( 18 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
دن کے دُوسرے پہر ملتان سے تقریباً سو کلو میٹر آگے چراغ والی گاؤں کے ایک اُونچے سے ٹیلے پر واقع قبرستان کے سامنے جا کر گاڑیاں رُک گئیں۔ چاروں باڈی گارڈ اور دونوں ڈرائیور قبرستان کے اِردگرد پھیل گئے۔ گارڈز کے پاس بڑی بڑی گنیں تھیں، جبکہ ڈرائیور حضرات کے پاس چھوٹی ساخت کے جدید پستول تھے۔
ہمیشہ کی طرح منشا سے دو قدم پیچھے پیچھے عطا چل رہا تھا۔ اُس کے دونوں ہاتھوں میں بڑے بڑے کالے شاپنگ بیگ تھے۔ منشا قبروں کے درمیان بنی ہوئی چھے فٹ چوڑی راہداری پر کالا چشمہ لگائے ہوئے ٹیلے کے سب سے اُونچے مقام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ٹیلے کے اُونچے مقام کے اردگرد تیرہ فُٹ چوڑی اور پانچ فُٹ اُونچی کنکریٹ کی مضبوط چاردیواری ہوئی تھی۔
چار دیواری کے اندر ایک کونے میں ایک برآمدہ تھا۔
چار دیواری کے اندر جانے کے لیے لوہے کا ایک مضبوط گیٹ لگا تھا۔
اس پر سرخ رنگ کا پینٹ ہوا تھا۔ دونوں ڈرائیور قبرستان کے دائیں بائیں سے قبروں کو پھلانگتے ہوئے منشا کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی گھات لگا کر بیٹھے ہوئے دشمن کو دیکھنے کی غرض سے اُوپر پہنچ چکے تھے۔
سفید شلوار قمیص والے ڈرائیور نے چار دیواری کے اندر اور باہر تسلی کرنے کے بعد عطا کو ہاتھ کے اشارے سے
سب ٹھیک ہے کا سگنل اُوپر سے ہی دے دیا۔
ڈرائیور کو دیکھتے ہی قبروں پر تلاوت کرتے ہوئے مولوی نے اپنا والیم بڑھا دیا۔ ڈرائیور کے اشارے کے بعد منشا کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے عطا نے گردن ہلا کر اطمینان کا اظہار کیا۔ منشا نے راہداری کے ساتھ ہی دو خستہ حال زمین میں دھنسی ہوئی قبروں کے پاس پہنچ کر اپنا چشمہ اُتارا اور اُن دو قبروں کو بڑی حقارت سے دیکھا۔
اُن قبروں اور باقی سارے قبرستان کی قبروں میں واضح فرق نظر آ رہا تھا۔ اُن قبروں پر سالوں سے کسی نے مٹھی بھر مٹی بھی نہ ڈالی تھی۔
منشا نے اپنے نتھنوں سے گرم ہوا کے طوفان کو خارج کیا اور آگے بڑھ گئی۔
اب وہ پانچ فُٹ اُونچی دیوار کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اندر سے اُونچی آواز میں قرآنِ پاک کی تلاوت کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ سفید شلوار قمیص والے ڈرائیور نے منشا کی تکریم میں لوہے کا دروازہ کھول دیا۔
منشا نے اپنے کندھے پر لٹکی ہوئی گرم چادر کو اپنے سر پر لیا اور چار دیواری کے اندر داخل ہو گئی۔ چار دیواری کے اندر ایک طرف آٹھ دس پکی قبریں تھیں اور دُوسری طرف صرف تین پکی قبریں اور اُن کے درمیان کنکریٹ کی ایک راہداری احاطے کے اندر بنے ہوئے برآمدے تک جا رہی تھی۔
برآمدے کے اندر ایک کونے میں پانی کے دو گھڑے پکے فرش پر پڑے ہوئے تھے۔ اُن کے مقابل کونے میں مٹی کا چولہا، لکڑیاں، چائے کا سامان اور برتن رکھے ہوئے تھے۔ اُن کے درمیان ایک مولوی چٹائی پر سویا ہوا تھا۔
منشا اور عطا کو دیکھتے ہی تین قبروں کے سرہانے چھوٹے سے چبوترے پر بیٹھا ہوا تلاوت کرنے والا مولوی کھڑا ہو گیا۔ اُس نے منشا کو بڑے ادب سے سلام کیا اور عطا کے ہاتھوں سے وہ دونوں کالے شاپنگ بیگ لے کر جلدی جلدی اُن تین قبروں پر گلاب کی پتیوں کی بارش کرنے لگا۔
مولوی نے ایک شاپنگ بیگ کی ساری پتیاں اُن تین قبروں پر ہی ختم کر دیں، پھر وہ دُوسرا شاپنگ بیگ لے کر دُوسری طرف والی قبروں کی طرف بڑھ گیا۔ منشا اُن تین قبروں کے سرہانے کھڑی ہو گئی۔ منشا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے ہاتھ اُٹھا دیے۔ عطا کی برآمدے میں سوئے ہوئے مولوی پر نظر پڑی۔
عطا نے برآمدے میں جا کر اُس مولوی کے پچھواڑے پر اپنی پشاوری چپل سمیت زور سے پیر مارا۔ وہ مولوی ہڑبڑا کے اُٹھا تو قبروں پر پھول کی پتیاں ڈالنے والے مولوی کی باچھیں کھل گئیں۔ عطا نے اپنی سریے جیسی اُنگلی کو جھاڑی دار گھنی مونچھوں اور سیاہ ہونٹوں پر رکھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے مولوی کے کان کو لوہے کے پلاس کی طرح مروڑی دیتے ہوئے قبروں کے سرہانے بنے ہوئے چبوترے کی طرف اپنی نظروں سے اشارہ کیا۔
منشا نے دُعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی آنکھیں کھول دیں، پھر تینوں قبروں کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں بولی
’’اب آپ تینوں کے قاتل کو کاٹنے کے بعد ہی یہاں آؤں گی۔‘‘
منشا وہاں سے چل دی۔
عطا نے بائیں ہاتھ کو ہونٹوں سے ہٹایا اور دائیں ہاتھ سے مولوی کے کان کو رہائی بخشی تو مولوی روتے ہوئے بولا
’’عطا بھائی۔۔۔! قرآن پڑھنے کی میری ڈیوٹی رات میں ہے۔‘‘
کسی رات چکر لگاتا ہوں۔
عطا نے دانت پیستے ہوئے کہا اورپھر وہ بھی چار دیواری کے احاطے سے نکل گیا۔ مولوی نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے اپنے ساتھی مولوی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
’’لعنتی۔۔۔! اُٹھا نہیں سکتا تھا کیا؟‘‘
تلاوت چھوڑ کے تجھے اُٹھاتا تو میں دُنیا سے اُٹھ جاتا۔
پھولوں والا خالی کالا شاپنگ بیگ ہوا میں لہراتے ہوئے دُوسرے مولوی نے جواب دیا۔
۞۞۞
عطا نے احاطے سے باہر نکل کر دیکھا تو منشا اُن ہی دو قبروں کو قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
زمین کے اندر دھنسی ہوئی خستہ حال قبروں کی طرف دیکھ کر منشا لفظ چباتے ہوئے کہنے لگی
’’تم دونوں کی قبروں کے اندر ہی تمھارے لعل کے ٹکڑوں کو گاڑوں گی۔‘‘
منشا تیز تیز قدموں کے ساتھ اُونچائی سے نیچے جاتے ہوئے اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھنے لگی۔ اُ س کے عقب میں قبرستان کی مغربی سمت میں سورج نے اپنے عروج کے بعد زوال کی طرف سفر شروع کر دیا تھا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞