21 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

پہلے تولو، پھر بولو

احساس کے انداز

پہلے تولو، پھر بولو

تحریر :۔ جاوید ایاز خان

سلطنت مغلیہ میں سب سے کامیاب ترین بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کو شمارکیا جاتا ہے۔
بہت کم عمری اور نامساعدحالات میں اقتدار سنبھالنے والے اس ان پڑھ بادشاہ کی ذہانت ،بہادری ،دلیری ،مردم شناسی، خداداد انتظامی صلاحیت ، عدل و انصاف اور دُور اندیشی کو دوست دشمن سب تسلیم کرتے تھے۔
اس نے مغلیہ سلطنت کو وسیع کر کے تقریبا” پورے ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کی۔
ایک بادشاہ اور آمر ہونے کے باوجود اس نے لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت کا جذبہ پیدا کیا ۔مسلمان ،ہندو ،عیسائی سب اس کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے تھے ۔
امیر وغریب اس سے خوش تھے۔ اس کی بے شمار وجوہ میں اس کا عدل اور عام آدمی کے حقوق کا احترام شامل ہیں۔
اس کے  لاڈلے ،اکلوتے اور بڑی منت مراد کے بعد پیدا ہونے والے ولی عہد اور مغل شہزادے  جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔
یہ بات اکبر بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے جواب طلبی کے لیے  شہزادے کو طلب کر لیا۔ اُس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا تو اکبر نے کہا :
“شیخو”، کمہار اور بادشاہ کی زبان میں  فرق ہونا چاہیے!
شہزادے نے جواب دیا:
“ابا حضور میری زبان پھسل گئی تھی۔ ”
بادشاہ نے کہا:
بیٹا جو دو تولے کی زبان قابو نہیں رکھ سکتا وہ  لاکھوں کوس وسیع سلطنت کیسے قابو میں رکھے گا؟
پھر یہ تاریخی جملہ کہا:
” بادشاہت زبان سے شروع ہوتی اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ زبان کو لگام دینا سیکھو۔ سلطنت خود بخود لگام میں آجائے گی۔”
یہ اتنی بڑی حقیقت اس نے چند لفظوں میں بیان کر دی ۔
یقیناً زبان انسان کو عزت اور زبان ہی انسان کو ذلت سے دوچار کرتی ہے۔
کہتے ہیں سقراط کے پاس ایک بہت  پروقار شخص  ملنے آیا جو دیکھنے میں بڑا عالم فاضل لگتا تھا۔ سقراط نے کہا  صاحب! کچھ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت کا اندازہ ہو سکے ۔کیونکہ بولنے سے انسان کی سوچ  اور ذہن کا پتا چلتا ہے۔زبان میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن اس کی کاٹ دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہے۔
یہ عرش پر  بھی پہنچا سکتی اور فرش پر بھی گرا سکتی ہے۔ زبان کی ایک لغزش ہمارے لیے عمر بھر کا روگ بن سکتی ہے ۔

پاکستان میں  جمہوریت کے نام پر دن بدن بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائیزیشن رفتہ رفتہ عام آدمی اور اس کے گھر تک آن پہنچی ہے۔ ہمارے نجی تعلقات اس سے شدید متاثر ہونے لگے ہیں۔
ہماری سیاسی تفریق اور تلخیاں ہماری زندگی میں زہر گھول رہی ہیں۔ آپس میں گفتگو کا گرتا ہوا معیار ہماری نئی نسل کو ایک نئی راہ پر لے جا رہا ہے۔
بنیادی طور پر تو یہ سب ملک وقوم کے مفاد میں کر رہے لیکن زبان کا تلخ اور کڑوا لہجہ روز بروز ہماری نفرتوں اور غصہ میں  اضافہ کر رہا ہے۔
پارلیمنٹ ہو ،سیاسی پریس کانفرنس یا ٹاک شوز، سیاستدانوں اور عام لوگوں کے الفاظ ان کے قابو سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر دھینگا مشتی ،ہاتھا پائی ،بد زبانی ،گالی گلوچ ،فحش اشارے معمول بن چکے ۔
عدم برادشت کا یہ بڑھتا ہوا رجحان ہماری پوری قوم اور پورے معاشرے کو متاثر کر رہا ہے۔
نفرت انگیز سیاسی نعرے اورفقرے بازی عام لوگوں اور  نوجوانوں سے نکل کر اب بچوں کی زبانوں سے سننے کو مل رہی ہے ۔
کچھ باتیں تو اس قدر شرم ناک ہوتی ہیں کہ بچوں کو وضاحت دینا  مشکل ہو جاتا ہے ۔ آپس میں گفتگو کا معیار اس قدر گر چکا کہ باہمی احترام وعزت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
بس نفرت ہی نفرت غصہ ہی غصہ۔
ذاتیات ہی ذاتیات نظر آتی ہے۔  جھوٹ  بولنا ، پھیلانا،  ایک دوسرے پر جھوٹے اور بے بنیاد الزام لگانا ،بے ہودہ اشارے ،نام بگاڑنا اور نقل اتارنا معمول بن چکا۔
یہ سب  پڑھے لکھے اور باشعور لوگ کر رہے ہیں ۔ سیاست تو بنیادی طور پر انسانوں کو قریب لانے اور ان کے  روزمرہ کے مسائل کا حل تلاش کرنے کا نام ہے، لیکن لوگوں کے درمیان بڑھتی نفرتیں اور دوریاں ان کے ذہن و دل میں جمہوریت کا ایک نیا روپ سامنے لا رہی ہیں ۔
اگر اسی کا نام جمہوریت ہے تو اب لوگوں کو شاید وہ پرانی بادشاہت اور  آمریت اچھی لگنے لگی ہے۔
ہر گھر میں کوئی یوتھیا ،کوئی جیالا، اور کوئی پٹواری کہلاتا ہے، جبکہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ اسی دھرتی کے سپوت ہیں۔
اس دھرتی کی بنیادوں میں ہمارے اجداد کا خون ہے۔ یہ دھرتی بے شمار ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔
میں پچھلے ساٹھ سال سے ان سیاستدانوں کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ ایک دوسرے کے بارے ناقابل برداشت الفاظ استعمال کرتے ،الزامات لگاتے، ایک دوسرے کو چور، کرپٹ ،منافق ،جھوٹا ،ملک دشمن اور غدار تک کہہ دیتے ہیں مگر اپنے مفادات کی خاطر وقت پڑنے پر  سب کچھ بھلا کر بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔
لوگوں کو بےوقوف بنا کر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتے ہیں۔ خود ایک ہو جاتے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پہلے ایک دوسرے کو کیا کہتے رہے ہیں؟
اقتدار کے لیے بار بار لڑتے اور پھر  ایک ہو جاتے ہیں ۔ ہم ان کی با توں سے متاثر ہو کر ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔
یہ سیاسی لڑائیاں پشت در پشت  سے چلی آ رہی ہیں۔ بے شمار لوگ ان سیاسی دشمنیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔کیا یہی سیاست ہے ؟کیا یہی جمہوریت کا وہ  حسن ہے جو تقریروں میں بیان کیا جاتا ہے ۔عجیب لوگ ہیں اپنے سرماے ملک سے باہر رکھتے ہی اور دنیا کو سرما یہ کاری کی دعوت دیتے ہیں ۔ خود بد تمیزی کرتے ہیں اور دوسروں کو بد تمیز کہتے ہیں ۔ان کی زبانیں ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں ۔اکبر بادشاہ نے ٹھیک کہا تھا جو دو تولے کی  زبان نہیں سنبھال سکتے وہ  یہ ملک کیا سنبھالیں گے ؟  کیونکہ  آپکی زبان  ہی آپکی  سوچ ،ذہن اور تربیت کی نشاندہی کرتی ہے۔یاد رکھیں غصے اور نفرت کی حالت میں زبان پر سے کنٹرول ختم ہو جاتا ہے ۔

ہم ایک دوسرے کے لیے ایک خاندان کی مانند ہیں جو خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے سانجھی ہیں۔ ہم اپنی راےُ اور سیاسی وابستگی رکھ سکتے ہیں مگر ان کی وجہ سے اپنے آپس کے خوبصورت تعلقات برباد نہ کریں ۔
ذہن میں رکھیں یہ ہم ہیں جنہوں نے پاکستان بنانا ہے !
یاد رکھیں تلوار کا زخم بھر سکتا ہے زبان کا نہیں !  اس لیے بول چال اور بات چیت میں احتیاط برتیں۔ کہیں ہمارا کوئی  سخت لفظ کسی کے دل میں دراڑ نہ ڈال دے۔
اس کے  لیے زندگی بھر کا بوجھ نہ بن جائے؟ سیاست دانوں کی مت سنیں، انہیں لڑنے دیں۔ یہ اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان اور اپنی قوم کا  حق ادا کرنا ہے ۔
ترقی کے سفر زبان سے شروع ہو کر زبان پر ہی ختم ہوتے ہیں؟  ہمارے اختلافات نظریات سے ہونے چاہیئں، شخصیات سے نہیں۔
ان کی وضاحت دلیل سے کریں ،تذلیل سے سے نہیں!
تنقید اور نفرت میں فرق محسوس کریں۔ برداشت کرنا اور دوسرے کی بات کو سننا اور سمجھنا شروع کریں تاکہ آپ کی بات سنی  اور سمجھی جائے ۔
اختلاف چاہے سیاسی ہو یا نظریاتی، اسے دشمنی بنا کر مرنے مارنے اور تلخ الفاظ کا استعمال کرنے کا طریقہ معاشرے کے لیےایک مہلک زہر قاتل ہے ۔
اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو فرعون کے مقابلے میں بھی نرم بات کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔حدیث مبارکہ ہے کہ مومن وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوط ہوں” ۔
ایک اور حدیث میں فرمایا ” جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ “ؔ
اس لیے کہتے ہیں پہلے تولو ۔۔۔پھر بولو :
ہمیشہ گفتگو کے دوران تدبر وتفکر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ زبان کی ذدراسی بے اعتدالی انسان کو دنیا و آخرت کے االام و مصائب سے دوچار کر سکتی ہے ۔

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles