23 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 39

 

( 39 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

اُن کی گاڑی ماڈل ٹاؤن کی طرف جاتے ہوئے گارڈن ٹاؤن سے گزر رہی تھی۔
ہفتے بھر کی چھٹیاں ہیں۔۔۔ چراغ والی چلتے ہیں۔  منشا مزاری نے کہا۔ رمشا  نے لمحہ بھر آنکھیں بند کیں، پھر کھولتے ہوئے کہنے لگی
’’تُم ہو آؤ۔۔۔ ‘‘
تُم کیوں نہیں جاؤ گی؟ منشا نے ناگواری سے پوچھا۔
بس۔۔۔ موڈ نہیں ہے۔  رمشا نے بتایا۔
یہاں اکیلی کیا کرو گی؟ منشا نے ڈانٹ ڈپٹ والے لہجے میں سوال کیا۔
دو سیکورٹی گارڈ، ڈرائیور، مالی اور تین تین کام والیاں، پھر بھی کیا میں اکیلی ہوں! رمشا نے بتایا یا پوچھا، منشا کو سمجھ نہیں آئی۔
ماڈل ٹاؤن پارک کے قریب واقع ایک عالی شان بنگلے کے اندر لینڈ کروزر داخل ہو گئی۔ اگلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے عطا اور باڈی گارڈ جیسے ڈرائیور  نے جلدی سے گاڑی سے نکلتے ہوئے اپنی اپنی طرف والے پچھلے دروازے کھول دیے۔ رمشا اپنے کتابوں والے ست رنگی بیگ کے ساتھ گاڑی سے نکلی، جبکہ منشا کا لیدر بیگ اُدھر ہی سیٹ پر پڑا رہا۔ وہ دونوں بنگلے کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو گئیں۔ عطا نے منشا کا بیگ گاڑی سے نکالا۔ اُس کے بعد ڈرائیور نے وہ گاڑی 2008 ماڈل کی سفید ہونڈا کار کے ساتھ کھڑی کر دی۔

۞۞۞

وہ دونوں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی بنگلے کی بالائی منزل پر پہنچ گئیں۔ اُوپر کئی کمرے تھے، جن میں سے دو بڑے اور کشادہ کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ رمشا ایک کمرے میں داخل ہو گئی۔ اُس نے اپنا ست رنگی بیگ ایک کیبن میں رکھا، پھر ایزی چیئر پر دراز ہو گئی۔
پورا ہفتہ یہاں کیا کرو گی؟  منشا نے کھڑے کھڑے ہی پوچھ لیا۔
رات بھر ناول پڑھا کروں گی۔۔۔ دن میں لمبی تان کے سوؤں گی اور پچھلے ٹائم پارک میں جاگنگ کے لیے جایا کروں گی۔۔۔ ہو سکتا ہے پتوکی ثمرہ کے کزن کی شادی میں بھی چلی جاؤں۔۔۔ یا پھر ایک دو دن کے لیے آفرین کی طرف سے ہو آؤں۔
رمشا کے بتانے پر منشا نے بے زاری سے گرم ہوا اپنے نتھنوں سے خارج کی، پھر کہنے لگی
میرا تو کورس کی کتابیں کھولنے کو بھی دل نہیں کرتا۔۔۔ کیسے پڑھ لیتی ہو اتنے لمبے لمبے ناول؟
اِس سے پہلے کہ رمشا کوئی جواب دیتی کھلے ہوئے دروازے پر دستک ہوئی۔ منشا نے اُس طرف دیکھا۔ ایک ملازمہ ٹرے میں پانی اور فریش جوس رکھے چوکھٹ پر کھڑی تھی۔ منشا  نے کہا
لے آؤ۔۔۔
ملازمہ پہلے منشا کے قریب آئی۔ اُس نے ٹرے سے فریش جوس کا گلاس اُٹھا لیا۔ اس کے بعد ملازمہ ایزی چیئر پر لیٹی ہوئی رمشا کے قریب گئی۔ رمشا نے بیٹھتے ہوئے ٹرے سے پانی پکڑ لیا، پھر اُس کا ایک گھونٹ پیا اور باقی پانی ایزی چیئر کے ساتھ پڑی ہوئی چھوٹی میز پر رکھ دیا۔ جب ملازمہ واپس منشا کے پاس آئی، تب تک وہ اپنا جوس ختم کر چکی تھی۔ اُس نے خالی گلاس ملازمہ کو دیا۔ ملازمہ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ منشا اُس کے بعد دوٹوک انداز میںرمشا سے مخاطب ہوئی
بابا سائیں کو فون کر کے یہاں رُکنے کی اجازت لے لینا۔۔۔ شادی پر مت جانا۔۔۔ آفرین تو چلو پھر بھی ٹھیک ہے۔۔۔ ثمرہ سے دوستی تمھاری شان کے خلاف ہے۔
منشا کی بات سنتے ہی رمشا نے بے زاری سے بولنا شروع کیا
یہ شان و شوکت مجھے اکثر قید لگنے لگتی ہے۔۔۔ تنگ آ چکی ہو ں میں اِس  نام نہاد شان شان شوکت سے۔۔۔ نہیں جی سکتی میں تمھاری طرح۔۔۔ شان و شوکت تلوار ہاتھ میں تھامے ہر وقت نفرت کے گھوڑے پر سوار … یونیورسٹی کی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکے بھی تم سے ڈرتے ہیں۔۔۔ تُم صرف ایک ہی جذبے کے ساتھ جیے جا رہی ہو
رمشا خاموش ہوئی تو منشا نے بڑے دھیمے لیجے میں کہا
اور بھی کچھ کہنا ہے تو کہہ لو۔۔۔‘‘ منشا نے نرم رویے کے بعد رمشا مسکراتے ہوئے ایزی چیئر سے اُٹھی اور منشا کے قریب آکر اُس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی
’’کب تک مناؤ گی لالہ کی موت کا سوگ ‘‘
’’جب تک اُسے موت کے گھاٹ نہیں اُتار دیتی۔ ‘‘
افسوس! امداد سے حقیقت جاننے کے بعد بھی تم نے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔۔۔ اُس کی جگہ کوئی بھی غیرت مند ہوتا تو وہ وہی کرتا جو اُس نے کیا۔  رمشا نے سنجیدگی سے کہا۔
اُسے غیرت یاد آگئی اور محبت بھول گیا۔۔۔ میں نے اُسے اپنے ہر رشتے سے بڑھ کر چاہا تھا۔۔۔ میں مانتی ہوں لالہ نے غلط بات کی تھی۔۔۔ وہ میرا ہی لحاظ کر لیتا۔‘‘ منشا نے کھنکتی آواز میں کہا۔ یہ سنتے ہی رمشا کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ نے قدم رکھے۔ وہ کرب سے بولی
لحاظ۔۔۔ تم نے یہ مشورہ بابا سائیں کو اُس وقت کیوں نہ دیا۔۔۔ جب وہ اور اُن کے ساتھی گدھ۔۔۔ دن رات اُس کی ماں کو نوچ رہے تھے۔
رمشا!  منشا نے آنکھیں دکھاتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر اپنی ہی اُنگلی رکھ کر منشا کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ رمشا چپ ہو گئی تو منشا غصے سے پلٹی اور رمشا کے کمرے کا دروازہ زور سے مارتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
رمشا  نے افسردگی سے گہری سانس لی۔

۞۞۞

منشا اپنے تیز اور گاڑھے رنگوں والے کمرے میں داخل ہوئی تو عطا اُس کا لیدر کا بیگ کمرے میں رکھ کر واپس جا رہاتھا۔
عطا۔۔۔! جانے کی تیاری کرو۔۔۔!  منشا نے غصے کے عالم میں عطا کو دیکھے بغیر کہا۔
بہتر۔۔۔ بی بی سرکار۔۔۔!‘‘نظریں جھکائے عطا نے مختصرسا جواب دیا اور وہاں سے چلا گیا۔
منشا نے اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے کمرے کی بڑی سی کھڑکی کے پردے پیچھے ہٹائے۔ دسمبر 2008ء کے سورج کی کرنوں نے آم کے پیڑ کے پتوں سے لڑتے جھگڑتے اُس کے رُخساروں کو چھوا۔ کھڑکی کی گرل کو تھامتے ہوئے منشا نے آنکھیں بند کر لیں۔

۞۞۞

پھر اُسے دکھائی دینے لگا ۔ اُس کے پُرکھوں کی شان دار حویلی کے ایک کمرے کی جالیاں تھامے چودہ سالہ  منّو  صحن میں بیٹھے تین سولہ سالہ لڑکوں کو چھپ کر دیکھ رہی ہے۔ اُن تین لڑکوں میں اُس کا بھائی طلال، امداد اور سونو تھا۔ اُس کی نظریں سونو پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔
رمشا نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولتے ہوئے اپنے تصور کا گلا دبا دیا، پھر وہ آنکھوں میں انگارے دہکائے دل ہی دل میں بولی
سونو۔۔۔! مجھے تجھ سے شدید نفرت ہے۔۔۔ نفرت۔۔۔
بی بی سرکار۔۔۔! گاڑی تیار ہے۔  عطا کی آواز پر وہ چونکی۔ اُس نے آواز کی سمت دیکھا۔ عطا اُس کے کمرے سے باہر کھلے ہوئے دروازے کے سامنے نظریں جھکائے کھڑا تھا۔ اُ س نے لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا
’’آ رہی ہوں میں۔۔۔
عطا وہاں سے چلا گیا تو وہ تازہ دم ہونے کے لیے واش روم میں گھس گئی۔ وہ بیسن کی ٹونٹی کھول کر دھڑادھڑ منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔ اصل میں وہ پانی کے چھینٹوں کے بجائے خود پر ہی لعنت ملامت کا چھڑکاؤ کر رہی تھی۔ اُسے آیا بھی کیسے اپنے بھائی کے قاتل کا خیال۔۔۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles