( 24 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
وہ دُکان سے باہر نکلا اور اردگرد دیکھتے ہوئے ایک طرف دوڑ لگا دی۔ ایک فلیٹ کے نیچے پیپل کے درخت کو دیکھتے ہوئے وہ تھم گیا۔ اُسے عروسی لباس میں ملبوس رمشامزاری فلیٹ کی سیڑھیوں پر کھڑی ہوئی دکھائی دی۔ وہ اُوپر کی طرف لپکا اور ایک فلیٹ کے دروازے کے سامنے جا کر رُک گیا۔
’’کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘
سرمد نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ ایک عام سی شکل و صورت والی خاتون تھی۔
’’کسی سے نہیں۔۔۔‘‘ سرمد نے یہ بولتے ہوئے وہاں سے بھی دوڑ لگا دی۔
۞۞۞
تقریباً پونے گھنٹے بعد وہ دونوں کھانا کھانے کے بعد باہر نکلے۔ سرمد کے ہاتھ میں ایک سفید شاپنگ بیگ بھی تھا جس میں کچھ روٹیاں، کباب اور چٹنی تھی۔
مجھے کشمیری چائے پینی ہے۔ سرمد نے بتایا۔
کشمیری چائے۔۔۔ اِس وقت؟ عبداللہ نے لمحہ بھر ذہن پر زور دیا، پھر کہنے لگا
’’منی مارکیٹ گلبرگ اور لکشمی چوک سے اچھی ملے گی۔‘‘
لکشمی چوک چلو! سرمد نے رکشے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
رکشے میں بیٹھتے ہی عبداللہ نے مشورہ دیا
’’منی مارکیٹ نزدیک ہے۔۔۔ وہاں چلتے ہیں۔‘‘
مجھے داتا صاحب سلام کرنا ہے۔۔۔ اِس کے بعد کسی سے کچھ سوال پوچھنے ہیں۔۔۔ اِس لیے لکشمی ہی چلو! سرمد نے سنجیدگی سے بتایا۔ عبداللہ نے رکشہ چلا دیا۔
موڑ مسلم ٹاؤن میٹروبس اسٹیشن کے نیچے اشارے پر جب رکشہ رُکا تو بچہ اُٹھائے ایک عورت مانگنے کے لیے آ گئی
’’اللہ کے نام پر صاحب کچھ دیتے جاؤ!‘‘
سرمد نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر وہ کھانے والا شاپنگ بیگ اُس عورت کو تھما دیا۔ اِس سے پہلے کہ دُوسرے فقیر رکشے کی طرف لپکتے اشارہ کھل گیا۔ عبداللہ نے اپنے دائیں ہاتھ رکشہ کنال روڈ کی طرف موڑ دیا۔
۞۞۞
لکشمی چوک سے کشمیری چائے پینے کے بعد تقریباً رات بارہ بجے عبداللہ نے داتا صاحب مزار کے سامنے میٹروبس کے پُل کے نیچے جا کر بریک لگائی اور ساتھ ہی کہنے لگا
’’نواب صاحب۔۔۔! اِس وقت پولیس والے آپ کو اندر نہیں جانے دیں گے۔‘‘
سرمد نے رکشے سے اُترتے ہوئے کہا
’’میں اندر جانے کے قابل بھی نہیں ہوں۔‘‘
عبداللہ نے بڑے غور سے سرمد کو دیکھا۔ سرمد نے بیرونی دروازے کے اُوپر لکھے ہوئے شعر کی طرف دیکھا۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما
سرمد نے اپنا ہاتھ سیلوٹ کے انداز میں سر کے پاس لاتے ہوئے ایک ہاتھ اور دو آنکھوں سے سلام کیا اور واپس آ کر رکشے میں بیٹھ گیا۔
’’چلو۔۔۔ ‘‘
عبداللہ نے رکشہ چلانے سے پہلے ہلکے سے شرارتی انداز میں پوچھا
’’سلام ہو گیا کیا نواب صاحب۔۔۔؟‘‘
سرمد نے ہلکا سا معنی خیز قہقہہ لگایا، پھر کہنے لگا
لاہور کے اصل صاحب تو یہی ہیں۔۔۔ باقی تو بس یوں ہی صاحب بنے پھرتے ہیں۔۔۔ نواب ترکھان کی جب دیہاڑی نہیں لگتی تھی نا۔۔۔ تو وہ اِن کے پاس آ جایا کرتا تھا۔۔۔ اُسے یہاں کھانے کے ساتھ ساتھ سکون بھی ملتا تھا۔۔۔ چلو۔۔۔
عبداللہ نے رکشہ چلاتے ہوئے پوچھاـ
’’اب کدھر؟‘‘
سرمد نے لمبا سانس بھرتے ہوئے تھوڑے توقف کے بعد بتایا
’’ہیرا منڈی۔۔۔‘‘
عبداللہ کی کمزور ٹانگ نے بھی رکشے کے ٹائروں کو سڑک پر گھسنے پر مجبور کر دیا۔ اُس نے بڑی حیرت سے پوچھا
’’آپ جیسا نیک بندہ اب ہیرا منڈی جائے گا۔‘‘
سرمد کھل کھلا کر ہنس پڑا اور کہنے لگا
’’نیک اور میں۔۔۔؟ بہت گناہ گار ہوںـ۔۔۔‘‘
میرے ابو کہا کرتے تھے۔۔۔ بھوکے کو کھانا کھلانے والا سب سے زیادہ نیک ہوتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا۔
میری ماں تو کہتی تھی کہ حلال کما کے کھانے والا زیادہ نیک ہوتا ہے۔ سرمد نے ہلکے مزاح کے انداز میں بتایا، پھر عبداللہ کے کندھوں کو بڑی اپنائیت سے تھامتے ہوئے بولا
عبداللہ بھائی۔۔۔! ہیرامنڈی ایک علاقے کا نام ہے۔۔۔ وہاں بہت سے شریف لوگ بھی رہتے ہیں۔۔۔ مجھے کسی سے ملنے کے لیے وہاں جانا ہے۔۔۔ چلیں۔۔۔
یہ سنتے ہی عبداللہ نے سفر شروع کر دیا۔ جب رکشہ مینارِ پاکستان کے سامنے بنے آزادی فلائی اوور پر یو ٹرن لینے کے لیے چڑھا تو سرمد نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا
’’بارہ سال میں لاہور کتنا بدل گیا ہے۔‘‘
سب سے جلدی تو انسان بدلتے ہیں۔ عبداللہ نے جلدی سے کہا۔ سرمد نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے گردن ہلادی۔
۞۞۞
عبداللہ نے ایک چوک میں جا کر لوہے کے ایک گیٹ کے سامنے جا کر بریک لگائی اور رکشے کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی بولا
’’اِس طرف بادشاہی مسجد ہے اور اُس طرف ہیرامنڈی اور یہ فوڈ اسٹریٹ کا گیٹ۔۔۔‘‘
سرمد نے رکشے سے اُترتے ہوئے عبداللہ کو تھپکی دی اور اپنے بٹوے سے پھر ہزار کا ہی ایک نوٹ نکال کے عبداللہ کو دے دیا۔ عبداللہ نے ہزار کانوٹ پکڑ کر پانچ سو سرمد کے سامنے کر دیا۔ اُس نے ایک نظر نوٹ پر ڈالی، پھر عبداللہ کی طرف دیکھ کر کہا
’’یہ بھی رکھ لو۔۔۔!‘‘
’’صاحب۔۔۔! کرایہ اتنا ہی بنتا ہے۔‘‘
سرمد نے پانچ سو کا نوٹ پکڑ کے اپنے بٹوے میں رکھ لیا۔ وہ چلتے چلتے رُک گیا، پھر کہنے لگا
’’یار عبداللہ۔۔۔! وہ آج کل کیا ’’کریم شریم‘‘ خیر۔۔۔ جو بھی ہے، تُم اُن کے ساتھ کیوں نہیں رکشہ چلاتے؟‘‘
چلاتا تھا۔۔۔ پھر موبائل بیچنا پڑا۔۔۔ اگر آج کریم چلا رہا ہوتا تو آپ کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کا موقع کہاں ملتا؟ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ سرمد نے ہاتھ ملانے کے لیے عبداللہ کی طرف بڑھا دیا۔ عبداللہ نے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا
’’کیسے ملیں گے صاحب۔۔۔؟‘‘
سرمدابھی سوچ ہی رہا تھا کہ عبداللہ نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے رکشے سے ایک وزٹنگ کارڈ نکال کے دیتے ہوئے کہا
’’میرا کارڈ۔۔۔‘‘
سرمد نے کارڈ پکڑ کر اُسے دیکھا۔۔۔ کارڈ پر لکھا تھا
عبداللہ پِک اینڈ ڈراپ سروس (اچھرہ) نیچے موبائل نمبر لکھا ہوا تھا۔ سرمد نے کارڈ پڑھنے کے بعد اُسے اپنے بٹوے میں پہلے سے موجود آنیہ اور عطا کے کارڈز کے ساتھ رکھ لیا، پھر بٹوے کو اپنی جینز کی پچھلی پاکٹ میں ڈال لیا۔ سرمد مسکراتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔ جب تک سرمد ایک گلی میں نہیں مڑا عبداللہ اُسے دیکھتا ہی رہا۔ اس کے بعد اُس نے رکشہ اسٹارٹ کیا اور وہاں سے چلا گیا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞