28 C
Lahore
Thursday, March 28, 2024

Book Store

کولمبس کا سفینہ|afsana|shanurdu| columbus

افسانہ

کولمبس کا سفینہ

نیلم احمد بشیر

مہمانوں کے آنے سے پہلے فضیلہ نے مکان کے پچھلے لان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔
سب کچھ کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔ نفاست سے کاٹی ہوئی ہری ہری گھاس، ٹراپیکل پھولوں والے سرامک کے نمائشی گملے، لان کے ایک طرف نیلے نگینے کی طرح چمکتا ہوا بڑا سا سوئمنگ پُول اور اُس میں موجود صاف پانی سے اُٹھتی کلورین کی مہک، اطراف میں بچھی پکنک کی میزوں پر ہر طرح کا سامان خور و نوش۔
’’بڑی اعلیٰ پارٹی لگ رہی ہے فیزی!‘‘ فضیلہ کے شوہر طارق احمد نے پارٹی کی تیاریاں دیکھ کر اَپنی بیوی کے گلے میں بازو ڈال دیے۔
’’بس دیکھ لیں تاری، آپ کو تو پتا ہے آپ کی نصف بہتر کی پارٹیاں کتنی خاص ہوتی ہیں۔ مہینوں اپ سٹیٹ نیویارک کی پاکستانی کمیونٹی میں چرچے ہوتے رہیں گے ہمارے۔‘‘
فضیلہ اترا کر بولی اور قریب جا کر میزوں کو چیک کرنے لگی کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو۔ ہر میز پر سفید میزپوش بچھا تھا، جس پر سجی اعلیٰ معیار کی ایسی خوبصورت ڈسپوزایبل پلیٹیں اور گلاس رکھے تھے جو دُور سے بالکل اصلی چائنا کے لگتے تھے۔
باربی کیو انگیٹھیاں پہلے ہی جلا دی گئی تھیں جن پر سنکتے ہوئے سیخ کباب، چکن پیس اور یو ایس ڈی اے گریڈ ون کے بیف سٹیک (beefsteak) کی اشتہا انگیز خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی۔
’’یار فیزی! تم نے تو کمال ہی کر دیا۔‘‘ طارق زور زور سے ہنسنے لگا۔
’’پلیز تاری! ابھی سے مدہوش ہونے لگے، تو آگے جا کر کیا ہو گا۔ ابھی تو پوری شام پڑی ہے۔‘‘ فضیلہ نے خود سے چپکتے ہوئے طارق کو اَپنے سے علیحدہ کرتے ہوئے اُس کا مشروب چھین لیا اور خود پی گئی۔
’’یو آر اے ڈیول (You are a devil)‘‘ طارق نے اُسے بانہوں میں بھینچ لیا اور دونوں ہنس پڑے۔ اُن کی نظریں اپنے ملین ڈالر ہاؤس پر پڑیں اور مسرت و اطمینان سے بھر گئیں۔
اللہ نے اُنھیں کتنا نوازا تھا۔ روپے پیسے کی ریل پیل اور آپس میں محبت۔ ایک ہونہار، فرمانبردار پیارا سا بیٹا اور اُس کی آئندہ زندگی کے خوشگوار خواب۔ اور اُنھیں کیا چاہیے تھا؟
آج وہ بےحد خوش تھے، کیونکہ اُن کے بیٹے عمران نے اپنے ہائی سکول سے آنرز سٹوڈنٹ اعزاز کے ساتھ گریجویشن کیا تھا اور کھیلوں میں بھی امتیازی پوزیشن حاصل کی تھی۔
وہ چاہتے تھے کہ ساری کمیونٹی والے عمران کو کامیابی کی راہوں پر گامزن ہونے پر اپنی نیک تمناؤں سے نوازیں اور اُن کی خوشیوں میں شریک ہوں، ہنسیں بولیں، ہلہ گلہ کریں، کیونکہ زندگی کی کامیابیوں کو اَپنے دوستوں سے بانٹ لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔
عمران کو کاؤنٹی کے سکولوں کے مابین مقابلوں میں بھیجا جاتا تھا جہاں سے وہ ہمیشہ ٹرافیاں جیت کر لاتا اور اَپنے سکول اور علاقے کا نام روشن کرتا۔
مقامی اخبارات میں اُس سے متعلق خبریں اور تصاویر چھپتیں اور سب سے شاباش ملتی۔ طارق اور فضیلہ کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا اور وُہ بیٹے کو سو سو دعائیں دیتے۔
امریکا میں ہر طرح سے کامیاب زندگی گزارنے کے باوجود فضیلہ اور طارق احمد کے دلوں میں وطن کی محبت زندہ تھی۔ وہ باقاعدگی سے پاکستان جاتے اور کئی اداروں اور اَین جی اوز کو غریبوں کی مدد کرنے کے لیے موٹے موٹے چیک دیتے رہتے۔
طارق اپنے بیٹے عمران کو پاکستان کے بارے میں بتاتے اور یاد دِلاتے رہتے کہ وہ بنیادی طور پر ایک پاکستانی امریکن بچہ ہے، اُسے اپنی اصلیت، شناخت اور حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے۔
’’جو لوگ اِس بات کا خیال نہیں رکھتے، اُن کی آئندہ نسلیں بھٹک کر رہ جاتی ہیں بیٹا۔‘‘ وہ کبھی کبھار عمران کو ایک کہانی سناتے اور کہتے:
’’سنو عمران! امریکا دریافت کرنے کے بعد جب کولمبس اپنا سفینہ لے کر وطن واپس لَوٹا، تو اُس کے عملے میں شامل ایک قیدی عورت دوڑ کر ساحل پر اتری اور بےتابانہ اپنی جنم بھومی کو بوسے دینے لگی۔
وطن کی محبت ایسا ہی طاقتور جذبہ ہوتا ہے بیٹا۔ وہ عورت میرے لیے نمونہ ہے اور میرے خیالوں میں بستی ہے۔ ہمیں اپنی اصل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے عمران بیٹا۔‘‘
عمران اپنے باپ کی باتیں سن کر مسکراتا اور اُنھیں ہمیشہ یاد رَکھنے کا وعدہ کرتا۔
طارق کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ وہ اَکثر پریوں کے ملبوس جیسے رنگوں والے خوبصورت دو غلافی گلاب (Hybrid Tea Roses) لگاتے اور پھر اُنھیں کرسٹل کے گلدان میں سجا کر سراہتے رہتے۔ فیزی سے کہتے:
’’دیکھو ڈیئر! یہ گلاب کس قدر نازک، حسین اور دِلکش ہیں، مگر اِن میں خوشبو نہیں ہے۔ اِن کی نسبت میرے وطن پاک کے سادہ دَیسی گلاب کی خوشبو یاد کرو ….. کیسی مسحور کر دینے والی ہوتی ہے ….. ایسا کیوں ہے فیزی! اللہ نے یہاں کے گلابوں میں خوشبو کیوں نہیں ڈالی؟‘‘
فیزی ایسی باتیں سن کر کھلکھلا کر ہنستی اور کہتی:
’’آپ نہیں سدھریں گے You are an incurable romantic (تم ایک لاعلاج رومانوی شخص ہو۔)‘‘
عمران ہائی سکول کے بعد کالج میں ایسے کورسز لینا چاہتا تھا جو اُسے فضائی شعبے (aeronatical field) میں لے جانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ اُسے بچپن سے ہی خلاباز بننے کا بہت شوق تھا۔ اُس کے والدین اُس کے اِس عزم میں مکمل طور پر اُس کی حمایت کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے، اُن کے پورے خاندان میں، جن میں امریکا میں بسنے والے کئی بہن بھائی اور کزن رشتےدار شامل تھے، کسی کے بچے نے بھی کبھی اِس طرف جانے کی خواہش یا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔
’’مَیں تو اُس دن کے انتظار میں جی رہا ہوں کہ میرا بیٹا کسی بڑے ناسا مشن میں جائے اور کامیاب لَوٹے۔ ایک آدھ ستارہ تو ہماری گود میں لا کر ڈال ہی دے گا نا۔‘‘
طارق سوچتے اور پھر سارے گھر میں گنگناتے پھرتے:
’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ….. محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے، ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔‘‘
عمران اپنے والد سے اِن اشعار کا مطلب پوچھ کر مسکراتا اور اُن کا یہ خواب پورا کرنے کا وعدہ کرتا۔
تھوڑی ہی دیر بعد مہمان آنا شروع ہو گئے اور ہیلو ہائے، السلام علیکم کی ملی جلی آوازیں رنگین غباروں کی طرح فضا میں تیرنے لگیں۔ کمیونٹی کی معتبر شخصیات، قونصلیٹ کا عملہ، دوست احباب سب ایک دوسرے سے ہیلو ہائے کر رہے تھے اور حال احوال پوچھ رہے تھے۔ طارق احمد تیس سال سے امریکا میں ایک کامیاب قالینوں کے برآمدی تاجر کے طور پر اَپنی ساکھ قائم کر چکے تھے اور آج اُن کے اکلوتے بیٹے کی گریجویشن پارٹی تھی۔ ایسا ہنگامہ تو ہونا ہی تھا۔
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ!‘‘ فیزی کے گلے سے لگنے والی نرم کومل آواز والی خاتون بولی۔
’’روزی تم! یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے بھئی؟ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا:
‘‘ فضیلہ مکمل طور پر برقع پوش خاتون کو دیکھ کر حیرت سے کہنے لگی۔
’’کم آن روزی، ہمیں بتا دیا ہوتا، تو ہم بھی ’فینسی لباس‘ پہن کر آ جاتے۔‘‘
فضیلہ اور روزی کی مشترکہ دوست رشمی ہنس ہنس کر دہری ہونے لگی۔
’’برائے مہربانی اللہ کے لیے، تم دونوں اللہ کا خوف کرو ….. یہ فینسی ڈریس نہیں ہے۔ اب مَیں ہمیشہ اِسی لباس میں رہتی ہوں۔ اب مَیں نئے سرے سے مسلمان ہوئی ہوں۔
تم جانتی ہو، اللہ تعالیٰ نے ہم عورتوں کے لیے یہی ڈریس کوڈ تجویز کیا ہے، تو ہمیں اِسی طرح رہنا چاہیے۔ اور اَب پلیز مجھے آئندہ سے روزی نہیں، رضیہ کہہ کر بلایا کرو۔‘‘
’’اوہ، مَیں معذرت چاہتی ہوں …..‘‘ رشمی کچھ سمجھ کر سنجیدہ ہو گئی۔ فضیلہ بھی اپنی پرانی سہیلی کی اِس بدلی ہوئی ہیئت کو دیکھ کر پل بھر کو تو ٹھٹک کر رہ گئی۔
اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی روزی ہے جسے لاس اینجلس کی ’لائٹ آف دی پارٹی‘ کہا جاتا تھا۔ اِس کی ڈرنکنگ، ڈانسنگ اور مردوں سے بےتکلفی کی داستانیں غربی کنارے سے نکل کر شرقی کنارے تک پھیل چکی تھی۔ روزی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ شرط لگا کر جس مرد کو چاہے، اپنی طرف مائل کر سکتی ہے۔
’’اچھا! معاف کیجیے گا، مَیں ذرا مغرب کی نماز پڑھ آؤں، وقت نکلتا جا رہا ہے۔‘‘ رضیہ اپنی سہیلیوں کو حیران پریشان چھوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی۔
’’کتنی تبدیلی آ گئی ہے اِس میں۔‘‘ رشمی کہے بغیر نہ رہ سکی۔ ’’یہ نائن الیون تو ہماری جان کو ہی آ گیا ہے۔ جسے دیکھو اسلامی بنیاد پرست بنتا جا رہا ہے یہاں۔ کیا ہو گا اِس قوم کا آخر!‘‘
’’سب نے برقعے، حجاب اور عبائیں پہن لی ہیں۔ اللہ خیر ہی کرے۔‘‘
دونوں سہیلیوں نے روزی کی کایاپلٹ ہو جانے پر اپنے اپنے تبصرے شروع کر دیے۔
سوئمنگ پُول کے اردگر پارٹی زوروں پر چل رہی تھی۔
ڈیک سے موسیقی بلند آواز میں لگی ہوئی تھی اور نوجوان لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑخانی میں مصروف نظر آ رہے تھے۔
عمران کے ہم جماعتوں میں گورے، کالے، میکسیکن، چینی، ہسپانوی، ہر نسل کے بچے شامل تھے۔ خوش باش، کھاتے پیتے، مسکراتے بچوں کو دیکھ کر اُن کے ماں باپ بھی خوش تھے کہ سب اتنے اچھے وقت کا لطف اٹھا رہے ہیں۔
کوئی پُول میں نہا رہا تھا، تو کوئی کسی کو پُول میں گرا رَہا تھا۔
کوئی میز پر تھرک رہا تھا، تو کوئی تصویریں کھنچواتا ہوا پھڑک رہا تھا۔ عمران اپنے دوستوں کو آلو کے چپس اور سافٹ ڈرنکس پکڑاتا جا رہا تھا اور خوش تھا کہ وعدے کے مطابق اُس کے تقریباً سبھی ہم جماعت تقریب میں شامل ہونے کے لیے آ گئے تھے۔
’’ماشاء اللہ بڑا پیارا نکل آیا ہے عمران بیٹا۔‘‘ ایک آنٹی نے قریب آ کر پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’کیوں نہ ہو، آخر بیٹا کس کا ہے۔‘‘ طارق احمد فخریہ انداز میں ہنس کر کہنے لگے۔
’’ہاں ہاں جب کسی بات کا کریڈٹ لینا ہو، تو یہ آپ کا بیٹا بن جاتا ہے اور جب اِس سے کوئی شکایت ہو، تو یہ صرف میرا بیٹا ہوتا ہے۔‘‘
فضیلہ مصنوعی غصّے سے بولی، تو طارق نے اپنی منہ بسورتی بیوی کے منہ میں آئس کریم کا چمچ ڈال دیا اور سب ہنسنے لگے۔
پارٹی اتنی زبردست تھی کہ کمیونٹی میں ہفتوں اُس کا چرچا رہا۔ دور دُور کی ریاستوں سے اُن دوستوں نے جو بوجوہ شریک نہیں ہو سکے تھے، مبارک باد کے فون کیے اور پارٹی چھوٹ جانے پر افسوس کا اظہار کرتے رہے، مگر تحفے بھجوانے میں کسی نے کنجوسی نہیں کی۔
عمران کے لیے چیزوں کا انبار لگتا چلا گیا اور فضیلہ اور طارق اُنھیں سمیٹنے لگے حالانکہ عمران کے پاس پہلے ہی بھلا کس چیز کی کمی تھی۔
گریجویشن کے بعد ایک لمبی موسمِ گرما کی تعطیلات تھیں اور پھر ستمبر میں کالج میں داخلہ ہونا تھا، مگر کچھ عرصے سے طارق اور فضیلہ محسوس کر رہے تھے کہ سمسٹر قریب آتے آتے عمران اپنے داخلے میں کوئی خاص دلچسپی کا اظہار کرتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
اِس کی بھلا کیا وجہ تھی؟ عمران جیسا تعلیم پسند بیٹا نہ کالج کے منصوبے بنا رہا تھا اور نہ اُن سے کچھ زیادہ بات چیت کر رہا تھا۔
’’عمران بیٹا! تم نے اپنے کاغذات مکمل کر کے یونیورسٹی کو بھجوا دِیے ہیں نا؟‘‘ ایک روز طارق نے اُسے ناشتے کی میز پر گھیر لیا۔
’’ابھی نہیں ابو! مَیں آج کل ذرا کچھ مصروف ہوں۔‘‘ عمران مزید کچھ کہے سنے بغیر اچانک کھڑا ہوا اَور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایک روز طارق نے اُسے پھر جا لیا۔
’’دیکھو بیٹا! اگر تم نے واقعی خلاباز بننا ہے، تو گھر بیٹھے تو نہیں بنو گے۔ اُس کے لیے کالج تو جانا ہی ہو گا۔ پری کورسز کے بغیر ناسا پروگرام میں کیسے داخل ہو گے، سمجھ آ رہی ہے یا نہیں؟‘‘
طارق کا لہجہ کرخت ہو گیا۔
فضیلہ نے شوہر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سرزنش کی کہ اتنا غصّہ نہ دکھائیں۔
’’بیٹا! ابو کیا کہہ رہے ہیں، کچھ سنا تم نے یا نہیں؟‘‘ ماں نے پیار سے بیٹے کے آگے مرغ کا پیس رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’امی، ابو! مَیں آپ دونوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ عمران کے چہرے پر ایک عجیب سی سنجیدگی چھا گئی۔ ’’دراصل مَیں فی الحال آگے نہیں پڑھنا چاہتا۔‘‘ کمرے میں ایک بم سا پھٹا اور دَر و دِیوار لرزنے لگے۔
’’کیا کہا؟ کیا حماقت ہے یہ؟ کیوں نہیں پڑھنا چاہتے، پڑھو گے نہیں، تو کیا کرو گے؟ یہ کیا امریکن بچوں والی بات ہے۔
ہائی اسکول نہ کالج ختم کیا۔ کسی معمولی سے کام کی ملازمت کر لی، گیس سٹیشن پر گیس بھری۔ گھنٹوں کی اجرت پر کام کیا، پھر ختم۔ نہ کوئی تعلیم و تربیت، نہ کوئی مستقبل کا منصوبہ۔‘‘ طارق غصّے سے چیخنے لگے۔
’’بیٹا! ہم امریکنوں جیسی حرکتیں نہیں کر سکتے۔
ہم ایشیائی لوگ ہیں، ہم لوگوں کی زندگیوں میں مقاصد ہوتے ہیں، منصوبے ہوتے ہیں، ہم اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔‘‘ فضیلہ تحمل سے بات کرنے لگی۔
’’آپ لوگ ایشیائی ہیں، مَیں نہیں۔ مَیں امریکی ہوں، کیونکہ مَیں اِسی سرزمین میں پیدا ہوا ہوں۔ آپ مجھے اپنی طرح سوچنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘‘
عمران پورے اعتماد سے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
’’ہائے اللہ! پڑھو گے نہیں، تو کیا کرو گے؟ باہر گھوم پھر کر آوارہ گردی؟ امریکی بچوں کی طرح شراب، نشہ، اُن لوگوں کا تو نہ ماں ہے، نہ باپ، مگر تم ہمارے بیٹے ہو۔ ہم تمہیں یوں بگڑنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ فضیلہ بھی چیخنے لگی۔
’’مَیں آوارہ گردی نہیں کروں گا امی!‘‘ عمران نے اُسے پیار سے چھوا۔
’’تو کیا کرو گے گھر بیٹھ کر؟‘‘ طارق نے فضیلہ کی طرف دیکھ کر سر پکڑ لیا۔ ’’
مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ صاحبزادے کے ارادے کیا ہیں؟‘‘
’’مَیں شادی کروں گا امی، ابو!‘‘ عمران بڑے اطمینان سے بولا۔
’’شادی؟ یہ شادی بیچ میں کہاں سے آ گئی؟ ابھی شادی کا کیا ذکر۔ ابھی تو تم خود بچے ہو۔ بیٹا عقل کرو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے؟ شادی بھی وقت آنے پر ہو جائے گی۔ یہ وقت تمہاری تعلیم کا ہے۔‘‘ فضیلہ نے پیار سے کہا۔
’’کون ہے وہ؟ ڈاکٹر عنایت کی بیٹی نادیہ تو نہیں؟‘‘ فضیلہ نوٹ کر رہی تھی کہ کچھ دنوں سے اُس کے کافی فون آ رہے ہیں۔
’’نہیں امی! وہ تو صرف میری دوست ہے۔‘‘ عمران کچھ مضطرب سا نظر آنے لگا۔
’’تو پھر! ہائے کہیں کوئی امریکی لڑکی تو نہیں؟‘‘
فضیلہ کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ ’’کیا پاکستانی لڑکیوں کی کوئی کمی ہے امریکا میں؟‘‘ فضیلہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
’’ملوا دُوں گا آپ لوگوں سے اُسے ….. آج ہی شاید ….. امی، ابو! مَیں معذرت چاہتا ہوں، آپ کو دکھ ہوا، لیکن بس مَیں اب کیا بتاؤں۔ مینڈی اور مَیں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بہت پیار ہے ہمیں ایک دوسرے سے۔ مہربانی کر کے سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘
عمران ماں باپ کو حیران پریشان چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
وُہ سوچنے لگے، جب ہیروشیما پر ایٹم بم گرا تھا، تو کیا وہاں کے باسی بھی اِسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے راکھ کی ڈھیریوں میں تبدیل ہو گئے تھے؟
’’کیا ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے فیزی؟‘‘ طارق نے بچوں کی طرح روتے روتے فضیلہ کی گود میں سر دے دیا اور وُہ خاموشی سے اُسے تھپکا کر اَپنے آنسو پونچھنے لگی۔
اگلے چند دن کچھ عجیب سی خاموشی میں کٹے۔ عمران صبح سویرے نکل جاتا اور رَات گئے گھر واپس آتا۔ نہ جانے کہاں رہتا تھا وہ؟ ماں باپ سے بھی کم ہی ملاقات ہوتی۔
نہ جانے کیا ہو گیا تھا اُسے؟ فضیلہ اٹھتے بیٹھتے اُس امریکن چڑیل کو کوسنے اور بددعائیں دیتی رہتی جس نے اُس کے معصوم بیٹے پر جادو کر دیا تھا۔
’’فیزی! نرمی سے کام لو۔ کیا پتہ وہ اَچھی لڑکی ہو۔ شاید وہ ہماری بیٹی ہی بن جائے۔ آخر ہماری کوئی بیٹی بھی تو نہیں ہے ….. شاید اِس میں اللہ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو۔ آخر ہم اپنا اکلوتا بیٹا کھونا تو نہیں چاہتے نا۔‘‘ طارق بیوی کو سمجھاتے رہے۔
’’ہیلو امی، ابو!‘‘ عمران نے ایک شام گھر میں گھستے ہی اُنھیں پیار سے مخاطب کیا اور پھر کسی کو دروازے کے پیچھے چھپتے ہوئے دیکھ کر آواز دی …..
’’مینڈی! اندر آ جاؤ ….. شرماؤ مت۔‘‘ چند لمحے مکمل خاموشی رہی، پھر عمران اُٹھا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُن کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔
فضیلہ اور طارق کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
اِس کالی لمبی تڑنگی لڑکی کو اُنھوں نے عمران کی گریجویشن پارٹی میں دیکھ تو رکھا تھا، لیکن شاید زیادہ قریب سے نہیں، کیونکہ موٹے موٹے ہونٹوں، بڑی بڑی آنکھوں اور پیٹ کے نمایاں ابھار وَالی آبنوسی لڑکی کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
’’اوہ میرے اللہ!‘‘ طارق کے منہ سے بےاختیار نکلا۔ فضیلہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا ۔
اُس نے کرسی تھام کر لمبے لمبے سانس لینا شروع کر دیے۔
’’کیا تم؟‘‘ فضیلہ نے مینڈی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے سوال بیچ ہی میں چھوڑ دیا۔
’’جی! چار مہینے ہونے والے ہیں۔‘‘ مینڈی نے اپنے پیٹ کی طرف فخر سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مینڈی کے جانے کے بعد گھر میں بھونچال سا آ گیا۔ طارق چیخ رہے تھے۔ فضیلہ زار زار رَو رَہی تھی اور عمران گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔
’’ہم نے تمہیں کیا نہیں دیا؟ تمہاری ہر فرمائش پوری کی ….. پھر تم ہمارے ساتھ یہ سب کیسے کر سکتے ہو؟‘‘
’’ابو! سمجھے کی کوشش کریں ….. ہم نے جان بوجھ کر تو بچہ پلان نہیں کیا تھا۔ بس ہو گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ہوتا ہے …..‘‘ عمران نے کندھے اچکائے۔
’’بےشرم لڑکے! یہ ہمارا کلچر نہیں ہے۔‘‘ ماں تڑپ کر بولی۔
’’امی! یہ اِس ملک کا کلچر ہے جس میں ہم رہ رَہے ہیں۔ مَیں امریکی ہوں، یہاں کا رہنے والا ہوں۔ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ ہم ایشیائی بچوں پر اِس معاشرے میں کتنے دباؤ ہوتے ہیں۔
جوان ہونے کے بعد ہم اپنے ساتھیوں سے الگ تھلگ کیسے ہو جائیں۔ اگر ہم کسی کے ساتھ ڈیٹنگ نہ کریں، تو ہمیں ابنارمل یا ہم جنس پرست سمجھ لیا جاتا ہے اور اَگر اپنے دوستوں کی طرح امریکی زندگی گزاریں، تو آپ لوگوں کی اقدار خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
ہم لوگ اِس معاشرے میں رہ کر مس فٹ (misfit) نہیں ہونا چاہتے۔ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ سمجھنے کی کوشش کریں آپ لوگ۔ ہمیں یہاں رہنا ہے، ہمیشہ اور مستقلاً، مت روکیں ہمیں۔‘‘
عمران کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’ایک غلام زادی اب ہماری بہو بنے گی۔‘‘ فضیلہ نے دانت پیسے۔
امریکی آسائشوں اور معاشی آسودگیوں کے غلام، تیسری دنیا کے تارکِ وطن، بےبسی کے سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رَہے تھے اور لہریں اونچی سے اونچی ہوتی چلی جا رہی تھیں۔
فضیلہ کو اپنی ایک پرانی امریکی ہمسائی یاد آ گئی جس نے اپنے بیٹوں کے لیے گھر میں ’پلے بوائے‘ میگزین لگوا رَکھا تھا۔ ’’تم اپنے بیٹوں کو خود ہی کیوں بگاڑ رہی ہو؟‘‘
ایک بار فضیلہ نے اُس سے سوال کیا، تو اُس کے جواب نے فضیلہ کو حیران کر دیا۔ ’’مَیں نے یہ اِس لیے لگوایا ہے کہ کہیں میرے بیٹے، لڑکیوں کی جگہ لڑکوں میں دلچسپی نہ لینے لگیں۔‘‘
طارق اور فضیلہ کی پاکستانی کمیونٹی کے لوگ حیران تھے کہ اتنی پیارے خاندان کو کس کی نظر کھا گئی۔ ابھی سب کچھ اچھا بھلا تو تھا۔
چند ماہ پہلے ہی تو اتنی عالیشان گریجویشن پارٹی دی تھی اُنھوں نے، اپنے بیٹے کے لیے اور اَب یہ اچانک شادی کا دعوت نامہ!
فضیلہ نے رو رَو کر پہلے ہی سب دوستوں کو بتا دیا تھا کہ اُن کے بیٹے سے ایک غلطی ہو گئی ہے اور اَب وہ اُسے باعزت طریقے سے نبھانا چاہتے ہیں۔ راز تو شادی کے دن کھل ہی جانا تھا۔
لہٰذا اُنھوں نے سوچا چھپانے سے کیا فائدہ۔ خواہ مخواہ باتیں بنیں گی، قیاس آرائیاں کی جائیں گی۔ شیطان کا کیا ہے، کسی بھی وقت کسی کے بچے کو بھی بہکا سکتا ہے۔ اُن کے بچے کو بھی بس شیطان نے بہکا دیا تھا۔
ساری کمیونٹی میں ایک شادی کی تقریب ہونے کے خیال سے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
خواتین اپنے نئے نئے پاکستان سے منگوائے ہوئے جوڑے پہننے کے خیال سے جھوم اٹھیں اور نوجوان لڑکے، لڑکیاں مہندی کے فنکشن پر ناچنے، گانے کے خیال سے پروگرام ترتیب دینے لگے۔
فضیلہ اور طارق نے سوچا اب سر پر پڑ ہی گئی ہے، تو کیوں نہ اِسے خوبصورتی سے نبھائیں۔ اُنھوں نے دولہا دلہن کے لیے نئے سرے سے خواب گاہ کو رِی ماڈل کیا اور لاہور سے دلہن کے لیے ڈیزائنر عروسی جوڑے آرڈر کر دیے۔
طارق کی بہن زبیدہ نے کپڑے تو بجھوائے تھے، مگر چونکہ اُسے دلہن کی اصلی صورتِ حال نہیں بتائی جا سکتی تھی، لہٰذا لہنگا شلوار ٹخنوں سے اونچی اور قمیص کمر سے تنگ رہی۔
شادی والے دن آبنوسی رنگت والی دلہنیا کو لال جوڑے میں لاکھ سجایا، مگر وہ کسی بھی طرح پاکستانی دلہن نہ لگ سکی۔
کُرتے کی سلائیاں نکال دی گئیں، مگر پھر بھی اُس کا پیٹ گیند کی طرح باہر کو اُبلتا دکھائی دیتا رہا۔ چھوٹے چھوٹے گھنگھریالے سیاہ بالوں کے چھتے پر ڈوپٹا ٹکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بالوں کو ہر طرف سے لاکھ کلپ لگائے گئے تب جا کر کہیں سر پر دوپٹہ ٹھہرا اَور ساس کی جان میں جان آئی۔
’’تم ایک بہت بڑی نیکی کا کام کر رہی ہو فضیلہ بہن! اللہ تمہیں اِس کا بہت اجر دے گا۔‘‘
چہرہ چھپائے ہوئے رضیہ عرف سابقہ روزی نے فضیلہ کو گلے لگا کر پیار کیا، تو فضیلہ آنے والی زندگی میں ملنے والی دودھ اور شہد کی نہروں کے کنارے بیٹھ کر سستانے کے خیال سے مسکرا دِی۔
دونوں سہیلیاں دلہن کو سرخ دوپٹہ اوڑھا کر دھیرے دھیرے باہر لائیں، تو مینڈی کی باسکٹ بال پلیئر سہیلیوں نے مسکرا کر تالیاں بجائیں اور آگے بڑھ کر اُس کا ڈوپٹا اور لہنگا اٹھا اٹھا کر اُس پر ہونے والا کام دیکھنے لگیں۔ اُنھیں مینڈی کے کپڑے بہت اچھے لگ رہے تھے۔
“Give me a joint” مینڈی نے اپنی ایک دوست لِنڈا کو قریب پاتے ہی اُس سے ایک سگریٹ لیا اور زور زور سے کش لینے لگی۔
’’تم تھکی ہوئی نظر آ رہی ہو۔‘‘ لِنڈا نے پیار سے اُس کی کمر پر ہاتھ پھیرا، تو مینڈی نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں۔
’’بہت تھک گئی ہے مینڈی۔‘‘ عمران نے اُسے دور سے دیکھا، تو اُس کے قریب جا پہنچا اور مینڈی کی سہیلیوں سے اپنی شیروانی آؤٹ فٹ پر داد سمیٹنے لگا۔
مینڈی نے اپنے پیٹ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اَور کہنے لگی “Baby look, your dad is looking so handsome.” (بیٹا! دیکھو تمہارے ابو کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔)‘‘
عمران بہت خوش تھا۔ آخر اُس کے ماں باپ اُس کی خوشی کے لیے راضی ہو ہی گئے اور اب تو اُن سب کی لگی بندھی معمول کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی بھی آنے والی تھی۔
گھر کے آنگن میں ایک نئے پھول کی مہک پھیلنے والی تھی۔ اُس نے جذبات سے مغلوب ہو کر اَپنے پیارے ماں باپ کے منہ چوم لیے۔
مینڈی کو پہلے مسلمان کر کے منزہ بنایا گیا۔ اسلامی نام رکھنے کا ایک اہم مرحلہ طے ہو گیا۔ جوان جہان سیاہ ڈاڑھی اور شرارتی نظروں والے امام صاحب دلہن کے پیٹ کو مستقل گھورتے رہے، مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔
’’فیزی! یہ تم نے بڑا نیکی کا کام کیا ہے ….. ایک غیرمسلم کو مسلمان بنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمہیں اِس کی بہت جزا دَیں گے۔‘‘
رضیہ نے پھر سے فیزی کے کان میں سرگوشی کی، تو فضیلہ پھیکی سی مسکراہٹ سے ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی۔
بہو کے آ جانے سے فیملی کے روز و شب میں کافی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔
منزہ بیٹی اور عمران بیٹے کے باہر آنے جانے کے اپنے اوقات اور طورطریقے تھے۔
فضیلہ کئی بار سوچتی کہ بیٹے کی شادی صحیح وقت پر اور کسی پاکستانی لڑکی سے کی ہوتی، تو وہ بہو کے کتنے چاؤ پورے کرتی۔ مگر یہاں تو اُسے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ بہو سے کیسے پیش آئے۔
منزہ کھلاڑی لڑکی تھی، اِس لیے اپنی جسمانی تندرستی کا پورا خیال رکھتی تھی۔
چند ہی ماہ بعد اُسے کسی باسکٹ بال کے میچ میں شرکت کرنا تھی، جسے وہ کسی قیمت پر بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ اِس لیے ہر وقت ورزش کرتی نظر آتی تھی۔
فضیلہ اُسے پاکستانی کام والے زرق برق جوڑے پہنا کر سہیلیوں کے گھروں میں دعوتوں پر لے جاتی، تو وہ بہت لطف اندوز ہوتی۔
اتنی محبت کرنے والا شوہر اور خدمت گار ساس ملی تھی۔ وہ تو ایسی زندگی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اُس کا تو خیال تھا، وہ اپنے بچے کو تنہا ہی پالے گی یا اپنی ماں کی مدد طلب کرے گی جو خود بھی ہمیشہ ہی تنہا رہی تھی، مگر یہاں تو سب کچھ اتنا مختلف اور اَچھا تھا کہ زندگی شاندار ہو گئی تھی۔
اب نہ اُسے گھر کے کرائے کی فکر تھی، نہ کمانے کی پریشانی۔ بچے کے لیے بھی سب انتظامات خود بخود ہوتے چلے جا رہے تھے۔
فضیلہ کو ایک فکر دن رات کھائے جا رہی تھی کہ اگر بچہ ماں پر چلا گیا، تو پھر کیا ہو گا۔ وہ دِن رات جائےنماز پر بیٹھی اللہ سے التجائیں کرتی کہ:
’’اے اللہ پاک! میرے پوتے کو ماں جیسے موٹے بھدے نین نقش اور کالے چھتے جیسے پھولے بال نہ دینا۔ یا اللہ! بچہ پاکستانی لگے، حبشی نہ لگے۔ ورنہ ہم تمام عمر دنیا کے آگے وضاحتیں پیش کرتے پھریں گے ….. یا اللہ! ہمارے حال پر رحم کرنا۔ بچہ بےشک عمران جیسا نمکین ہو، مگر اُسے نقش پاکستانی دینا۔‘‘
فضیلہ نے بہو کے کمرے میں جا بجا خوبصورت پاکستانی بچوں کی تصویریں سجا دی تھیں تاکہ وہ ہر وقت اُنھیں دیکھتی رہے اور وَیسا ہی بچہ پیدا کرے۔
عمران بڑے شوق سے اپنی بیوی کو طبی معائنے کے لیے لے جاتا اور اُس کی صحت کے متعلق معلومات حاصل کرتا رہتا۔ ہر ماڈرن امریکی جوڑے کی طرح اُن کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ اَپنے بچے کی پیدائش کے مرحلے میں ایک دوسرے کے مددگار اَور معاون ثابت ہوں۔
اِس لیے اُنھوں نے اُن کلاسوں میں بھی جانا شروع کر دیا تھا، جہاں مرحلہ پیدائش کے دوران حاملہ ماؤں کو تنفس کے ذریعے آسان پیدائش کی تربیت دی جاتی تھی۔
’’امی، ابو! جب مَیں پیدا ہو رہا تھا، تو آپ لوگ بھی بہت پُرجوش ہو رہے ہوں گے۔ ہیں نا؟‘‘
عمران نے اپنی بیوی کے لیے بنائی گئی لذیذ پنجیری اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کتنی مزے کی ہے۔‘‘ منزہ بولی۔
’’ہاں بیٹا! لیکن اب یہ بھی سوچو کہ تمہیں اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے ….. اور خلاباز بننا ہے۔‘‘ باپ نے اُس کا وعدہ اَور فرض یاد دِلایا۔
’’کروں گا، کروں گا ….. سب کچھ کروں گا۔ آپ کے سب خواب پورے ہوں گے۔ آخر آپ میرے اتنے پیارے والدین ہیں۔ آپ کی مدد نہ ہوتی، تو مَیں زندگی کے اِس حسین لمحے میں کتنا تنہا رہ جاتا۔ شکریہ …..‘‘
منزہ بھی فرطِ مسرت سے ساس سے لپٹ کر بولی ’’آپ بہت اچھی ہیں۔‘‘
فضیلہ کے دل پر ایک گھونسہ سا لگا۔ ہائے کاش! یہاں کوئی پاکستانی لڑکی ہوتی۔ خوبصورت، نازک اندام، پتلے پتلے نین نقش والی۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی۔
’’امی! کتنی اچھی بات ہے کہ منزہ خوش ہے ….. ہم سب کو اِسے خوش ہی رکھنا چاہیے۔ آپ لوگ خوش ہیں نا کہ یہ بچہ اِس دنیا میں آ رہا ہے؟‘‘
طارق اور فضیلہ بیٹے کی معصومیت پر مسکرا دِیے۔ ’’ہاں بیٹا! ہم خوش اور بہت خوش ہیں۔ ہماری تنہائیاں دور ہو جائیں گی، گھر میں رونق ہو جائے گی، بڑا مزا آئے گا۔‘‘ طارق بچوں کی طرح خوش ہو کر بولے۔
’’مَیں نے تو اسلامی ناموں کی کتاب سے نام بھی چننے شروع کر دیے ہیں۔
‘‘ فضیلہ نے اترا کر کہا۔ ’’رحمٰن کیسا رہے گا؟‘‘
’’اچھا ہے، سویٹ ہے، لیکن ہم اُسے Raymond رجسٹر کروائیں گے۔ امی، ابو کے لیے رحمٰن رہے گا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ منزہ خوش ہو کر بولی۔
’’بہت اعلیٰ خیال ہنی! اِس طرح اُسے کوئی مسلم دہشت گرد نہیں سمجھے گا۔‘‘ عمران نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا۔
یوں تو بہو کی ہر طرح سے دیکھ بھال کی جا رہی تھی، مگر پھر بھی نہ جانے کیسے ایک روز غسل خانے میں اُس کا پاؤں پھسل گیا اور اُسے وقت سے پہلے ہی دردیں شروع ہو گئیں۔
سب اُسے لے کر بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے اور فوراً داخل کروا دِیا۔ عمران اندر جا کر بیوی کو لاماز کی ورزشیں کروانے لگا ۔
فضیلہ نے تسبیح پکڑ کر اللہ سے بچے کے صحت مند اور خوبصورت ہونے کی دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ طارق بھی پریشان ہو کر اسپتال کے کاریڈور میں گھومنے لگے اور اَللہ سے یہ مرحلہ بخیریت طے ہونے کی دعا کرنے لگے۔
کئی گھنٹوں کی سخت جدوجہد کے بعد یکایک عمران بھاگا بھاگا باہر دوڑا آیا:
’’امی، ابو! آ جائیں، بچہ یہاں ہے۔‘‘
’’اچھا! کیا ہوا ہے؟ طارق نے بےچینی سے پوچھا۔
’’تم نے دیکھا اُسے؟‘‘ فضیلہ نے بےتابی سے پوچھا۔
’’نرس نے بس یہ بتایا ہے کہ لڑکی ہے ….. بہت پیاری ہے ….. چلیں چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘
عمران کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔
’’اوہو، تو اب رحمٰن نام بدلنا ہو گا ….. کیا رکھوں گی؟‘‘
فضیلہ نے جلدی جلدی سوچا ’’چلو رحمٰن نہ سہی، ریما ہی سہی۔ ٹھیک عمران!‘‘
’’آپ کی جو مرضی، امی! ….. یہ آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔‘‘ عمران بولا۔
ذہن میں بہت ساری سوچیں جنم لینے لگیں۔ کاش لڑکی کا نام بھی پہلے ہی سوچ لیا ہوتا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ تینوں بےچینی سے منزہ کے پاس چلے آئے۔
فضیلہ نے بہو کے ماتھے پر بوسہ دے کر بسم اللہ پڑھی اور چھوٹی پلنگیا میں لیٹی بچی کو پیار سے اٹھا لیا۔
’’ریما جانی! آنکھیں کھول دو …..‘‘
عمران، فضیلہ اور طارق نے سوئی ہوئی ننھی پری کو دیکھا اور اُس پر سے کپڑا ہٹا دیا۔
’’میرے اللہ! اِس قدر خوبصورت بچی!‘‘
سب حیران ہو کر وَہیں جمے کے جمے رہ گئے۔ لچھےدار سنہرے بالوں، گوری گلابی رنگت اور نیلی سمندر آنکھوں والی حسین باربی گڑیا گود میں آتے ہی بھوک کے مارے اُوں اُوں کرنے لگی۔
فضیلہ کو تو جیسے کرنٹ سا لگ گیا۔ اُس نے بچی کو ماں کے پہلو میں لٹا کر نفرت سے یوں منہ پھیر لیا جیسے اُس نے اِس سے پہلے کبھی اتنی بدصورت بچی نہ دیکھی ہو۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles