25 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 27

 

( 27 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

 کیسی ہے گوہر۔۔۔ کدھر ہے وہ۔۔۔ نواب زندہ ہے یا مر گیا؟  ستارہ نے اپنے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے سرمد سے ایک ساتھ تین سوال پوچھ لیے۔
بیگم نیلوفر جان کی طرح اب وہ دونوں بھی اِس دُنیا میں نہیں ۔
سرمد کی بات سنتے ہی ستارہ اُداس ہو گئی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ دستک پھر سے ہونے لگی۔
آجاؤ۔۔۔! ستارہ نے اُکتائے ہوئے انداز میں اجازت دی۔ خوشبو کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے ٹرے میں دودھ کا گلاس رکھا ہوا تھا۔
تمہارے لیے دودھ میں ہلدی ڈلوائی ہے۔۔۔ پی لو۔۔۔ ‘‘
سرمد نے ٹرے سے دودھ کا گلاس اُٹھا لیا تو خوشبو  نے بڑی محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھا۔ ستارہ اُن دونوں کو دیکھتے ہوئے بولی
’’پہلے اِسے دودھ پینے دو۔۔۔ تُم بعد میں اِسے پی لینا۔‘‘
خوشبو شرمندہ ہوتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ سرمد نے آدھا دودھ پی کے دونوں صوفوں کے درمیان کونے میں شیشے کی چھوٹی میز پر جیسے ہی دودھ والاگلاس رکھا ساتھ ہی ستارہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھ لیا
’’کتنی بہنیں ہیں تمہاری؟‘‘
ستارہ کے سوال پر سرمد نے پہلے غور سے اُسے دیکھا، پھر نفی میں گردن ہلا دی۔ ستارہ کو یہ جان کر مایوسی ہوئی۔ وہ بھرّائی ہوئی آواز میں بولی
کیا بنے گا اِس کوٹھے کا۔۔۔ ہم د وتھیں۔۔۔ تیری ماں تجھے چھوڑ کے مر گئی۔۔۔ میری ایک کلی اور دو کیکر ہیں۔۔۔ اُوپر سے ایک کیکر پر شرافت کے پھول بھی نکل آئے ہیں۔
کشمالہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی تو ستارہ نے اُسے دیکھا لمحہ بھر سوچا، پھر کہنے لگی
ایک بات میں نے اپنے تجربے سے سیکھی ہے۔۔۔ طوائف کو کسی مذہبی منافق کا بیج اپنی کوکھ میں کبھی نہیں پالنا چاہیے۔
وہ کیوں باجی؟  کشمالہ نے ایک طالبہ کی طرح پوچھا۔
’’منافقت کے بیج پر شرافت کے پھول نکل آئیں تو وہ بندہ تیرے بڑے بھائی جیسا بن جاتا ہے۔۔۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر۔۔۔‘‘
مذہبی منافق سے آپ کی کیا مراد ہے؟  سرمد نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
ستارہ بائی نے پہلے بڑے غور سے سرمد کو دیکھا، پھر معنی خیز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہنے لگی
’’جو دُنیا کے فائدے کے لیے دین بیچ دے۔‘‘
ستارہ بائی نے لمحہ بھر توقف کیا، پھر بڑے مخبرانہ انداز میں بولی
’’مولا کا دین بیچنے والوں سے۔۔۔ ہم جسم کا سودا کرنے والے ہزار گنا بہتر ہیں۔‘‘
ستارہ بائی نے اُٹھ کر کشمالہ کا ماتھا چوما، اُس کے بعد اُوپر دیکھ کر دل ہی دل میں شکر بجا لائی، پھر اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی
’’ہم کفریہ کستوری کے تاجر ہیں۔۔۔ اور وہ مذہبی چورن بیچتے ہیں۔‘‘
سرمد صوفے پر بیٹھا ہوا چُپ چاپ اُن دونوں کو دیکھے جا رہا تھا۔ ستارہ نے کشمالہ کی نظریں پڑھیں، پھر کہنے لگی
’’بے بی تُم گھر جاؤ۔۔۔ میں شام میں آتی ہوں۔‘‘
جی باجی۔۔۔!‘‘ کشمالہ یہ بولتے ہوئے دروازے کی جانب مڑی، پھر وہ دروازہ کھولتے ہوئے پلٹی اور سرمد سے کہنے لگی
’’مجھے پتا چلا ہے کہ تُم ہماری خالہ کی ہارڈ ڈسک ہو۔‘‘
سرمد نے صرف گردن اثبات میں ہلائی تو کشمالہ نے قاتل مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہا
’’کسی دن ہم بھی تمہاری ہارڈ ڈسک کی کپیسٹی چیک کریں گے۔‘‘
کشمالہ دروازہ بند کرتے ہوئے چلی گئی۔ ساتھ ہی ستارہ نے تفتیش شروع کر دی
’’سینتیس سال بعد اِدھر کا رُخ کیسے کیا؟‘‘
آپ کو تو سال بھی یاد ہیں۔ سرمد  نے حیران ہونے کی کوشش کی۔
’’باجی کو تو دن بھی یاد تھے۔‘‘
باجی مطلب۔۔۔؟ ستارہ کے لمحہ بھر کیے ہوئے توقف کے بیچ میں ہی سرمد بول اُٹھا۔
بیگم نیلوفر جان۔۔۔ میری اور گوہر کی ماں۔۔۔ طوائف کی سب سے قیمتی چیز اُس کی جوان بیٹی ہوتی ہے۔۔۔ تیرا باپ وہی چُرا کے لے گیا تھا۔۔۔ باجی تو جیتے جی ہی مر گئی تھی۔۔۔ بہشتن  نے جس دن دَم دیے اُس دن مجھے کہنے لگی
آج میری گوہر کو گئے ہوئے پورے تین سو چالیس دن ہو گئے ہیں۔  ستارہ بات کرتے کرتے رُک گئی، پھر سرمد کو طائرانہ نظروں سے پرکھتے ہوئے کہنے لگی
’’نظر پڑھنے اور بات بدلنے کا ہنر جانتے ہو۔۔۔ میری بات کا جواب نہیں دیا تُم  نے؟‘‘
بیگم نیلوفر جان نے میری ماں کو ڈھونڈا کیوں نہیں؟  سرمد نے سوال کیا۔ ستارہ کی حلق سے درد بھرا قہقہہ برآمد ہوا، پھر وہ لمبی سانس بھرتے ہوئے بولی
باجی  نے پورے دو سو پچانوے دن چراغ والی کی طرف جانے والے سب رستوں پر پہرہ بٹھائے رکھا تھا۔۔۔ باجی کے گزرتے ہی میں نے وہ پہرہ اُٹھوا لیا۔۔۔ تیرا باپ باجی سے نہیں جیتا۔۔۔ وہ اپنی بیٹی سے ہار گئی۔
ستارہ نے اپنے بے ساختہ نکلنے والے آنسوؤں کو صاف کیا، اُس کے بعد سرمد کے سامنے اُسی جگہ صوفے پر بیٹھ گئی جہاں سے وہ اُٹھی تھی، پھر اُس نے ستارہ بائی کے بجائے ایک بہن کی طرح سوال کیا
’’گوہر کی زندگی کیسے گزری اور وہ کب مری؟‘‘
سرمد نے ہونٹوں پر میٹھی مسکراہٹ سجائی، پھر کہنے لگا
بڑی محبت تھی اُن دونوں میں۔۔۔ تقریباً سولہ سال اُنھوں  نے ساتھ گزارے۔۔۔ ابا کے گزرتے ہی اماں بھی اُن کے غم میں چلی گئیں۔
کہاں ہیں اُن کی قبریں؟  ستارہ نے جلدی سے پوچھا۔
چراغ والی میں۔  سرمد  نے بتایا۔
تمہارے باپ کے گاؤں میں؟  ستارہ حیران ہوئی۔
دو سال کراچی میں گزارنے کے بعد مجھے لے کر وہ گاؤں چلے گئے تھے، اگر آ پ پہرہ نہ اُٹھاتیں تو ہم مل ہی جاتے۔  سرمدنے بڑی حسرت سے کہا تو ستارہ نے مسکراتے ہوئے اُس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
آخر مولا نے ملا ہی دیا۔۔۔ صرف تمہارا چہرہ اپنے باپ سے ملتا ہے۔۔۔ باقی کا سارا بدن گوہر جیسا ہی ہے نرم و نازک۔
جیسے ہی ستارہ نے سرمد کے گال سے ہاتھ ہٹا کے اُس کے ہاتھ پکڑے، یکایک اُسے ایک خیال آیا۔ وہ جلدی سے اُٹھی اور دروازہ کھول کر آواز دی
’’چندا۔۔۔ ‘‘
لمحوں میں ہی چندا حاضر ہو گئی۔
’’جی باجی۔۔۔ ‘‘
یہ میری خالہ کی بیٹی ہے چندا۔۔۔  ستارہ نے چندا کو جواب دینے کی بجائے سرمد سے اُس کا تعارف کروا دیا۔ اس کے بعد چندا سے حتمی انداز میں کہا
’’خوشبو کو بلاؤ۔۔۔ ‘‘
ستارہ کا حکم سنتے ہی چندا جلدی سے خوشبو کو بلا لائی۔
اس کا نام الائچی نہیں خوشبو ہے۔۔۔ الائچی چکھو یا خوشبو سونگھو۔۔۔ تمہاری مرضی۔  ستارہ نے خوشبو کے سامنے آتے ہی سرمد کو بتایا۔ خوشبو  نے نظر بھر کے سرمد کو دیکھا جو سوچ میں گُم تھا۔
دیکھ خوشبو۔۔۔‘‘ ستارہ بات کرتے کرتے رُک گئی، پھر سرمد کی طرف دیکھ کر بولی
’’تمہارا نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔‘‘
سرمد کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹا تو اُس نے ساتھ ہی اپنا نیا نام بتا دیا
’’سیف نواب۔‘‘
’’خوشبو۔۔۔! اپنی ساری مہک سیف کے انگ انگ میں بھر دے۔‘‘
جی باجی۔۔۔! خوشبو نے سیف کے قریب آتے ہوئے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا۔ سیف نے اُس کا ہاتھ تھاما تو چندا کھل اُٹھی۔ ستارہ کے ہونٹوں پر بھی مسکان نے ڈیرے ڈال لیے۔ خوشبو سیف کو اپنے ساتھ لے گئی۔ اُن کے جانے کے بعد چندا دروازہ بند کرنے گئی تو ستارہ بول اُٹھی
’’تُو کدھر جا رہی ہے۔۔۔ بیٹھ میرے پاس!‘‘
چندا دروازہ بند کر کے سرمد والی جگہ بیٹھی تو ستارہ نے پوچھا
’’خوشبو آج ہی نہائی ہے نا؟‘‘
’’جی باجی۔۔۔!‘‘ چندا  نے جلدی سے بتایا۔
دُعا کر چندا۔۔۔ گوہر کا رنگ رُوپ تیری بیٹی کی کوکھ میں لوٹ آئے۔۔۔ دُعا کر۔۔۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم دونوں کا بڑھاپا سنور جائے گا۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles