اُن افراد نے بھی چند جملے کہے۔
چند سیکنڈوں میں وہ اوم لینو کے بالمقابل پہنچ گیا، جو اُن لال مٹی کے بنے ہوئے مجسموں سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔
’’ اوم لینو ! تُم پر سلامتی ہو‘‘۔محمود نے ایک دفعہ اور کہا۔
اوم لینو نے اُس کی طرف دیکھا۔ہر طرف گھومتی ہوئی آنکھ میں غضب کی چمک تھی جِس میں سے مکاری ٹپکتی محسوس ہوتی تھی۔
’’ آقا! آپ پر بھی سلامتی ہو‘‘۔اُس نے ادب سے جھکتے ہوئے کہا۔
محمود نے اُس کی جانب چہرہ کیا۔اُس نے کبھی اِن دوا دارو والے اوم لینو ں پر توجہ نہیں دی تھی۔مگر پھر بھی اُس کو اِس بات کا یقین تھا کہ یہ اِس بستی کا نہیں۔ایک دم ، کیمرے کے شٹر کی سی تیزی سے اُس کے دماغ نے فیصلہ دے دیا کہ اُن کے اِس لا پو پو L’Popo اسٹیشن کے آس پاس رہنے والے کسی بھی قبائل سے اِس کا تعلق نہیں۔یہ ہر طرح سے دوسروں سے مختلف لگتا تھا۔
محمود نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ کوئی عام اوم لینو نہیں ہے، یہ تو خاصا دولت مند اِنسان لگا۔اُس کے دائیں ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی جِس کے دستے پر سونے کا خول چڑھا ہوا تھا اور اُس کے بالکل اوپر ، نہایت عمدگی سے سکڑا ہوا ایک انسانی سر۔’’ نہیں نہیں! یہ عام اوم لینو نہیں کہ جِس کو ڈرا دھمکا کر یا پیسے دے دِلا کر کام نکالا جا سکے۔ یہ ایک عیار، چالاک اور فنکار آدمی ہے۔ اور اُس کو عیاری، چالاکی اور فنکاری ہی سے مات دی جا سکتی ہے‘‘۔ وہ دِل ہی دِل میں سوچ کر کہنے لگا ’’ مجھے آپ کی مہارت کے بارے میں بتلایا گیا ہے ‘‘،اُس نے اوم لینو کے سامنے لا پر وائی سے بیٹھتے ہوئے کہا۔ اُس کی دیکھا دیکھی وہاں موجود اکثریت بھی بیٹھ گئی۔اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کہیں قریب سے کوئی ہلکی اور گھٹی گھٹی سرگوشی میں اُس کا نام لے رہا ہو۔ اُس نے اِس سرگوشی کو واہمہ جاننا۔اور کچھ توقف کے بعد اپنی بات کو جاری رکھا ۔ ’’ تمہاری دانش کے چرچے تو دور دور تک پہنچ رہے ہیں۔دیکھ لو میں بھی یہاںتُم سے مِلنے آیا ہوں‘‘۔
’’ آپ کے اِن الفاظ کا شکریہ! میں نے سُنا ہے کہ آپ مُسلم ہیں، ایک خدا کو ماننے والے‘‘۔ اوم لینو نے کہا۔
محمود مُسکرایا۔ دل ہی دل میں وہ پریشان تھا کہ اِس بات کا کیا جواب دے۔ کچھ دیر خاموشی سے کمرے کو تکتا رہا۔ مقامی لوگوں میں بہت سے اِس اسٹیشن کے ملازمین بھی تھے جو محمود علی کے لحاظ اور اوم لینو کی توہم پرستانہ عقیدت کے درمیان منقسم تھے اور اِس اچانک صورتِ حال سے خوش نہیں تھے۔
محمود جانتا تھا کہ وہ تباہی کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے جہاں ایک غلط قدم یا حرکت ، اِس جمِ غفیر کے سامنے اُس کی موت ہو گی۔ لہٰذا وہ اطمنان اور سکون کے ساتھ نیچی نظریں کیے بیٹھا رہا۔تا کہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ خوفزدہ ہے۔ پھر ایکدم اُسے وہی سرگوشی سُنائی دی کہ کوئی گھٹی ہوئی آواز میں اُس کا نام پکار رہا ہے اور ساتھ ہی اُسے نظروں کی تپش محسوس ہوئی گویا کوئی اسے گھور رہا ہے۔اُس نے پورے مجمع کا ایک طائرانہ جائزہ لیا۔تمام لوگ سر جھکائے بیٹھے تھے صرف اول لینو اُسے دیکھ رہا تھا لیکن یہ اُس کی نظر نہیں تھی۔
اوم لینو اُس کے ساتھ بات کر رہا تھا مگر محمود کی توجہ الفاظ پر نہیں تھی۔اُس نے اپنے جِسم کو معمولی حرکت دے کر اپنا مونہہ لال مٹی
کے لیپ شدہ مجسموں کی جانب کر لیا ۔
ایسا کرتے ہی اُس نے اپنے اند ایک توانائی او ر جرات محسوس کی۔ اِسے علم ہو گیا کہ کون اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
اُس نے اپنی نیم وا آنکھوں سے اُن مجسموں کو دیکھا۔وہ اُس کے سامنے ایک قطار میں کھڑے تھے۔سب سے آخر میں کھڑے دو مجسمے خاصّے بھدے تھے۔ آگے والے تینوں مجسمے لال مٹی کی ماہرانہ لپائی میں اپنی جسامت، بازو اور ٹانگوں کی مناسبت سے کمال ہی تھے۔و ہ کہاں کہاں نہیں پھرا تھا لیکن اِس طرح کے شاہکار دیوتائی مجسمے اُس نے اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
اچانک اُسے ماکوپو کے الفاظ یاد آئے: ’’ لال مٹّی کے بنے دیوتا جو بات بھی کرتے ہیں‘‘۔محمود اپنے آپ سے مخاطب ہوا: ’’ یا اللہ کیا واقعی یہ کوئی جادو ہے؟‘‘۔
وہ دِل ہی دِل میں دعا مانگ رہا تھا کہ کسی نے عجیب اور پراسرار انداز میں ہلکے سے اُس کا نام پُکارا ۔ یہ کوئی وہم نہیں تھا۔اب کی دفعہ اُس کو یقین آ گیا کہ کسی نے اُس کا نام لیا ہے۔محمود نے پوری کوشش کی کہ اُس کے اندرونی جذبات اُس کے چہرہ سے ظاہر نہ ہونے پائیں کیونکہ اوم لینو نے اُس پر مسلسل نظر رکھی ہوئی تھی۔
اُس نے مُسکرا کر اوم لینو کی جانب دیکھا۔ محمود آرام سے بات کر رہا تھا لیکن اُس کا دماغ کسی اور سمت تھا۔’’ تُم نے بالکل ٹھیک کہا اوم لینو ، میر ا ایمان ایک خدا پر ہے ۔وہ ایمان جِس کی جڑیں مضبوط ہیں، جِس کی شاخیں خوب پھل پھول رہی ہیں، جِن کا سایہ مسلسل اور لا فانی ہے۔میں ایک سیّد زادہ مُسلمان ہوں، سچے نبیﷺ کا ماننے والا اور ہر وقت شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگنے والا ہوں۔
جا معہ الازہر کا پڑھا ہوا ہوں‘‘۔
اوم لینو کے چہرے پر ایک عیارانہ مُسکراہٹ اُبھری۔
’’ تو پھر تُم تاریکی میں رہنے والوں کے پاس کیا لینے آئے ہو؟‘‘
محمود علی نے شائستگی سے جواب دیا جبکہ اُس کا دماغ بالکل ہی دوسری طرف نہایت تیزی کے ساتھ کام کر رہا تھا۔اُس نے غور سے اپنے بالمقابِل کھڑے نام نہاد دیوتائی مجسمے کو دیکھا۔
’’ اِس لئے کہ میرے دماغ میں ایک ہلکا سا خیال پیدا ہوا ہے۔۔۔۔ شاید وہ سچ ہی ہو، ‘‘ ۔ دوبارہ زور دے کر الفاظ دہرائے ’’ شاید وہ سچ ہی ہو‘‘۔
جب وہ یہ بات کر رہا تھا ، تب ہی وہ مسئلہ کی تہہ تک پہنچ چکا تھا؛ جِس کی خاطر جنگل جنگل کتنی ہی صعوبتوں سے گزر کر یہاںتک آیا تھا۔ایک کامیاب اداکار کی طرح اُس نے بتدریج اپنی آواز بلند کرنا شروع کی، اب اِس میں رعب اور دبدبہ بھی شامِل ہو گیا۔
’’ کیوں کہ میرے قدم مجھ کو یہاں اسرار پر سے پردہ اُٹھانے کے لئے لے کر آئے ہیں۔اب میں تمہارے پاس آیا ہوں تا کہ تُم مجھے اپنا شاگرد بنا لو‘‘۔
وہ یہ کہتے ہوئے ایک دم کھڑا ہو گیا اور اپنے آپ سے کہنے لگا ابھی یا کبھی نہیں۔ایک مرتبہ اور اُس نے اپنے قریب ترین دیوتا کے مجسمے کو دیکھا پھر اپنا رُخ افریقیوں کی جانب کر کے اُن سے خطاب کرنے لگا۔
’’ دریائی قبائل کے لوگو میری بات سنو! سالوں سال میں تُم میں رہا ہوں، تم لوگوں کی تکالیف اور مصائب میں ، جہاں تک ممکن ہوا مدد بھی کی ہے۔تُم لوگوں کے لائے ہوئے ہاتھی دانت اور ربڑ کا معقول معاوضہ دیا ہے۔تُم لوگوں کی کھیتی باڑی کے لئے جب ضرورت ہوئی، رقوم بھی دی ہیں۔جب تمہارے جانور بیماری سے مر جاتے تھے تو وہ نقصان بھی میں ہی پورا کیا کرتا تھا۔کیا تُم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اِس بات سے انکاری ہے؟‘‘۔
ہجوم کے درمیان سے ایک گونجتی ہوئی آواز اُبھری: ’’ ہاں بے شک یہ بات سچ ہے‘‘۔
’’ سچ ہے۔۔۔۔ سچ ہے۔۔۔ ‘‘۔بہت سی آوازیں آنے لگیں۔
محمود نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا:
’’ میں نے تُم کو اِسلام پر اپنا یقین اور ایمان بتلا دیا جو نجات کا سیدھا راستہ ہے ۔پھر، ‘‘ ڈرامائی طور پر اپنی آواز ہلکی کر کے کہا ’’ پھر تمہارے اِس علاقے سے افواہیں گردش کرنے لگیں۔پہلے پہل تو مجھے شک ہوا اور میں نے اُن پر کان نہیں دھرے۔مگر افواہیں بڑھتی چلی گئیں ۔اب اسی لئے میں یہاں کچھ سننے اور دیکھنے آیا ہوں‘‘۔
وہ سانس لینے کے لئے رُکا۔پھر بیان جاری رکھا۔’’ میں یہاں بولنے والے لال دیوتائوں کو دیکھنے آیا ہوں جو بات کرتے ہیں‘‘۔
تمام مجمع دم بخود ہو کر پوری توجہ سے محمود کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اوم لینو ایک دم اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔اپنی لاٹھی پکڑ کر جارحانہ انداز سے آگے بڑھا۔مگر محمود نے اپنی تقریر جاری رکھی۔
’’ آج کی رات جب میں اوم لینو کے سامنے بیٹھا تھا، تب میں نے خود دیوتائوں کو ہلکے ہلکے اپنا نام لیتے ہوئے سُنا ‘‘۔
’’ یہ جھوٹ ہے۔ سفید جھوٹ!‘‘۔ اوم لینو غصّہ سے چلّایا۔یہ تو صر یحاََ دیوتائوں کی توہین ہے ‘‘۔
محمود نے دونوں ہا تھ سر سے اونچے کرتے ہوئے جلدی سے کہنا شروع کیا۔
’’ یہ جھوٹ نہیں۔بلکہ سچ ہے۔اِن دیوتائوں سے خود پوچھ کر دیکھ لو ‘‘۔
اُس پورے مجمع میں سانپ سونگھ گیا۔پوری جھگی میں خاموشی چھا گئی۔ایسے میں سب سے آگے کھڑے مجسمہ کی جانب سے ایک ہلکی سی آواز آئی۔
’’ محمود علی ‘‘ پھر دوبارہ ایک روہانسی آوازسُنائی دی ’’ محمود۔۔۔ ‘‘۔
آواز کیا آئی گویا قیامت آ گئی۔ہجوم آ ناََ فاناََ بُری طرح سے گھبرا کر باہر کی جانب دوڑا۔لیکن فوراََ ہی محمود نے بُلند آواز میں اُن سے کہا : ’’ ڈرو نہیں میرے لوگو۔یہ دیوتا تمہیں نقصان نہییںپہنچائیں گے۔میں خود بھی اِسی حق کی تلاش میں آیا ہوں۔دیکھ لو سچ مجھ پر ظاہر ہو گیا ہے۔سنو ، سنو‘‘۔
ہجوم رُک گیا اور لوگ واپس آنے لگے۔محمود علی نے اب آہستہ آواز میں بات کو جاری رکھا۔
’’ کیا تمہیں یاد ہے کہ چار مہینوں کے اندر اندر، اِسی اسٹیشن سے ہمارے تین ایجنٹ یکے بعد دیگرے غائب ہو گئے تھے ‘‘۔
’’ ہاں ہاں۔۔۔۔ ‘‘۔ کئی ایک آوازیں ایک ساتھ بُلند ہوئیں۔
’’ تو ٹھیک ہے۔اب تُم سب لوگ یہاں سے چلے جائو اور ایک گھنٹے کے بعد آنا۔یہ دیوتا تو بہت ہی اچھے ہیں۔اُنہوں نے میرے گمشدہ آدمی زندہ حالت میں دوبارہ یہاں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اب سب لوگ چلے جائیں‘‘۔
دروازے کی طرف ایک بھگدڑ مچ گئی۔چند ہی سیکنڈ بعد جھگی میں صرف اوم لینو اور محمود آمنے سامنے بیٹھے تھے۔محمود علی مُسکرایا۔
’’ تم جانتے ہو کہ اب میں جان گیا ہوں!!! کہ تُم نے ہی میرے وہ تینوں آدمی دھوکہ سے قابو کیے ، ہاتھ پائوں اور مونہہ باندھ کر اُن کے جِسموں پر لال مٹّی کا لیپ کر دیا۔دِن میں تھوڑا سا کچھ کھانے کو دے دیا۔جب وہ غریب تکلیف میں کراہتے تو تُم یہاں کے سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف بناتے کہ دیکھو یہ میرے دیوتا بات کرتے ہیں۔ کیوں کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘۔
اوم لینو جواب میں مُسکرایا۔
’’ یہ سچ ہے جناب۔لیکن اِس کا آپ کو کیوں کر علم ہوا؟‘‘۔
’’ کیوں کہ میں نے یہ بے شمار دیوتا دیکھ رکھے ہیں مگر اِن کی طرح کا ایک بھی نہیں، کہ جِن کی آنکھوں کی جگہ انسان کی آنکھیں ہوں‘‘۔
ایک مختصر وقفے کے بعد محمود نے بات کو جاری رکھا:
’’ اب تُم اِن کو مٹّی کی قید سے نکالو اور میرے اِس عظیم لا پو پو L’Popo اسٹیشن کے لوگوں کو بتانا کہ اب میں، یعنی محمود علی اِن خدائوں کا چہیتا ہے۔اب تمہاری جو بھی کمائی ہو گی اُس کا آدھا میرا‘‘۔
وہ کھسیا نا ہو کر مسکرا دیا۔ ’’ اور کوئی چارا بھی نہیں جناب! مگر میری زندگی؟ کیا میں محفوظ رہوں گا؟‘‘۔
’’ یہ تو تُم نے منتخب کرنا ہے ‘‘۔لمبے کُرتے میں سے عربی طرز کے خنجر کونکال کر لہر ا کر دِکھایا، ’’ اب تُم پہلے کی طرح صرف بیماریاں اور دُکھ درد ختم کیا کرو گے۔مگر یہاں نہیں… جنوب کے علاقوں میں‘‘۔وہ کہتے کہتے مُسکرا دیا۔ ’’تو پھر تُم نے کیا سوچا؟‘‘ ۔
اوم لینو نے سر جھکا لیا اور محمود اپنے خنجر کو واپس اپنے کُرتے کی جیب میں رکھتے ہوئے مٹی سے لیپ شدہ مجسموں کی طرف چل دیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اختتام
تحریر
شاہد لطیف

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles