29 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 34

 

( 34 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

سونو پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اپنی دُکان سے وہ پنڈی والا کالا پلاسٹک لے کر بھاگا جس میں اُس کی ماں اور ماسٹر صاحب کے خط تھے۔ جیسے ہی سونو گھر کے اندر داخل ہوا، ساتھ ہی کامی کا فون بجنے لگا۔ اُس نے لمبی لمبی سانسیں بھرتے ہوئے کال ریسیو کی
’’جی ٹیپو بھائی؟‘‘
اوئے کامی۔۔۔! تیری سانس کیوں پھولی ہے؟  ٹیپو نے پوچھا۔
ٹیپو بھائی۔۔۔! پہلے وہ گھر سے نکل کر بھاگ دیا۔۔۔ ہمیں لگا بھاگنے لگا ہے۔۔۔ ہم  نے بھی اُس کے پیچھے دوڑ لگا دی، پھر وہ ایک دُکان میں گھس گیا۔۔۔ میں اور ججی باہر کھڑے ہو گئے، پھر وہ دُکان سے بھاگتا ہوا واپس اُسی گھر میں آ گیا ہے۔۔۔ سالے نے دوڑا دوڑا کے مار دیا۔ ‘‘
’’دیکھ کامی۔۔۔! اُس پر ابھی صرف نظر رکھنی ہے۔۔۔ اُٹھانا رات کو ہے۔‘‘
’’جی ٹیپو بھائی۔۔۔ ‘‘
تُو مجھے اپنی لوکیشن بھیج۔۔۔ میں بندے لے کر پہنچ رہا ہوں۔ ٹیپو نے اگلا حکم دیا۔ کامی نے کال کاٹتے ہی اُس جگہ کی لوکیشن بھیج دی۔

۞۞۞

سونو آنکھیں بند کیے ہوئے ممٹی کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ امداد نے جب یہ دیکھا تو اُسے فکر لاحق ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے قریب گیا اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہنے لگا
’’خیریت تو ہے؟‘‘
سونو نے آنکھیں کھول دیں۔ اُس کی نیلی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ بولنا چاہتا تھا پر بول نہیں پا رہا تھا۔ سونو نے ہمت کر کے اُس کالے پلاسٹک میں سے ایک خط نکال کر امداد کو تھما دیا۔ امداد نے اُسے پکڑا، پھر پوچھنے لگا
’’یہ کیا ہے؟‘‘
گوری کا میرے نام پہلا اور آخری خط۔۔۔‘‘ سونو بڑی مشکل سے بتا پایا۔ امداد نے اُسے بازو سے پکڑا ور اُنھی کرسیوں میں سے ایک پر بٹھا دیا اور خود اُس کے سامنے بیٹھتے ہوئے خط کے لفافے کو کھولنے لگا۔ جب وہ خط کھول چکا تو سونو نے نظروں سے امداد کو خط پڑھنے کا کہا۔ امداد نے خط کھول کر اُونچی آواز میں پڑھنا شروع کیا
السلام علیکم
سونو ! میں لاہور ہیرا منڈی کی ایک طوائف زادی تھی۔‘‘
یہ پڑھتے ہی امداد ثاقب کو حیرت کا شدید دھچکا لگا۔ اُس نے سونو کی طرف دیکھا۔ سونو نے اُسے نظروں ہی سے خط پڑھنے کا اشارہ کیا۔ اُس کا چہرہ ہر طرح کے تاثرات سے ماورا تھا۔ امداد نے تھوڑی اُلجھن کے ساتھ پھر سے خط پڑھنا شروع کر دیا
نواب نے ہمارے کوٹھے پر لکڑی کے کام کا ٹھیکہ لیا تھا۔ میرا نواب پر دل آ گیا۔ اس سے پہلے کہ میری نتھ اُتروائی کی رسم ہوتی۔ میں نے ایک پلاننگ کے تحت نواب کے ساتھ بھاگنے کا پروگرام بنا لیا۔ بھاگنے کے بعد میں نے نواب سے نکاح کر لیا۔ نواب ہمارے کوٹھے پر کام بھی کرتا رہا اور اس  نے اپنا کوارٹر بھی نہیں چھوڑا۔
میں اپنی ایک کلاس فیلو جو میری پکی سہیلی تھی اُس کے گھر کریم پارک میں روپوش تھی۔ سہیلی کے ابو اگر مسقط نہ ہوتے تو شاید مجھے اُس گھر میں پناہ نہ ملتی۔
میری اماں بیگم نیلوفرجان بڑی شاطر تھی۔ اُس نے کوئی دس پندرہ دن نواب کے پیچھے اپنے آدمی لگائے رکھے۔ نواب کو میں نے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ بھول کر بھی کریم پارک کا رُخ نہ کرے۔ نواب ہیرا منڈی سے قصور پورہ اپنے کوارٹر اور وہاں سے ہیرا منڈی ہی آتا جاتا تھا۔
میرے بھاگنے کے اکیس دن بعد نواب نے کوٹھے کا کام مکمل کر دیا۔ مہینہ بعد قصور پورہ والے کوارٹر کے مالک نے نواب کو خود ہی کوارٹر خالی کرنے کا بول دیا۔ نواب دس دن اپنے ایک دوست کے کوارٹر میں بھی رہا۔ اماں کے آدمی وہاں بھی جاسوسی کے لیے آتے رہے۔
دس دن بعد نواب کے دوست نے بھی جواب دے دیا۔ تین چار دن داتا صاحب سونے کے بعد ایک رات نواب کریم پارک آیا۔ میں  نے اپنی سہیلی کی ماں کا برقع پہنا اور ہم کراچی فرار ہو گئے۔ تمھارے پیدا ہوتے ہی میں نے نواب سے ضد کرنا شروع کر دی کہ وہ مجھے جنوبی پنجاب ’’ چراغ والی‘‘ اپنے گاؤں لے چلے۔
یہ کہانی تمھارے چراغ والی جانے سے پہلے کی تھی۔
امداد نے کاغذ کے پنوں سے گردن اُٹھا کر ایک بار پھر سونو کی طرف دیکھا۔ لفظوں کی لشکرکشی بھی اُس کے چہرے پر کسی طرح کے تاثرات لانے میں ناکام رہی تھی۔ اُس کا رنگ ڈھنگ دیکھنے کے بعد امداد نے خط کا دُوسرا پنا پڑھنا شروع کر دیا
اب سنو تمھارے چراغ والی چھوڑ کے جانے کے بعد کا قصہ … سردار بلاج  نے اپنے بیٹے کو دفنانے کی رات ہی میری عزت کی چادر اُتار لی تھی۔ پھر یہ دن رات ہونے لگا۔ میں اُس کی حویلی میں قید تھی، کرتی بھی تو کیا؟
جب اُس کا مجھ سے دل بھر گیا، پھر اُس نے مجھے اپنے رشتے داروں کے حوالے کر دیا۔ رشتے داروں کے بعد کموں کے مزے ہو گئے۔
پتہ نہیں وہ لوگ چالیس روزہ سوگ منا رہے تھے یا پھر میرے ساتھ جشن … چالیس دن کے بعد حسب توفیق گاؤں کے ہر دوسرے مرد نے میری کلائی پکڑی … نواب نے میرا ہاتھ تھاما تھا، اُس کے بعد ہر مرد نے میری کلائی ہی پکڑی ہاتھ کسی نے نہیں تھاما … اب یہ کلائی زخموں سے چوُر چوُر ہو چکی ہے، سوچ رہی ہوں اسے آرام دے دوں۔
کئی بار سوچا اپنی اماں کے پاس واپس چلی جائوں، پھر اس ڈر سے نہیں گئی کہ اماں پوچھے گی تو کیا بتائوں گی…؟
ہمارے کوٹھے پر آوارہ کتوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ طوائف زادیوں کا جسم چاٹنے کے لیے صرف خاندانی نسلی کتے ہی آیا کرتے تھے۔ جن کے گلوں میں ذات، برادری اور عہدوں کے پٹے بندھے ہوتے۔ یہاں چراغ والی میں تو چند مردوں کے علاوہ باقی سارے ہی جنگلی کتے ہیں۔ یہ جنگلی کتے عورت کا جسم چاٹنے کی بجائے نوچتے ہیں۔
اُن چند مردوں میں امداد کے گھر کے مرد اور فیض رسول صاحب ہیں۔ امداد ہر روز چھپتے چھپاتے مجھے کھانا دے جاتا ہے۔ ایک دو بار تو وہ میرے لیے حکیم سے دوائی بھی لے کر آیا۔
وہ مجھ سے اکثر پوچھتا ہے چاچی تمھارا حال کیسا ہے ؟ اب اُسے کیا بتاؤں ؟ امداد  نے مجھے بتایا کہ تم  نے طلال کے سر میں اینٹ کیوں ماری… یقیناً تمھاری غیرت نے جوش مارا ہو گا … خیر غیرت کی چھوڑو … فیض رسول صاحب نے ذکر کیا تھا کہ اُن کا تمھارے ساتھ خط کے ذریعے رابطہ ہے۔ اِس لیے سوچا میں بھی تمھارے نام پہلا اور آخری خط لکھ کے فیض رسول صاحب کو دے دوں۔
’’چراغ والی‘‘ کی گوری  ‘‘

۞۞۞

خط پڑھتے ہوئے امداد کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ امداد  نے کھڑے ہوتے ہوئے سورج کی طرف دیکھا جو اپنا بستر گول کر چکا تھا۔ امداد بھی ڈانواں ڈول تھا۔ اتنے میں سونو کا عام سا فون بجنے لگا۔ اُس  نے کال ریسیو کی۔
یار سنی۔۔۔  دو جنانیاں کب سے تیرا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ تو بجلی کی طرح آیا اور پھر چلا بھی گیا۔۔۔ اُن کو تو میرا ویر آ کے فارغ کر جا۔۔۔!  دُکان کے مالک حاجی صاحب  نے موبائل پر کہا۔
حاجی صاحب۔۔۔  میرا ایک دوست آیا ہے۔  سونونے بتایا۔
اُسے بھی دُکان پے ہی لے آ۔۔۔  حاجی صاحب نے بڑے خلوص سے کہا۔
جی آتا ہوں۔۔۔  سونو  نے بے زاری سے کہتے ہوئے کال کاٹ دی، پھر امداد سے کہنے لگا
آؤ تمھیں تندوری چائے پلاتا ہوں۔  امداد  نے لمحہ بھر سونو کی بات پر غور کیا۔ وہ بھی اُس کڑوی حقیقت کو جاننے کے بعد مضطرب تھا۔ اس لیے امداد، سونو کے ساتھ جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔


(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles