25 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

پرندے|afsana|shanurdu| parindey

افسانہ

پرندے

نیلم احمد بشیر

مَیں نے آخری مریض دیکھ کر ایک لمبی انگڑائی لی اور لاڈ سے اپنی بیوی نصرت کی طرف دیکھ کر کہا:
’’مابدولت ڈاکٹر صاحب بہت تھک گئے ہیں بس اب کلینک بندکر دیا جائے۔‘‘
’’جو حکم عالی جاہ!‘‘ نصرت مسکرا کر اُٹھی اور اِستقبالیہ کمرے کی طرف چل دی۔ ہم دونوں میاں بیوی شام کو مل جل کر کلینک چلایا کرتے تھے۔ وہ مریضوں کو بٹھاتی، نام لکھتی، کاغذی کارروائی کرتی اور مَیں مریض دیکھتا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ مَیں نے اُسے اندر آ کر دوبارہ سفید اوورآل پہنتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
’’ایک مریض بہت اصرار کر رہا ہے۔ آپ پلیز اُسے دیکھ لیں۔‘‘
’’نصرت! بھئی تمہیں تو پتا ہے ہمیں سات بجے تک شفیق صاحب کے ہاں عشائیے پر پہنچنا ہے۔ اُسے کل کا وقت کیوں نہیں دے دیتیں؟‘‘ مَیں نے جھنجلا کر کہا۔
’’مَیں نے اُسے بہت سمجھایا، لیکن وہ نہیں مان رہا۔‘‘
’’اچھا چلو بلا لو۔‘‘ مَیں نے ہتھیار پھینک دیے اور دِل ہی دل میں سوچنے لگا کبھی کبھی کتنے ڈھیٹ مریضوں سے پالا پڑ جاتا ہے۔ اب تک مَیں کافی تھک چکا تھا، لیکن خیر مَیں نے دوبارہ سے اپنا موڈ بنایا اور میز پر سے پچھلے مریض کی رپورٹیں وغیرہ ہٹانے لگا۔
نصرت ایک پینسٹھ، ستر سال کی عمر کے پٹھان بابے کو اندر لے آئی جس کے ساتھ ایک جوان خوبصورت، اداس آنکھوں والی لڑکی جو شاید اُس کی بیٹی تھی، لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی تھی۔
’’جی بابا جی، فرمائیے!‘‘ مَیں نے اُنھیں بیٹھنے کے لیے کرسیاں پیش کیں۔
’’ہم بابا نہیں، ہمارا نام زرگل خان ہے۔ یہ ہماری بی بی ہے پشمینہ جان۔ اِس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اِسے اچھی طرح چیک کرو ڈاکٹر صاحب!‘‘ بابے نے بڑے رعب سے مجھے مخاطب کیا۔
اچھا تو یہ بیوی ہے بابے کی، میرے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ بےنام سی حسرتیں چٹکیاں لینے لگیں۔ واہ رِی قسمت۔ مَیں نے سوچا۔
’’ہاں بی بی بتائیں آپ کو کیا شکایت ہے؟‘‘ مَیں نے سٹیتھو سکوپ گلے میں ڈال کر پشمینہ جان سے سوال کیا۔
’’ڈاکٹر صیب! یہ بےچاری کیا بتائے گی، ہم بتاتا ہے۔ یہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے ہائے ہائے کرتی ہے۔ ساری رات درد سے تڑپتی ہے، مچھلی کی طرح لَوٹتی ہے۔ کسی پل چَین نہیں آتا اِسے۔ دن بھر آسمان کی طرف منہ کر کے پتا نہیں کیا دیکھتی رہتی ہے۔‘‘
بابا بول رہا تھا اور پشمینہ جان لاتعلقی سے کلینک کی دیواروں پر لگے میڈیکل پوسٹروں کو دیکھے جا رہی تھی۔
’’تم بتاؤ بی بی کہاں درد ہوتا ہے تمہیں؟‘‘ مَیں نے مریضہ کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
’’ڈاکٹر صیب! مَیں آپ کو اکیلے میں بتائے گی۔‘‘ اُس نے چادر سے اپنا چہرہ مزید ڈھک لیا۔ کوئی پرائیویٹ معاملہ لگتا تھا۔ مَیں نے خان صاحب کو سمجھا بجھا کر کچھ دیر کے لیے باہر والے کمرے میں جا کر بیٹھنے پر رضامند کر لیا۔
’’بس ڈاکٹر صیب! آپ میری بی بی کو ٹھیک کر دیں۔ جتنا مرضی پیسہ لے لیں۔‘‘ زرگل خان باہر جاتے ہوئے بولا۔ ’’بڑی مہربانی ہو گی آپ کی۔‘‘
اُس کے باہر جاتے ہی پشمینہ جان یک دم سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔ چہرے سے چادر ذرا پیچھے کھسکا دی۔ بدلی سے چاند نکل آیا۔ مَیں دم بخود رَہ گیا۔ میری بیوی نصرت کی آنکھوں میں خبردار، خبردار کے الاؤ دہکنے لگے۔
’’ڈاکٹر صیب! مَیں بیمار ویمار نہیں، بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘ مَیں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’مَیں مکر کرتی ہوں ڈاکٹر صیب! تاکہ یہ بڈھا میرے پاس نہ آئے۔‘‘ شرارت بھری مسکراہٹ سے اُس کا چہرہ گلنار ہو گیا۔ چاروں طرف گلاب کی مہکتی کلیاں چٹکنے لگیں۔
’’لیکن …. تمہارا شوہر …..‘‘ نصرت نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’یہ کوئی شوہر ووہر نہیں ہے میرا۔ بڈھے نے مجھے ایک لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ زہر لگتا ہے مجھے۔‘‘ وہ خوداعتمادی سے بولی، تو اُس کا حُسن مزید نکھر آیا۔
’’ہوں!‘‘ مَیں نے ہنکارا ُبھرا۔
’’قید کر کے رکھا ہوا ہے اِس نے مجھے۔ مَیں کھلے آسمانوں پر پرندے کی طرح اُڑنا چاہتی ہوں۔ ڈاکٹر صیب! اونچا، اونچا ….. بہت اوپر ….. اور یہ بڈھا مجھے زمین پر چلنے والی چیونٹی بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر پردہ ہٹا کر کھلے آسمان کو تکنے لگی اور مَیں نے بھی پہلی بار غور سے نیلے آسمان پر اڑتے خوبصورت پرندوں کو دیکھ کر سوچا، یہ مجھے پہلے کیوں نہیں نظر آئے؟
’’ڈاکٹر صیب! مَیں کیا کروں؟‘‘ وہ ایک دم ایک خوف زدہ ہرنی کی طرح معصومیت سے میری طرف دیکھنے لگی۔
میری بیوی چونکی اور دَوائیوں کے کاؤنٹر کے پیچھے سے آ کر میرے مزید قریب کھڑی ہو گئی۔
’’ایسا کرو تم بھاگ جاؤ۔‘‘ بلاسوچے سمجھے میرے منہ سے نکلا۔ نصرت نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ اُس کے لبوں سے پھوٹنے لگی۔
’’اِس کے لیے کچھ وٹامنز، کچھ سکون بخش دوائیں تجویز کر دیں۔ بابے کو تسلی ہو جائے گی۔‘‘ نصرت نے انگریزی میں مجھے مشورہ دِیا اور مَیں نسخہ لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ بابے کو اندر بلا کر سمجھا دیا کہ اُس کی بیوی اِن دوائیوں سے بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی۔ بس وہ اِسے اِس کے حال پر چھوڑ دے، اللہ بہتر کرے گا۔
بابا خوشی خوشی اپنی پشمینہ جان کا ہاتھ پکڑ کر اُسے دھیرے دھیرے چلا کر باہر لے گیا، کیونکہ اُس سے اب پھر چلا نہیں جا رہا تھا۔
بہت سے دن گزر گئے۔ ہم اِس واقعے کو تقریباً بھول چکے تھے کہ اچانک ایک شام پشمینہ جان کلینک پر چلی آئی۔
’’ارے تم پشمینہ جان! تمہارا شوہر کہاں ہے؟‘‘ ہم دونوں میاں بیوی سراپا سوال بن گئے۔ ’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘
’’مَیں بالکل ٹھیک ہے ڈاکٹر صیب!‘‘ وہ آرام سے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ ’’مَیں تو یہ کہنے آئی ہوں کہ آپ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں۔ بالکل صحیح مشورہ دَیتے ہیں۔‘‘
وہ ہنس پڑی۔ اُس کے موتیوں جیسے دانت لاٹیں مارنے لگے۔
’’کیوں کیا ہوا بھئی؟‘‘ مَیں نے دلچسپی سے سوال کیا۔
’’مَیں بھاگ گئی ڈاکٹر صیب!‘‘
’’ہیں!‘‘ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ نصرت کے کان کھڑے ہو گئے۔
’’مَیں تو بس آپ کو بتانے اور آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔‘‘
’’ارے رُکو تو!‘‘ مَیں نے اُسے اُٹھتے دیکھ کر فوراً کہا۔
’’آخر اب تم کہاں رہتی ہو، کیا کرتی ہو؟ کچھ بتاؤ نا۔‘‘
نصرت کی آنکھوں میں تشویش کی پرچھائیں سی لہرائی۔
’’ڈاکٹر صیب! کیسی باتیں کرتے ہو؟ اُڑتے پرندوں سے بھی بھلا کبھی کوئی ایسے سوال پوچھتا ہے؟ مَیں پھُر سے اُڑ گئی اور بس …..‘‘
وہ پردہ اُٹھا کر تیزی سے باہر نکل گئی اور مَیں دیر تک ہلتے ہوئے پردے کو دیکھتا رہا۔
’’چلیے! گھر چلتے ہیں۔‘‘ میری بیوی نے لاڈ سے میرے گرد اَپنے بازو حمائل کر دیے۔
مَیں نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اُس پہ چھایا اطمینان علی الاعلان کہہ رہا تھا کہ اُسے یقین ہے ….. اُسے سو فی صد یقین ہے کہ اُس کے پاس کا کوئی پرندہ اُونچی اُڑان کی لذت کے لالچ میں راہ سے بھٹکنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles