( 21 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
سندان چہرے پر ماسک لگائے بڑی سی کالی گرم چادر اوڑھے ہوئے حیدرآباد کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ گجراتی پاڑہ، فردوس کالونی، چوڑی پاڑہ، ملت آباد ان سارے علاقوں کی گلیوں میں وہ چکر لگا چکا تھا۔ حالی روڈ پر پہنچ کر وہ رکشے میں بیٹھ گیا۔
رکشے نے اُسے حیدرآباد کے اسٹیشن پر اُتارا تو وہ اسٹیشن کے اندر داخل ہوتے ہی سیدھا پلیٹ فارم پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ تقریباً دو منٹ بعد ایک ٹرین پلیٹ فارم پر آکے رُکی۔ وہ جلدی سے اُس میں سوار ہو گیا۔ چند منٹ بعد وہ ٹرین اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ وہ ایک ڈبے سے دُوسرے ڈبے میں چلا جا رہا تھا۔ اُسے کسی کی تلاش تھی۔ جلد ہی اُس کی تلاش ختم ہو گئی۔ اُس بندے نے جیسے ہی ایک مسافر کو فارغ کیا اُس کے سامنے دوہزار کرتے ہوئے سندان بولا:
’’سر۔۔۔! لاہور تک کسی کیبن میں ایڈجسٹ کروا دیں۔‘‘
ٹکٹ چیکر نے دو ہزار کی طرف دیکھتے ہوئے ناگواری سے کہا
’’کسی کیبن میں جگہ نہیں ہے۔‘‘
سندان نے لمحہ بھر سوچا، پھر جیب سے ہزار ہزار کے دو اور نوٹ اُن نوٹوں کے ساتھ ملاتے ہوئے کہا
’’اب۔۔۔ ‘‘
ٹکٹ چیکر نے اردگرد دیکھنے کے بعد سندان کے ہاتھ سے وہ روپے اُچک لیے اور اپنے خاکی کوٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے چل دیا۔ سندان اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ACسلیپر کے ایک کیبن کے سامنے جا کر وہ ٹکٹ چیکر کھڑا ہو گیا اور بڑی رازداری سے کہنے لگا
’’اِس کیبن میں ملتان تک ایک برتھ خالی ہے۔۔۔ ملتان سے کوئی اور بندوبست کر لینا۔‘‘
سندان نے گردن ہلا کر اپنی رضامندی ظاہر کر دی۔ ٹکٹ چیکر نے ہولے سے پوچھا
’’نام کیا ہے تمہارا؟‘‘
سلطان۔۔۔‘‘ سندان نے اپنا نیا نام بتا دیا۔ ٹکٹ چیکر نے یہ سنتے ہی دروازہ کھولا۔ سامنے پندرہ سے سترہ سال کی عمروں کے تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے جو سب کے سب اپنے موبائلوں پر جنگ لڑ رہے تھے۔
سلطان صاحب۔۔۔! وہ ہے آپ کی برتھ۔‘‘ ٹکٹ چیکر نے اُوپر والی ایک برتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سلطان کیبن کے اندر داخل ہو گیا۔ ٹکٹ چیکر نے خود ہی دروازہ بند کرتے ہوئے کہا
’’ملتان تک آپ دروازے کو لاک لگا سکتے ہیں۔‘‘
سلطان نے دروازے کی اندر سے کنڈی لگائی اور اُن تینوں لڑکوں پر سرسری سی نگاہ ڈالی۔ وہ تینوں دُنیا سے بے نیاز موبائل پر فائٹ والی کوئی گیم کھیل رہے تھے۔ دھڑادھڑ گولیوں کے چلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔سلطان نے بڑی ملائم نظروں کے ساتھ ایک بار پھر سے اُن تینوں کو غور سے دیکھا۔
۞۞۞
اُسے بھی اُسی عمر کے تین لڑکے دکھائی دینے لگے۔ وہ تینوں گندم کے کھیتوں کے درمیان کچی سڑک پر قطار میں کھڑے تھے۔ اُن تینوں نے دو ایکڑ دُور کچی سڑک کے کنارے برگد کے پیڑ تک پہلے پہنچنے کی شرط لگائی تھی۔
وہ تینوں بھاگنے لگے۔ برگد کے پیڑ سے ایک بیگھہ پہلے سب سے آگے والے لڑکے ’’سونو‘‘ کو ٹھوکر لگی تو وہ منہ کے بل مٹی پر جا گرا۔ دُوسرے نمبر والے ’’امداد‘‘ کے پاس شرط جیتنے کا سنہری موقع تھا، مگر اُس نے اپنی جیت کی بجائے اپنے دوست کی مدد کو ترجیح دی۔
امداد نے سونو کی طرف اپنا دایاں ہاتھ بڑھا دیا۔ اُس کے ہاتھ کی پشت پر چنے کے دانے کے برابر تل کا نشان تھا۔ امداد کا ہاتھ تھامتے ہوئے سونو کھڑا ہو گیا۔
طلال کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔‘‘ اُن دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔ طلال برگد کے پیڑ کے سامنے پہنچ کر اپنی جیت کا اعلان کر رہا تھا۔ سونو نے امداد کا وہی ہاتھ تل والے مقام سے چوم لیا۔
۞۞۞
وہ اُداس ہونے لگا تو اُس نے ساتھ ہی اپنے سر کو ہلاتے ہوئے خیال کو یادوں کے قبرستان میں پھر سے دھکا دے دیا۔
اس کے بعد سلطان کیبن کا جائزہ لینے لگا۔ یہ آنیہ والے کیبن سے بہتر تھا۔ اس میں ایل سی ڈی لگی ہوئی تھی۔ برتھ کے ساتھ بنے ہوئے ریکس میں چھوٹے چھوٹے سفری کمبل اور تکیے بھی پڑے تھے۔ سلطان نے وہاں سے ایک تکیہ اور کمبل اُٹھایا اور اپنی برتھ کے نیچے بیٹھے ہوئے لڑکے سے کہنے لگا
’’مجھے سونا ہے۔۔۔ تُم اُدھر بیٹھ جاؤ!‘‘
لڑکے نے ایک لمحے کے لیے اپنی نظریں موبائل اسکرین سے ہٹائیں، پھر مسکراتے ہوئے سلطان کے ہاتھ سے تکیہ لیا، اُسے سیٹ پر رکھا اور اُدھر ہی لیٹ گیا۔ لڑکے کی اِس عجیب حرکت پر سلطان نے مسکراتے ہوئے اپنا ماسک اُتار کے جیکٹ کی پاکٹ میں رکھ لیا۔
مادو۔۔۔ امداد۔۔۔ رانا امداد ثاقب۔۔۔‘‘ سلطان نے دل ہی دل میں ایک نام کو تین بار پکارا، پھر اُس لڑکے سے پوچھا
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’مبشر۔۔۔‘‘ لڑکے نے سلطان کو ایک نظر دیکھتے ہوئے بتایا۔
’’بلال۔۔۔‘‘
’’عاشر۔۔۔‘‘
دُوسرے دو لڑکے خود ہی بول پڑے۔
’’تُم لوگ کھیل کیا رہے ہو؟‘‘ سلطان نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’ انکل۔۔۔پب جی ۔۔۔‘‘ اِس بار مبشر نے سلطان کو دیکھے بغیر جلدی سے کہا۔
انکل۔۔۔‘‘ مبشر کا کہا ہوا لفظ سلطان کے دماغ میں ٹھہر گیا۔ اُسے خود کے لیے انکل کا رُتبہ پسند نہ آیا۔ اُس نے گرم چادر کو اُتار کر برتھ پر رکھ دیا اور خود واش روم میں چلا گیا۔ اُس نے واش روم میں لگے ہوئے آئینے میں خود کا چہرہ دیکھا۔ دو دن سے اُس نے کلین شیو بھی نہ کی تھی۔ اُس نے خود کے رخسار پر غور کیا۔ اُس کی داڑھی کے کئی بال سفید ہو چکے تھے۔
چھتیس سالہ مرد ہونے کے باوجود اُس نے خود کو ہمیشہ ایک لڑکا ہی تصور کیا تھا اور وہ لڑکوں کی طرح چاق و چوبند بھی تھا۔ اُس نے ہمیشہ بھوک رکھ کے کھایا اور پابندی سے یوگا کیا۔
اُس نے ساری زندگی خود کو کسی بھی قسم کے نشے کا عادی نہیں بننے دیا، سوائے عورتوں کے نشے کے۔اُسے رہ رہ کر اُس لڑکے مبشر پر غصہ آرہا تھا۔ اُسے تو آج تک کسی دوشیزہ نے بھی ’’انکل‘‘ کہہ کے نہیں بلایا تھا۔ مبشر نے سیدھا انکل ہی بول دیا۔
وہ واش روم سے نکلا، باہر اب بھی پب جی کی جنگ جاری تھی۔ وہ چُپ چاپ برتھ پر چڑھ گیا اور موبائلز کے شور میں ہی برتھ پر آلتی پالتی مار کر یوگا آسن کے انداز میں بیٹھ گیا۔ اُس شور کے باوجود وہ اپنے دھیان کو سکون کی وادیوں میں لے جانے میں کام یاب ہو گیا۔ تینوں لڑکے کھیل کھیل کر تھک گئے، مگر وہ سکون کی وادیوں سے نہ لوٹا۔ تینوں لڑکے اُدھر ہی نیچے والی برتھوں پر جب سو چکے، تب اُس نے آنکھیں کھولیں۔ وہ برتھ سے نیچے اُتر ا، اُن لڑکوں پر کمبل دیے اور کیبن کی لائٹ بند کر کے خود بھی اپنی جیکٹ اُتار کر سو گیا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞