25 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 41

 

( 41 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

گرے ٹریک سوٹ پہنے ہوئے سرفراز بھاگے چلا جا رہا تھا۔ یکایک رمشا اُس کے سامنے آ گئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سرفراز کو رُکنا پڑا۔ سرفراز نے ہلکی سی پریشانی سے پوچھا
’’جی ۔۔۔ مس۔۔۔۔؟‘‘
رمشا نے پہلے بڑے غور سے سرفراز کے چہرے کا جائزہ لیا، پھر کہنے لگی
’’کون ہو تُم؟‘‘
لمحہ بھر سوچنے کے بعد سرفراز کے چہرے پر پریشانی اُمڈ آئی، پھر اُس نے اپنے اوسان کو قابو میں کیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا
’’یتیم خانے والے تو سرفراز۔۔۔ سرفراز کہتے تھے مجھے۔۔۔ کس کا ہوں۔۔۔ کس سے ہوں۔۔۔ مجھے بھی نہیں پتا۔‘‘
ٹریک سے اُترتے ہوئے موروں کے حسین قیدخانے کی طرف چلتے ہوئے رمشا کہنے لگی
میں نے پہلے کہیں تمھیں دیکھا ہے۔۔۔ یاد کرنے کے باوجود یاد نہیں آ رہا۔  رمشا ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑی ہو گئی۔ سرفراز اُس کے سامنے تھوڑے فاصلے پر کھڑا تھا۔

۞۞۞

موروں کے پنجرے کی دُوسری طرف سے جبران جپہ دُور سے رمشا اور سرفراز کی تصویریں بنانے میں مصروف تھا۔
’’کس کی تصویریں بنا رہے ہو جبران؟‘‘
جبران نے پلٹ کر دیکھا۔ عام سی شکل و صورت والی سانولی سی لڑکی ٹریک سوٹ پہنے اُس کے پیچھے کھڑی تھی۔
آفرین۔۔۔ تُم؟ جبران نے چونکتے ہوئے کہا۔
یہاں کیا کر رہے ہو؟  آفرین نے اگلا سوال پوچھ لیا۔
جبران نے موروں کے پنجرے کے دُوسری طرف نظر دوڑائی جہاں رمشا اور سرفراز کھڑے تھے۔ جو، اب وہاں نہیں تھے۔ وہ چلتے چلتے اُن سے اور بھی دُور جا رہے تھے۔
کسے ڈھونڈ رہے ہو؟ آفرین نے ایڑھیاں اُٹھاتے ہوئے جبران کی نظروں کا تعاقب کرنے کی کوشش کی تو جبران اُس کے سامنے آتے ہوئے بتانے لگا
میں مور کی تصویریں بنا رہا تھا۔۔۔ تمھیں تو پتا ہے مجھے فوٹوگرافی کا کتنا شوق ہے۔  جبران نے بات کا رُخ بدلا۔ آفرین نے ٹھنڈے لہجے میں کہا
’’کسی اور کو بتایا ہو گا۔‘‘
جبران سمجھ گیا کہ آفرین کا اشارہ کس طرف ہے۔ عام سی شکل و صورت کی وجہ سے اُسے کلاس کا کوئی بھی لڑکا گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ جبران نے میٹھے لہجے میں پوچھا
’’تم اِدھر اِس پوش علاقے میں کیا کر رہی ہو؟‘‘
میرے ابو ایک انڈسٹریل کے ڈرائیور ہیں۔‘‘آفرین نے ہمیشہ کی طرح اپنی حیثیت چھپاتے ہوئے موروں کے پنجرے کی طرف جاتے ہوئے بتایا۔ وہ پنجرے کی جالی کو پکڑ کر ایک مور کے پیروں کی طرف دیکھنے لگی۔
نیچے کیا دیکھ رہی ہو؟  جبران نے اُس کے برابر میں کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
سُنا ہے مور اپنے پیروں کو دیکھ کے روتا ہے اور میں آئینے میں خود کے چہرے کو ۔۔۔‘‘ آفرین نے بھرّائی ہوئی آواز میں بتایا۔ جبران نے جالی تھامے آفرین کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، پھر بڑی سنجیدگی سے آفرین سے نظریں ملاتے ہوئے کہنے لگا
’’آئینہ جھوٹ بولتا ہے۔۔۔ خود کا چہرہ دیکھنا ہے تو میری آنکھوں میں دیکھو ‘‘
یہ سنتے ہی آفرین کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اُس کی سانولی رنگت بھی گلابی ہونے لگی۔ اُس کے اندر سے مسکان پھوٹ پھوٹ کر اُس کے ہونٹوں سے نمودار ہو رہی تھی۔

۞۞۞

پارک کی پتھر کی سیٹ پر سرفراز اور رمشا بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کے درمیان ایک فرد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ مغرب کی اذان کے بعد اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ وہ دونوں اُس سیٹ پر بیٹھنے کے بعد سے خاموش تھے۔ یک لخت رمشا نے بول دیا:
’’میں تُم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
سرفرازو یہ سُن کر حیران نہیں ہوا،اُس نے اپنے تاثرات کو چھپائے رکھا۔ اُس نے رمشا پر جانچتی نظر ڈالی، پھر کہنے لگا
’’آپ جلدبازی سے کام لے رہی ہیں۔ ‘‘
فیصلہ کرنے کے لیے ستائیس دن بہت ہوتے ہیں۔  رمشا نے کہا۔
ستائیس دن۔۔۔‘‘ سرفراز حیران ہوا۔
ستائیس دن پہلے ہی تُم نے ماموں مومن کی دُکان پر کام شروع کیا تھا نا؟  رمشا کے بتانے پر سرفراز نے ہاں میں گردن ہلائی۔ اِس سے پہلے وہ کچھ کہتا رمشا جلدی سے بول پڑی
اُس دن تُم نے نیلی جینز کے اُوپر پیلی گرم شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ ‘‘
یہ سنتے ہی سرفراز کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اُسی مسکراہٹ کے ساتھ وہ گویا ہوا
اُس دن کسی کی اُترن پہن رکھی تھی میں نے۔ ‘‘
اُترن ۔۔۔ مطلب؟ رمشا نے لاعلمی ظاہر کی۔
وہ کپڑے لنڈے کے تھے۔  سرفراز نے بڑے اعتماد سے بتایا۔
رمشا یہ سنتے ہی کھل کھلا اُٹھی، پھر چنچل انداز میں بولی
میری کلاس میں لنڈے کے لڑکے اپنے کپڑوں کو برینڈڈ بتاتے ہیں۔۔۔ وہ سب میری دولت کی وجہ سے مجھے سیٹ کرنا چاہتے ہیں۔
رمشا کی بات سننے کے بعد سرفراز نے بڑے آرام سے بول دیا
’’اگر میں بھی اُن جیسا ہی نکلا تو؟‘‘
یہ سنتے ہی رمشا یکایک سنجیدہ ہو گئی۔ کچھ دیر وہ دونوں گہری نظروں سے ایک دُوسرے کو دیکھتے رہے، پھر رمشا اپنے خشک ہونٹوں کو ایک دُوسرے سے تَر کیا، پھر بولی
’’جو اتنے دن سے میں تمھاری آنکھوں میں دیکھ رہی ہوں، میرے کان وہ سب سننے کے لیے بے تاب ہیں۔‘‘
سرفراز نے خود کو مضبوط کیا، پھر کہنے لگا
’’چکور کی باتیں چاندنی سنتی ہے کیا؟‘‘
’’سن رہی ہے۔ رمشا نے سریلی آواز میں بتایا۔
یہ چاندنی۔۔۔ چکور کو کیوں پانا چاہتی ہے؟ جیسے ہی سرفراز کے منہ سے یہ نکلا، رمشا لپک کر اُس سے لپٹ گئی۔
چاند تو تم ہو۔۔۔ جسے میں جلد سے جلد پانا چاہتی ہوں۔  رمشا نے بند آنکھوں کے ساتھ کہا۔ اُس کا سر، سرفراز کے شانے پر تھا۔
اتنی جلدی کیوں۔۔۔؟ سرفراز نے ہولے سے پوچھا۔
جلدی۔۔۔؟  رمشا نے سرفراز کے کندھے سے سر اُٹھایا، پھر غور سے سرفراز کو دیکھا۔ اس کے بعد اُس کا ہاتھ تھام کر بولی
’’کیا جانتے ہو میرے بارے میں؟‘‘
آپ یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔۔۔ کسی دولت مند گھرانے سے آپ کا تعلق ہے اور رمشا نام ہے آپ کا۔۔۔  یہ بتا کر سرفراز خاموش ہو گیا۔
بس اتنا ہی جانتے ہو؟  رمشا نے گہری نظروں کے ساتھ سُریلی آواز میں پوچھا۔ سرفراز نے سادگی سے گردن ہلا دی۔ رمشا سنجیدگی سے کہنے لگی
’’جلدی اِس لیے ہے کہ شاید ایسا موقع دوبارہ نہ ملے۔‘‘
موقع۔۔۔؟  سرفراز نے تشویشی انداز میں پوچھا۔
ہاں۔۔۔ مجھے پتا چلا ہے کہ بابا سائیں نے میرا اور منشا کا رشتہ دیکھ لیا ہے اور وہ چند ہفتوں کے اندر اندر ہم دونوں کی شادی کر دیں گے۔
تو آپ کر لیں نا اپنے بابا سائیں کی پسند کی شادی۔ سرفراز نے اپنا ہاتھ رمشا کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے بڑے آرام سے بول دیا۔ رمشا نے اُسے چبھتی نظروں سے دیکھا۔ سرفراز کو تھوڑی فکر لاحق ہوئی۔ اِس سے پہلے سرفراز کچھ کہتا رمشا نے ہی پوچھ لیا
’’محبت کرتے ہو مجھ سے۔۔۔؟‘‘
سرفراز نے جواب دینے کی بجائے گہری نظروں سے رمشا کو دیکھنا شروع کر دیا۔ رمشا نے جلدی سے اپنی ہتھیلی سرفراز کی آنکھوں پر رکھ دی، پھر سرد آہ بھرتے ہوئے بولی
’’اُف تمھاری قاتل نظریں۔۔۔ ان ہی سے سب کچھ کہہ جاتے ہو۔ ‘‘
رمشا نے اپنی ہتھیلی ہٹاتے ہوئے کہا
’’کل شادی کر لیں۔۔۔؟‘‘
سرفراز سوچ میں پڑ گیا۔ رمشا نے دیکھاتو کہنے لگی
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’ایک مسئلہ ہے۔‘‘
کیسا مسئلہ؟‘‘ رمشا نے فکرمندی سے پوچھا۔ سرفراز نے سنجیدگی سے جواب دیا
’’میرا شناختی کارڈ گُم ہو گیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی رمشا کھل کھلا کر ہنسنے لگی، پھر ہنستے ہنستے سرفراز سے لپٹ گئی۔ اس کے بعدسرفراز سے الگ ہوتے ہوئے اُس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی
’’تمھاری اِسی سادگی پر ہی تو مر مٹی ہوں۔‘‘
سرفراز نے کوئی جواب نہ دیا۔ رمشا اُٹھتے ہوئے کہنے لگی
’’بہت دیر ہو گئی ہے۔۔۔ اگر میرا ڈرائیور میرے پیچھے پارک میں آ گیا تو پرابلم ہو جائے گی۔‘‘

۞۞۞

رمشا اور سرفراز چھوٹے بڑے درختوں کے درمیان سے گھاس پر چلتے ہوئے ماڈل ٹاؤن پارک کے گیٹ نمبر 1کی طرف جا رہے تھے۔
کل موٹرسائیکل کا بندوبست کر سکتے ہو کیا؟  رمشا نے چلتے چلتے پوچھا۔
ہاں۔۔  سرفراز نے ایک لفظ بولا، پھر خاموش ہو گیا۔ رمشا چلتے چلتے رُک گئی اور سرفراز کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگی۔
میرے فیصلے سے خوش نہیں لگ رہے۔  رمشا نے اندازہ لگایا۔
ڈر۔۔۔ خوشی کو کھا جاتا ہے۔ سرفراز نے سادگی سے بتایا۔ رمشا نے پہلے تو بڑے رومانوی انداز میں سرفراز کو دیکھا، پھر ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولی
’’ایسی سچویشن میں ویسے لڑکیاں ڈر رہی ہوتی ہیں۔‘‘
ڈر آپ کے لیے رہا ہوں۔۔۔ مجھے بھی پہلی نظر میں آپ سے محبت ہو گئی تھی۔۔۔ خیر۔۔۔! وہ باتیں سہاگ رات پر کریں گے۔۔۔ ابھی آپ یہ بتائیں پلان کیا ہے؟ سرفراز نے بڑے اعتماد سے بتایا۔ رمشا کا چہرہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔ وہ جلدی جلدی بتانے لگی
کل میں آفرین کی طرف دو دن گزارنے کا بہانہ بنا کر بنگلے سے اُسی کے ساتھ نکل آؤں گی۔۔۔ میں اپنے ساتھ زیور اور شادی کا جوڑا لیتی آؤں گی۔۔۔ تم مولوی صاحب اور گواہوں کا بندوبست کر لینا۔۔۔
میں تمھیں ساڑھے چار بجے پارکنگ میں ملوں گی۔
رمشا کے خاموش ہونے کے باوجود سرفراز نے کوئی بات نہیں کی۔ وہ محبت بھری نظروں سے رمشا کو دیکھے جا رہا تھا۔ رمشا نے سرفراز کی نظروں کے تسلسل کو ہاتھ اُس کے چہرے کے سامنے لاتے ہوئے توڑا، پھر مچلتے انداز میں بولی
’’سہاگ رات منانے کے لیے جگہ تو ہے نا۔۔۔؟‘‘
یہ سنتے ہی سرفراز پورے چہرے کے ساتھ مسکرایا۔ رمشا بھی شرما گئی۔ اُس نے اُسی شرماہٹ کو چھپانے کے لیے پارک کے گیٹ نمبر 1کی طرف دوڑ لگا دی۔ سرفراز اُدھر ہی کھڑا رہا۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles