محبت 

ازقلم: سبیغ ضو
محبت کسی ایک مخصوص دن میں نہیں برستی۔ محبت تقریر نہیں کرتی۔ محبت بلند آواز میں داد حاصل نہیں
کرتی۔ محبت تو خاموش سروں میں مسلسل بجتی رہتی ہے۔
محبت ایک سکوت, ایک سکون اور ایک سوئے ہوئے حسن کے ہونٹوں پر جاگتی ہوئی مسکراہٹ ہے۔
اس لیے میں چودہ فروری کو محبت کے عالمی دن سے منسوب نہیں کرتی۔ کیونکہ محبت کو ہم کسی ایک دن میں قید نہیں کر سکتے
محبت کے لیے بینر آویزاں کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرچم لہرانے کی ضرورت نہیں۔ محبت کیجیے، ویسی جس طرح آسمان زمین سے کرتا ہے۔ جب برستا ہے تو بارش کی ہر بوند زمین کو محبت کا بوسہ دیتی ہے۔
جیسے ایک پھول، جو اپنے نرم و ملائم وجود کے ساتھ بھی گھائل کر دینے والے کانٹوں کے درمیان ہی پیدا ہوتا ہے۔
محبت تتلی کی مانند ہے جو نرم نازک پروں کے ساتھ اڑتی پھرتی ہے، اور اپنا آپ منوا کر رہتی ہے۔
جاڑوں میں نکلتی گلابی دھوپ میں بیٹھا وہ مفکر جو محبت کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے۔ وہ بھی کسی انجان سی محبت میں دیے کی طرح اپنے دل کو ٹمٹاتا دیکھتا رہتا ہے۔
حالات کی مار کھائی ایک بوڑھی عورت جو ہر وقت دوسروں کو کوستی رہتی  ہے، جب اس کی طرف دیکھ کر کوئی معصوم بچہ بھولے سے مسکرا دے تو وہ اپنے دل میں محبت کا سمندر موجزن دیکھتی ہے۔
محبت کو لباس کی طرح سمجھنے والا ایک لڑکا، جو اپنے سگریٹ کے ختم ہونے تک پچھلی محبت کو بھلائے آگے بڑھ جاتا ہے۔
دل کے کسی کونے میں محبت اپنے اصل احساس کے ساتھ ایک آہ بن کر ہمیشہ اس کے ساتھ چلتی ہے۔
پھلوں کی ریڑھی لگانے  والا ایک کھڑوس  بوڑھا جس کی ہر بات گالیوں سے شروع ہوتی ہے۔
جس کے چہرے پر کبھی کسی نے مسکراہٹ نہیں دیکھی۔
وہ بھی ہر روز محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی منہ بولی بیٹی کے ادھ کھلے دروازے سے اکثر چپکے سے کچھ پھل اندر ڈال کر تیزی سے آگے بڑھ جاتا ہے۔
محبت صرف ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہی نہیں گھومتی۔ محبت تو وہ آفاقی جذبہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کا انسان کے ساتھ مقدس رشتہ ہوا کرتا ہے۔
وہ رشتہ جو اگر احساس سے خالی ہوجائے تو خودغرض بنا دے۔
ایک ماں کے دل سے اگر رب تعالی محبت کا احساس مٹا دے تو سب سے پہلے وہ خود ہی  اپنی اولاد کو قتل کردے۔
یہ محبت ہی ہے جو اسے اولاد کی طرف سے پہنچنے والی ہر تکلیف سہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
ایک باپ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے دن رات اپنی ہمت سے ذیادہ محنت کر کے ان کا مستقبل تابناک بناتا ہے۔ آخر کار ایک اندھیرا کمرا اس کا مسکن ٹھہرتا ہے۔ یہاں بھی محبت کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ کیونکہ محبت بے حیا و بے حس نہیں ہوتی۔
قوس قزح کے رنگوں جیسی محبت کو محسوس کرنے کے لیے اگر ایک دن ہی مخصوص کرنا ہے تو سڑکوں پر طوفان بدتمیزی پھیلانے والو ! زرا یہ مہنگے پھول ان پھول جیسے معصوم، پھولوں کے ننھے تاجروں کو دے کر دیکھنا۔
جن کے کپڑوں سے غربت مسلسل بہتے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ جن کی قسمت میں دھتکار یوں لکھ دی جاتی ہے جیسے جسم پر لگے کسی گہرے گھاؤ میں سے اُٹھتا ہوا درد مسلسل۔
یقیناً محبت کی چمک انہیں جینے کا نیا حوصلہ دے گی۔
محبت لافانی ہے۔ محبت آزاد ہے۔ محبت قید نہیں ہو سکتی۔ اس کا نغمہ ہر اس دل میں بجتا ہے جو “احساس”  جیسے جذبے  سے مالا مال ہو۔
میرا مقصد چودہ فروری کے خلاف علم بلند کر کے کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے، اپنے دشمن نہیں بنانے.
مگر،  خدارا محبت کو ایک دن میں قید مت کیجیے۔ اور نا اس خوبصورت جذبے کو لڑکے لڑکی کی ہوس ذدہ نظروں میں لتھیڑ کر گندا کیجیے۔