31 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 14

 

( 14 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

پانچ سے چھے ٹیکسیاں ایک قطار میں کھڑی تھیں۔ ایک کے علاوہ اُن سب کے ڈرائیور دھوپ میں کھڑے ہو کر گپیں ہانک رہے تھے۔ اُن میں ایک باریش ٹیکسی ڈرائیور بھی تھا جسے سب چاچا بول رہے تھے۔
سب سے آگے والی ٹیکسی کے پاس جا کر قُلی کھڑا ہو گیا۔ آنیہ  نے اُس کے ڈرائیور کو اشارہ کیا۔ ڈرائیور  نے سامان ٹیکسی کی ڈِگی اور چھت پر رکھنے میں قُلی کی مدد کی۔ اُس سے پچھلی ٹیکسی کا ڈرائیور ٹیکسی کے اندر ہی بیٹھا ہوا تھا۔
سندان ہی کی طرح کا ایک حسین آدمی خالی ہاتھ چلتا ہوا آیا اور چُپ چاپ اُس ٹیکسی کا دروازہ کھولتے ہوئے ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ اُس نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور  نے قطار سے اپنی ٹیکسی نکالی اور اُڑن چُھو ہو گیا۔
آنیہ والی ٹیکسی کے ڈرائیور  نے اپنی ٹیکسی کی چھت پر سامان رسّی سے باندھتے ہوئے اُس ڈرائیور کو رشک کی نظر سے دیکھا۔ آنیہ  نے قُلی کو پیسے دے دیے۔ اس کے باوجود وہ قُلی اُدھر ہی کھڑا رہا۔ زیب اور زینت ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکی تھیں۔ فریدہ اپنی بچیوں کے ساتھ اور آنیہ اگلی سیٹ پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ قاسم قُلی کی آواز اُن کے کانوں میں پڑی
’’او۔۔۔ میڈم۔۔۔ آپ کے شوہر کدھر ہیں؟‘‘
آنیہ کو قاسم قُلی کے لہجے کے ساتھ ساتھ اُس کی بے تکلفی پر بھی غصہ آیا۔ قاسم قُلی، جگنو کے ساتھ قدم ملاتا ہوا اُن کی طرف ہی آرہا تھا۔ اُن دونوں کے پیچھے داؤد کے بندے بھی تھے۔ قاسم قُلی اور جگنو، آنیہ اور فریدہ کے روبرو کھڑے ہوئے تو آنیہ نے دانت پیستے ہوئے پوچھا
’’کیا بولے تھے تُم؟‘‘
قاسم قُلی کے ساتھ چھے بندے اور بارہ ہاتھ تھے۔ وہ طاقت کے نشے میں چٹکی بجاتے ہوئے بولا
’’تمہارا شوہر کدھر ہے؟‘‘
یہ سنتے ہی آنیہ نے ایک زوردار تھپڑ قاسم قُلی کے گال پر دے مارا۔ دُوسری طرف سے فریدہ نے بھی ایک تمانچہ اُس کے گال پر جڑ دیا۔ اردگرد کے سارے لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ آنیہ نے اردگرد دیکھا تو بات سنبھالتے ہوئے بولی۔
وہ جو صاحب ابھی ابھی ٹیکسی لے کر نکلے ہیں۔۔۔ اُنھیں یہ کمینہ میرا شوہر بول رہا ہے۔۔۔
زینت اِن سب باتوں سے بے نیاز صرف قاسم قُلی کو دیکھے جا رہی تھی۔ اُسے اپنے ساتھ ہوئی جنسی زیادتی دکھائی دینے لگی۔ قاسم قُلی اُسے مصدق دکھائی دینے لگا۔ آنیہ نے ڈاڑھی والے ٹیکسی ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا
چاچا جی۔۔۔! آپ ہی بتائیں۔۔۔ آپ کی کوئی سواری آپ کو چاچا، ماموں، خالو بولے تو کیا وہ آپ کا رشتہ دار بن جائے گا؟ اُس بندے نے میری بھابھی کو دو چار بار بھابھی کیا بولا۔۔۔ اِس کمینے نے اُسے میرا۔۔۔
آنیہ بات کرتے کرتے رُک گئی۔ چاچا ڈرائیور آگے بڑھا اور کہنے لگا
’’بیٹا۔۔۔! آپ لوگ جاؤ۔۔۔‘‘
آنیہ ٹیکسی کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جگنو کے موبائل پر داؤد کی کال آ گئی۔ اُس نے ایک طرف ہوتے ہوئے کال ریسیو کی اور رازداری سے بتانے لگا
’’بھائی۔۔۔! وہ ٹیکسی لے کر نکل گیا ہے۔‘‘
ٹھیک ہے تُم سب گاڑیوں میں بیٹھو۔۔۔ ہم آ رہے ہیں۔ داؤد نے حکم دیا۔
جگنو نے اپنے بندوں کو اشارہ کیا۔ وہ سب پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑیوں کی طرف چل دیے۔
فریدہ پچھلی سیٹ پر بیٹھنے لگی تو زینت نے باہر نکلتے ہوئے بغیر کسی خوف کے قاسم قُلی کو مجموعی طور پر تیسرا تھپڑ لگا دیا۔ زینت کے تھپڑ میں طاقت کم، مگر جوش پورا تھا۔
قاسم قُلی نے اردگرد دیکھا۔ اُس ایک ننھے سے ہاتھ کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی اُس کے بارہ ہاتھ جا چکے تھے۔ آنیہ بھی باہر نکل آئی۔ اُس  نے زینت کو دیکھا تو وہ  ہلکا سا مسکرائی۔ فریدہ نے زینت کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
دلّالی چھوڑ اور قُلی بن۔۔۔ قاسم قُلی کو اُس کے ساتھی قُلی نے یہ کہا اور وہاں سے چل دیا۔
جا دفع ہو جا۔۔۔اور کتنا ذلیل ہو گا۔ اپنے گال پر ہاتھ رکھے ہوئے قاسم قُلی کو چاچا ڈرائیور نے ہولے سے دھکا مارتے ہوئے کہا۔ قاسم قُلی وہاں سے چلا گیا۔ اُس کے بعد چاچا ڈرائیور بڑی محبت سے بولا
’’بیٹا جی۔۔۔ آپ بھی جاؤ!‘‘
وہ سب ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ٹیکسی وہاں سے نکل گئی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles