( 23 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
رات آٹھ بجے کے قریب وہ لاہور اسٹیشن پر گاڑی سے اُترا۔ وہ پہلے سے طے کر چکا تھا۔ اُسے کہاں جانا ہے۔ وہ اسٹیشن سے باہر نکلا۔ سردی بہت تھی۔ دھند بھی ہولے ہولے بڑھ رہی تھی۔
اُس نے قطار میں کھڑے سب رکشوں پر نظر ڈالی۔ کئی ڈرائیور اُس کی طرف لپکے۔ وہ سب سے بے نیاز ایک رکشے کے ساتھ کھڑے ہوئے کمزور سی ٹانگوں والے لڑکے کی طرف چل دیا۔ اُس نے پاس جاتے ہی لڑکے سے پوچھا
’’چلو گے بھائی؟‘‘
صاحب۔۔۔! جانے کے لیے ہی تو کھڑے ہیں۔ لڑکے نے بڑے شاعرانہ انداز میں کہا۔
سلطان اُس رکشے میں بیٹھ گیا۔ وہ لڑکا بھی ہلکا سا لنگڑاتے ہوئے ڈرائیورنگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ اُس لڑکے نے اپنے سامنے لگے شیشے میں دیکھا۔ ماسک لگائے خود کو چادر میں لپیٹے ایک مشکوک سا بندہ اُس کے پیچھے بیٹھا ہے۔اُس لڑکے نے لمحہ بھر سوچا، پھر رکشے کی ونڈاسکرین پر لگے ہوئے اسٹیکر ’’اللہ مالک۔۔۔ نبی وارث۔۔۔‘‘ پر نظر ڈالنے کے بعد پوچھا:ـ
’’صاحب۔۔۔! کدھر جانا ہے؟‘‘
’’ماڈل ٹاؤن۔۔۔‘‘ سلطان نے مختصر سا جواب دیا۔ لڑکے نے بھی دل ہی دل میں اللہ کا نام لے کر رکشہ اسٹارٹ کر لیا۔ رکشہ چل پڑا۔ اورنج ٹرین کے لاہور اسٹیشن والے اسٹاپ کے نیچے سے گزرتے ہوئے اُس لڑکے نے پھر سے سامنے لگے ہوئے شیشے میں سلطان کو دیکھا۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا۔
لاہور پریس کلب والے اشارے پر رُکتے ہوئے لڑکے نے بات چیت کے لیے اپنا گلا صاف کیا، مگر وہ سلطان کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ نہر کنارے کنال روڈ پر رکشہ ماڈل ٹاؤن کی طرف رواں دواں تھا۔ چھے نمبر انڈرپاس سے گزرتے ہی لڑکے نے زور سے پوچھا
’’صاحب۔۔۔! ماڈل ٹاؤن کس جگہ جانا ہے؟‘‘
لڑکے کی آواز پر سلطان چونکا۔ اُس نے رکشے والے لڑکے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بتایا
’’ہاں۔۔۔ وہ۔۔۔ تُم ایسے کرو۔۔۔ ماڈل ٹاؤن پارک ہی لے چلو۔۔۔‘‘
لڑکے نے کنال روڈ سے رکشہ فیروزپور روڈ کی طرف موڑ دیا۔ سلطان پھر سے گُم سُم ہو گیا۔ ماڈل ٹاؤن پارک کے سامنے والے گول چکر کی لین سے نکل کر بڑے سے دیسی کیکر کے نیچے لڑکے نے رکشہ روکتے ہوئے بتایا
’’صاحب۔۔۔! ماڈل ٹاؤن پارک آگیا۔‘‘
سلطان پھر سے چونک گیا۔ اُس نے چادر کے نیچے سے ایک ہزار کا نوٹ نکال کر دیا اور ساتھ ہی رکشے سے اُتر گیا۔ رکشے والا لڑکا سلطان کو بقایا دینے کے لیے اپنی جرسی کے اندر شرٹ والی اُوپری جیب سے روپے نکالنے لگا۔ سلطان رکشے سے اُترنے کے بعد اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ اُ س نے آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف دیکھا، پھر فیروز پور روڈ کی طرف منہ کر کے گول چکر کی طرف چل پڑا۔
’’صاحب۔۔۔! بقایا تو لیتے جاؤ!‘‘
سلطان نے رکشے والے کی آواز کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ گول چکر پار کرنے کے بعد بائیں طرف ایک سڑک کی طرف چل دیا۔ لڑکا رکشے کے اندر سے بیٹھا بیٹھا ہی اُسے دیکھ رہا تھا۔ لڑکے نے اگلی سواری کے انتظار میں رکشہ اُدھر ہی کھڑا کر دیا اور خود پارکنگ والوں کے پاس جا بیٹھا۔
اُنھوں نے لوہے کے ایک ٹین میں آگ جلا رکھی تھی۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا، مگر کسی سواری نے رکشے والے کو نہ پوچھا۔ لڑکے نے اپنے عام سے بٹنوں والے موبائل پر وقت دیکھا۔ نو بج کر دس منٹ ہو چکے تھے۔ اُس نے وہاں سے کسی اور مقام پر جا کر کھڑے ہونے کا ذہن بنا لیا۔
ابھی وہ جا کے اپنے رکشے میں بیٹھا ہی تھا کہ سامنے سے گھنے سیاہ بالوں والا ایک آدمی اپنی کالی لیدر کی جیکٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے لہراتا ہوا اُسی کی طرف آرہا تھا۔ اُس نے سوچا شاید سواری ہو۔ وہ اُسے دیکھتے ہی رُک گیا۔ اُس آدمی نے پاس آتے ہی خوشی سے لبریز لہجے میں پوچھا
’’تُم ابھی اِدھر ہی ہو؟ ‘‘
لڑکے نے آدمی کے خدوخال پر غور کرتے ہوئے کہا
’’صاحب۔۔۔ آپ؟‘‘
کیا صاحب۔۔۔ صاحب لگا رکھی ہے۔۔۔ سرمد نواب نام ہے میرا۔
اُس نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے بے تکلفی سے بتایا۔ ساتھ ہی لڑکے کے دونوں کندھوں کو دباتے ہوئے پوچھا
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
لڑکا کچھ اُلجھن کا شکار تھا۔
’’کیا سوچ رہے ہو بھائی؟ بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ کھانے والی کسی اچھی سی جگہ لے چلو۔۔۔‘‘ سرمد نے ایک ساتھ تین باتیں بول دیں۔ رکشے والے نے رکشہ اسٹارٹ کرتے ہوئے بتایا
’’عبداللہ کہتے ہیں مجھے۔۔۔ یہاں پاس ہی تلّے فلیٹ ہیں ۔۔۔ وہاں سے مہنگا، سستا ہر طرح کا کھانا مل جاتا ہے۔۔۔‘‘
تلّے فلیٹ۔۔۔ جگہ کا نام سنتے ہی سرمد لمحوں میں اُداس ہو گیا۔
صاحب جی۔۔۔! بڑے گوشت کے کیا ودھیا کباب ملتے ہیں وہاں سے۔۔۔ عبداللہ نے بڑے مزے سے بتایا۔ سرمد نے مسکرانے کی رسم اَدا کی۔ عبداللہ نے سرمد کو شیشے میں دیکھا جو باہر دیکھ رہا تھا۔ سرمد اپنی اُداسی چھپانے میں کامیاب ہو گیا۔ عبداللہ اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
کہاں وہ بندہ جو اسٹیشن سے اُس کے ساتھ رکشے میں بیٹھا تھا، جس نے کسی ڈاکو کی طرح اپنا سب کچھ چھپا رکھا تھا اور کہاں یہ بندہ جس کا ظاہر باطن سب کچھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔ آدھے پونے گھنٹے میں اُس کے ساتھ ایسا کیا ہو گیا جو یہ اتنا خوش ہے۔
عبداللہ نے سرکاری اسکول کی عمارت کے سامنے فُٹ پاتھ کے ساتھ جا کر رکشہ کھڑا کیا۔
’’صاحب جی۔۔۔ !‘‘
پھر صاحب جی۔۔۔ سرمد نواب کہو! اُس نے مچلتے لہجے میں کہا۔
عبداللہ مسکرانے لگا اور اُسی مسکراہٹ کے ساتھ تھوڑی سی جھجک کے ساتھ بولا
’’نواب صاحب، ٹھیک ہے کیا؟‘‘
سرمد یہ سُن کر کھل اُٹھا اور کہنے لگا
’’اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ نواب صاحب اچھا ہے۔‘‘
یہاں کا کھانا بھی اچھا لگے لگا آپ کو۔ عبداللہ نے اپنی سیٹ سے اُترتے ہوئے رکشے کا دروازہ کھول دیا۔ سرمد نے نیچے اُتر کرسامنے دیکھا۔ فلیٹس کے نیچے بہت ساری دُکانیں تھیں جن میں توّا دال، دال ٹکی، باربی کیو، سری پائے، بریانی، نہاری، دال چاول ہر طرح کا کھانا موجود تھا۔ کوئلے پر پکتی برائلر مرغی اور بڑے گوشت کے کبابوں نے سرمد کی بھوک میں اضافہ کر دیا۔
وہ دُکان ہے خان کباب۔۔۔ عبداللہ نے ایک دُکان کے لال رنگ کے بڑے سے سائن بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
سرمد نے عبداللہ کو کلائی سے پکڑا اور سڑک پار کرتے ہوئے خان کباب کی طرف چل پڑا۔
نواب صاحب۔۔۔! مجھے بھوک نہیں ہے۔ عبداللہ نے جلدی سے بتایا۔
خان کباب کے سامنے کوئلوں پر پکتے کبابوں کو دیکھتے ہوئے سرمد کہنے لگا
’’بغیر بھوک کے منہ میں پانی نہیں آتا۔‘‘
عبداللہ نے غور سے سرمد کو دیکھا۔ سرمد اُس کی کلائی کو تھامے ہی سڑک کنارے واقع دُکانوں کے اندر چلا گیا۔
کھانے کا آرڈر دینے کے بعد سرمد اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولا
’’عبداللہ۔۔۔! میں دس منٹ میں آیا۔‘‘
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞