21 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 13

 

( 13 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

 اپنے چہرے پر کالا سرجیکل ماسک لگائے ہوئے قاسم قُلی گلی والا دروازہ کھول کر سامنے سے اندر داخل ہوا اور اُدھر ہی سے بولا
’’سر۔۔۔! ساری گاڑی خالی ہو چکی ہے۔‘‘
قُلی اُن کے قریب آ رہا تھا۔ وہ سندان کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ سندان کی بھی چھٹی حِس پھڑکنے لگی۔ سندان نے جیکٹ کی پاکٹیں ٹٹولتے ہوئے کہا
’’میرا موبائل کہیں کھو گیا ہے۔۔۔ وہ ڈھونڈ رہے تھے۔۔ خیر تُم سامان نکالو۔‘‘
فریدہ اور بچیوں کے باہر نکلنے کے بعد قُلی کیبن کے اندر گھس گیا۔ فریدہ نے زیب اور زینت کا ہاتھ پکڑا اور وہ سندان اور آنیہ سے تھوڑی دُور دُوسری سمت کھڑی ہو گئی۔ قُلی نے ایک ایک کر کے اُن کے درمیان سارا سامان گلی کے اندر رکھ دیا، پھر بولا
’’سر۔۔۔! اندر اور تو کچھ نہیں ہے، پھر بھی ایک نظر آپ دیکھ لیں۔‘‘
سندان اندر دیکھنے لگا تو قُلی نے پھر سے اُس کے چہرے پر غور شروع کر دیا۔ سندان کو قُلی پر شک ہونے لگا۔ اس کے برعکس قُلی کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ وہی ہے جس کی خبر دینے پر اُسے چالیس ہزار کا انعام مل سکتا ہے۔ اُسے ایک دن پہلے موبائل پر دیکھی ہوئی تصویریں یاد آ گئیں۔
اور کچھ نہیں ہے۔۔۔ تُم سامان لے جاؤ۔۔۔
قُلی کو حکم دینے کے بعد سندان فریدہ کی طرف متوجہ ہوا جو اپنے سامان کے اگلی طرف کھڑی تھی۔
’’بھابھی۔۔۔! آپ بھی بچیوں کو لے کر باہر نکلیں۔۔۔ میں اور آنیہ سامان کے بعد آتے ہیں۔‘‘
سندان کے چُپ ہوتے ہی قُلی بول اُٹھا
’’سر۔۔۔! آپ ماسک لگا لیں۔۔۔ نہیں تو اسٹیشن ماسٹر مجھے سنائے گا۔‘‘
اوہ۔۔۔ یہ بیگ دینا۔ آنیہ نے قُلی سے اپنا شولڈر بیگ اُٹھانے کو کہا جو اُس کے سامنے ہی پڑا تھا۔ فریدہ نے اپنے کندھے پر لٹکے ہوئے پرس سے اپنا اور بچیوں کے ماسک نکال لیے۔ وہ بچیوں کو ماسک لگانے کے بعد چل دی۔ قُلی بڑا سا اٹیچی لے کر اُن کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ جب فریدہ ٹرین سے باہر نکلی تو پلیٹ فارم پر رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ ڈبے سے تھوڑی دُور اُس قُلی کی لوہے کی ریڑھی کھڑی تھی۔ قُلی نے اُس پر وہ اٹیچی رکھتے ہوئے کہا
’’باجی۔۔۔! آپ یہیں رہیے گا۔‘‘
فریدہ نے کچھ سوچتے ہوئے گردن کو ہاں میں جنبش دی۔ قُلی نے پھر سے ڈبے میں گھستے ہی اپنا موبائل نکال کر ایک کال ملائی

۞۞۞

ہیلو۔۔۔! واٹس ایپ پر میسج دیکھنے والے پانچ بندوں میں سے ایک نے جیپ کی اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کال ریسیو کی۔ اُس کی جیپ ریلوے اسٹیشن کے آس پاس ہی تھی۔
’’داؤد بھائی۔۔۔! بندہ مل گیا ہے۔‘‘
کون سا بندہ رے۔۔۔؟ فون کے دُوسری طرف سے میلے دانتوں، بکھری زُلفوں والے داؤد نے پوچھا۔
’’سات تصویروں اور چالیس ہزار والا۔‘‘
یہ سنتے ہی داؤد کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ جلدی سے بولا
’’اپنی لوکیشن بھیج۔۔۔‘‘
’’داؤد بھائی۔۔۔! قاسم قُلی بول رہا ہوں اسٹیشن سے۔۔۔‘‘
جب قُلی یہ بتا رہا تھا تو پلیٹ فارم دو کی ٹرین کا سائرن گونج اُٹھا۔ داؤد نے فون پر وہ سائرن بھی سن لیا۔
دلوا۔۔۔ ! گاڑی اسٹیشن کی طرف موڑ دے۔
داؤد کے بولتے ہی دلوا نے حکم کی تعمیل کی۔ داؤد والی جیپ کو مڑتے ہوئے دیکھ کر جگنو نے بھی ڈرائیور کو اپنی جیپ موڑنے کا اشارہ کر دیا۔
قُلی گلی والا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے سندان اور آنیہ ایک جیسے ماسک لگائے ایک دُوسرے سے کچھ بات کر رہے تھے۔
قُلی نے فاتحانہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا، پھر دو بیگ ایک ساتھ اُٹھا لیے اور باہر جانے لگا۔ ڈبے سے باہر نکل کر جب قُلی نے دونوں بیگ ریڑھی پر رکھے تو فریدہ کان سے موبائل لگائے کھڑی تھی۔ اُس کا نمبر تو نہیں ملا، البتہ قُلی کا فون بج اُٹھا۔ اُس نے کال اُٹھائی تو داؤد بڑے جوش سے بولا
’’قاسم۔۔۔! نظر رکھنا۔۔۔ شکار کہیں نکل نہ جائے‘‘
قاسم قُلی نے گلی والی کھڑکی سے ڈبے کے اندر نظر ڈالتے ہوئے کہا
’’بے فکر ہو جاؤ داؤد بھائی۔۔۔! وہ میری نظروں کے سامنے ہی ہے۔‘‘
ساتھ والے پلیٹ فارم کی ٹرین آخری سائرن دینے کے بعد ہولے ہولے چلنے لگی۔
کیا آپ نہیں آ رہے؟ فریدہ نے افسردگی سے کہا اور فون بند کر دیا۔ اُس نے قُلی کی طرف دیکھا جو اپنی قمیص کے اندر موبائل رکھتے ہوئے ڈبے ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ فریدہ تلخی سے بولی
’’بھائی۔۔۔! ایک بیگ رہ گیا ہے۔۔۔ وہ بھی لے آؤ!‘‘
جی۔۔۔ جی۔۔۔ باجی۔۔۔! قُلی جلدی سے بول کر ڈبے کی طرف لپکا۔ اُس نے گلی والا دروازہ کھولا تو سامنے آنیہ کھڑی  اپنے موبائل پر مصروف تھی۔ یہ دیکھتے ہی قُلی نے فوراً پوچھا
’’سر کدھر گئے؟‘‘
’’واش روم۔۔۔
آنیہ نے قُلی کو دیکھے بغیر بتایا۔ قُلی آنیہ کے پاس آیا اور بیگ پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ آنیہ نے اُس کے قدموں کی طرف دیکھ کر سوال کیا
’’تُم نے بھی جاناہے کیا؟‘‘
کدھر ۔۔۔ باجی؟ قُلی نے بھولی صورت کے ساتھ پوچھا۔
واش روم۔۔۔ آنیہ نے قُلی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں باجی۔۔۔! میں تو صاحب کے لیے کھڑا ہوں۔‘‘
میں کھڑی ہوں نا۔۔۔ تُم جاؤ۔۔۔ آنیہ نے روکھے لہجے میں کہا تو قُلی آخری بیگ لے کر ہولے ہولے چلنے لگا۔ جیسے ہی وہ گلی والا دروازہ کھول کر باہر نکلا، آنیہ بھی چل دی۔ قُلی نے ڈبے سے نکل کر وہ بیگ ریڑھی پر رکھا، پھر پلٹ کر دیکھا۔
آنیہ ڈبے سے اُتر رہی تھی۔ اِس سے پہلے کہ قُلی اُس سے کچھ پوچھتا اُس کا فون بجنے لگا۔ اُس نے جلدی سے فون اُٹھاتے ہوئے کہا
’’جی داؤد بھائی۔۔۔‘‘
’’ارے۔۔۔ کدھر ہے تُو؟‘‘
ایک نمبر ڈبے پر۔۔۔‘‘ قُلی نے بتایا۔
وہ رہا۔۔۔ دُور سے آٹھ دس آدمیوں میں سے جگنو نے اُنگلی کے اشارے سے داؤد کو بتایا۔ وہ سب اُس کی طرف بھاگے۔ قُلی ڈبے کی طرف لپکا اور اندر گھس گیا۔
آنیہ نے جب یہ دیکھا تو اُس نے تھوڑی دُور کھڑے دُوسرے قُلی کو اشارہ کیا۔ قُلی پاس آیا تو آنیہ نے کہا
’’اِسے باہر لے چلو۔۔۔‘‘
’’میڈم۔۔۔! یہ تو قاسم کی ریڑھی ہے۔‘‘
قاسم کی نہیں۔۔۔ ریلوے کی ہے۔۔۔ چلو۔۔۔ آنیہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اِس کے باوجود قُلی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ جب آنیہ نے یہ دیکھا تو اپنے لفظوں پر زور دے کر بتانے لگی
میرے پاپا اسٹیشن ماسڑ ہیں۔
یہ سنتے ہی قُلی نے غور سے آنیہ کو دیکھا، پھر چُپ چاپ ریڑھی کو دھکا لگاتے ہوئے چل دیا۔
قُلی ایک ایک کر کے اُس ڈبے کے واش روم دیکھنے لگا۔ اتنے میں داؤد کے بندے بھی اُس ڈبے میں گُھس گئے۔ داؤد نے ڈبے کے سامنے بڑی شان سے کھڑے ہوتے ہوئے ایک وائس میسج بھیجا
’’جبران صاحب۔۔۔ ! کراچی اسٹیشن سے آپ کا بندہ مل گیا ہے۔‘‘

۞۞۞

خان۔۔۔! چھبیس گھنٹے ہو گئے، مگر بندہ نہیں ملا۔۔۔ یہ ہے تُمہارا نیٹ ورک؟  جبران نے چبھتے انداز میں ایک وائس میسج بھیجا۔
وہ سُرمئی رنگ کا ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ میسج بھیجنے کے بعد وہ بختیار بابا کو اپنا موبائل پکڑا کر اپنے چھوٹے سے جم میں داخل ہونے لگا تو اُس کے موبائل پر داؤد کا میسج آ گیا۔ جبران نے موبائل کی اسکرین پر دیکھا
داؤد کراچی۔  اُس نے میسج پلے کیا۔
’’جبران صاحب۔۔۔! کراچی اسٹیشن سے آپ کا بندہ مل گیا ہے۔‘‘

۞۞۞

نہیں ملا داؤد بھائی۔۔۔!  دلوا نے ڈبے سے نکلتے ہوئے داؤد کو اطلاع دی۔
’’کمینو۔۔۔ ڈھونڈو اُسے۔۔۔  داؤد نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
قُلی داؤد کا غصہ دیکھتے ہوئے وہاں سے کھسکنے لگا تو جگنو  نے اُسے گردن سے دبوچتے ہوئے کہا
’’کدھر۔۔۔؟‘‘
’’اِسے میرے پا س لا۔۔۔‘‘
جیسے ہی جگنو  نے قُلی کو داؤد کے سامنے کیا، داؤد نے ایک زوردار تھپڑ سے اُس کا سواگت کیا۔ قُلی زمین پر گرتے ہی کہنے لگا
’’داؤد بھائی۔۔۔! کتنے بندے تُمہیں ڈھونڈ کے دیے ہیں۔۔۔ ایسے مارو تو مت۔۔۔‘‘
داؤد اُس کے روبرو بیٹھتے ہوئے بولا
’’ابے سالے۔۔۔!! مفت میں ڈھونڈ کے دیے ہیں کیا؟‘‘
قُلی شرمندہ ہوا۔ اُس کی اُدھر نظر پڑی جہاں اُس کی ریڑھی کھڑی تھی۔ وہ سٹپٹا اُٹھا۔
’’اُس لڑکی کو سب پتا ہے۔۔۔ وہ کدھر گئی؟‘‘
کس لڑکی کو؟ داؤد نے پوچھا۔
قُلی نے کھڑے ہوتے ہوئے اردگرد دیکھا۔ اسٹیشن کے مرکزی دروازے سے باہر کی طرف جاتی ہوئی آنیہ اُسے دکھائی دی، قُلی نے اُنگلی سے اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا
’’وہ رہی۔۔۔‘‘
داؤد نے آنیہ کو دیکھنے کے بعد فوراً کہا
’’جگنو۔۔۔! تُو اِس کے ساتھ جا۔۔۔ آدھے جگنو کے ساتھ جاؤ اور آدھے دلوا کے۔۔۔‘‘
داؤد کی بنائی ہوئی دونوں ٹیمیں حرکت میں آ گئیں۔
دلوا۔۔۔! اسٹیشن پر کھڑے سب ڈبوں کو چیک کر۔۔۔ اِدھر ہی کہیں چھپا ہو گا سالا۔۔۔
بھاگ کر جاتے ہوئے دلوا کے کانوں میں داؤد کی آواز پڑی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles