24 C
Lahore
Tuesday, April 16, 2024

Book Store

پازیب

پازیب

فوزیہ بشیر

وہ میری بچپن بلکہ نوعمری کی سہیلی تھی۔ بلکہ یوں کہیے کہ ایسی عمر کی سہیلی تھی جب دوست بے حد عزیز ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، لڑائیاں، طعنے اور رنجشیں اور ان سب پر دیر تک ہنسنا اور لمبے لمبے قہقہے لگانا۔
یہ وقت یا زمانہ عام طور پر ساتویں یا آٹھویں جماعت سے شروع ہوتا اور کالج کے دو چار سال تک محیط رہتا ہے۔ فوزیہ میرے اس زمانے کی دوست تھی جب ہم نویں کلاس میں تھے۔ وہ ابّو جان کے دوست حاجی صاحب کی بیٹی تھی۔ کبھی کبھار ابّو کے ساتھ ان کے گھر جانا ہوتا۔
ایک دو ملاقاتوں کے بعد ہماری پکی دوستی ہو گئی۔ پھر تو اکثر ہی فون پر بات ہونے لگی۔ جب بھی اس کا فون آتا میں دیر تک فون پرباتوں میں لگی رہتی۔ اس زمانے میں پی ٹی سی ایل  کے تار والے فون ہوتے تھے جو گھر کے کسی ایسے کونے میں رکھا جاتا جہاں سے فون کی گھنٹی آسانی سے پورے گھر میں سنی جاتی تھی۔
جیسے ہی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوتی، سب گھر والوں کو پتا چل جاتا۔ اور ہر کونے سے دو  تین بندے فون سننے کے لیے لپکتے۔ کوئی بھی فون اٹھا لیتا اور پھر اس بندے کو بلایا جاتا جس کی کال ہوتی تھی۔
اس زمانے میں گھر کی جوان بچیوں کو ٹیلی فون اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں بھی فون کی گھنٹی بجنے پر فون نہیں اٹھاتی تھی۔ لہٰذا جب مجھے فون پر دوست سے بات کرنے کے لیے بلایا جاتا پورے گھر کو پتا چل جایا کرتا  کہ شازیہ کی دوست کا فون ہے۔
اس کے بعد میرے قہقہے، اور ہنسنے کی آواز پورے گھر میں گونجنے لگتی۔ اکثر امی سوال کرتیں کہ تم لوگ ایسی کیا باتیں کرتی ہو کہ ہنسی کی آوازیں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ میں امی کے اس سوال پر ایک اور قہقہہ لگاتی اور سوچتی کہ بھلا ساری باتیں امی کو تھوڑی بتائی جا سکتی ہیں۔
انکل حاجی صاحب ابّو  کے بہت اچھے دوست تھے۔ ایک بار چاند رات کے موقع پر امی ابّو تحفے تحائف لے کر ان سے عید ملنے گئے۔ میں بھی چوڑیاں اور مہندی گفٹ دینے کے لیے لے کر گئی۔ جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی۔ چوڑیوں کے بنے ہوئے سیٹ اسے اچھے لگے اور وہ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی۔
پھر شاید اس کے دل میں یہ خیال آیا ہو گا کہ اس نے تو میرے لیے کوئی بھی تحفہ نہیں خریدا۔ ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس نے اپنے پیر آگے کی طرف بڑھائے۔ شلوار کے پائنچے اور اوپر کیے تو دونوں پیروں میں خوبصورت پازیب نظر آئیں۔ جن پر گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے دل بنے ہوئے تھے۔
اس نے اپنی ایک پازیب اتاری اور میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا، یہ رکھ لو میری طرف سے عید کا تحفہ اور ہماری دوستی کی نشانی۔ اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا۔
ایک بے حد اچھی اور بہت پیاری دوست کی طرف سے محبت کی یہ چھوٹی سی نشانی پا کر جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں آج بھی ان لمحات کی لذّت کو محسوس کر سکتی ہوں۔
فوزیہ کی بڑی بہن کی شادی طے ہو چکی تھی۔ چھوٹی عید کے بعد شادی تھی لہٰذا گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ فوزیہ اکثر اپنی امی کے ساتھ بہن کے جہیز کی چیزیں لینے کے لئے جایا کرتی۔ اس لیے فون پر رابطہ کچھ کم ہو گیا مگر وہ جب بھی فون کرتی تو ہم شاپنگ کی چیزیں بڑے شوق سے ڈسکس کرتے۔
اسی شاپنگ کی وجہ سے ہی مجھے اور میری دوست کو پہلی بار یہ پتا چلا کہ جس لڑکی کی شادی ہو رہی ہوتی ہے اسےساری اچھی اچھی چیزیں اور بہت سارے خوبصورت کپڑے، خوبصورت جوتیاں، بیل والی ،جالی کے ڈیزائن والی، وہ سارے خوبصورت کام والے کپڑے جن کے پہننے کا ہمیں بہت شوق تھا مگر امی کی طرف سے پہننے کی اجازت نہیں تھی، امی خود تو پہنتی تھیں مگر ہمیں کبھی بنوا کر نہ دیے۔
وہ گولڈن شادی والا پرس جو امی کے پاس بھی تھا اور پھپھو کے پاس بھی۔ جو مجھے اور فوزیہ کو بہت پسند تھا مگر امی  لے کر نہیں دیتی تھیں اور اب وہ بھی اس کی باجی کو شادی پر ملنے والا تھا۔ گویا وہ ساری اچھی اچھی چیزیں جن کا ہمیں بہت شوق تھا، اس کی باجی کو ملنے والی تھیں۔
باجی کے جہیز کی ساری خوبصورت شاپنگ نے فوزیہ کے دل میں شادی کی خواہش پیدا کر دی اور وہ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنے لگتی کہ جب میری شادی ہو گی تو میری جوتیاں، کپڑے اور سامان کیسا ہو گا؟ وہ اکثر یہ بات مجھ سے شیئر کرتی اور ہم دونوں گھنٹوں خوابوں کی دنیا میں مگن پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتے رہتے۔
وقت گزرتا رہا۔
ہم دونوں میٹرک کر چکے تھے۔ باجی کی شادی ہو چکی تھی۔ میں اور فوزیہ اب کالج جانے لگے تھے۔
ہم دونوں الگ الگ کالج میں جا رہے تھے۔ کالج کی اپنی ہی ایک نئی خوبصورت اور رنگین دنیا ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں اپنے نئے دوستوں کے ساتھ ایسے مگن ہوئے کہ آہستہ آہستہ رابطہ کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا۔ مگر ابو کی دوستی انکل کے ساتھ قائم تھی۔ لہٰذا خیر خیریت کی اطلاع ملتی رہتی تھی۔
فوزیہ کی دی ہوئی پازیب آج بھی میرے پاس تھی۔ وہ میرے جیولری باکس میں پڑی تھی۔ میں کبھی کبھار اس کو نکالتی، بڑی محبت سے اسے دیکھتی۔ کچھ دیر دیکھتی رہتی اور پھر کبھی چوم کر اسے واپس رکھ دیتی۔
کئی مہینے گزر گئے۔
کالج کی زندگی اور پڑھائی اور آنے جانے کی مصروفیت نے فوزیہ سے رابطہ بالکل ختم کر دیا۔ کافی عرصے بعد امی اور ابّو کو باتیں کرتے ہوئے سنا تو یہ بات میرے کانوں تک پہنچی کہ فوزیہ  نے گھر سے بھاگ کر کسی لڑکے سے عدالت میں جا کر نکاح کر لیا ہے۔ نکاح کا پتا ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چلا تو سارے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔
باپ  نے بھائیوں  نے خوب مارا پیٹا اور کمرے میں بند کر دیا۔
حاجی صاحب  نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ابّو کو اعتماد میں لیا اور ساری صورتحال سے ابّو کو آگاہ کر دیا۔ ابّو بےحد پریشان ہوئے اور یہ ساری باتیں شام کو گھر آ کر امی کو بتا رہے تھے۔
امی اور ابّو دونوں بے حد پریشان تھے۔ میں یہ سب سن کر بے حد پریشان ہو گئی اور اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔
رات گئے دیر تک امی ابّو اس مسئلے کو ڈسکس کرتے رہے ۔ میرے لیے یہ ساری صورت حال بے حد پریشان کن تو تھی مگر معاملہ بہت بےعزتی اور شرم و حیا والا تھا۔ لہٰذا کبھی بھی امی ابّو سے براہ راست اس موضوع پر بات نہ کر سکی۔
امی ابّو کی باتوں سے پتا چلا کہ ماں باپ اور بھائیوں کے بار بار سمجھانے اور مارنے کے باوجود بھی وہ کسی طرح بھی اپنے خاوند سے( جو کسی طرح بھی گھر والوں کو قبول نہ تھا) طلاق لینے پر راضی نہ ہوئی۔ تو گھر والوں  نے صرف اس شرط پر اسے چند کپڑوں میں رخصت کر دیا کہ وہ ماں باپ کے لیے مر گئی اور ماں باپ اس کے لئے۔ پھر جو بھی ہوا وہ سب بہت دکھ دینے والا تھا۔
فوزیہ اپنے خاوند کے ساتھ جا چکی تھی اور ماں باپ اپنے رشتہ داروں اور محلے والوں سے بے حد شرمندگی کے مارے ملنے جلنے سے قاصر ہو چکے تھے۔
حاجی صاحب نے ابّو سے بھی ملنا چھوڑ دیا۔ اور اس واقعے کے ایک ماہ بعد انتہائی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی کو بتائے وہ گھر اور وہ محلّہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
ابّو اکثر دکھی اور پریشان رہنے لگے اور وہ اکثر امی کو بتاتے کہ حاجی صاحب کا کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔
وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ بڑے بڑے دکھوں کو یادوں میں بدل کر ذہن کے کسی کونے میں چھپا دیتا ہے۔ انسان پھر سے نارمل زندگی گزارنے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ حاجی صاحب کا ذکر اور ان کی یاد ہمارے گھر سے ختم ہو گئی۔
امی جو فوزیہ  کے نام سے ہی نفرت کرنے لگی تھیں، اس کا ذکر آتے ہی اسے گالیاں دینے لگتیں۔ میں اس وقت امی کے غصے سے ڈر جاتی اور دل ہی دل میں اِس کی دوست ہونے پر شرمندہ ہونے لگتی۔
پھر ایک دن امی کے ڈر سے فوزیہ کی دی ہوئی پازیب، جو میں کبھی کبھار پہن لیا کرتی تھی۔ الماری کے خفیہ خانے میں چھپا دی تاکہ امی کو نظر نہ آئے اور وہ غصے میں آ کر اسے پھینک نہ دیں۔
وقت گزرتا گیا۔ مہینے گزر گئے۔ میں فوزیہ کے ساتھ ساتھ پازیب کو بھی بھول چکی تھی۔ شاید چار یا پانچ سال گزر گئے۔ پھر ایک دن اچانک بازار میں شاپنگ کرتے ہوئے ریڑھی کے کنارے فوزیہ کھڑی نظر آئی۔ وہ شاید کسی بچے کی جرابیں خرید رہی تھی۔ میں ریڑھی سے تھوڑی دُور تھی مگر بے اختیار اسے دیکھتے ہی آواز دی۔
اس  نے ایک دم چونک کر نظر اٹھائی اور مجھے دیکھا۔ ہم دونوں کی نظر ملی تو فوراً ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ ہم دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔
مگر یہ کیا؟؟؟ اس نے میری طرف بڑھنے کی بجائے اپنا چہرہ نیچے کر لیا اور لگی ریڑھی والے سے بھاؤ تاؤ کرنے۔ میں اس کے قریب پہنچ چکی تھی۔ میں  نے اسے بلایا۔
فوزیہ، کیا حال ہے؟ یار کدھر غائب ہو گئی تھیں؟ کتنے سالوں بعد ملی ہو۔
مگر اس  نے میری طرف توجہ نہ کی اور سر جھکا لیا۔ میں  نے اسے بازو سے پکڑا تو فوراً بازو چھڑا کر بولی۔
آپ کون ہیں؟ میں آپ کو نہیں جانتی۔  اور وہ یہ بات کہتے ہوئے ایک بار بھی نظر میری طرف نہ اٹھا سکی۔
فوزیہ کے اس غیر متوقع رویے نے مجھے بہت حیران اور دکاندار کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ میں پھر ہّمت کر کے بولی۔
اچھا چھوڑو، مجھے تم سے ملنا ہے۔ یہ بتاؤ کہاں رہتی ہو؟ میں تمہارے گھر آنا چاہتی ہوں۔ تم سے ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں۔
میں اس بازار کے قریب ہی رہتی ہوں مگر کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔
میں بولی، اچھا اپنا پتا تو بتا دو۔
میں خود مل لوں گی۔۔ مگر وہ انتہائی بے رخی سے بولی۔
میں تمہیں جانتی ہی نہیں ۔ کسی سے ملنا ہی نہیں چاہتی۔ میں تم سے بھی نہیں ملنا چاہتی۔
وہ خیالوں میں کھوئی ہوئی بولی۔  ریڑھی والے کو چیزوں کے پیسے دے چکی تھی، لہٰذا  مجھ سے پیٹھ موڑ کر جانے لگی۔
وہ تو چلی گئی مگر اپنی شرمندہ نظر اور آنسوؤں بھری آواز  مجھ سے نہ چھپا سکی۔
فوزیہ چلی گئی اور میں ساکت کھڑی رہ گئی۔ جلد ہی بازار کے شور  نے مجھے متوجہ کیا اور میں شاپنگ چھوڑ کر گھر واپس آ گئی کہ اب کچھ اور خریدنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔
آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو گھر پہنچتے آنکھوں سے امڈ پڑا اور میں اپنے کمرے میں جا کر دیر تک روتی رہی۔ شاید اس کی جدائی کے بعد ملنے پر، اس کی نظر آنے والی غربت پر یا پھر اس کے مقدر پر۔
رمضان شروع ہو چکا تھا۔ اس واقعے  نے مجھے خاصا ڈسٹرب کر رکھا تھا۔ جب بھی فوزیہ کی اس طرح اچانک ملاقات یاد آتی تو دل پریشان سا ہو جاتا۔ میری بےحد عزیز اور بہت محبت کرنے والے دوست کا یوں مجھے پہچاننے سے انکار کر دینا، مجھے ملنے سے انکار کر دینا میرے لیے بڑا تکلیف دہ صدمہ تھا۔
آہستہ آہستہ دل میں غم اور غصہ دونوں اس کے خلاف اکھٹے ہونے لگے۔ چاند رات آ چکی تھی۔ مانگنے والی جوان لڑکیاں گھر گھر جا کر عیدی اور تحفے مانگ رہی تھیں۔ ایک لڑکی  نے میرے دروازے پر بھی دستک دی اور بولی اے باجی اللہ کے نام پر کچھ دے دو۔ کل عید ہے ۔ میری بیٹی کے لیے چوڑیاں اور مہندی کے پیسے دے دو۔ بچی کا دل خوش ہو جائے گا۔ میں آپ کو بڑی دعائیں دوں گی۔
فوزیہ کی دی ہوئی پازیب جو اس  نے مجھے چاند رات پر گفٹ دی تھی، وہ میرے ذہن میں آ گئی۔ میں فوراً کمرے کی طرف واپس گئی۔ کمرے میں جا کر الماری کھول کر اس کا دراز پورا کا پورا باہر نکال دیا اور الماری کے اندر جھانکا۔
فوزیہ کی دی ہوئی وہ گلابی رنگ کی چھوٹے چھوٹے دل والی پازیب آج بھی وہاں موجود تھی۔
میں  نے ہاتھ بڑھا کر وہ باہر نکال لی. کچھ دیر کھوئی کھوئی سی اسے دیکھتی رہی اور پھر وہ پازیب جا کر مانگنے والی عورت کے ہاتھ پر رکھ دی۔
یہ تم رکھ لو۔ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں۔
مانگنے والی  نے خوشی سے وہ پازیب پکڑی اور دعا دیتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
میں نے خالی دل، خالی دماغ کے ساتھ اسے جاتے ہوئے دیکھا اور دروازہ بند کر دیا۔

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles