20 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 42

 

( 42 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

ماڈل ٹاؤن کے تلّہ فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ جس کے سامنے پیپل کا ایک شجر تھا۔ اُس فلیٹ کے ایک کمرے میں رمشا عروسی لباس پہنے ہوئے سرفراز کے روبرو بیٹھی تھی۔ رمشا کا ہاتھ سرفراز کے ہاتھوں میں تھا۔
یقین نہیں آ رہا کہ میں نے چاند کو پا لیا۔ سرفراز کی بات پوری ہوتے ہی رمشا بول پڑی
سچ کہوں تو چاند تُم ہو۔۔۔ جسے میری کلاس کی ہر دُوسری لڑکی پانا چاہتی تھی، مگر۔۔۔
رمشا بات کرتے کرتے رُک گئی۔
مگر کیا۔۔۔؟ سرفراز نے پوچھا۔ رمشا نے اپنا دُوسرا ہاتھ سرفراز کے گال پر رکھتے ہوئے بتایا
وہ ٹائم پاس کے لیے پانا چاہتی تھیں اور میں۔۔  رمشا کی سامنے الماری میں پڑے ہوئے ٹائم پیس پر نظر پڑی تو وہ بات کرتے کرتے رُک گئی۔ سرفراز نے اُس کے بولنے کا انتظار کیا۔۔۔ جب وہ نہ بولی تو اُس نے رمشا کے رخسار کو بڑے پیار سے اپنی طرف موڑتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا
ٹائم پاس۔۔۔؟ سرفراز کے سوالیہ لہجے کو رمشاسمجھ گئی تھی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے بتانے لگی
ٹائم پاس مطلب چند ہفتوں کی موج مستی۔۔۔ پھر اپنے اپنے رستے۔
رمشا نے لمحہ بھر نظریں جھکائیں، پھر سرفراز کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے خلوص سے کہنے لگی
’’میں۔۔۔ میں تو ہر رستے پر تمھاری ہمسفر رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر وہ دونوں ایک دُوسرے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے رہے، پھر سرفراز  نے شرارتی لہجے میں کہا
’’آج کل کی لڑکیاں بھی کافی بے حیا ہو گئی ہیں۔۔۔ نا؟ ‘‘
رمشا نے یہ سنتے ہی پیار سے ایک چپت سرفراز کے سینے پر ماری، پھر کہنے لگی
بے حیا نہیں۔۔۔ وہ بھی لڑکوں کی طرح پریکٹیکل ہو گئی ہیں۔۔۔ ٹائم پاس کے لیے کوئی بھی اور شادی کے لیے ہر اینگل سے پرفیکٹ لائف پاٹنر چاہیے انھیں بھی۔۔۔‘‘
میں کوئی بھی ہوں کیا۔۔۔؟ سرفراز  نے سنجیدگی سے پوچھا۔ رمشا نے اُس کے دونوں ہاتھ تھام لیے، پھر بڑی شدت سے کہنے لگی
’’نہیں۔۔۔ تُم خاص ہو۔۔۔ بہت خاص‘‘
سرفراز نے یہ سنتے ہی رمشا کو گلے لگا لیا۔ سرفراز نے بڑے پیار سے رمشا کو بیڈ پر لٹایا، پھر اُسے چہرے سے چومنے لگا۔ وہ چومتے چومتے گردن پر پہنچا تو سونے کے گہنوں  نے اُس کے ارادوں کی تکمیل میں مزاحمت کی۔ وہ آہستہ آہستہ رمشا کے ڈھیر سارے گہنے اُتارنے لگا۔ گہنوں کے بعد عروسی لباس کی باری تھی۔ جیسے ہی سرفراز نے چولی کو ہاتھ ڈالا، رمشا نے نشیلی آواز میں کہا
’’لائٹ بند کر دو۔۔۔‘‘
سرفراز نے بیڈسوئچ آف کر دیا۔ کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔
٭
کمرے کی لائٹ آن ہو چکی تھی۔ دونوں کے شادی والے جوڑے ایک کرسی پر بکھرے پڑے تھے۔ وہ گرم سوتی کپڑے پہنے ہوئے ایک دُوسرے کی طرف منہ کر کے رضائی کے اندر لیٹے ہوئے تھے۔ رمشا نے سرفراز کے بازو کو تکیہ بنایا ہوا تھا۔
اب کیا کریں گی آپ؟ سرفراز  نے رمشا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اگلے دو دن تمھارے ساتھ گزاروں گی، تیسرے دن چراغ والی جا کے بابا سائیں کو سب کچھ سچ سچ بتا دوں گی۔
’’پھر۔۔۔؟‘‘
پھر تھوڑا ڈانٹیں گے۔۔۔ غصہ کریں گے۔۔۔ اُس کے بعد مان جائیں گے۔  رمشا نے بڑے یقین سے بتایا۔
اگر اتنا آسان تھا تو ہمیں ایسے نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا۔  سرفراز نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔ منشا یہ کبھی نہ ہونے دیتی۔۔۔ وہ بابا سائیں کو وَسوَسوں میں ڈال دیتی، پھر مجھے چراغ والی واپس بلا لیا جاتا اور کسی بڑے گھر میں میری زبردستی شادی کر دی جاتی۔۔۔ میں تمھیں کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ کالج، یونیورسٹی میں جو بھی ملا اُس کی صرف میری دولت پر نظر تھی، پہلی بار مجھے کسی کی آنکھوں میں اپنے لیے چاہت دکھائی دی۔
سرفراز  نے رمشا کے خاموش ہوتے ہی اُسے نظر بھر کے دیکھا، پھر کمر کے بل سیدھا لیٹ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ رمشا اُس کی چھاتی پر دراز ہوتے ہوئے اُس کی نیلی آنکھوں کو چومنے لگی۔ سرفراز  نے بند آنکھوں کے ساتھ ہی بتایا
’’میں نے شرقپور سے آپ کے لیے بڑی خاص سوغات منگوائی ہے۔‘‘
کیا۔۔۔؟ رمشا نے مست آواز میں پوچھا۔
گلاب جامن۔۔۔  سرفراز نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’کیا۔۔۔ تمھیں کیسے پتا مجھے گلاب جامن پسند ہیں؟
رمشا نے مچلتے لہجے میں سوال کیا اور اُٹھ کے بیٹھ گئی۔ سرفرازبھی بیڈ سے اُٹھ کر ایک الماری کھول کر اُس میں سے مٹی کا کُجّا اُٹھا لایا۔
سرفراز نے اُس کُجّے کے اُوپر لپٹے ململ کے کپڑے کو کھولا تو اُس کے اندر چھوٹے چھوٹے لمبے گول تازہ گلاب جامن تھے۔ انھیں دیکھتے ہی منشا کے منہ میں پانی آ گیا۔ منشا نے گلاب جامنوں کو دیکھنے کے بعد اپنے سامنے کھڑے ہوئے سرفراز کو اُلفت سے لبریز نظروں کے ساتھ دیکھا۔ سرفراز  نے کُجّے سے ایک گلاب جامن نکال کے اُسے کھلایا۔ ابھی وہ گلاب جامن منشا کے منہ میں ہی تھا سرفراز نے دُوسرا بھی اُس کے منہ میں ڈال دیا۔
یہ والے گلاب جامن جتنے مرضی کھا لو، بھاری نہیں لگتے۔  منشا نے بیڈ سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
سرفراز نے گلاب جامن والا کُجّا دُوسری کرسی پر رکھ دیا اور منشا کو بانہوں میں لے کر ہولے ہولے جھومنے لگا۔ منشا بھی سرفراز کو پا کر اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔
سرفراز نے جھومتے جھومتے ہی کمرے کی بتی گُل کر دی۔
تقریباً پچیس منٹ بعد بتی جلی تو رمشا برہنہ حالت میں بیڈ پر بے ہوش پڑی تھی۔ سرفراز  نے شلوار پہنی اور الماری سے ایک کیمرا نکال لایا۔ وہ بے ہوش ننگی پڑی رمشا کی تصویریں بنانے لگا۔ اُس نے لمحوں میں ہی یہ کام ختم کیا اور کیمرا الماری میں واپس رکھ دیا، پھر اُس نے بڑی احتیاط سے رمشا پر رضائی دی اور بتی بند کر کے خود بھی اُس کے ساتھ رضائی میں گھس گیا۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles