29 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 12

 

( 12 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

سورج طلوع ہو چکا تھا۔ اُ س کی ننھی ننھی کرنیں کھڑکی کے شیشوں کا سینہ چیرتے ہوئے سندان اور فریدہ کے چہروں پر پڑ رہی تھیں۔ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ زیب اور زینت ابھی تک نیند کی آغوش میں تھیں۔ فریدہ چائے کا گھونٹ بھرنے کے بعد کہنے لگی
’’بھائی۔۔۔!آپ ہماری خاطر حیدرآباد نہیں اُترے۔۔۔ اب کراچی تک چھوڑنے جا رہے ہیں۔‘‘
فریدہ بہن۔۔۔! آپ نے بھائی مان لیا ہے تو ایک بات پوچھوں؟ سندان نے سوئی ہوئی زینت کی طرف ایک نظر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جی۔۔۔ پوچھیں!فریدہ رُک رُک کر بولی۔
اس بچی کے ساتھ کیا حادثہ ہوا ہے؟ سندان نے فریدہ سے نظریں ملاتے ہوئے سوال کیا۔ فریدہ نظریں چُرانے لگی۔ فریدہ کی فکرمندی دیکھتے ہوئے سندان نے کہا
بتانا ضروری نہیں ہے۔۔۔ پوچھا اِس لیے کہ شاید میں کچھ مدد کر سکوں۔ سندان نے یہ کہنے کے بعد اپنی چائے ختم کی اور میز کے نیچے بنی ڈسٹ بِن میں اپنا چائے کا خالی کپ ڈال دیا۔ فریدہ کے ہاتھ میں ابھی بھی چائے والا کپ تھا اور اُس میں تھوڑی سی چائے بھی تھی۔ سندان نے فریدہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
اُوپر والا بہتر کرے گا۔
سندان نے فریدہ کے ہاتھ سے چائے والا کپ لے کر وہ بھی ڈسٹ بِن میں ڈال دیا اور خود فریدہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ فریدہ نے خودبخود بولنا شروع کر دیا:ـ
لاک ڈاؤن میں تھوڑی نرمی ہوئی۔۔۔ اسکول ابھی نہیں کھلے تھے۔۔۔ زینت مجھے کہنے لگی مجھے اپنی دوست عنایا کے گھر جانا ہے۔ میں  نے وجاہت کو بتایا۔ وجاہت نے عنایا کے ڈیڈی مصدق کو کال کر کے پوچھا۔ اُس نے آنے کی اجازت دے دی۔
میں زینت کو اُن کے گھر چھوڑ آئی۔ شام کو عنایا کی میرے نمبر پر کال آئی۔ وہ کہنے لگی
’’آنٹی۔۔۔! زینت کو آج رات میرے پاس ہی رہنے دیں۔‘‘
میں نے وجاہت سے پوچھ کر ہاں کر دی۔ اگلے دن جب میں زینت کو لینے گئی تو اُس کی ایسی حالت تھی۔ اُس کمینے مصدق نے میری معصوم بچی کو اپنی ہوس۔۔۔
فریدہ کی زبان کا لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اُس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے۔ سندان نے کھڑے ہوتے ہوئے ایک سرد آہ لی اور فریدہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا
آپ رونا دھونا چھوڑ دیں۔ ماں کے روپ میں عورت سب سے زیادہ طاقتوَر ہوتی ہے۔ آپ کی طاقت سے آپ کی بیٹیاں مضبوط بنیں گی۔
اس کے بعد سندان کیبن سے باہر نکل گیا۔ وہ گلی والے دروازے کو کھولتے ہوئے ڈبے کے داخلی دروازے کوکھول کر اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ کافی دیر سرد ہوا سے اپنے غصے کو ٹھنڈا کرتا رہا۔
حیدرآباد اسٹیشن کے بعد ٹرین کا رش کم ہو چکا تھا۔ جب اُس کے سامنے سے بن قاسم پورٹ گزرنے لگی تو وہ ڈبے کے داخلی دروازے کو بند کر نے کے بعد گلی والے دروازے سے گزرتے ہوئے کیبن کے سامنے پہنچا، پھر اُس نے اپنے اوسان کو قابو کیا اور کیبن کا دروازہ کھول کر اندر دیکھا ۔ فریدہ افسردہ بیٹھی تھی۔ سندان نے اُدھر کھڑے کھڑے ہی اُسے خوش خبری کے انداز میں خبر سنائی
’’فریدہ بہن۔۔۔! ایک دو اسٹیشن کے بعد آپ کا اسٹاپ آنے والا ہے۔۔۔ بچیوں کو اُٹھائیں۔۔۔!‘‘
خبر دینے کے بعد اُس نے پھر سے دروازہ بند کیا۔ سندان اُدھر ہی کیبن کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ جب لانڈی کا اسٹیشن گزر گیا تو سندان نے کیبن کا دروازہ کھول کر اندر دیکھا۔
وہ تینوں جاگ چکی تھیں۔ زیب ہشاش بشاش اور زینت اُسی طرح گُم سُم جب کہ آنیہ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ اُس نے اُسی خوشی کے ساتھ فریدہ کی طرف دیکھ کر پوچھا
’’بھابھی۔۔۔! آپ کے بھائی ہمارے ساتھ گھر چل رہے ہیں نا؟‘‘
آنیہ کی بات سنتے ہی سندان نے یکلخت بتایا
’’نہیں۔۔۔‘‘
ساتھ ہی اُس نے دروازہ بھی بند کر دیا۔ چند لمحوں بعد ہی آنیہ کیبن سے نکل آئی۔ سندان گلی والے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ سندان کے روبرو جا کے آنیہ بھی کھڑی ہو گئی۔ دونوں کی نظریں ملیں تو آنیہ نے رومانوی انداز میں بتایا
’’یہ میری زندگی کا یادگار سفر ہے۔‘‘
یادگار۔۔۔؟سندان نے معنی خیز انداز میں سوال کیا۔
پھول توڑنا ہو تو کبھی کبھی کانٹے، چُبھ جاتے ہیں۔ آنیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
میں ٹوٹتا نہیں۔ سندان نے یقین سے بتایا۔
پھول تو ہو۔۔۔نا۔ آنیہ نے سندان کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
جو آپ نے رات میرے ساتھ کیا۔۔۔ وہ لڑکے بھی تو آپ کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہتے تھے۔
سندان کی تلخ بات سننے کے بعد بھی آنیہ پھیکا سا مسکرائی۔ اُس نے سندان کے گال سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا، پھر سرد آہ بھرتے ہوئے بولی
میرے جسم سے اپنی ہوس کو ٹھنڈا کرنے والے وہ کون ہوتے ہیں۔۔۔ جب خدا کے سامنے جواب دہ میں ہوں تومرضی بھی میری ہی ہونی چاہیے۔
آنیہ نے لمحہ بھر توقف کیا۔ اس کے بعد سندان کے سینے پر اُس کے دل کے اُوپر اپنی نرم ہتھیلی سے دستک دیتے ہوئے کہنے لگی
یہ جو مرد ذات ہے نا۔۔۔ یہ عورت کے معاملے میں دیوتا بننا چاہتا ہے۔۔۔ خدا تو عورت کو مرضی کا اختیار دیتا ہے، مگر مرد نہیں۔۔۔
سندان نے آنیہ کے سیدھے ہاتھ کی طرف دیکھا جو اب بھی اُس کے سینے پر دل کے اُوپر ہی تھا، مگر اُس کی دستک رُک چکی تھی۔ سندان نے مسکراتے ہوئے پوچھا
’’آپ دیوتاؤں کے خلاف ہو یا مردوں کے؟‘‘
یہ سنتے ہی آنیہ کے ہونٹوں پرتیکھی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اُس نے سخت نظروں سے سندان کو دیکھتے ہوئے کہا
اُن مردوں کے، جو دیوتا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔  آنیہ نے سندان کے چہرے کو اپنی نظروں سے جکڑ رکھا تھا اس کے باوجود سندان نے گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اُسے بتایا
’’اِس یادگار سفر کا آخری اسٹیشن آ گیا ہے۔‘‘
تیزگام ایکسپریس کراچی سٹی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 1 پر رُکنے والی تھی۔  نمبر 2 پلیٹ فارم پر ایک ٹرین کراچی سے روانہ ہونے کے لیے تیار کھڑی تھی۔
سندان نے بڑے آرام سے اپنے سینے سے آنیہ کا ہاتھ اُٹھا کر شیشے والی کھڑکی کے ساتھ لگا دیا۔ اُسی وقت ٹرین ایک جھٹکے سے رُکی، مگر آنیہ کا توازن برقرار رہا۔ سندان نے اُس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
’’کوئی سہارا ہو تو انسان گرنے سے بچ جاتا ہے۔۔۔ اِس یادگار سفر میں آپ ایک بار گر چکی ہیں۔‘‘
سندان کی بات سنتے ہی لمحوں میں آنیہ کے چہرے کے خدوخال بدل گئے۔ وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ سندان کو کیا جواب دے، سندان پھر سے بول اُٹھا
’’کوئی اچھا سا سہارا ڈھونڈ کے شادی کر لیں۔۔۔!‘‘
تُم بنو گے میرا سہارا۔۔۔؟ آنیہ نے فیصلہ کُن انداز میں پوچھا۔
’’میں کیا کسی کا سہارا بنوں گا۔۔۔ میں تو خود بیساکھی ہوں۔‘‘
’’پھوپھو۔۔۔! ہم کراچی پہنچ گئے۔
اُن دونوں نے کیبن کی طرف دیکھا۔ زیب کھڑی ہوئی ہاتھ ہلا رہی تھی۔ وہ دونوں اُس طرف چل دیے۔
(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles