Home اردو ادب ( مجروح ( قسط نمبر 32

( مجروح ( قسط نمبر 32

حیدر آباد میں ماسٹر صاحب کے ایک پرانے شاگرد نے چوڑیوں کا کارخانہ بنا رکھا تھا، میں وہاں پہنچ گیا۔ ایک مہینے بعد اُسی پتے پر مجھے ماسٹر صاحب کا ایک خط ملا۔

0
535

 

( 32 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

اگلے دن صبح سویرے ہی لاہور کے کونے کونے میں سرمد کی تلاش شروع ہو گئی۔ فقیر، ہیجڑے، قُلی، موچی، مزدور، کام والی ماسیاں، لفنڈر، لونڈے لپاڑے ہر کوئی اپنا اپنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ پاس سے گزرتے ہر آتے جاتے چہرے میں سرمد کو تلاش کر رہا تھا۔ حسبِ معمول دن گیارہ بجے سرمد تیار ہو کر اچھرہ بازار لاہور کی بڑی کاسمیٹکس کی دُکانوں میں سے ایک دُکان پر پہنچا اور اپنا چوڑیوں والا سیکشن سنبھال لیا۔ دُکان میں بہت سے سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے جن میں سے ایک بالکل اُس کے سامنے تھا۔
دسمبر2020ء کے بعد سے اُس نے کیمروں سے چھپنا چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ ماسک بھی نہ لگاتا۔ دوپہر بارہ سے دو بجے تک وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے اُسے سر اُٹھانے کی بھی فرصت نہ ملی۔ اڑھائی بجے کھانے کا وقفہ ہوا۔
وہ کھانا کھا کے چند منٹ کے لیے دُوسری منزل سے نیچے آیا۔ ایسے ہی چلتے چلتے وہ دُکان کے مرکزی دروازے سے باہر نکلا۔ اُس کی سماعتوں سے ایک آواز ٹکرائی ۔ اُس کے کان کھڑے ہو گئے۔ نظروں  نے تلاش شروع کر دی۔
تین باپردہ پندرہ سے سترہ سالہ لڑکیوں کے ساتھ ایک سفید شلوار قمیص کے اُوپر کالی ویس کوٹ پہنے چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی والا شخص بات کر رہا تھا۔ اُس شخص کا دایاں ہاتھ پندرہ سالہ لڑکی کے بازو پر تھا۔ سرمد نے اُس کے چہرے پر غور کیا، جس کا سرمد کو خیال تھا۔
وہ وہی تھا۔ اُس  نے خود کی تسلی کی خاطر اُس کے سیدھے ہاتھ کی پشت کی طرف دیکھا۔ اُس پر چنے کے دانے کی جسامت والا تل بھی موجود تھا۔ اسی اثناء میں وہ شخص بازار سے اُن لڑکیوں کے ساتھ مین فیروزپور روڈ کی طرف چل دیا۔
سرمد نے اپنی دُکان میں بتائے بغیر ہی اُن کا پیچھا شروع کر دیا۔ سامنے سے آتے ہوئے دو لڑکوں ججی اور کامی میں سے ججی کی نظر سرمد پر پڑی جس کی ساری توجہ اُس شخص پر مرکوز تھی۔ وہ دونوں واپس مُڑے اور سرمد کا تعاقب کرنے لگے۔ کامی  نے ایک نمبر ملایا اور بڑی رازداری سے منہ پر ہاتھ رکھ کر بتانے لگا
’’ٹیپو بھائی۔۔۔! بندہ مل گیا ہے۔‘‘
ٹیپو یہ خبر سنتے ہی جھوم اُٹھا
’’او ۔۔۔ تیری۔۔۔ شہزادہ۔۔۔ شہزادہ۔۔۔ کدھر سے ملا؟‘‘
’’میں اور ججی اچھرہ بازار میں اُس کے پیچھے ہی ہیں۔‘‘
’’اُس کا پورا دھیان رکھو۔۔۔ میں تھوڑی دیر میں بتاتا ہوں کیا کرنا ہے۔ ‘‘
جی ٹیپو بھائی۔۔۔!  کامی نے یہ کہنے کے بعد کال کاٹ دی۔ اُس نے دیکھا ججی اُن سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ اب وہ مین فیروزپور روڈ پر پہنچ چکے تھے۔ جب وہ شخص اور تین لڑکیاں کار میں بیٹھنے لگے تو سرمد نے بڑی اپنائیت سے اُس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
امداد ثاقب۔ امداد نے مڑ کر دیکھا۔ ایک حسین مرد تھا۔
کون ہو بھائی؟   امداد  نے پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
’’چراغ والی کا سونو۔۔۔ ‘‘
سونو … ؟‘‘ امداد ششدر کھڑا اُسے دیکھے جا رہا تھا۔ سونو  نے آگے بڑھ کر امداد کی تینوں بیٹیوں کے سر پر بڑی عقیدت سے پیار دیتے ہوئے کہا
بیٹا! آپ ڈرائیور کے ساتھ گھر جاؤ! پاپا تین چار گھنٹے تک آ جائیں گے۔ امداد کی بڑی بیٹی  نے مشاورتی نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا، اُس نے اثبات میں سر کو ہلایا۔ کار کے جاتے ہی سونو امداد سے لپٹ کر بلک بلک کر رونے لگا۔ فیروز پور روڈ سے گزرنے والے مڑ مڑ کر انھیں دیکھ رہے تھے۔ سونو کو کسی کی پروا  نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد امداد نے سونو کو خود سے الگ کیا تو اُس نے جذباتی انداز میں بتایا
’’میں روز اِس بے حس معاشرے سے گوری کا بدلہ لیتا ہوں۔‘‘
بدلہ کیوں … ؟ چچی نے تو خود کشی کی تھی …  امداد نے سونو کو بتایا۔
’’دو ماہ تک ہر روز اُس پر ہوس کی چھری چلی تھی۔
سونو نے تڑپ کر کہا۔ امداد  نے اردگرد دیکھا۔ سونو نے اُس کی پریشانی بھانپ لی۔
ادھر پاس ہی میری رہائش ہے۔ سونو  نے آگے چلتے ہوئے بتایا۔ سونو نے جینز کی پینٹ کے ساتھ جینز ہی کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ شرٹ کے اوپر کالی لیدر کی نئی جیکٹ تھی۔ اُس کی چال کسی ماڈل کی طرح تھی۔ وہ خود بھی دیکھنے میں کسی ماڈل سے کم نہیں تھا۔ لمبے لمبے بال، گوری رنگت، دراز قد، ہلکی نیلی آنکھیں۔ امداد کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی ابھی جوان ہوا ہے۔ امداد چپ چاپ چار، پانچ منٹ تک اُس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا اُس کے خدوخال پر غور کرتا رہا۔
سونو ایک پُرانے مکان کے مضبوط لوہے کے دروازے کا لاک باہر سے کھول کے اندر داخل ہو گیا۔ امداد کے اندر داخل ہونے کے بعد اُس نے دروازے کو بند کر دیا تو پھر سے اُس کا لاک لگ گیا۔
مکان کے اندر اندھیرا تھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ پہلی منزل کے بعد دوسری پھر تیسری تینوں منزلوں میں رہائش نہیں تھی، سب کمروں کے دروازوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔
وہ دونوں چوتھی منزل کی چھت پر پہنچ گئے۔ چھت کے دائیں بائیں تین سے پانچ منزلہ گھر ہی گھر تھے، جن کی چھتیں ساتھ ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ تیسری سمت میں تنگ سی گلی تھی اور چوتھی سمت میں فیروز پور روڈ تھا۔ چھت سے فیروز پور روڈ پر بنا میٹرو بس کا پُل صاف دکھائی دے رہا تھا۔
جس پر سے ہر چند منٹ بعد میٹروبس کی لال بس گزر رہی تھی۔ وہ الگ بات تھی کسی بس نے گجومتہ کے آخری اسٹاپ پر پہنچ کر پلٹ آنا تھا اور کسی نے شاہدرہ کے پہلے اسٹاپ سے۔۔۔ اس سب کے باوجود وہ اپنی اپنی منزلوں کی جانب گامزن تھیں۔
اُس گھر کی چوتھی منزل پر صرف ایک کمرا اُس کے آگے برآمدہ، برآمدے کی ایک طرف لکڑی کے تختوں سے واجبی سا باورچی خانہ بنایا گیا تھا۔ چھت کے ایک کونے میں بغیر چھت کے ایک لیٹرین تھی ۔ امداد  نے لمحوں میں ہی اُس گھر کی چھت اور محل وقوع کا جائزہ لے لیا تھا۔
پلاسٹک کی دو پرانی کرسیاں چھت پر جاتی ہوئی دھوپ میں رکھتے ہوئے سونو  نے پوچھا
’’تمھیں کس نے کہا گوری نے خود کشی کی تھی … ؟‘‘
سارے گاؤں میں مشہور تو یہی ہوا تھا۔ امداد نے اُس کی طرف آتے ہوئے جواب دیا۔ امداد اور سونو آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
تم بار بار اپنی ماں کا نام کیوں لے رہے ہو …؟  امداد نے پوچھا۔
یہاں گوہر کی کوئی قدر نہیں ہے اور گوری کی عزت…  سونو  نے افسردگی سے بتایا۔
کہاں رہے اتنے سال … ؟ امداد نے سوال کیا۔
پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہر گھوم چکا ہوں۔  سونو  نے جواب دیا۔
اُن کے درمیان خاموشی کا سلسلہ طویل ہو گیا پھر امداد نے ہی بات شروع کی
’’اُس دن تم پکڑے جاتے تو وہ تمھیں مار دی ‘‘
’’مر ہی جاتا تو اچھا تھا…‘‘
’’تم چھپ کہاں گئے تھے… ؟‘‘


۞۞۞


سرمد عرف سونو نے لمبی سانس بھری، پھر کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائی اور تڑپتی آواز میں آسمان کی طرف دیکھ کر بولنا شروع کیا
میں پاگلوں کی طرح کماد میں بھاگا چلا جا رہا تھا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا کب سڑک آ گئی اور میں بس کے سامنے آ گیا، ڈرائیور  نے بڑی مشکل سے بریک لگائی پھر بھی اُس کی ہلکی سی ٹکر سے میں گر گیا۔
مجھے دیکھنے کے لیے بس کی آدھی سواریاں باہر نکل آئیں، جن میں ہیڈ ماسٹر صاحب بھی تھے۔ جب انھوں  نے میری حالت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کچھ گڑ بڑ ہے۔
’’عرس پر جانے کا یہ کون سا طریقہ ہے …؟
انھوں  نے یہ کہا اور مجھے بھی بس میں سوار کر لیا۔ رستے میں انھوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔ جیسے ہی ہم ملتان اُترے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھ سے بڑی رازداری سے پوچھا
’’کیا کر کے بھاگے ہو… ؟ میں نے انھیں سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔
بیٹا تم غصہ پی جاتے ! ہیڈ ماسٹر صاحب نے یہ کہا اور مجھے ہوٹل پر کھانا کھلانے لے گئے۔ کھانے کے بعد انھوں نے ایک رقعہ لکھا، مجھے پیسے دیے اور ملتان اسٹیشن پر پہنچ کر میرے لیے حیدر آباد تک کی ٹکٹ خریدی۔ اگر اور تھوڑی دیر ہو جاتی تو وہ ٹرین چھوٹ جاتی۔ میں نے بھاگ کر ٹرین پکڑی۔   سونو  نے آسمان سے نظریں ہٹا کر امداد کی طرف دیکھا، پھر ہونٹوں پر زبردستی تبسم سجاتے ہوئے بولا
’’تب سے بھاگ ہی رہا ہوں۔‘‘
حیدرآباد میں پہنچنے کے بعد؟  امداد نے آدھا سوال پوچھا۔
حیدر آباد میں ماسٹر صاحب کے ایک پرانے شاگرد نے چوڑیوں کا کارخانہ بنا رکھا تھا، میں وہاں پہنچ گیا۔ ایک مہینے بعد اُسی پتے پر مجھے ماسٹر صاحب کا ایک خط ملا۔ خط کا جواب دینے کے لیے انھوں نے ملتان کا ایک پتہ دیا تھا۔  سونو بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا۔ امداد منتظر نظروں سے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔ وہ نہیں بولا تو امداد نے خود ہی پوچھ لیا
’’پھر … کیا ہوا … ؟‘‘
’’پھر گوری کو ہوس کے پجاری دن رات نوچنے لگے … ‘‘
ہوس کے پجاری … کون …؟  امداد نے حیرانی سے پوچھا۔ سونو کے ہونٹوں پر درد بھری مسکراہٹ اُبھری۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور امداد سے کہنے لگا
’’پلیز جانا مت۔۔۔ میں دس منٹ میں آیا۔‘‘
امداد نے اردگرد دیکھتے ہوئے گردن اثبات میں ہلا دی۔ سونو نیچے کی طرف بھاگا۔ وہ دیوانوں کی طرح سیڑھیاں اُترنے لگا۔ جیسے ہی وہ  باہر نکلا ججی اور کامی اُس گھر کے دروازے کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔ سونو اُن سے بے نیاز بھاگنے لگا۔ وہ بھی اُس کا پیچھا کرنے لگے۔

(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞

NO COMMENTS