( 33 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
بیس سال پہلے امداد ثاقب، سرمد عرف سونو اور سردار طلال دسویں جماعت میں تھے۔ سونو کلاس کا سب سے لائق اور طلال سب سے نالائق جبکہ امداد درمیانے درجے کا طالب علم تھا۔ ظاہری شکل و صورت میں بھی وہ اسی ترتیب سے تھے۔ سونو بہت حسین تھا۔ طلال بدصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بدتمیز بھی تھا۔
سونو کی طرح ہی اُس کا باپ نواب ترکھان بھی اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ والدین کے مرتے ہی نواب نے اپنے گھر اور دکان کو تالا لگایا اور گاؤں سے چلا گیا۔ چند سال بعد نواب گاؤں لوٹا تو اُس کے ساتھ ایک حسین خاتون اور ایک سال بھر کا بچہ تھا۔ گاؤں کی بڑی بوڑھی عورتوں کے پوچھنے پر نواب نے بتایا
یہ میری بیوی ہے ’’گوہر‘‘۔ پوری بارہ جماعتیں پاس ہے اور یہ میرا بیٹا سرمد۔ پیار سے ہم اسے سونو کہتے ہیں۔ گاؤں کی عورتوں میں سے گوہر کا نام تو کسی کو یاد نہ رہا، اس کی گوری رنگت کوئی بھول نہ سکی۔ اس طرح گوہر کا نام گوری پڑ گیا۔ گوری نے گاؤں کے بچوں کو اپنے گھر مفت پڑھانا شروع کر دیا، اس طرح گوری کی عقل اور حسن کے گھر گھر چرچے ہونے لگے۔
گوری پردہ کرتی تھی اور گاؤں کے ہر مرد نے اُس کے حسن کے چرچے سن رکھے تھے۔ مردوں کی اکثریت داؤ گھات کے چکر میں تھی۔ اس لیے کوئی مرد اپنی کھاٹ توڑ لاتا اور کوئی کرسی۔ کسی کو ُکھرلی بنوانی ہوتی اور کسی کو پنجالی۔
سارا دن نواب ترکھان کی دکان پر رونق لگی رہتی اور سارے مرد تانک جھانک میں لگے رہتے۔ گوری بھی ایمان کی پکی تھی۔ وہ بھلی مانس، مردوں کے جنتر منتر سے بچتی بچاتی وقت گزارتی رہی۔
نویں جماعت کا نتیجہ نکلا تو ہمیشہ کی طرح سونو کی پہلی پوزیشن تھی اور امداد کی تیسری۔ طلال اگر سرداروں کا بیٹا نہ ہوتا تو ماسٹر اُسے پاس بھی نہ کرتے۔ وہ تینوں خوشی خوشی گاؤں لوٹے تھے، آتے ہی ایک منحوس خبر انھیں ملی
’’نواب ترکھان کو کالے ناگ نے ڈس لیا ہے۔‘‘
وہ تینوں پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ سونو کے گھر پہنچے تو ایک میلہ لگا ہوا تھا۔
حکیم پٹی باندھ رہا تھا اور مولوی پھونکیں مار رہا تھا۔ ان دو فرشتوں کے علاوہ باقی گاؤں کے بیشتر مرد للچائی ہوئی نظروں سے گوری کو تاڑ رہے تھے۔ جب کسی کا وقت آ جائے تو پھونکیں اور پٹیاں بھی کام نہیں آتیں۔ نواب مر گیا۔ غریب کا مال و متاع ہی کتنا ہوتا ہے۔
چھے مہینے بعد سونو کے گھر روٹی کے لالے پڑ گئے۔ غربت نے اُس گھر میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ غربت کی دیمک بھی گوری کے حسن کو نہ کھا سکی۔ سونو غربت کو بھگانے کے لیے اسکول چھوڑنے لگا تو ہیڈ ماسٹر فیض رسول صاحب نے اُسے سمجھایا
سونو! تم سارے بورڈ میں ٹاپ کر سکتے ہو۔ اس لیے کسی طرح یہ چھے مہینے نکال لو۔
فیض رسول صاحب سونو کی قابلیت کے قدر دان تھے۔ سارا علاقہ فیض رسول صاحب کی شرافت اور صاف گوئی کا گواہ تھا۔
طلال کے باپ سردار بلاج کو جب سونو اور گوری کے حالات کا پتا چلا تو اس نے اُن کو نوازنے کا فیصلہ کر لیا۔ طے یہ پایا کہ سونو طلال کے ساتھ ساتھ اُس کی چھوٹی بہنوں منشا اور رمشا کو بھی پڑھایا کرے گا اور گوری سرداروں کی حویلی میں کام کرے گی۔ اس کے بدلے سردار بلاج اُن کے گھر کا چولہا بجھنے نہیں دے گا اور سونو کا قلم رُکنے نہیں دے گا۔
۞۞۞
اُن کے بورڈ کے امتحان قریب تھے۔ وہ اسکول سے فارغ ہو چکے تھے۔ ایک دن اُن تینوں نے سردار بلاج کے ڈیرے کے پاس ٹیوب ویل پر بیٹھ کر پڑھنے کا پروگرام بنایا۔ سردار بلاج نے پکی سڑک کے آر پار کوئی سو ایکڑ کے لگ بھگ کماد لگا رکھا تھا۔ طلال نے اپنے کامے سے ٹیوب ویل پر گنے منگوا لیے۔
ٹیوب ویل کے ارد گرد مٹی کا ایک تھڑا تھا جس پر ہری ہری گھاس کے اوپر چند اینٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ اُسی گھاس پر بیٹھ کر گنے چوسنے لگے۔ کاما واپس ڈیرے پر چلا گیا۔ کافی دیر بعد سونو بولا
اب کچھ پڑھ بھی لینا چاہیے۔ اُن تینوں نے ٹیوب ویل کے چبچّے سے ہاتھ دھوئے اور کتابیں لے کر بیٹھ گئے۔ طلال پڑھنے کے بجائے کچھ سوچ رہا تھا۔
پڑھتے کیوں نہیں…؟ کیا سوچ رہے ہو … ؟ سونو نے طلال کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’سوچ نہیں رہا… کھلی آنکھوں سے گوری کو دیکھ رہا ہوں۔
طلال نے بغیر کسی لحاظ کے بول دیا۔ اس سے پہلے کہ امداد کچھ کہتا، سونو نے پریشانی میں پوچھا
’’کس گوری کی بات کر رہا ہے تو … ؟‘‘
’’تیری ماں کے علاوہ بھی کوئی گوری ہے گاؤں میں …؟‘‘
طلال کی بات سننے کے بعد امداد کے چہرے پر حیرانی اور سونو کے پریشانی تھی۔ امداد نے جلدی سے کہا
اس کی ماں ہم دونوں کو پتر کہتی ہے طلال
وہ تو گاؤں کے مردوں کو پتر، لالہ اور چاچا ہی کہتی ہے۔ پھر بھی کوئی مرد بھی اُسے ماں، بہن اور بیٹی نہیں سمجھتا۔
کیا بکواس کر رہا ہے تو … آدھے سے زیادہ گاؤں چاچی کی عزت کرتا ہے۔
امداد نے طلال کو ڈانٹتے ہوئے بتایا۔
سب اوپر اوپر سے … اندر سے سارے مرد ہی گوری کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
طلال نے حریص نظروں سے سونو کی طرف دیکھتے ہوئے اصل بات بتائی۔
چل امداد یہاں سے چلتے ہیں… سونو نے امداد کو کلائی سے پکڑتے ہوئے اپنی طرف کھینچا۔
جا بزدل جا… گوری کی چادر میں جا کر چھپ جا…
طلال نے کاٹ دار لہجے میں سونو کو طعنہ دیا۔ سونو امداد کی کلائی تھامے ٹیوب ویل سے چل پڑا۔ پیچھے سے اُن کے کانوں میں طلال کی متکبرانہ آواز پڑی
کبھی کبھی تو میرا دل کرتا ہے۔ گوری کے ساتھ ساتھ تجھے بھی رنگ دوں۔
طلال کی یہ اناپ شناپ سنتے ہی، سونو امداد کی کلائی چھوڑتے ہوئے پلٹا، وہ طلال کی طرف لپکا اُس نے گھاس سے اینٹ اُٹھائی اور طلال کی کنپٹی پر زور سے دے ماری۔ لمحوں میں ہی طلال کے سارے کَس بَل نکل گئے۔ وہ ٹیوب ویل کے چبچّے میں گر گیا۔ ڈیرے سے گنے دے کر جانے والے کامے کی نظر پڑی تو وہ چلایا
اوئے سونو ! تو نے چھوٹے سردار کو مار ڈالا !‘‘ یہ سنتے ہی سونو نے گنے کے کھیتوں کی طرف، امداد اور کامے نے طلال کی طرف دوڑ لگا دی۔
امداد نے جا کر چبچّے میں گرے ہوئے طلال کو اُٹھایا۔ چبچّے کا پانی سرخ اور طلال کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اتنے میں ڈیرے سے کاما بھی وہاں پہنچ گیا، جب اُس نے یہ دیکھا تو وہ یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے
گوری کے منڈے ’’سونو‘‘ نے چھوٹے سردار کو قتل کر دیا۔ سرپَٹ دوڑتا ہوا کاما گاؤں کی طرف نکل گیا۔
پندرہ بیس منٹ بعد آدھا گاؤں ٹیوب ویل پر اور آدھا سونو کی تلاش میں نکل گیا۔ کماد کے ساتھ ساتھ سردار کے آدمیوں نے اپنے اور ہیڈ ماسٹر فیض رسول صاحب کے گاؤں کا بھی کونا کھدرا بھی دیکھ لیا، مگر سونو نہیں ملا۔
۞۞۞
تقریباً دو مہینے بعد ایک دن گاؤں میں شور اُٹھا
گوری مر گئی۔ دوسرے گاؤں والوں کی طرح امداد بھی بھاگتا ہوا سونو کے گھر پہنچا۔ گوری اپنے خستہ حال کمرے میں زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ اُس نے چھری سے اپنی کلائی کاٹی تھی۔ کلائی سے خون رس رس کے مٹی میں جذب ہو چکا تھا۔ اُس کا دودھیا بدن خون بہنے سے مزید سفید دکھائی دے رہا تھا۔
گاؤں والے گوری کی گوری لاش کو دیکھتے، افسوس کرتے اور چُپ چاپ وہاں سے چلے جاتے۔ امداد نے بھی ایسا ہی کیا۔ سردار کے ڈر کی وجہ سے کوئی بھی گوری کے کفن دفن کے لیے آگے نہیں آ رہا تھا۔
جب امداد نے فیض رسول صاحب کو سونو کے گھر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو اُس نے کسی کی پروا کیے بغیر اُن کے قدم سے قدم ملا دئیے۔
گاؤں کے چار مولویوں میں سے کسی نے بھی گوری کا جنازہ پڑھانے کی ہمت نہیں کی۔ فیض رسول صاحب نے گوری کا جنازہ پڑھوایا، اُن کے پیچھے دس بارہ افراد اور تھے۔ جن میں امداد ثاقب بھی تھا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞