( 29 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
جبران جپہ نے لیپ ٹاپ سے کچھ اپنی ڈائری میں نوٹ کیا، پھر لیپ ٹاپ کو بند کر دیا۔ اس کے بعد کیبن سے کراچی کا ایک نقشہ نکال کر اُسے میز پر بچھا دیا۔ کراچی کے نقشے پر کراچی کے مختلف علاقوں کے گرد لال مارکر سے دائرے لگے ہوئے تھے۔ وہ مطمئن تھا، مگر پوری طرح سے نہیں۔ اُسی دوران اُس کے موبائل پر واٹس ایپ میسج آیا۔ موبائل اسکرین پر نام دیکھ کر اُس نے بے زاری کا اظہار کیا، پھر اُس نے وائس میسج پلے کیا
جپہ صاحب۔۔۔! آپ کو رقم دیے ہوئے ڈیڑھ مہینہ ہو چکا ہے۔۔۔ میں اور بی بی سرکار چند دن تک پاکستان آرہے ہیں۔
عطا کا وائس میسج ختم ہوتے ہی بختیار بابا آفس کے اندر وارد ہوتے ہوئے بولا
’’بچے۔۔۔! کھانا لگا دیا ہے۔‘‘
پک گیا ساگ؟ جبران نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ساگ پکانے اور سانڈو (ہم زُلف) کو منانے میں بڑی دیر لگتی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی جبران بختیار بابا کے جملے پر غور کرنے لگا، پھر وہ بختیار بابا کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا
’’پھر سنائیں۔۔۔‘‘
’’ساگ کو پکانے اور سانڈو کو منانے میں بڑی دیر لگتی ہے۔‘‘
دوبارہ سنتے ہی جبران کھل کھلا کے ہنس دیا۔ اس کے بعد کیبن سے ایک شولڈر بیگ نکال کے اُس میں دُوربین، بلٹ پروف جیکٹ، اپنے تین چار عام سے موبائل اور وہی ڈائری رکھی۔
کدھر کی تیاری ہے؟ بختیار بابا نے سوال کیا۔
’’کراچی جا رہا ہوں۔‘‘
واپسی کب ہے؟ بختیار بابا نے پوچھا۔ جبران نے مذاق کے انداز میں بتایا
’’ساگ پکنے تک آ جاؤں گا۔‘‘
نہیں آیا نا۔۔۔ وہ تمہارے کیڑے مکوڑوں کے ہاتھ۔۔۔ بختیار بابا نے سنجیدگی سے کہا ۔
’’اُس کا رنگ بدلنے والی تتلی مل گئی ہے۔۔۔ وہ بھی مل جائے گا۔ ‘‘
۞۞۞
دن کے پچھلے پہر آنیہ ایک بچے کو چیک کرنے کے بعد اُس کی رپوٹیں دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ بچوں کے وارڈ سے باہر نکلی، اُسے ایک نرس نے بتایا
’’میم۔۔۔! کوئی جبران جپہ صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘
’’جبران جپہ؟ آنیہ ذہن پر زور دیتے ہوئے سوچنے لگی۔ نرس نے اُس کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے بتایا
’’میں نے آپ کے آفس میں بٹھایا ہے۔‘‘
آنیہ نے یہ سنا تو وہ اپنے آفس کی طرف چل دی۔ نرس نے دُوسری طرف کا رُخ کیا۔ آنیہ آفس میں داخل ہوئی تو جبران اُسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔ چہرے پر ماسک لگائے دراز قد حسینہ اُس کے سامنے اپنی آفس چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولی
’’میں نے آپ کو پہچانا نہیں جپہ صاحب۔۔۔ ‘‘
جبران نے اپنا موبائل آنیہ کے سامنے کرتے ہوئے پوچھا
’’اِسے تو پہچانتی ہیں نا؟‘‘
جی۔۔۔ پہچانتی ہوں۔ آنیہ نے خشک لہجے میں صاف صاف بتا دیا۔
کدھر ہے یہ؟ جبران جپہ نے بھی اپنے تیور بدلے۔
’’آپ کون ہیں؟ ‘‘
انسپکٹر جبران جپہ۔۔۔ جبران نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
آنیہ نے غور سے جبران جپہ کی طرف دیکھا، پھر مسکراتے ہوئے انٹرکام پر کہنے لگی
’’انکل۔۔۔! دو کافی۔۔۔‘‘
اس کے بعد دراز سے اپنا موبائل نکال کر چپکے سے ڈاکٹر کوٹ کی پاکٹ میں ڈال لیا اور اپنی سیٹ سے اُٹھتے ہوئے بولی
میری ڈیوٹی ختم ہو چکی ہے۔۔۔ میں فریش ہو کر آتی ہوں۔۔۔ آپ تب تک اِدھر تشریف رکھیں۔
آنیہ نے آفس کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ٹیبل اور صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ اُسی صوفے پر جبران جپہ کا بیگ بھی پڑا ہوا تھا۔ آنیہ واش روم کے اندر چلی گئی۔ جبران جپہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
آنیہ نے واش روم میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اپنا ماسک اُتار کے ڈسٹ بِن میں پھینکا، پھر کوٹ کو کِلی پر لٹکایا۔ اُس کی جیب سے موبائل لے کر کموڈ کے ڈھکن پر بیٹھ کر موبائل پر کچھ سرچ کرنے لگی۔ اس کے بعد اُس نے دو میسج کیے۔
۞۞۞
آنیہ تازہ دَم ہو کر واش روم سے باہر نکلی۔ اُس نے اپنی زلفوں کو جوڑے میں لگی پینوں سے آزاد کر دیا تھا۔ اُوپر سے چہرے پر ماسک بھی نہیں تھا۔ جبران تو چھپے حسن کو دیکھ کر ہی اَش اَش کر اُٹھا تھا۔ اب تو آنیہ پورے جلوؤں کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔ وہ بغیر میک اَپ کے ہی قیامت ڈھا رہی تھی۔
آنیہ میز کے دُوسری طرف اُس کے روبرو بیٹھی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آنیہ نے اپنا موبائل شیشے کی میز پر رکھتے ہوئے اجازت دی
’’آجائیں انکل۔۔۔ ‘‘
ایک بزرگ بندہ ٹرے میں دو مگ کافی رکھے آفس میں داخل ہوا۔اُس نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے جبران پر گہری نظر ڈالی تو آنیہ نے چنچل لہجے میں بتایا
’’بابا۔۔۔! جو آپ سوچ رہے ہیں یہ وہ نہیں ہیں۔۔۔ یہ دُوسرے پولیس والے ہیں۔‘‘
پولیس؟ وہ تھوڑا سا گھبرا گیا۔
’’میرے ایک دوست کے جاننے والے ہیں۔۔۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
کچھ اور لاؤں؟ بزرگ نے پوچھا۔
’’بختیار بابا کہتے ہیں کافی ایک کپ ہی کافی ہوتی ہے۔۔۔ یہ تو پھر بڑا سا مگ ہے۔
جبران نے ٹرے میں پڑے بڑے بڑے سے مگوں کو دیکھنے کے بعد آنیہ کو دیکھا۔ آنیہ بزرگ کی طرف دیکھ کر بولی
’’آپ جائیں انکل۔۔۔ ‘‘
جیسے ہی وہ آفس سے نکلا، جبران نے ٹرے سے مگ اُٹھاتے ہوئے کہا
’’یہ بھی آپ نے تکلّف ہی کیا ہے۔‘‘
’’جن کی آپ نے تصویر دکھائی، اُن کی بات تو کافی یا چائے پر ہی ہونی چاہیے تھی نا ‘‘
ارے واہ۔۔۔ جبران نے گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ آنیہ نے جبران کی طرف جانچتی نظروں سے دیکھا تو اُس نے جلدی سے وضاحت کی
’’کافی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
بات میری بھی واہ کرنے والی ہی تھی۔‘‘ آنیہ نے یہ بولنے کے بعد مگ کو اپنے ہونٹوں کو چومنے کا اعزاز بخشا۔
جن کے ذکر سے ہی آپ کو راحت مل رہی۔۔۔ سوچ رہا ہوں وہ کتنے خاص ہوں گے۔
جبران نے کھٹے لہجے میں کہا۔ آنیہ مگ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے مسکرائی، پھر کہنے لگی
’’جپہ صاحب۔۔۔! میری کافی ختم ہونے تک آپ کے پاس وقت ہے۔۔۔‘‘
آنیہ کی بات کاٹتے ہوئے جبران اپنی آواز میں خرخراہٹ لاتے ہوئے بولا
’’کراچی میں کون سی جگہ چھپا رکھا ہے اُسے ؟‘‘
وہ کراچی میں نہیں ہے۔ آنیہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ جبران سے نظریں ملاتے ہوئے بتایا۔
جو ٹیکسی لے کر نکلا تھا۔۔۔ وہ کون تھا؟ جبران نے اگلاسوال کر دیا۔ آنیہ نے فاتحانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی، پھر بولی
’’اُلّو بنایا تھا آپ کے آدمیوں کو۔۔۔ ‘‘
قانون کو اُس کی تلاش ہے۔۔۔ مجرم ہے وہ۔۔۔ جبران نے روایتی پولیس والوں کی طرح رُعب ڈالتے ہوئے بتایا۔ آنیہ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا
’’آپ کون ہیں۔۔۔؟ جبران جپہ نام کا سندھ پولیس میں تو کوئی انسپکٹر ہی نہیں ہے۔ ‘‘
میں پنجاب پولیس سے ہوں۔‘‘ جبران نے جلدی سے بتایا۔ آنیہ نے مسکراتے ہوئے بڑے مزے سے پوچھا
’’یہ پنجاب پولیس والے آئے دن آپ کو سسپنڈ کیوں کر دیتے ہیں؟‘‘
یہ سنتے ہی جبران جپہ کی رنگت بدل گئی، مگر اُس نے بڑی چترائی سے قہقہہ لگا کر اپنی بدلی رنگت کو چھپانے کی پوری کوشش کی۔ آنیہ بھی ایسے ہی ہنسنے لگی۔ جب دونوں کے قہقہے تھمے تو جبران کہنے لگا
’’بختیار بابا کہتے ہیں۔۔۔ ٹیکنالوجی نے غلام اور آقا کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔‘‘
یہ بختیار بابا کون ہیں؟ آنیہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔
بختیار بابا میرے خاص ملازم ہیں۔۔۔ آپ یہ بتائیں یہ پہلا پولیس والا کون ہے؟ جبران جپہ نے جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنا سوال بھی پوچھ لیا۔
آنیہ ہلکا سا مسکرائی۔ اُس کے موبائل پر میسج آیا۔ اُس نے بڑی اَدا سے میز پر پڑا اپنا موبائل اُٹھایا، پھر کہنے لگی
پہلے پولیس والے کا ہی میسج ہے۔۔۔ آپ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ آنیہ موبائل اسکرین کی طرف دیکھ کر میسج پڑھنے لگی
جبران جپہ پنجاب پولیس کا کرپٹ ترین انسپکٹر ہے۔۔۔ ہمارا محکمہ اِس طرح کی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بدنام ہے۔۔۔ کروڑوں کی جائیداد ہے اُس کی۔۔۔ بیوی بچے باہر رہتے ہیں اور وہ یہاں سے کما کر انھیں باہر بھیجتا ہے۔۔۔ اپنے خاص ملازم بختیار بدر کے نام پر بھی کروڑوں کی پراپرٹی خرید رکھی ہے۔۔۔ پیسے لے کر کئی قتل بھی کر چکا ہے۔۔۔ ایجنسیاں آج کل میں اُسے اُٹھانے ہی والی ہیں۔
آنیہ نے نظر اُٹھا کر جبران کی طرف دیکھا تو وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا
یہ سارے الزام ہیں۔۔۔ میرے خلاف بہت ساری انکوائریز چل رہی ہیں۔۔۔ مگر ثابت کچھ نہیں ہو گا۔
جبران نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے اپنا شولڈر بیگ بھی اُٹھا لیا۔ آنیہ بھی کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی
’’جپہ صاحب۔۔۔! یہ بارہ کا کیا چکر ہے؟‘‘
بارہ۔۔۔؟ جبران نے عجیب سا منہ بنا تے ہوئے کہا۔ آنیہ سمجھ گئی کہ جبران کو کچھ بھی نہیں پتا۔ اُس نے ہلکے سے طنز سے بات بدلی
بارہ کو چھوڑیں ۔۔۔میری سنیں۔۔دو دن بعد میری پہلے پولیس والے سے شادی ہے۔۔۔ آپ ضرور تشریف لائیے گا ‘‘
جبران زبردستی مسکراتے ہوئے آفس سے نکل گیا۔
۞۞۞
جبران جپہ کوریڈور میں چلتا ہوا جا رہا تھا۔ اُس کے دماغ میں ایک ہی سوال گونج رہا تھا
’’کدھر چھپ کے بیٹھا ہے یہ۔۔۔‘‘
چلتے چلتے اُس کے موبائل پر میسج آیا۔ اُس نے میسج دیکھا، پھر چلتے چلتے موبائل کان سے لگایا
’’سب کراچی بکنگ پر گئے ہوئے ہیں۔۔۔ میں آج کوٹھے پر اکیلی ہوں۔‘‘
جبران کے قدم تھم گئے۔ خوشبو کا میسج سننے کے بعد جبران سوچ میں پڑ گیا۔ اُس نے جلدی سے اپنے شولڈر بیگ سے ایک موبائل نکالا اور لمحہ بھر سوچتے ہوئے ایک نمبر ملا کر کال کرنے لگا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞