( 43 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
اگلے دو دن چند گھنٹوں کے علاوہ رمشا اور سرفراز نے ساتھ گزارے۔ تیسرے دن رمشا اپنے ڈرائیور اور ایک باڈی گارڈ کے ساتھ چراغ والی پہنچ گئی۔ اُس کی کار اُس کے پُرکھوں کی چھوٹی سرخ اینٹوں والی حویلی کے اندر داخل ہوئی۔ وہ حویلی کسی قلعے سے کم نہ تھی۔ کار کے رُکتے ہی دو عورتوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر رمشا کی کار کا دروازہ کھول دیا۔ اُن دونوں نے یک زبان ہو کر کہا
’’سلام بی بی سرکار۔۔۔ ‘‘
وعلیکم السلام! رمشا نے چنچل لہجے میں جواب دیا اور بلاج مزاری سے ملنے کے لیے اُ س کے کمرے کی طرف چل دی۔ بلاج مزاری اُسے رہائشی عمارت کے مرکزی دروازے پر ہی مل گیا۔ رمشا اپنے باپ کو دیکھتے ہی لپک کر اُس کے گلے لگتے ہوئے بولی
’’بابا سائیں۔۔۔ !‘‘
میری پُتری۔۔۔! ‘‘ بلاج مزاری نے خود سے لپٹی رمشا کا سر چوما، پھر اُس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھنے والے کمرے کی طرف چل دیا۔
’’اِسی لیے میں نے تمھیں ولایت نہیں بھیجا تھا۔ ‘‘
کس لیے؟ رمشا نے چلتے چلتے پوچھا۔
لاہور سے ملنے آتی نہیں۔۔۔ ولایت جا کر تو۔۔۔‘‘ بلاج بات کرتے رُک گیا۔ اُس کے قدم بھی تھم گئے۔وہ دونوں بیٹھنے والے بڑے سے ہال نما کمرے میں پہنچ چکے تھے۔بلاج مزاری نے اپنے دونوں ہاتھوں میں رمشا کا معصوم سا چہرہ لے لیا، پھر بڑی شفقت سے اُسے دیکھنے لگا
آپ نے تو کہا تھا رمشا کو ڈانٹوں گا۔ اُن دونوں کی طرف آتی ہوئی منشا کی آواز اُن تک پہلے ہی پہنچ گئی۔
مگر آپ تو اِسے ایسے ہی دیکھے جا رہے ہیں۔
منشا نے رمشا کے برابر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ بلاج مزاری نے اپنے ہاتھ رمشا کے رُخساروں سے ہٹا کے اُن دونوں کے شانوں پر کسی محافظ کی طرح رکھتے ہوئے بھرّائی آواز میں کہا
’’اب تُم دونوں کو ہی دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ تیسرا نظر جو نہیں آتا۔ ‘‘
وہ دونوں یہ سنتے ہی افسردہ ہو گئیں۔ منشا کی افسردگی لمحوں میں ہی خفگی میں بدل گئی۔ وہ شکوے سے بھرے لہجے میں کہنے لگی
’’بابا سائیں۔۔۔! آپ نے اُ س کمینے کو ڈھونڈنے کے لیے قانون کی مدد بھی تو نہیں لی۔‘‘
بلاج مزاری نے رمشا کی بات پر غور کیا، پھر ایک بازو والی بڑی سی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اُن دونوں کو بھی بیٹھنے کی دعوت دی۔جب وہ دونوں بلاج مزاری کے سامنے صوفے پربیٹھ گئیں تو بلاج مزاری نے اپنی کالی سفید مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا
’’اگر ہم ہی قانون کے در پر چلے گئے، پھر ہماری چوکھٹ پر کون آئے گا؟‘‘
یہ سنتے ہی وہ دونوں سوچ میں پڑ گئیں۔ اُن دونوں کی سوچ کا مرکز و محور ایک ہی شخص تھا۔ رمشا اُسے سرفراز کے نام سے جانتی تھی اور منشا اپنے بھائی کے قاتل سونو کے نام سے۔
سائیں۔۔۔! کھانا لگ گیا ہے۔ عقیلہ نے سرائیکی لہجے میں آ کر اطلاع دی۔ بلاج مزاری نے گردن کو خم دیتے ہوئے اُسے وہاں سے جانے کا اشارہ دے دیا۔ منشا نے خفگی سے کہا
اس در کا چراغ بجھانے والا۔۔۔ روشنیوں کے مزے لُوٹ رہا ہو گا۔ ‘‘
بھگوڑے تو اندھیروں میں رہتے ہیںپُتری۔۔۔!‘‘ بلاج مزاری یہ بولتے ہوئے اپنی کرسی سے اُٹھا۔ اُس کے اَدب میں وہ دونوں بھی کھڑی ہو گئیں۔ بلاج مزاری نے رمشا کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ جب وہ پاس آئی تو بلاج مزاری منشا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نصیحت کے انداز میں بولا
’’بزدل زندہ رہ جائے تو کوئی بات نہیں۔۔۔ لوگوں کے دلوں سے اپنی دہشت کو نہ مرنے دینا۔‘‘
منشا اپنے باپ کی نصیحت پر غور کرنے لگی۔ رمشا نصیحت کے بجائے محبت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
چلو۔۔۔ کھانا کھاتے ہیں۔ بلاج مزاری نے کہا۔ وہ سب کھانے والے کمرے کی طرف چل دیے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ میٹھا کھا رہے تھے۔ اُسی وقت عطا وہاں آیا ۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا۔ اُس نے بتایا
’’سرکار۔۔۔! آپ کے نام کی رجسٹری آئی ہے۔‘‘
کس نے سمن بھیج دیا؟ بلاج مزاری نے دلچسپی سے پوچھا۔
سرکار۔۔۔! سمن نہیں لگتا۔ عطا نے بتایا۔
’’اِدھر لاؤ۔۔۔‘‘ بلاج نے کہا۔ عطا نے اُس کے پاس جاتے ہوئے وہ پیکٹ بلاج کو دے دیا، پھر منشا کی طرف منہ کر کے جھکی نظروں کے ساتھ کہنے لگا
’’بی بی سرکار۔۔۔! ہم تیار ہیں۔‘‘
کدھر کی تیاری ہے؟ رمشا نے بڑے مزے سے پوچھا۔
مالٹوں والے باغ کی۔۔۔ منشا نے رمشا کی طرف دیکھتے ہوئے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا۔
بلاج کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر وہ پیکٹ پڑا تھا، مگر اُس کی ساری توجہ اپنی بیٹیوں کی طرف تھی۔ بلاج مزاری نے پاس کھڑے عطا سے کہا
’’تُم جاؤ۔۔۔ ‘‘
عطا حکم ملتے ہی وہاں سے چلا گیا۔ بلاج مزاری نے ملے جُلے جذبات کے ساتھ کہا
’’تمھاری ماں نہیں ہے، اِس لیے مجھے ہی بتانا پڑ رہا ہے۔۔۔ تُم دونوں کے رشتے آئے ہیں۔ ‘‘
یکایک اُن دونوں کی رنگت بدل گئی۔ رمشا کچھ کہنے ہی لگتی ہے کہ منشا اپنی کرسی سے اُٹھتے ہوئے بولی
بابا سائیں۔۔۔! میں نے پہلے بھی بتایا تھا، جب تک میرے بھائی کا قاتل زندہ ہے۔۔۔ میں شادی نہیں کروں گی۔
منشا یہ بولتے ہی وہاں سے پھنکارتی ہوئی چلی گئی۔ بلاج مزاری بڑی بے بسی سے بولنے لگا
اب کہاں سے ڈھونڈوں اُس سُوَر کے بچے کو۔۔۔ آٹھ سال سے میرے بندے اُسے تلاش کر رہے ہیں۔۔۔ اگر زندہ ہوتا تو کب کا مل جاتا۔
رمشا اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی بلاج مزاری کی نظر اُس پر پڑی تو رمشا ہلکی سی گھبراہٹ کے ساتھ پوچھنے لگی
’’بابا سائیں۔۔۔! آپ نے زبان تو نہیں دی نا؟‘‘
نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ پُتری۔۔۔! تُم دونوں سے پوچھنا ضروری تھا۔ بلاج مزاری کی بے بسی اب خوشی کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔ رمشا کو اندازہ ہو گیا تو وہ کرسی سے اُٹھتے ہوئے بولی
’’باباسائیں۔۔۔! مجھے ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔‘‘
بلاج مزاری نے رمشا کے وجود پر تجربے کی آنکھ ڈالی۔ نظریں جھکائے رمشا شش و پنج میں مبتلا تھی۔ بلاج مزاری نے لمحہ بھر سوچا، پھر وہ پیکٹ اُٹھاتے ہوئے کھڑا ہو گیا اور چلتے چلتے کہنے لگا
’’آؤ۔۔۔!!‘‘
بلاج مزاری چلنے لگا۔ رمشا اُس کے پیچھے لپکی۔ حویلی کے تہہ خانے میں ایک کمرے کا تالا کھول کر بلاج مزاری اندر داخل ہو گیا۔ بڑے سے کمرے کی دیواروں پر مزاری خاندان کے بڑوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ جن میں مردوزن دونوں شامل تھے۔رمشا اُس کمرے میں پہلی بار آئی تھی۔
یہ میری پانچ پُشتوں کی تصویریں ہیں ۔ بلاج مزاری نے بتایا۔ اُسے کوئی جواب نہیں ملا تو اُس نے پلٹ کر دیکھا تو رمشا دیوار پر لٹکی اپنی ماں اور بھائی کی تصویروں کے سامنے کھڑی تھی۔ بلاج نے رمشا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بتایا
’’میری بھی ایک بہن تھی۔‘‘
یہ سنتے ہی رمشا چونکی۔ وہ چلتے چلتے بلاج مزاری کے قریب ہوئی اور اُس کی طرف دیکھ کر کہنے لگی
’’بابا سائیں۔۔۔! آپ نے کبھی ذکر نہیں کیا۔‘‘
اُس کا گناہ اُس کے ذکر سے بڑا تھا۔۔۔ اِس لیے اُس کی تصویر کو بھی ہماری حویلی کی دیوار پر جگہ بھی نصیب نہیں ہوئی۔
گناہ؟ رمشا نے کھلے منہ کے ساتھ کہا۔
ہاں۔۔۔ گناہ۔! بلاج مزاری یہ بولتے ہوئے ایک بڑے سے دراز والے میز کی طرف بڑھا۔ اُس نے میز پر رجسٹری والا پیکٹ رکھا اور دراز کھولا۔
دراز کے اندر فریم میں سجی ایک تصویر کے اُوپر ایک خنجر پڑا تھا۔ بلاج نے وہ خنجر اُٹھا کر رجسٹری والے پیکٹ کے ساتھ رکھ دیا اور تصویر نکال کر اُدھر سے اپنا بازو ہوا میں بلند کرتے ہوئے اپنے پیچھے کھڑی رمشا کو دکھاتے ہوئے کہنے لگا
’’یہ میری بہن صباحت کی تصویر ہے۔‘‘
رمشا نے آگے بڑھ کر بلاج کے ہاتھ سے وہ تصویر پکڑ لی اور اُسے دیکھنے لگی۔
صباحت مجھ سے ایک سال بڑی تھی۔۔۔ تُم دونوں سے زیادہ میں اُس سے محبت کرتا تھا۔۔۔
بلاج مزاری بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا تو رمشا نے پوچھ لیا
’’پھر۔۔۔‘‘
بلاج مزاری نے خنجر کی نوک سے رجسٹری والا پیکٹ کاٹتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں بتایا
’’پھر میں نے اِسی خنجر سے اُس کا گلا کاٹ دیا۔‘‘
یہ سنتے ہی رمشا کا رنگ اُڑ گیا۔ اُس کی آواز اُس کے حلق میں ہی اٹک گئی۔ وہ الٹے پاؤں اپنے باپ سے چار قدم پیچھے ہٹ گئی۔
پوچھو گی نہیں کیوں؟ بلاج مزاری نے رجسٹری والے پیکٹ سے تصویر نکالتے ہوئے کہا۔ وہ پلٹ چکا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں لالی کے ساتھ ساتھ جلال بھی تھا۔
کیوں؟ رمشا بڑی مشکل سے بول پائی۔
چھوٹی ذات کے بندے سے عشق کر بیٹھی تھی۔ تیز دھاری لہجے میں بتانے کے بعد بلاج مزاری نے اپنے ہاتھ میں پکڑی تصویروں کی طرف دیکھا۔ وہ ایک کاغذ میں لپٹی تھیں۔ بلاج نے اُن تصویروں سے کاغذ اُتارا تو اندر سے دُوسرے کاغذپر سرخ مارکر سے بڑا سا لکھا تھا
گوری کے بیٹے سونو نے تیرا منہ کالا کر دیا۔
یہ پڑھتے ہی بلاج مزاری جلدی جلدی تصویریں دیکھنے لگا۔ ایک کے بعد دُوسری، پھر تیسری، اُس کے بعد چوتھی تصویر دیکھتے ہی وہ گنتی بھول گیا۔ بلاج مزاری نے غیظ و غضب کے ساتھ رمشا کو دیکھا، پھر اُس کا چہرہ بھیانک ہونے لگا۔
رمشا نے زندگی میں کبھی اپنے باپ کی یہ حالت نہ دیکھی تھی۔ وہ سہم گئی۔ بلاج مزاری لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ اُس کے چہرے سے پسینے کے جھرنے بہنے لگے۔ وہ اپنی سُدھ بدھ کھوتے ہوئے دھڑام سے منہ کے بَل زمین پر جا گرا۔ گرتے ہوئے اُ س کے ہاتھ سے ساری تصویریں زمین پر بکھر گئیں۔
بابا سائیں۔۔۔! رمشا کے قدموں کے پاس منہ کے بل پڑے ہوئے بلاج مزاری کے ناک اور منہ سے خون بہنے لگا۔ رمشا تڑپ اُٹھی۔ وہ زمین پر بیٹھتے ہوئے اپنے باپ کو سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
بابا سائیں۔۔۔! کیا ہو گیا آپ کو؟ رمشا نے گیلی آواز میں پوچھا، پھر اُس کی نظر اپنی ایک ننگی تصویر پر پڑی۔ وہ بیڈ پر بے ہوشی کی حالت میں ننگی لیٹی ہوئی تھی۔
ایسی ہی کوئی ڈیڑھ درجن کے قریب تصویریں زمین پر اردگرد بکھری پڑی تھیں۔ رمشا سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ اپنے باپ کو اُٹھائے یا خود کہیں غرق ہو جائے۔ رمشا کی نظر اُ س کاغذ پر پڑی جس پر لکھا تھا
’’گوری کے بیٹے سونو نے تیرا منہ کالا کر دیا۔‘‘
اُس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے۔ اُ س کے دل سے آواز نکلی
سرفراز مطلب سونو۔۔۔سونو نے اپنی منو کے بجائے بدلے کے لیے بھی مجھے ہی چنا۔
لمحہ بھر سوچنے سے ہی رمشا حقیقت جان گئی۔
اُس کے تن بدن میں غصے کی ایک شدید لہر سرائیت کر گئی۔ وہ جلدی سے اُٹھی اور میز پر پڑا ہوا خنجر اُٹھا کے پوری طاقت کے ساتھ اپنے پیٹ میں گھونپ دیا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞