Home اردو ادب ( مجروح ( قسط نمبر 11

( مجروح ( قسط نمبر 11

رات کے پچھلے پہر ہلکی سی آہٹ سے آنیہ کی آنکھ کھل گئی تو اُس نے دیکھا سندان واش روم سے نکل رہا ہے۔ آنیہ نے سندان پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ جاگ رہی ہے۔

0
558

 

( 11 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

زیب اور زینت کھڑکی کے ساتھ چھوٹے سفری سرہانوں پر کہنیاں جمائے آمنے سامنے بیٹھی ہوئی جوس پینے کے ساتھ ساتھ باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ ٹرین سرسوں کے کھیتوں کے قریب سے گزر رہی تھی۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ سرسوں کے پیلے پھول کھلے ہوئے تھے اُوپر سے غروب ہوتے سورج کی زرد روشنی۔ کھیتوں سے آسمان تک پیلے رنگ کی ہی حکمرانی تھی۔ آنیہ کبھی باہر دیکھتی اور کبھی چائے والے سے چائے لیتے ہوئے ساحل کو۔
ساحل نے پہلا کپ فریدہ کو پیش کیا جو اپنے موبائل کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کے بعد اُس  نے آنیہ کو چائے دی تو اُس نے جانچتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا، مگر ساحل نے اُس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ ساحل نے اپنے بٹوے سے پیسے نکال کر چائے والے کو دیے۔ اس کے بعد اُس نے اپنا کپ چائے والے سے تھاما اور دروازہ بند کر دیا۔ ساتھ ہی چائے والے کی عجیب سی آواز گونج اُٹھی
’’چائے والا۔۔۔ گرما گرم چائے۔۔۔‘‘
فریدہ کے برابر اور آنیہ کے سامنے بیٹھتے ہوئے ساحل نے چائے کا پہلا گھونٹ پیا۔ آنیہ اب تک چائے تھامے ہوئے تھی۔ اُس نے کپ کو دیکھنے کے بعد چائے پیتے ہوئے ساحل کی طرف دیکھ کر کہا
’’چائے کے لیے شکریہ کہنا ہو تو آپ کو کس نام سے پکاروں؟‘‘
آنیہ کی بات پر فریدہ بھی متوجہ ہوئی۔ ساحل  نے چائے کا گھونٹ لینے کے بعد آرام سے بتایا
’’سندان۔۔۔‘‘
کیا۔۔۔؟ فریدہ نے بڑی حیرت سے کہا۔ اُس نے یہ نام پہلی بار سنا تھا۔
سندان۔۔۔ مطلب؟  آنیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
سندان مطلب۔۔۔ بہادر۔
ساحل نے اپنا نیا نام بتانے کے بعد چائے کا ایک اور گھونٹ پیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا، جہاں اب سرسوں کے کھیتوں کی جگہ گندم کے کھیتوں کی ہریالی پیچھے کو بھاگ رہی تھی۔ سورج کی زردی اب ہولے ہولے رات کی سیاہی میں بدل رہی تھی۔ آنیہ نے اُس زردی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
’’سنا ہے پیلا رنگ نفرت کی علامت ہے۔‘‘
اُن تینوں نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد فریدہ کی زیب اور زینت پرنظر پڑی۔ اب آٹھ سالہ زیب کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ فریدہ نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھا اور زیب کو سیدھا کر کے لٹا دیا۔
زینت کی نظریں باہر تھیں، مگر وہ سو چ کچھ اور رہی تھی۔ سندان نے بھی محسوس کیا تھا کہ زینت زیادہ تر گُم سُم ہی ہے۔ فریدہ نے سیٹ کے نیچے پڑے بستر والے بیگ سے ایک سفری کمبل نکالتے ہوئے آنیہ سے کہا
’’آنیہ۔۔۔! دیکھو ہیٹر کدھر سے تیز ہو گا؟‘‘
آنیہ اپنی جگہ سے اُٹھنے لگی۔ اس سے پہلے ہی سندان اُٹھ کر کیبن سے جاتے ہوئے بولا
میں باہر ہی ہوں۔ سندان کیبن سے باہر نکلا تو ہوا کی سرسراہٹ نے اُس کا استقبال کیا۔
کوریڈور کا دروازہ کسی نے کھولا تھا۔ دروازہ بند ہوتے ہی ہوا کی سرسراہٹ بھی رُک گئی۔ یک دَم ڈبے کے کوریڈور میں خاموشی چھا گئی، پھر یکایک ایک باریک سی آواز گونجنے لگیـ
’’نمکو۔۔۔ بسکٹ۔۔۔ چیونگم۔۔۔ گولی ٹافی۔۔۔ بنٹی۔۔۔‘‘
سامنے سے ایک کمزور سا آدمی یہ آواز لگاتے ہوئے نمودار ہوا۔ سندان کے پاس آتے آتے اُس نے یہ گردان تین بار دُھرائی۔ سندان نے اُسے گزرنے کے لیے راستہ دیا تو اُس نے سندان سے پوچھا
’’صاحب۔۔۔! کچھ دوں؟‘‘
’’کوئی اچھی چاکلیٹ ہے؟‘‘
سندان کے پوچھنے پر اُس آدمی نے بتایا
’’صاحب۔۔۔! ایمپورٹڈ ہے۔‘‘
دے دو۔۔۔! سندان نے کہا۔ اُس آدمی نے چاکلیٹ سندان کو دے دی۔ اُس نے وہ اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈال لی۔
کتنے دوں؟  سندان نے جینز کی پچھلی جیب سے بٹوہ نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’تین سو۔۔۔  آدمی نے بتایا۔
سندان نے اُسے پیسے دیے۔ وہ آدمی وہی گردان دُہراتا ہوا وہاں سے اگلے ڈبے میں گھس گیا۔ سندان اُس آدمی کے جانے کے بعد کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ آنیہ دروازہ بند کرتے ہوئے کیبن سے باہر نکلی اور آتے ہی بولی
’’اوہ۔۔۔ یہاں تو اچھی خاصی ٹھنڈ ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی سندان اپنی لیدر کی جیکٹ اُتارنے لگا تو آنیہ بولی
’’ارے۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میرے پاس گرم کوٹ ہے نا۔۔۔ میں وہ پہن کر آتی ہوں۔‘‘
آنیہ  نے کیبن کا دروازہ کھولا تو سندان نے اندر دیکھا۔ فریدہ اور زیب ایک سیٹ پر سو چکی تھیں۔ دُوسری سیٹ پر زینت کانوں میں ہینڈ فری لگائے موبائل پر کچھ دیکھ رہی تھی۔ آنیہ نے کوٹ پہنتے ہوئے تھوڑے سے کھلے دروازے سے اندر دیکھتے ہوئے سندان کو دیکھ لیا۔ اُس نے باہر آتے ہوئے کیبن کا دروازہ اچھی طرح سے بند کر دیا۔ ساتھ ہی سندان سے تھوڑی خفگی سے کہنے لگی
’’تُم مجھے چھپ کر کیوں دیکھ رہے تھے؟
سندان نے آنیہ کی بات سننے کے بعد غور سے اُسے دیکھا، پھر بڑی سنجیدگی سے گویا ہوا
میں۔۔۔ آپ کہنے کے بعد کسی کو تُم نہیں کہتا۔۔۔ خیر۔۔۔ میں آپ کو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ اُس بچی کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے درد کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کیا ہوا ہے اُس بچی کے ساتھ؟
سندان کی بات سنتے ہی آنیہ کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ اُس نے سندان سے نظریں چُراتے ہوئے اپنے بڑے سے گرم کوٹ کی پاکٹوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ ایک پاکٹ سے سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر نکال کر ایک سگریٹ سلگا لیا، پھر اُس نے سندان کو نظروں سے سگریٹ کی پیشکش کی۔
سندان نے گردن کو ہاں میں جنبش دی۔ آنیہ  نے سگریٹ کیس اُس کے سامنے کر دیا۔ سندان نے اپنے ہونٹوں سے اُس سے ایک سگریٹ کھینچ لیا۔
آنیہ نے لیٹر سے سندان کا سگریٹ بھی سلگایا، پھر لمبے لمبے کش بھرنے لگی۔ ایسا کرنے سے اُسے کھانسی لگ گئی۔ سندان اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ جب وہ آدھا سگریٹ پی چکی تو بولی
’’چھوٹے ہو۔۔۔ مگر ہو گہرے۔۔۔ چہرے سے دل کی بات پڑھ لیتے ہو۔‘‘
سندان نے آنیہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ دروازے کی طرف چل دیا۔ آنیہ بھی ہونٹوں میں سگریٹ لگائے اُس کے پیچھے چل دی۔
دروازے کے پاس پہنچ کر سندان نے دروازہ کھول کر اپنا سگریٹ ٹرین سے باہر پھینک دیا۔ باہر گُھپ اندھیرا چھا چکا تھا۔ ساتھ والے ڈبے سے دو لڑکے مستیاں کرتے ہوئے اس ڈبے میں آئے۔ اُنھوں نے جب آنیہ کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھا تو اُن میں سے ایک نے ہونٹوں سے سیٹی بجائی۔ آنیہ نے مسکراتے ہوئے وہ سگریٹ سندان کی طرف کرتے ہوئے کہا
’’تمہارے جیجا جی کے ساتھ ایک دو کش میں بھی لگا لیتی ہوں۔‘‘
وہ لڑکے زیرِلب مسکراتے ہوئے چل دیے۔ سندان نے جیجاجی والی بات پر دھیان ہی نہیں دیا۔ اُس نے آنیہ کے ہاتھ سے سگریٹ لی اور اُسے باہر پھینکنے کے بعد دروازہ بند کرتے ہوئے پوچھا
’’کب سے سگریٹ شروع کیے ہیں؟‘‘
کوئی ہفتہ پہلے۔۔۔ جس دن پنڈی آئی تھی۔
آنیہ نے منہ بسورتے ہوئے بتایا۔ سندان پھیکا سا مسکرا دیا تو آنیہ بولی
’’وجہ نہیں پوچھو گے؟‘‘
’’بتاؤ۔۔۔‘‘
شادی میں لندن سے آئے ہوئے ایک لڑکے پر دل آ گیا تھا، مگر وہ للّو ہی نکلا۔۔۔ سگریٹ بہت پیتا تھا۔۔۔ یہ اُسی نے دیا ہے۔ آنیہ نے افسردگی سے بتایا۔
اپنا مطلب نکال کے اُس نے تمہارے ہاتھ میں یہ تھما دیا ہو گا۔
سندان نے بے دلی سے اندازہ لگایا۔
سندان کی بات سنتے ہی آنیہ نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، پھر کہنے لگی
بتایا نا للّو تھا وہ۔۔۔
آنیہ کے ذومعنی جملے کو سندان اچھی طرح سے سمجھ گیا، مگر وہ خاموش رہا۔
آنیہ ڈبے کی ایک دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے اُدھر ہی فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی، پھر اُس سگریٹ کیس سے کھیلنے لگی۔ سندان پہلے تو اُسے کھڑا ہی دیکھتا رہا، پھر اُس کے سامنے دُوسری دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
جب آنیہ نے اُسے دیکھا تو وہ بھرّائی ہوئی آواز میں بولی
’’اب میں کسی کو بھی مطلب نہیں نکالنے دیتی۔۔۔ گناہ کرتی ہوں تو اپنی مرضی سے۔۔۔‘‘
آنیہ کی بات سنتے ہی سندان ہلکا سا مسکرایا تو وہ پھر سے کہنے لگی
سندان صاحب۔۔۔! ہمارے معاشرے میں عورت کو ایک حلال کام بھی خود کی مرضی سے نہیں کرنے دیتے۔۔۔ حرام جتنے مرضی کرتی پھرے۔
وہ ایک حلال کام کون سا تھا؟ سندان نے پوچھا۔
میرے گھر والوں نے مجھے پسند کی شادی بھی نہیں کرنے دی۔۔۔ اپنی مرضی مجھ پر مسلط کر دی۔۔۔ گھر والوں کی مرضی نے چھے ماہ بعد ہی مجھے طلاق دے دی۔۔۔
میں بیوٹیشن بننا چاہتی تھی، مگر ڈیڈی کی خواہش پر ڈاکٹر بنی۔ وہ مجھے لائف پارٹنر کا انتخاب تو کرنے دیتے۔
آنیہ بات کرتے کرتے رُک گئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی ایک چمک دکھائی دینے لگی۔ ٹرین کی رفتار بھی کم ہونے لگی۔ سندان اُٹھتے ہوئے بولا
’’کوئی اسٹیشن آنے والا ہے۔۔۔ اندر چلتے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی آنیہ نے سندان کو دیکھے بغیر بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھا دیا۔ سندان نے لمحہ بھر سوچا پھر آنیہ کا ہاتھ تھام کر اُسے اُٹھا لیا۔
آنیہ نے سندان کے رُوبرو کھڑے ہوتے ہوئے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔ سندان نے جلدی سے اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور خود کیبن کی طرف چلنے لگا۔ آنیہ بھی اُس کے اُٹھتے ہوئے قدموں پر قدم رکھتے ہوئے چلنے لگی۔ سندان نے بڑی احتیاط سے کیبن کا دروازہ کھولا اور اندر نظر ڈالی۔
زینت کے سینے پر موبائل پڑا ہوا تھا اور وہ بھی سو چکی تھی۔ سندان کیبن کے اندر داخل ہوا۔ آنیہ دروازے سے باہر ہی کھڑی رہی۔
سندان نے اُوپر والی دونوں برتھوں کو کھولا، پھر بستر والے بیگ کو سیٹ کے نیچے سے نکال کر دیکھا۔ اُس میں ایک تکیہ، ایک چھوٹا کمبل اور ایک چادر تھی۔ سندان نے وہ کمبل زینت پر دے دیا۔ گرم چادر اور تکیہ ایک برتھ پر رکھنے کے بعد اپنے جوتے اُتار کر دُوسری برتھ پر چڑھنے لگا تو اُس  نے پلٹ کر آنیہ کی طرف دیکھا۔
آنیہ وہیں کھڑی  اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ٹرین کی رفتار بہت آہستہ ہو چکی تھی۔ سندان نے آنیہ کو نظروں سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ آنیہ کے ہونٹوں پر درد بھری مسکراہٹ اُبھری۔ اِسی اثنا میں ایک جھٹکے سے ٹرین رُک گئی۔
آنیہ اُس جھٹکے سے گرتے گرتے بچی۔ سندان بڑی پُھرتی سے اُس کی طرف لپکا۔ ٹرین کے اسٹیشن پر رُکتے ہی ایک ہجوم اُس پر ٹوٹ پڑا۔
چاروں اطراف سے چڑھتے ہوئے مسافر ایسے لگ رہے تھے جیسے کوئی سیلابی ریلا کسی سرنگ میں داخل ہو رہا ہو۔ سندان نے آنیہ کو کندھوں سے تھام کر جلدی سے کیبن کے اندر کیا اور دروازہ بند کر دیا۔
آنیہ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اگر اُسے سندان تھام کر اندر نہ کرتا تو وہ سیلابی ریلے میں بہ جاتی۔ آنیہ کو یہ خیال آتے ہی وہ بچوں کی طرح اُس سے لپٹ گئی۔
سندان نے فریدہ اور بچیوں کی طرف دیکھا۔ سب سو رہے تھے۔ باہر کے شور شرابے کے باوجود کیبن کے اندر وقت رُک چکا تھا۔ تھوڑی دیر تو سندان ساکت کھڑا رہا، پھر اُس نے ہولے سے آنیہ کو خود سے الگ کیا۔
ایک سے دو ہونے کے بعد جب آنیہ نے سندان کو گہری نشیلی آنکھوں سے دیکھا تو سندان نے اُسے برتھ پر لیٹنے کا اشارہ کیا۔ آنیہ پھر سے سندان کے گلے لگنے لگی تو سندان نے اُسے روکتے ہوئے دھیرے سے کہا
’’مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔ آپ بھی سو جاؤ۔۔۔!‘‘
آنیہ نے سندان کی طرف خفگی سے دیکھا۔ سندان نے اُس کی پروا کیے بغیر کیبن کا اندر سے لاک لگایا اور برتھ پر چڑھ کر دُوسری طرف منہ کر کے لیٹ گیا۔
آنیہ کو سندان کا خشک رویہ گراں گزرا۔ وہ تھوڑی دیر خفگی کے ساتھ اپنے نتھنوں سے غصے کی ہوا نکالتی رہی۔ دُور سے انجن کے ہارن کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی، پھر دُوسری آواز، پھر تیسری ۔۔۔ ساتھ ہی ہولے ہولے ٹرین چل پڑی۔
آنیہ بھی برتھ پر چڑھ کے تکیے پر سر رکھ کے کمر کے بل لیٹ گئی۔ کچھ دیر تو ٹرین کی خم دار چھت کو دیکھتی رہی، پھر اُس نے کروٹ لیتے ہوئے سندان کی طرف منہ کر لیا۔ سندان کا منہ دُوسری طرف تھا۔ جلد ہی آنیہ کی بھی آنکھ لگ گئی۔

۞۞۞

رات کے پچھلے پہر ہلکی سی آہٹ سے آنیہ کی آنکھ کھل گئی تو اُس نے دیکھا سندان واش روم سے نکل رہا ہے۔ آنیہ نے سندان پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ جاگ رہی ہے۔
وہ ادھ کھلی آنکھوں سے سندان کو دیکھنے لگی۔ سندان نے اُس کی برتھ کے نیچے غور سے دیکھا۔ آنیہ کو کچھ فکر لاحق ہوئی۔ سندان نے جھک کر فریدہ کا کمبل درست کیا، پھر اُس نے اپنی برتھ کے نیچے سوئی ہوئی زینت کو بڑے غور سے دیکھا۔
زینت کے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اپنی برتھ پر چڑھ کر چھت کی طرف منہ کر کے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر وہ کھلی آنکھوں سے چھت کو دیکھتا رہا، پھر اُس نے آنکھیں موند لیں۔ اُس نے ایک بار بھی آنیہ کی طرف نہیں دیکھا۔ سندان کے آنکھیں بند کرتے ہی آنیہ نے آنکھیں کھول دیں۔ اُس نے لمحہ بھر سوچا پھر وہ جذباتی انداز میں سندان کی برتھ پر چڑھتے ہوئے اُس سے لپٹ گئی۔ اُس کے کان میں سندان نے ہولے سے کہا
’’فریدہ بہن اُٹھ جائیں گی۔‘‘
کوئی نہیں اُٹھ سکتا۔ آنیہ نے نشیلی آواز میں پورے یقین کے ساتھ کہا۔ سندان نے آنکھیں کھولتے ہوئے آنیہ کو دیکھا۔ وہ فاتحانہ انداز میں مسکرانے کے بعد کہنے لگی
’’ڈاکٹر ہوں۔۔۔‘‘
سندان نے یہ سنتے ہی آنیہ کی پتلی کمر کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے اپنی بانہوں میں کس لیا۔ سندان کی گرفت سے آنیہ موم بن گئی، پھر سندان کے وجود کی حرارت سے پگھلنے لگی۔ رات بھر وہ دونوں ایک دُوسرے میں جذب ہوتے رہے۔
(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

NO COMMENTS