28 C
Lahore
Wednesday, April 24, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 25

 

( 25 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

سرمد چلتا ہوا گلی کے آخر میں پہنچ گیا۔ نہ اُس نے کسی سے کچھ پوچھا اورنہ ہی کسی نے اُس سے۔ گلی کے آخر میں جا کر وہ پلٹا اور واپس اُسی طرف جانے لگا جس طرف سے وہ گلی میں داخل ہوا تھا۔ یکدم سے اُس کے سامنے ایک آدمی آ ٹپکا۔ اُس آدمی نے آنکھیں گھماتے ہوئے بڑی مستانی آواز میں بتایا
’’ناچیز کو دلبر کہتے ہیں۔۔۔ کدھر جانا چاہتے ہو بادشاہو۔۔۔ ‘‘
مجھے بیگم نیلوفر جان کے کوٹھے پر جانا ہے۔  سرمد نے بغیر کسی جھجک کے بول دیا۔
بیگم نیلوفر جان۔۔۔‘‘ دلبر ذہن پر زور دیتے ہوئے اپنے گلے میں ڈالے مفلر کو بازو سے اِدھراُدھر کھینچنے لگا، مگر اُسے کچھ یاد نہ آیا۔
باؤ جی۔۔۔! آپ اِدھر ہی رُکو۔۔۔ میں ابھی آیا۔  دلبر شیشے کا دروازہ کھول کر ڈانس پارٹی والی ایک دفترنما دُکان کے اندر گھس گیا اور جاتے ہی ایک بوڑھے شخص سے کہنے لگا
’’چاچا چلم۔۔۔! بیگم نیلوفرجان کون تھی؟‘‘
چاچا چلم نے لمحہ بھر سوچا، پھر اُس کا چہرہ قندھاری انار کی طرح سرخ ہو گیا۔ وہ کہنے لگا
’’نیلوفر جان آفت تھی آفت۔۔۔‘‘
دلبر نے باہر کھڑے سرمد کو ایک نظر دیکھا۔ کوئی دُوسرا دلّال اُس سے بات چیت کر رہا تھا۔ دلبر نے بڑے مزے سے پوچھا
’’اور یہ آفت کہاں رہتی ہے؟‘‘
آہ۔۔۔ اب تو قبرستان میں رہتی ہے۔ چاچا چلم نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بتایا۔
نیلوفرجان قبرستان سے پہلے کہاں رہتی تھی؟  دلبر نے اُکتائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
اپنے کوٹھے پر۔۔۔  چاچا چلم  نے بتایا۔
کون سا کوٹھا ہے اُس کا؟  دلبر نے تلخی سے سوال کیا۔
’’دلبر کاکے۔۔۔! باہر کھڑا گاہک دیکھ لیا ہے میں  نے۔۔۔ اُسے اندر بلا۔۔۔ تجھے خرچہ پانی مل جائے گا۔‘‘
دلبر کو پتا چل گیا تھا کہ چاچا چلم اُسے تو کچھ نہیں بتائے گا۔ اُس نے دروازہ کھولا اور دُوسرے دلّال سے کہنے لگا
’’اوئے تاجو۔۔۔! یہ تاریخ کا سوال ہے۔۔۔ تیرے میرے سے حل نہیں ہو گا۔۔۔ باؤ جی۔۔۔! آپ اندر آ جاؤ ‘‘
تاجو یہ سنتے ہی وہاں سے چلا گیا۔ سرمد نے لمحہ بھر سوچا، پھر وہ بھی دُکان کے اندر چلا آیا۔
تشریف رکھیں سرکار۔۔۔!  چاچا چلم بولا۔ دلبر نے جلدی سے سرمد کو چاچاچلم کے روبرو میز کی دُوسری طرف کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔ سرمد بیٹھ گیا تو چاچا چلم نے میز پر پڑا ہوا اپنا موٹے شیشوں والا چشمہ لگایا، پھر سرمد کے چہرے پر غور کرتے ہوئے بولا
’’کیا خدمت کروں سرکار آپ کی۔۔۔؟‘‘
بزرگو۔۔۔! میں کوئی سرکار نہیں۔۔۔ عام سا بندہ ہوں۔ سرمد نے عاجزی سے بتایا۔
گوہر اور نواب کا بیٹا عام کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ چاچا چلم نے بڑے یقین سے کہا۔ سرمد کی رنگت بدل گئی۔ اُس  نے قریب کھڑے ہوئے دلبر کی طرف دیکھا، پھر احتجاجی نظر چاچا چلم پر ڈالی۔ چاچا چلم سمجھ گیا۔ اُس نے چٹکی بجاتے ہوئے دلبر سے کہا
’’دلبر کاکے۔۔۔! تُو باہر کھڑا ہو۔۔۔ تجھے بلاتا ہوں۔‘‘
دلبر بُرا سا منہ بناتے ہوئے باہر چلا گیا۔ چاچا چلم نے جانچتی نظروں سے سرمد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
’’گوہر کے بیٹے ہی ہو۔۔۔ نا؟‘‘
سرمد نے گردن ہلاتے ہوئے بڑے کرب سے بتایا
’’ہاں۔۔۔ مگر آپ نے کیسے اتنے یقین سے بول دیا؟‘‘
’’جو کوٹھے پر چڑھنے والے تماش بین کو بھول جائے وہ دلّال نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
سرمد نے چاچا چلم کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا
’’کیا میرا باپ تماش بین تھا؟‘‘
چاچا چلم نے ہلکا سا قہقہہ لگانے کے بعد سگریٹ لگا لی، پھر سیدھے ہاتھ کی چھوٹی اُنگلی میں سگریٹ دبا کے مٹھی بند کر کے انگوٹھے کے ساتھ بنی ہوئی سرنگ سے لمبے لمبے کش لگانے لگا۔ سرمد اُس کے جواب کا منتظر تھا۔ اُس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
بتاتے کیوں نہیں؟  جب بے چینی حد سے بڑھ گئی تو سرمد نے کہا۔ چاچا چلم نے پھر سے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور آدھے سگریٹ کی راکھ  چٹکی بجاتے ہوئے میز پر رکھی لکڑی کی ایش ٹرے میں گرایا، تب جا کے وہ بولا
تماش بین نہیں تھا۔۔۔ اپنے کام کا کلاکار تھا۔۔۔ جس لکڑی کو چھوتا اُس میں جان ڈال دیتا۔۔۔ ہیرامنڈی کی ساری ملکائیں اُسے غلام بنانا چاہتی تھیں، مگر وہ تو نام اور مزاج کا نواب تھا۔
نواب کی کہانی پھر کبھی سننے آؤں گا۔۔۔ ابھی مجھے بیگم نیلوفر جان کے کوٹھے کا بتا دو!  سرمد نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ چاچا چلم سرمد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا
’’بات جتنی جلدی بتا دی جائے۔۔۔ وہ اتنی ہی بے قیمت ہو جاتی ہے۔‘‘
قیمت؟  سرمد نے سوچتے ہوئے کہا۔
آدھی سگریٹ خود ہی سلگ سلگ کے راکھ بن چکی تھی۔ چاچا چلم نے شہادت والی اُنگلی اُوپر کی تو باقی راکھ چٹکی بجائے بغیر ہی میز پر جا گری۔ چاچا چلم نے پہلے گری ہوئی راکھ کی طرف دیکھا، پھر شہادت والی اُنگلی کو اُوپر اُٹھاتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہنے لگا
اُوپر والا انسان کے کردار کے ساتھ ساتھ اُس کے چہرے کو بھی زندہ رکھتا ہے اور دلال اپنے ہی دل کو مار کے ذہن میں تماش بین کے چہرے کو مرنے نہیں دیتا۔
چاچا چلم  نے تھوڑا سا توقف کیا، پھرکہنے لگا
تمہاری شکل میں تمھارے باپ کا چہرہ زندہ ہے۔ اُس کی مونچھیں تھیں اور وہ سر پر تیل لگاتا تھا۔ بس اتنا سا ہی فرق ہے۔
سرمد نے آج وہ باتیں سنیں جن سے وہ ناواقف تھا۔ اُس کے لیے چاچا چلم کی باتیں دلچسپ تو تھیں، مگر زیادہ اہم وہ سوال تھے جو وہ بیگم نیلوفرجان سے مل کر پوچھنا چاہتا تھا۔
قیمت کی بات کی تھی آپ نے؟ سرمد نے ہولے سے کہا۔
قیمت تو سرکار تماش بین کی جیب۔۔۔ خیر آپ تو نہیں ہیں وہ۔۔۔  چاچاچلم رُک رُک کر بول ہی رہا تھا کہ اتنے میں سرمد نے اپنی جینز کی پچھلی پاکٹ سے بٹوہ نکال کر اُس کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ چاچاچلم کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ اُبھری۔
اُس نے بٹوہ پکڑ کر کھولتے ہوئے اُس میں سے سارے روپے نکال لیے، پھر باہر کھڑے دلبر کو دیکھا جس کی نظریں شیشے کو چیرتے ہوئے اندر ہی لگی ہوئی تھیں۔ چاچاچلم نے اُن کڑکتے نوٹوں میں سے ایک ہزار کا نوٹ واپس بٹوے میں رکھنے کے بعد بٹوہ سرمد کو تھماتے ہوئے کہنے لگا
سرکار۔۔۔! بیگم نیلوفرجان اب اِس دُنیا میں نہیں رہتیں، مگر اُن کے کوٹھے کی رونقیں اُن کی نواسی کشمالہ کی وجہ سے برقرار ہیں۔۔۔ کشمالہ آپ کی خالہ ستارہ بائی کی بیٹی ہے۔
چاچا چلم نے باہر کھڑے دلبر کو اشارہ کیا جو پہلے سے ہی منتظر تھا۔ دلبر نے جلدی سے شیشے کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا
’’جی چاچا جی۔۔۔!‘‘
’’دلبرکاکے۔۔۔! سرکار کو ستارہ بائی کے کوٹھے پر چھوڑ آ۔۔۔‘‘
سرمد نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے چاچاچلم کو پرائی نظروں کے ساتھ دیکھا تو چاچاچلم اپنائیت سے کہنے لگا
’’معذرت چاہتا ہوں سرکار۔۔۔! آپ کی کوئی خدمت نہیں کر سکا۔‘‘
سرمد کچھ بولے بغیر ہی چاچا چلم کی دفترنما دُکان سے نکل آیا۔

۞۞۞

دلبر آگے آگے چل رہا تھا اور سرمد اُس کے پیچھے پیچھے۔ دلبر نے بولنا شروع کیا
’’باؤ جی۔۔۔! ہیرامنڈی کے بچے بچے کو ستارہ بائی کے کوٹھے کا پتا ہے۔‘‘
سرمد نے کوئی جواب نہ دیا تو دلبر نے خود ہی پوچھ لیا
’’پوچھیں گے نہیں کیوں؟‘‘
کیوں؟ سرمد نے بغیر کسی دلچسپی کے بول دیا۔
کشمالہ کی وجہ سے۔۔۔ ہفتے میں ایک لکھنوی مجرا کر کے ہی لاکھوں اکٹھے کر لیتی ہے۔۔۔ ٹکٹوں پر مجرہ دکھاتی ہے۔۔۔ رہتی ڈیفنس میں ہے، مگر مجرا اِدھر ہی کرتی ہے۔۔۔ یہ رہا ستارہ بائی کا کوٹھا۔
ایک پُرانی سی بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے دلبر نے اُوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔ سرمد جلدی سے اُوپر چڑھنے لگا تو دلبر فوراً بولا
’’باؤ جی۔۔۔! دلّال کے بھی بچے ہوتے ہیں۔‘‘
سرمد کے قدم اُدھر ہی تھم گئے۔ اُسے چاچا چلم کے ہزار واپس رکھنے کی وجہ سمجھ آ گئی۔ اُس نے ہزار کا نوٹ بٹوے سے نکال کر دلبر کو دے دیا۔ سرمد زیرو کے بلب کی روشنی میں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
سالا کنگلا۔۔۔  دلبر یہ بولتے ہوئے وہاں سے پلٹ گیا۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles