افسانہ
کہانیاں
نیلم احمد بشیر
لوگ پوچھتے ہیں آپ کو کہانیاں کہاں سے ملتی ہیں؟ اُنھیں کیا بتاؤں کہ مجھے تو کہانیاں ہر جگہ، ہر وقت، ہر صورت ملتی رہتی ہیں۔ بلاکوشش اور بلامحنت کے۔ کبھی گری پڑی، کبھی ٹکڑوں میں بکھری ہوئی اور کبھی فضا میں تیرتی ہوئی۔ مجھے اُنھیں ڈھونڈنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ وہ لاتعداد کبوتریوں کی طرح میرے آس پاس اڑتی، پھڑپھڑاتی اور گھمن گھیریاں کھاتی رہتی ہیں۔ مَیں دانہ ڈالتی ہوں، تو وہ چگنے کے لیے ہتھیلی پہ آ بیٹھتی ہیں اور یہیں سے میرا اَور اُن کا دوستانہ شروع ہو جاتا ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ایک بڑھتی ہوئی عمر کے حساب سے اپنی صحت کا خیال کرنے والی کہانی شام کو سڑک پہ سیر کرتی چلی جا رہی تھی کہ یک دم پورے علاقے کی بجلی چلی گئی۔
’’اوہو اِتنا اندھیرا ہو گیا ہے۔ سڑک پہ چلنے والے اوباش مرد خواہ مخواہ میرے گرد ہو جائیں گے، یہ سوچے بنا کہ مَیں بزرگی کی حدوں کو چھو رہی ہوں۔ اکثر کی نانیاں دادیاں بھی اب تو میرے برابر کی ہوں گی۔‘‘
کہانی نے ناگواری سے سوچا اور تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چلنے لگی۔ اچانک اُس کی نظر کونے میں لگے بینچ پر بیٹھی ایک تنہا کہانی پر پڑی۔ کٹے بالوں اور نسبتاً ماڈرن کپڑے پہنے، وہ کہانی زاروقطار رَوئے چلی جا رہی تھی۔ بوڑھی کہانی سے اگلا قدم اٹھایا نہ گیا اور وُہ وَہیں بینچ پر اُس کے پاس بیٹھ گئی۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اُس نے اُس سے پیار سے سوال کیا:
’’کیا بات ہے بیٹا! کیوں رو رَہی ہو؟ کیا مَیں تمہاری کوئی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ ہمدردی کے دو بول سن کر نوجوان کہانی نے زور زور سے رونا شروع کر دیا اور دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسوؤں کی آبشار رَوکنے کی کوشش کرنے لگی۔ بڑی کہانی خاموش ہو کر کتنی ہی دیر اُس کی کمر سہلاتی رہی۔ اُس کے جواب کا انتظار کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد چھوٹی کہانی بولنے لگی:
’’مجھے میرے شوہر نے مار کر گھر سے نکال دیا ہے۔ وہ پہلے بھی ایسا کئی بار کر چکا ہے۔ مَیں اِس لیے پریشان ہوں کہ اب کیا کروں۔‘‘
’’مگر یہاں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘ بڑی نے اُس کے ماتھے پہ آئے ہوئے بال ہٹاتے ہوئے پوچھا۔ ’’رہتی کہاں ہو؟‘‘
’’ڈیفنس سے آئی ہوں۔ وہیں میرا گھر ہے اور اَب امی ابو کے گھر شادمان جانا ہے۔ بس تھک کر یہاں بیٹھ گئی تھی۔‘‘
’’کیا مطلب؟ تم ڈیفنس سے یہاں تک ؟‘‘
’’جی! پیدل آئی ہوں۔‘‘ اُس نے ہچکیوں کے درمیان کہا اور سر جھکا لیا۔ بڑی سوچنے لگی، کتنی پاگل ہے۔ اتنا فاصلہ پیدل چل کے طے کیا ہے اِس نے۔ شاید کبھی کبھی انسان پہ ایسا وقت آ جاتا ہے کہ دوری اور فاصلوں کی صعوبتیں بےمعنی ہو جاتی ہیں اور ہر مشکل چیز بھی آسان لگنے لگتی ہے، شاید۔‘‘
’’آنٹی بتائیں آخر مَیں نے کیا گناہ کیا ہے جو اَللہ تعالیٰ مجھےیہ سزا دے رہے ہیں؟‘‘
چھوٹی بولتی چلی گئی۔ ’’تین سال ہونے کو آئے میری شادی کو، ایک دن بھی سُکھ نصیب نہیں ہوا۔ اُس نے مجھ سے دھوکے سے شادی کی۔ اُس کے پہلے بیوی بچے موجود تھے، مگر اُس نے میرے گھر والوں سے یہ بات چھپائی اور اَب پہلی بیوی کے کہنے پہ مجھے رکھنا نہیں چاہتا، بار بار گھر سے نکال دیتا ہے۔‘‘
’’اور تمہارے والدین؟‘‘ بڑی نے پوچھا۔
’’اُن کا کیا ہے، وہ تو خود بھائی بھابی کے در پہ پڑے ہیں۔ مَیں اُن کے گھر جاتی ہوں، تو دو تین دن بعد رکشے میں سوار کروا کر روانہ کر دیتے ہیں۔‘‘ وہ پھر ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔
’’ٓاچھا سنو، میری طرف دیکھو۔ تمہیں شاید یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میرے میاں نے بھی پندرہ سال پہلے مجھے گھر سے نکال دیا تھا، ایک نئی عورت کے چکر میں۔‘‘
بڑی نے چھوٹی کو اَپنی کہانی سنائی، تو وہ حیرت زدہ ہو کر اُسے ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔ بڑی عمر کی کہانی بھی کیا اِس کی طرح امتحانوں سے گزر چکی تھی؟
’’تو پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘
’’کرنا کیا تھا۔ مَیں نے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا سیکھا، ملازمت کی، بچے پالے۔ مَیں جانتی ہوں یہ سب کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے، مگر ایک بات تمہیں بتاؤں، دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ بس انسان کو مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ چھوٹی نے بوڑھی ہوتی، اِسی راہ سے گزری ہوئی کہانی کی طرف دیکھا اور پھر سسکنے لگی۔
’’Why me? آخر میرے ہی ساتھ یہ سب کیوں؟‘‘
’’ارے بیٹا! یہ نہیں ہوتا۔ زندگی میں جو ہونا ہوتا ہے، بس ہو جاتا ہے۔ اچھا چلو آؤ، مَیں تمہیں اپنی ایک دوست کے گھر سے پانی پلواؤں، تم یقیناً پیاسی ہو گی، اتنا چل کر جو آئی ہو۔ یہ بالکل ساتھ ہی اُس کا گھر ہے۔‘‘ بڑی کو اَپنی فرنیچر ڈیزائنر دوست کہانی کا خیال آ گیا جس کا گھر وہاں سے قریب ہی تھا۔ جوان کہانی روبوٹ کی مانند بڑی کی انگلی تھامے اٹھی اور اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ چند ہی لمحوں میں وہ ایک مکان کے آگے کھڑی تھیں۔
دوست کہانی نے ’’آؤ آؤ خوش آمدید!‘‘ کہہ کر دونوں کو اندر بلا لیا اور رَوتی ہوئی آنکھوں والی کو اِستفہامیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ بڑی نے مختصراً اُس کی رام کہانی سنائی اور دوست سے پوچھنے لگی ’’ہم لوگ اِس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ کچھ تو کرنا ہو گا۔‘‘
پینتیس، چالیس برس کی فرنیچر ڈیزائنر کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ اُس کے چہرے پر حیرت اور دُکھ کا کوئی بھی تاثر نہ تھا۔ ’’رشیدہ! شربت لا کر دو باجیوں کو۔‘‘
اُس کے آواز دینے پر ایک ملازمہ اندر آئی جس نے ٹھنڈے ٹھنڈے صندل کے شربت بھرے دو گلاس سامنے رکھ دیے اور حیرت و اِستعجاب سے اُنھیں دیکھنے لگی۔ مہمان پیاسی تھیں، غٹاغٹ پی گئیں اور گلاس خالی ہو گئے۔ شربت پھر منگوایا گیا۔
فرنیچر ڈیزائنر کہانی نے بڑی کہانی کو اَپنے نئے ڈیزائن کیے ہوئے فرنیچر پیس دکھانے شروع کر دیے اور خوش گپیوں میں مصروف ہو گئی۔ بڑی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا کہ اِس خاموش بت کا کیا کرنا ہے؟ اب اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اِن دونوں ہی کی ذمےداری بن گئی ہے۔
’’دیکھو، گھبراؤ نہیں اور اَپنے آپ کو سنبھالو۔ تم سیدھی اپنے والدین کے پاس جاؤ اور اُنھیں کہو کہ تمہیں سہارا دَیں، کیونکہ بالآخر تم اُن ہی کی ذمےداری ہو۔ اِس کے علاوہ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
دوست نے بڑی حقیقت پسندانہ انداز میں بات کی اور بڑی سے اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگی۔ خاموش بت شربت پیتا رہا، سنتا رہا۔
’’باجی! لیکن میرے والدین مجھے نہیں رکھیں گے۔ پھر اُسی کے پاس بھیج دیں گے۔‘‘ یک دم بت جی اُٹھا۔
’دیکھو! یہ کوئی انوکھی بات نہیں، گھر گھر کی کہانی ہے۔‘‘ دوست نے خشک لہجے میں کہا۔ ’’کیوں رشیدہ؟‘‘ اُس نے اپنی ملازمہ کہانی کو مخاطب کیا۔
’’ہاں جی، بی بی جی!‘‘
’’رشیدہ! بتا تُو یہاں کیوں کام کرتی ہے؟ گھر میں کیوں نہیں بیٹھتی آرام سے؟‘‘ دوست نے اپنی نوکرانی سے سوال کیا۔
’’باجی! آپ کو تو پتہ ہے، وہ کھسما نُوں کھانا نشہ کر کے مجھے پِیٹتا ہے اور خرچہ بھی نہیں دیتا۔ بس جی ہمارے تو نصیب ہی خراب ہیں۔‘‘ رشیدہ نے اپنے جیون ساتھی کو مغلظات سے نوازنا شروع کر دیا۔ ’’میرا تو جی چاہتا ہے اپنے آپ کو آگ لگا لوں، مگرپھر بچوں کا خیال آ جاتا ہے۔ بس جی محنت کر کے اُن کا پیٹ پالتی ہوں ….. کیا کروں، کام نہ کروں تو کھائیں گے کیسے؟‘‘ رشیدہ نے اپنی رام کہانی سنانا شروع کر دی۔
فرنیچر والی کی ننھی چھ برس کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی اور ماں کا پلّو کھینچنے لگی۔
’’امی! رشیدہ سے کہیں مجھے آئس کریم دے۔‘‘ اُس نے ضد کرنا شروع کر دی۔
’’جا رشیدہ! فریزر میں سے اِسے آئس کریم نکال دے، جاؤ بیٹا۔‘‘
ننھی کہانی اچھلتی کودتی رشیدہ کے ساتھ باورچی خانے کی طرف چل دی۔
’’اِسے دارالامان میں نہ بھجوا دیں؟‘‘ بڑی کہانی ابھی تک نوجوان کہانی کی مدد کرنے پہ تُلی ہوئی تھی۔
’’نہیں! مَیں نے سنا ہے وہاں سے لڑکیاں غائب کر دی جاتی ہیں۔‘‘ مصیبت زدہ کہانی خوف زدہ ہو کر بولی۔
’’بھئی نہیں یہ سب بکواس ہے۔ آخر عورتوں کی مدد کا ادارہ ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ بڑی کو مشکل سے ہی کبھی کسی پہ شک ہوتا تھا۔ وہ ہر ایک شخص اور ہر بات پر بڑی جلدی اعتماد کر لیتی تھی۔
’’آپی جی! یہ ملازم طبقے میں تو ایسی باتیں ہوتی ہی ہیں مگر …..‘‘ مصیبت کی ماری جوان کہانی نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ اب اُس نے رونا بند کر دیا تھا۔
’’منی! اِدھر آؤ۔‘‘ فرنیچر والی کہانی نے اپنی ننھی بٹیا کو آواز دِی۔ وہ آئس کریم کو زبان سے چاٹ چاٹ کر گرنے سے بچاتی ہوئی ماں کے پاس آ کر صوفے پہ بیٹھ گئی۔
’’جی مما!‘‘
’’بیٹا! اِن آنٹی کو بتاؤ، تمہارے بابا مجھے کیسے مارتے ہیں؟‘‘ فرنیچر ڈیزائنر نے بٹیا سے سوال کیا۔ بڑی اور چھوٹی کہانی چونکیں اور خوبصورت انٹیریئرز والے گھر کی مال دار مالکہ کی طرف حیرت سے دیکھنے لگیں۔
’’بابا آپ کو ڈنڈے سے مارتے ہیں۔‘‘ ننھی کہانی نے آئس کریم چاٹتے ہوئے جواب دیا۔
’’اور اُس روز باورچی خانے میں کیسے مارا تھا؟‘‘ ماں نے پھر سوال کیا اور بیٹی کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
’’اُس روز اُنھوں نے بال نوچے تھے آپ کے، دھکا دیا تھا اور پھر گرایا بھی تھا۔‘‘ ننھی کہانی آرام سے بولتی اور آئس کریم چاٹتی گئی۔
’’ہائے مگر کیوں؟ تم تو خیر سے اچھی طرح گھر میں آباد ہو۔‘‘ بڑی نے حیرت سے سوال کیا۔ ’’کماتی بھی ہو۔ مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’شہزادہ ہے میرا میاں شہزادہ۔ پالتی ہوں نہ اُسے۔ دراصل اُسے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا بہت شوق ہے۔ بس اِسی لیے ہماری لڑائی ہو جاتی ہے۔‘‘ نیویارک سکول آف فیشن کی پڑھی ہوئی انٹیرئیر ڈیزائنر نے بڑے تحمل سے بتایا اور پھر خود قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔
’’اب آپ جائیں، رکشہ لیں، اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘ اُس نے دکھیاری کہانی کو مسکرا کر کہا جس کے آنسو خشک ہو کرگالوں پہ جم چکے تھے۔
’’مَیں بھی چلوں، کافی دیر سے گھر سے نکلی ہوئی ہوں۔ بیٹی سوچ رہی ہو گی ماں کہاں رہ گئی۔ اور اَب تو بجلی بھی آ گئی ہے۔‘‘ سب سے سینئر کہانی نے اٹھنے کا قصد کیا۔
’’آپ بھی بس ….. ایسے ہی کسی کے آنسوؤں سے گھبرا جایا کرتی ہیں ….. آپ، ہم، سب، یہ، وہ ….. کہانیاں ہیں اور کہانیاں تو چلتی ہی رہتی ہیں۔‘‘ فرنیچر ڈیزائنر کہانی نے اپنے سے کئی برس بڑی کہانی کو پیار سے لپٹا کر سرزنش کی اور مسکرانے لگی۔
’’مگر مما! مَیں آپ کو ابھی سے بتا دیتی ہوں جب میرا شوہر مجھے مارے گا نا، تو مَیں اُس کا ہاتھ پکڑ لوں گی۔ مارنے نہیں دوں گی۔ مار سے تو بہت درد ہوتا ہے نا۔‘‘ ننھی منی کہانی نے اک نیا موڑ لینے کے ارادے کا اظہار کر کے سب کو چونکا دیا۔ کمرے میں موجود ہر کہانی کی آنکھ میں یک دم امید کے سینکڑوں دیے جھلملانے لگے۔